سلطنت عثمانیہ کا توپ خانہ جس نے اسے سُپر پاور بنا دیا، ترکوں کی جنگی تاریخ کے عروج و زوال کی کہانی
اپریل سنہ 1453: 21 سالہ عثمانی سلطان محمد دوم اپنی فوج کے ساتھ ہزار سال پرانی بازنطینی سلطنت کے دارالحکومت قسطنطنیہ کا محاصرہ کر چکے ہیں۔ وہ گولے برساتی توپوں کے پس منظر میں اپنی فوج کے ساتھ شہر کی دیوراوں کے سامنے کھڑے ہو کر 10 سال پہلے اپنے اور اپنے والد سلطان مراد دوم کے درمیان ہونے والے ایک مکالمے کو یاد کرتے ہیں۔
یہ ’نیٹ فلکس‘ پر قسطنطنیہ کی فتح کے بارے میں بننے والے فلم ’اوٹومن‘ کے اہم مناظر ہیں۔
سلطان محمد یاد کرتے ہیں کہ کیسے سنہ 1443 میں سلطان مراد دوم نے انھیں اس تاریخی شہر اور اس کی مضبوط دیواروں کے سامنے اسی طرح کھڑے ہو کر کہا تھا کہ قسطنطنیہ کائنات کا دل ہے، وہ سرزمین جس کے بارے میں وعدہ کیا گیا ہے اور جو قسطنطنیہ کو فتح کرے گا دنیا اُسی کی ہو گی۔
ان کے والد نے ان سے کہا تھا کہ ان دیواروں کو دیکھو جو ہر اس فوج کے راستے کی رکاوٹ بنی ہیں جنھوں نے اس شہر کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ ’انھوں نے مجھے روکا۔‘
سلطان محمد دوم نے اپنے والد کی باتیں سُن کر ان سے اُس وقت پوچھا تھا کہ اِنھیں (قسطنطنیہ کی دیواروں کو) گِرا کیوں نہیں دیتے؟ جب اُن کے والد نے جواب دیا کہ ابھی اتنا طاقتور ہتھیار نہیں بنا جو ان کو گِرا سکے تو شہزداے محمد نے پورے اعتماد کہ ساتھ کہا تھا کہ ’والد محترم میں اِن دیواروں کو گراؤں گا۔ اور جب میں سلطان بنوں گا تو قسطنطنیہ کو میں فتح کروں گا۔‘
یہاں ایک اہم اور قابل ذکر بات فلم میں دکھائے گئے سنہ 1443 اور سنہ 1453 کے مناظر میں ایک بڑا فرق ہے۔
سلطان مراد دوم جب قسطنطنیہ کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں تو ان کے پیچھے اُن کی طاقت اُن کی فوج کے گھڑ سوار دکھائی دیتے ہیں لیکن سنہ 1453 میں جب سلطان محمد دوم قسطنطنیہ آتے ہیں تو ایسی گھن گرج کے ساتھ آتے ہیں جو شاید دنیا میں کسی دشمن نے اس سے پہلے نھیں سنی تھی۔
فلم میں ایک مؤرخ بتاتے ہیں کہ ’دنیا نے پہلے کبھی اتنی بڑی تعداد میں توپیں، 69 یا 70، ایک جگہ نہیں دیکھی تھیں۔‘
شہزداے محمد نے سلطان محمد دوم بننے کے بعد اپنے والد سے کیے گئے وعدے کے مطابق سنہ 1453 میں قسطنطنیہ کی مضبوط دیواروں کو بھی شکست دی اور ’کائنات کا دل‘ سمجھے جانے والے اس شہر کو عثمانی سلطنت کا نیا دارالحکومت بھی بنایا۔
مؤرخ گیبور اگوستون نے اپنی کتاب ’گنز فار دی سلطان: ملٹری پاور اینڈ دی ویپنز انڈسٹری ان دی اوٹومن ایمپائر‘ میں لکھا ہے کہ عثمانیوں کا قسطنطنیہ فتح کرنا ایک مثال ہے کہ سنہ 1450 تک توپیں محاصروں پر مبنی جنگوں کے لیے فیصلہ کُن ہتھیار بن چکی تھیں۔
اس کے ساتھ اہم بات یہ تھی کہ اس زمانے کی جدید ٹیکنالوجی اپنانے کے علاوہ سلطنتِ عثمانیہ کے پاس بڑے پیمانے پر ہتھیار بنانے کے لیے وسائل اور سہولیات تھیں، جن کی بنیاد پر انھیں اپنے یورپی مخالفین پر برتری حاصل ہو گئی تھی۔
فلم ’اوٹومن‘ میں اوربان نامی ایک کاریگر سلطان محمد دوم کے دربار میں پیش ہو کر ایک توپ کا ڈیزائن پیش کرتا ہے جس کے بارے میں اس نے دعویٰ کیا کہ اس کے گولے شہر کی تاریخی دیواروں کو گرا دیں گے۔
اس نے کہا کہ یہ توپ آٹھ میٹر لمبی ہو گی جبکہ اس کی قیمت 10 ہزار دکت ہو گی۔
اس منظر میں سلطان محمد دوم نے اس کاریگر کو جواب دیا کہ اگر اس توپ نے قسطنطنیہ کی دیواریں گرا دیں تو اسے چار گنا زیادہ قیمت ملے گی، لیکن شرط یہ تھی کہ یہ توپ تین ماہ میں تیار ہونی چاہیے۔
مؤرخ اگوستون نے آن لائن میگزین ’جے سٹور‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ استاد اوربان کا تعلق ہنگری سے تھا اور وہ انتہائی ماہر مستری تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اوربان نے پہلے قسطنطنیہ میں بازنطینی بادشاہ کو اس توپ کی پیشکش کی تھی لیکن وہ اس کی قیمت نہیں ادا کر سکے اور نہ ہی ان کے پاس اتنی بڑی توپ بنانے کے لیے ضروری وسائل تھے۔ اوربان اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی پیشکش لے کر عثمانی سلطان کے پاس آئے تھے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سلطان محمد دوم نے اروبان کی پیشکش قبول کر لی۔ لیکن آگے بڑھنے سے پہلے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ قسطنطنیہ کے محاصرے میں ترک کاریگروں کی بنی توپوں نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا اور عثمانیوں کے انحصار صرف بمبارڈ کہلانے والی بڑی توپوں پر نھیں تھا جن کا تفصیلی ذکر ہم آگے چل کر کریں گے۔
اگوستون لکھتے ہیں کہ ترک آرکائیوز ایسی دستاویزات اور ثبوتوں کے ذخیرے سے بھری پڑی ہیں جن سے عثمانیوں کی توپیں بنانے کی صنعت، جہاز سازی، قلمی شورہ اور بارود بنانے کی صلاحیت کی بھرپور جھلک ملتی ہے۔
اوربان کی توپ تیار ہو گئی اور اسے قسطنطنیہ پہنچانے کا مرحلہ شروع ہوا۔
اگوستون نے میگزین جے سٹور میں اپنے مضمون (15ویں اور 17ویں صدی میں عثمانی توپ خانہ اور یورپی ملٹری ٹیکنالوجی) میں مختلف تاریخی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اس دیوہیکل توپ کو سلطنت عثمانیہ کے دارالحکومت ادرنہ سے قسطنطنیہ پہنچانے کی تفصیل بتائی ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ اس کام کے لیے 30 ویگنیں جوڑی گئیں جنھیں کھینچنے کے لیے 60 طاقتور بیلوں کا بندوبست کیا گیا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ویگنوں کا توازن خراب نہ ہو اور توپ گر نہ جائے ویگنوں کے دونوں طرف 200 اہلکار تعینات کیے گئے۔
توپ کے راستے کو ہموار کرنے کے لیے 50 کاریگر اور ان کے 200 معاون آگے چل رہے تھے۔ ان کا کام راستے میں سڑک کے ناہموار حصوں پر پل تعمیر کرنا تھا۔ ادرنہ سے قسطنطنیہ تک اس سفر میں تقریباً دو ماہ لگے اور فروری اور مارچ گزرنے کے بعد یہ قسطنطنیہ سے پانچ میل دور مناسب جگہ دیکھ کر نصب کر دی گئی۔
اگوستون نے لکھا کہ قسطنطنیہ کے محاصرے کے دوران یہ توپ دن میں صرف سات بار فائر کر سکتی تھی اور مئی کے مہینے میں اس کی مرمت بھی کرنی پڑی۔ لیکن اس کے بھاری گولوں نے محصور شہر کی دیواروں کو بہت نقصان پہنچایا اور عثمانیوں کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔
سلطنت عثمانیہ کے غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک سلطان
جیسا کہ تاریخ کی کسی بھی بڑی اور کامیاب سلطنت کے ساتھ ہوا، 15ویں اور 16ویں صدی کی سلطنت عثمانیہ بھی وہ جگہ تھی جس کی طرف ہر طرح کا ہنرمند اور ایجنڈا رکھنے والا کھنچا چلا آتا تھا۔
دیگر خوبیوں کے علاوہ یہاں ’سماجی ترقی کے مواقع تھے اور جب یورپ میں ہسپانیہ اور پرتگال میں مسلمانوں اور یہودیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا بصورت دیگر ان کے لیے ملک بدری کے علاوہ کوئی چارہ نھیں تھا، مذہبی عدم برداشت تھی، سرکاری مذہب کو نہ تسلیم کرنے پر لوگوں کو ٹارچر اور ہلاک کیا جا رہا تھا، اسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ میں نسبتاً مذہبی برداشت کا ماحول تھا۔‘
مؤرخین لکھتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے سلطانوں کا رعب و دبدہ اپنی جگہ لیکن اُن کی شہرت تھی کہ وہ علم و ہنر کی قدر کرتے ہیں اور خاص کر اگر ان دونوں چیزوں کا تعلق عسکری میدان سے ہو۔ اگوستون لکھتے ہیں کہ ’سلطنت غیرمعمولی طور پر قابل حکمرانوں سے نوازی گئی تھی۔‘
انھوں نے بتایا کہ سلطان محمد دوم کی عسکری معاملات میں دلچسپی کا اتنا چرچا تھا کہ یورپ کے ماہرین نے عسکری موضوعات پر لکھی گئی اپنی دستاویزات ان کے نام منسوب کیں۔
اگوستون لکھتے ہیں کہ یورپ کے کئی حکمران تو ان کے قریب ہونے کے لیے اپنے عسکری ماہرین خود ان کے پاس بھیجتے تھے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب پاپائے روم نے اس غیر عیسائی ریاست کو کسی قسم کی عسکری معلومات دینے سے سختی سے منع کر رکھا تھا۔
سلطنت عثمانیہ کی طرف سے فتح ہونے والے علاقوں کے کاریگروں اور ہنرمندوں کو اپنے پرانے پیشے نہ صرف جاری رکھنے کی اجازت دی جاتی بلکہ ان کے پاس ترقی کے مواقع بھی تھے۔ یہی صورتحال قیدی بننے والے کاریگروں کے ساتھ بھی تھی۔
اس کے علاوہ از سر نو بحالی کی سکیموں کے تحت بھی بڑی تعداد میں کاریگر سلطنت میں آباد ہوئے۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ سلطان سلیم اول کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ انھوں نے تبریز سے تمام کاریگر استنبول میں لا کر آباد کیے تھے۔
یہ واضح نھیں کہ باقاعدہ کل وقتی تنخواہ دار عثمانی آرٹلری کور کب کھڑی کی گئی تھی لیکن امکان ہے کہ ایسا یورپ میں اس طرح کے آرٹلری یونٹ کے قیام سے بہت پہلے سلطان مراد دوم کے دور(1421-1451) میں ہی ہوا تھا۔
سلطنت عثمانیہ اور یہودی اور مسیحی کاریگر
ان صدیوں میں استنبول آنے والے یورپی وہاں شاہی فاؤنڈری اور اسلحہ خانے میں بڑی تعداد میں مسیحیوں کو کام کرتا دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے اور اس کے علاوہ یہودی بھی وہاں دیکھے جاتے تھے۔
اگسوتون نے سنہ 1556 میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں کیے گئے دعوے کا ذکر کیا ہے کہ ہسپانیہ سے نکالے گئے یہودیوں نے عثمانیوں کو عسکری معاملات کا علم منتقل کیا اور انھیں کانسی کے عسکری آلات اور ’فائر لاک‘ کے بارے میں بہت کچھ بتایا۔
اگوستون نے لکھا ہے کہ یہودیوں کی عثمانی سلطنت کے لیے عسکری خدمات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے سے بچنا چاہیے لیکن ساتھ ہی عثمانی اور یہودی ستاویزات کی روشنی میں ان کی مدد سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ’استنبول کے شاہی توپ خانوں کے سنہ 1517-1518 کے کھاتوں میں یہودی کاریگروں (آہنگران یہودیاں) کا ذکر ہے۔
لیکن اس زمانے میں مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا مختلف حکمرانوں اور سلطنتوں کے لیے کام کرنا انوکھی بات نہیں تھی۔ سیووئے کے ایک مسافر جیروم موراند نے سنہ 1544 میں لکھا کہ انھوں نے استنبول کی فاٰؤنڈری میں 40 سے 50 جرمن دیکھے جو سلطان کے لیے توپیں بنا رہے تھے۔
اسی طرح استنبول میں فرانس کے سفیر نے سنہ 1547-1548 میں لکھا کہ وہاں کئی فرانسیسی، ہسپانوی، وینس، جنووا اور سسلی کے ماہرین کام کر رہے رہے تھے۔
تاہم یہاں بھی مؤرخ غیر ملکیوں کی اہمیت میں مبالغہ آرائی سے محتاط رہنے کے لیے کہتے ہیں۔ اگوستون بتاتے ہیں کہ 15ویں صدی کے وسط میں سلطنت عثمانیہ کے یورپی قلعوں میں مسیحیوں کے ساتھ ترک ’تفنچی‘ اور ’توپچو‘ (توپچی) بھی کام کرتے تھے اور 16ویں صدی تک ان کی تعداد مسیحی کاریگروں سے بڑھ چکی تھی۔
کاریگر نہ ہونے کی وجہ سے ہسپانیہ کی توپ بنانے کی فیکٹریوں میں کام رک گیا
لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ صرف سلطنت عثمانیہ ہی غیر ملکی کاریگروں سے فائدہ نھیں اٹھا رہی تھی۔ اگوستون نے اپنی کتاب میں اس ضمن میں کئی مثالیں دی ہیں جیسا کہ ہنگری کے توپ خانے میں کام کرنے ولے زیادہ تر جرمن ہوا کرتے تھے اور اس کے علاوہ کچھ اطالوی بھی وہاں تھے۔
اسی طرح انھوں نے وینس کی مثال دی ہے کہ وہاں 16ویں صدی کی پہلی دہائی تک جرمن توپیں تیار کرنے کا کام کرتے تھے اور یہ صورتحال اس صدی کے وسط تک قائم رہی جب وینس نے اپنا ’گنرز سکول‘ بنا لیا۔
اس ضمن میں ایک دلچسپ مثال ہسپانیہ کی ہے جس کے پاس اگوستون نے بتایا کہ 16ویں میں توپیں بنانے کے لیے اپنے کاریگر نھیں تھے اور بادشاہوں کو بار بار جرمن، اطالوی اور فلیمش کاریگر بھرتی کرنے پڑے تھے۔ ایک بار تو سنہ 1575 میں کاریگروں کی عدم دستیابی کی صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ تاریخ بتاتی ہے کہ مالاگا کی فاؤنڈری کو بند کرنا پڑا۔
اس واقعے کا ایک اور اپم پہلو یہ کہ جب جرمنی سے کاریگر منگوائے گئے تو معلوم ہوا کہ ان کا تعلق پروٹسٹنٹ فرقے سے ہے اور ہسپانیہ سرکاری طور پر کیتھولک ملک تھا۔ کاریگروں کو گرفتار کر لیا گیا اور ’فاؤنڈری میں کام انژبرگ سے کیتھولک کاریگروں کے آنے کے بعد ہی شروع ہو سکا۔‘ یہ واقعہ سلطنت عثمانیہ اور اس کی ہم عصر یورپی طاقتوں کی مذہبی پالیسی میں واضح فرق کی ایک مثال بھی ہے۔
اگسوتون بتاتے ہیں کہ یہی صورتحال پرتگال کی بھی تھی جو اس زمانے میں ایک بڑی عالمی طاقت تھی اور نئے ہتھیاروں کو افریقہ اور ایشیا تک پہنچانے میں اس کا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔ ’اس کا اپنا بہت زیادہ انحصار غیرملکی ٹیکنالوجی اور درآمد کردہ اسلحے پر تھا۔‘
روس کو توپیں بنانا کس نے سکھایا؟
اسی طرح کی مثالیں تاریخ میں روس اور فرانس میں بھی ملتی ہیں۔
اگوستون لکھتے ہیں کہ روس میں اسلحے کی مشہور تلا فیکٹری ہالینڈ کے ایک باشندے آندریز وینیس نے کھڑی کی تھی اور سنہ 1647 تک وہی اس کے ذمہ دار تھے اور انھوں نے معاہدے کے مطابق اس دوران روسی کاریگروں کو ٹریننگ بھی دی۔ ان کا کنٹریکٹ ہونے کے بعد روس نے خود اس فیکٹری کو چلانے کی ناکام کوشش کی اور سنہ 1648 میں انھیں آندریز کو 20 سال کے لیے پھر واپس بلانا پڑا۔
اگسوتون لکھتے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی کے معاملے میں اس وقی باقی ممالک سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کو انگلینڈ کو بھی بیرونی امداد کی ضرورت رہتی تھی اور اس کی بالادستی میں فرانسیسی لوہاروں اور توپچیوں کا اہم کردار تھا۔
ترک بمبارڈ توپیں
استاد اوربان کی توپ ان توپوں کے زمرے میں آتی ہے جنھیں بمبارڈ کہا جاتا تھا۔
کتاب ’گنز فار دی سلطان‘ میں تفصیل دی گئی ہے کہ ان میں سے سب سے بڑی توپوں کا قطر 50 سے 80 سینٹی میٹر اور وزن چھ ہزار سے 16 ہزار کلوگرام تھا اور ان سے فائر ہونے والے گولوں کا وزن 150 سے 700 کلوگرام تک ہوتا تھا۔ یورپ میں ان توپوں کو 16 ویں صدی کے آغاز میں ترک کر دیا گیا لیکن سلطنت عثمانیہ میں کچھ ایسی توپیں سنہ 1510 اور اس کے بعد بھی بنتی رہیں۔
ان توپوں کو تیار کرنے کے لیے ’جماعت توپچیان آہنگران‘ کے نام سے لوہاروں کا خصوصی گروپ کام کرتا تھا اور سنہ 1490 سے سنہ 1527 تک ان کی تعداد آٹھ سے 29 کے درمیان تھی۔
اگوستون نے بتایا کہ سنہ 1517-1518 میں مسلمان اور یہودی لوہاروں نے ڈھلے ہوئے لوہے کی 22 توپیں تیار کیں جن میں سے چار بڑی توپوں کی لمبائی 714 سینٹی میٹر تھی اور نو کی لمبائی 558 سینٹی میٹر اور نو چھوٹی توپوں کی اوسط لمبائی 491 سینٹی میٹر تھی۔
یہ توپیں 6210 کلوگرام اوسط وزن کے ساتھ یورپ میں وزنی ترین توپوں میں شامل تھیں۔ ہیپسبرگ سلطنت کے حکمران میکسملین اول (1493-1519) کی سب سے بڑی بمبارڈ توپ کا وزن 5600 سے 7280 کلوگرام تھا۔
تاہم استاد اوربان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عثمانی ماہرین نے 15ویں صدی میں دو دیو ہیکل توپیں تیار کیں۔ سلطان محمد دوم کے لیے سنہ 1467 میں تیار ہونے والی ایک کانسی کی توپ کا وزن 17500 کلوگرام تھا۔ اسی طرح کی 15ویں صدی میں بنی ایک 18 ٹن سے زیادہ وزنی توپ سنہ 1867 میں سلطان عبدالعزیز نے ملکہ وکٹوریہ کو تحفے میں بھی دی تھی۔
اگوستون لکھتے ہیں کہ ان توپوں کے سائز کی وجہ سے ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا مشکل ہو جاتا تھا۔ اس مسئلے کا حل یہ تھا کہ ان توپوں کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال اونٹوں اور دوسرے جانوروں پر لاد کر محاصرے کی جگہ پہنچایا جاتا تھا اور وہیں توپ تیار ہوتی تھی۔
ان بڑی بڑی بمبارڈ توپوں نے بازنطین، بلقان اور ہنگری کے کئی قلعے فتح کرنے میں عثمانیوں کی مدد کی۔ تاہم مؤرخین زور دیتے ہیں کہ صرف ان توپوں کے سر پر جنگ نہیں جیتی جا سکتی اور عثمانی تاریخ سے اس کی ایک بڑی مثال قسطنطنیہ کی فتح کے 13 سال بعد سلطان محمد دوم کی طرف سے سنہ 1456 میں بلغراد کا محاصرہ تھا۔
سلطان محمد کی 22 بمبارڈ توپوں نے ایک عینی شاہد کے مطابق قلعے کو برابر کر دیا تھا لیکن پھر بھی قلعے کا دفاع کرنے والوں کو بروقت اور موثر امداد ملنے کی وجہ سے عثمانی اس وقت بلغراد فتح نہیں کر سکے تھے۔
اگوستون لکھتے ہیں کہ عثمانی توپچیوں کی یورپیوں پر برتری کا ثبوت وہ رفتار ہے جس سے یورپ میں قلعے یک بعد دیگرے ان کے قبضے میں آئے۔ مثلاً سنہ 1521 اور 1566 کے درمیان ہنگری کی صرف 13 گیریزن دس دن اور صرف نو قلعے بیس روز سے زیادہ عثمانیوں کے محاصرے کے سامنے کھڑے ہو سکے تھے۔
انھوں نے اس زمانے کے عثمانی مؤرخ ابراہیم پیجوی، جنھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ہنگری کے سرحدی علاقوں میں گزارا، کا حوالہ دیتے ہوئے ایک محاصرے کی تفصیل بتائی ہے۔ ’پہلے انھوں (محمد پاشا) نے تمام توپوں کو ایک ساتھ ایک ہی جگہ پر نشانہ لگانے کا حکم دیا۔ پھر ایک ایک کر کے اسی مقام کو نشانہ بنایا گیا۔‘
پیجوی لکھتے ہیں کہ محمد پاشا نے یہ تکنیک سنہ 1595 میں استرگون کے محاصرے کے دوران مسیحیوں سے سیکھی تھی۔
بارود اور آتشیں اسلحے کے زمانے میں بہادر آدمی کا کیا کام؟
آتشیں اسلحے کو متعارف کروانے کے راستے میں صرف وسائل حائل نہیں تھے اور اس کی ایک اہم مثال اس جنگ کی ہے جس میں 500 مسیحی فوجیوں نے 2500 عثمانی فوجیوں شکست دے دی۔
جب عثمانی کمانڈر سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے سلطنت کے وزیر اعظم رستم پاشا کو جواب دیا کہ ’آپ معاملے کو سمجھ نھیں پا رہے۔ آپ نے سنا نہیں کہ ہم آتشیں اسلحے سے ہارے ہیں۔ یہ فائر تھا جس سے ہم ہارے، نہ کہ جرات کی کمی کی وجہ سے۔ اگر وہ ہم سے بہادر مردوں کی طرح لڑتے تو نتیجہ بہت مختلف ہوتا۔‘
سلطنت عثمانیہ کے اس کمانڈر کا جواب اس وقت تمام بڑی طاقتوں ہسپانیہ، اٹلی، سفوی سلطنت، فرانس جرمنی اور انگلینڈ کی فوجی اشرافیہ خاص طور پر ’نائٹس‘ کے جذبات کی بھی ترجمانی کرتا تھا۔
بارود یورپ اور پھر سلطنت عثمانیہ تک کیسے پہنچا؟
اگوستون لکھتے ہیں کہ بارود پہلی بار ساتویں یا آٹھویں صدی میں چین میں بنایا گیا تھا اور باقاعدہ آتشین اسلحہ وہاں پر سنہ 1280 کے بعد بننا شروع ہوا۔ 14ویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں یورپ کے جنگ کے میدانوں اور محاصروں میں یہ ہتھیار استعمال ہونے لگے تھے۔
یاد رہے کہ 14ویں صدی کے آغاز میں ابھی سلطنت عثمانیہ وجود میں نہیں آئی تھی اور ان کی ریاست ابھی علاقائی طاقت ہی تھی۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس صدی کے وسط تک یہ ہتھیار ہنگری اور بلقان کے علاقوں میں پہنچا اور سنہ 1380 کی دہائی میں عثمانی بھی ان سے واقف ہو چکے تھے۔
انھوں نے دو ترک مؤرخین کا حوالہ دیا ہے جن میں سے ایک کے مطابق عثمانیوں نے پہلی بار سنہ 1389 میں کوسوو کی جنگ میں توپوں کا استعمال کیا اور انھوں نے حیدر نامی توپچی کا بی ذکر کیا ہے جبکہ دوسری جگہ پر کہا گیا ہے انھیں سنہ 1364 سے توپیں تیار کرنا آتی تھیں جنھیں انھوں نے پہلی بار سنہ 1386 میں استعمال کیا۔
اگوستون لکھتے ہیں کہ اصل سوال یہ نہیں کہ پہلا آتشیں ہتھیار کب تیار ہوا بلکہ یہ کہ اس کا مؤثر استعمال کب شروع ہوا اور یہ پیشرفت 15ویں صدی کے وسط میں ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں کہ نئے ہتھیاروں کا استعمال آہستہ آہستہ عام ہوا۔ آتشیں اسلحے کا حصول، اس کے لیے بارود کی فراہمی، اس کے استعمال کے لیے خصوصی دستے قائم کرنا ایک ایسا چیلنج تھا جس کے لیے سب ریاستیں تیار نہیں تھیں لیکن عثمانیوں نے اپنی عملیت پسندی اور سماجی ڈھانچے میں لچک کی وجہ سے اس میں کمال مہارت دکھائی۔
عثمانیوں کی طرف سے سب سے اہم پیشرفت تنخواہ دار انفنٹری کے طور پر جانیسری دستوں اور آتشیں اسلحے کی تیاری اور استعمال کے لیے خصوصی دستوں کا قیام تھا۔
اگوستون لکھتے ہیں کہ ایشیا میں بارود کے بارے میں معلومات چینیوں کے ساتھ تجارت یا براہ راست رابطوں کے ذریعے پہنچیں۔ ’منگول سنہ 1230 کی دہائی سے ہی بارود اور اس سے متعلقہ آلات کے بارے میں جانتے تھے اور 13 ویں صدی کے وسط میں انھیں کے ذریعے یہ معلومات وسطی ایشیا، ایران، عراق اور شام پہنچیں۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ تیمور لنگ کے بیٹے شاہ رخ کے دور میں (1405-1447) ان کی سلطنت میں، جو ایران کے کچھ حصوں، دریائے آکسس کے علاقے، آذربائجان اور افغانستان کے کچھ علاقوں تک پھیلی تھی، نہ صرف بارود کے بارے میں لوگوں کو علم تھا بلکہ یہاں آتشیں اسلحہ تیار بھی ہو رہا تھا۔
وہیں پر ’سنہ 1434 -1435 میں فرخ نامی ایک مستری نے ایک توپ تیار کی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے کم سے کم 320 کلوگرام وزنی گولے فائر ہوتے تھے۔‘
آتشیں اسلحے اور بارود نے دنیا کیسے بدلی؟
اگوستون لکھتے ہیں کہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آتشیں اسلحے کی اہمیت کا احساس سب سے زیادہ یورپ میں تھا اور وہیں پر اس ہتھیار کو وہ زندگی ملی جس سے اس نے آنے والی ’صدیوں میں منظم تشدد کی شکل بدل دی۔‘
آتشیں اسلحے کی آمد اور اس کے وسیع پیمانے پر استعمال نے ریاستوں اور بڑی سلطنتوں کے جنگ کرنے کے طریقے بالکل بدل دیے۔ ’اب عسکری اعتبار سے مقابلے میں رہنے کے لیے ریاستوں کو توپیں، توپوں کا مقابلہ کرنے والے قلعے، بندوقوں سے لیس انفنٹری اور توپوں سے مسلح جہازوں والی نیوی ضروری ہو گئی تھی۔‘
بارود کا زمانہ کم سے کم یورپ میں وہ زمانہ تھا جہاں میدانوں کی بجائے جنگ زیادہ تر محاصرے کا نام تھا۔ توپ خانہ اور بارود محاصروں میں کامیابی اور ہنگری، ہیپسبرگ، وینس اور سفویوں جیسے مخالفین کے سامنے سلطنت کے دفاع کے لیے بہت ضروری تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ کئی یورپی مؤرخین کے نزدیک قرون وسطی کی دو بڑی ایجادیں بارود اور پرنٹنگ تھیں۔
انھوں نے لکھا کہ کیونکہ توپ خانہ رکھنے اور توپوں سے محفوظ قلعے بنانے کی طاقت صرف بادشاہوں کے پاس ہی ہو سکتی تھی، اسی لیے اس ایجاد کے بعد طاقت کے چھوٹے چھوٹے مراکز کا قائم رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ تاہم ایسے مؤرخ بھی ہیں جن کے نزدیک اس دور کی تبدیلیاں صرف بارود کی وجہ سے نہیں تھیں اور بارود کی اہمیت کے بارے میں بحث آج تک جاری ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ 14ویں اور 15ویں صدی کے عثمانی سلطانوں کی عملیت پسندی نے نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے اور آتشیں اسلحے کی مستقل بنیادوں پر پیداوار کے لیے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کو آسان بنا دیا تھا۔ بحیرہ روم، ہنگری اور بازنطینی سلطنت کے مضبوط قلعوں نے انھیں مجبور کیا کہ وہ اپنی جنگی حکمت عملی بدلیں اور نئے اسلحے کو اپنائیں۔
’یورپ میں آتشیں اسلحے کی ٹیکنالوجی میں 18ویں صدی کے اختتام تک کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آئی اور اس دوران یورپی ٹیکنالوجی کے حصول اور عثمانیوں کی لاجسٹک میں برتری کی مدد سے ان کے لیے یورپ کا مقابلہ کرنا مشکل نھیں تھا۔‘
عثمانی آرٹلری اور سلطنت میں معدنی ذخائر
انھوں نے لکھا کہ 16ویں صدی سے 18ویں تک عثمانیوں نے ہر سائز کی توپ استعمال کی جس میں 30 سے 500 گرام کے گولے پھینکنے والی توپوں سے لے کر 31 سے 74 کلوگرام کے گولے پھینکنے والی توپیں شامل ہیں۔
تاہم 15ویں اور 16ویں صدی میں 100 کلوگرام سے زیادہ وزن کے گولے پھینکنے والی ’بمبارڈ‘ بھی ان کے توپ خانے کا حصہ تھیں۔ عثمانی دستاویزات میں 15 سے 20 کلوگرام کے گولے داغنے والی توپوں کی ایک قسم کے لیے ’قلعہ کوب‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ عثمانی اسلحے میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی توپ ’دربزین‘ کے گولوں کا وزن اعشاریہ 15 سے ڈھائی کلوگرام تک تھا۔
اگوستون لکھتے ہیں کہ عثمانی اور ان کی مخالف سلطنتوں کے ہتھیاروں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ 16ویں اور 17ویں صدی میں عثمانی اپنی بڑی اور درمیانی سائز کی توپیں کانسی سے بنا رہے تھے جو آسٹریا، ہسپانیہ اور انگلش توپوں کے مقابلے میں ہلکی اور زیادہ محفوظ تھیں۔
عثمانی سلطنت کی حدود میں کاپر بڑی مقدار میں موجود تھا۔ 16 ویں اور 17ویں صدیوں میں سلطنت پیتل، لوہے، لیڈ کی پیداوار میں خود کفیل تھی اور اسے صرف ٹین باہر سے منگوانا پڑتا تھا۔
’16 ویں، 17 ویں اور 18ویں صدی میں جب سلطنت عثمانیہ کی حکمرانی یورپ میں بدا(ہنگری) سے ایشیا میں بسرا تک پھیلی تھی اس کے تقریباً ہر بڑے صوبے میں بارود تیار کیا جاتا تھا۔‘ تاہم 18ویں صدی کے وسط سے اس پیداوار میں کمی آنا شروع ہوئی اور اس کے بعد سلطنت میں یورپ سے بارود کی درآمد میں اضافہ ہو گیا۔ تاہم از سر نو تنظیم سازی نے کچھ عرصے بعد پھر اسے خود کفیل بنا دیا تھا۔
قرون وسطیٰ اور بارود کی اہمیت
کتاب ’گنز فار دی سلطان‘ میں وزیر اعظم حسن پاشا کی سنہ 1603 کی سلطان کے نام التجا درج ہے جو کچھ ہوں ہے ’میرے محترم بادشاہ، جیسا کہ عظیم آقا کو معلوم ہے کہ سلطانوں کی مہمات کی اصل طاقت بارود ہے۔ بارود کے بغیر جنگ ناممکن ہے۔ بارود دوسری چیزوں کی طرح نہیں۔۔۔ جہاں بارود کی کمی ہوتی ہے وہاں سونے کے سکوں کا سمندر بھی بارود کی جگہ نہیں لے سکتا۔ قلعوں کا دفاع اور جنگی مہمات بارود کی مدد سے ہی ہوتی ہیں۔‘
اگوسٹن نے مختلف تاریخی حوالوں سے بتایا ہے کہ وینس کی سینیٹ کے جون 16 سنہ 1489 کے منٹس میں درج ہے کہ ’اس اسلحے اور آرٹلری کے بغیر کسی ریاست کو بچایا جا سکتا ہے، نہ ہی اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے اور نہ دشمن پر حملہ۔‘
سلطنت عثمانیہ میں قلمی شورے اور بارود کی پیداوار
قلمی شورہ ان اجزا میں سے ایک ہے جو بارود کی پیداوار میں استعمال ہوتے ہیں۔ کسی بھی بڑی سلطنت کے لیے آتشیں اسلحے کے دور میں بارود کی پیداوار میں استعمال ہونے والی اشیا کی فراہمی اپنی عسکری بالادستی قائم رکھنے کے لیے اہم تھی۔
اگوستون نے لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ اپنے مخالفین کی بانسبت قلمی شورے کی پیداوار میں خودکفیل تھی۔ سلطنت نے مختلف علاقوں میں اس کے لیے کچھ پلانٹ قائم کر رکھے تھے جن کا انتظام اشرافیہ کے کچھ لوگوں یا پھر سرکاری اہلکاروں کے ہاتھ میں تھا۔
بعض علاقوں میں قلمی شورے کی پیداوار سینکڑوں کی تعداد میں دیہات کو سونپی گئی تھی جنھیں اس خدمت کے بدلے ٹیکس میں چھوٹ ملتی تھی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ یورپ کی سلطنتوں میں بھی اسی طرح کے انتظامات کیے گئے تھے۔
’سلطنت قلمی شورے اور بارود کی پیداوار میں 17ویں صدی کے آخر تک خود کفیل تھی جب بارود کی سالانہ ضرورت کا اندازہ 540 میٹرک ٹن تھا۔‘ تاہم انھوں نے بتایا کہ قلمی شورے میں خود کفالت بارود کی پیداوار کا صرف ایک حصہ تھا اور اس کی عسکری ضروریات کے مطابق پیداوار ایک الگ چیلنج تھا۔
جب سلطنت عثمانیہ کو سویڈن، انگلینڈ اور ہسپانیہ سے بارود خریدنا پڑا
تاریخی دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ عثمانی 18ویں صدی میں کافی دیر تک بارود کی پیداوار میں خود کفیل تھے۔ انھیں روس کے ساتھ سنہ 1768-74 کی جنگ میں پہلی بار بارود کی کمی کی وجہ سے آپریشنل مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
’17ویں صدی میں عثمانی 761-1037 میٹرک ٹن بارود تیار کر سکتے تھے لیکن 18ویں صدی کے دوسرے نصف میں یہ مقدار کم ہو کر 169 میٹرک ٹن رہ گئی تھی۔‘
اگوستون مختلف ذرائع کے حوالے بتاتے ہیں کہ سنہ 1770 کی دہائی کے آخر میں سلطنت کو ضرورت کا 50 فیصد بارود یورپ سے حاصل کرنا پڑا۔۔۔۔سنہ 1778 میں 84600 کلوگرام بارود سویڈن سے حاصل کیا گیا۔۔۔۔ پھر سنہ 1782 میں 95485 کلوگرام بارود اسی ذریعے سے آیا۔۔۔سنہ 1783 میں 39198 کلوگرام بارود انگلینڈ سے آیا۔۔۔۔ اور اسی سال باہر سے بارود کی سب سے زیادہ مقدار جو 133386 کلوگرام تھی ہسپانیہ سے آئی تھی۔‘
یہ معاملات سلطان سلیم سوم (1789-1807) تک پہنچے جنھوں نے اس صورتحال کے سدباب کے لیے اقدامات کا اعلان کیا۔ ان اقدامات میں پانی کی طاقت سے چلنی والی فیکٹریوں کا قیام بھی شامل تھا۔ بارود کی فیکٹری کے ساتھ پانی کا تلاب بھی بنایا گیا تاکہ آگ لگنے کی صورت میں فوری طور پر بجھائی جا سکے۔
18ویں صدی کے اختتام میں ایک عثمانی اہلکار محمود آفندی نے کہا ’ہمارا غیر ملکی بارود پر انحصار ختم ہو گیا ہے، ہمارے گودام بھرے ہوئے ہیں، اور فوجی مہمات کے لیے بھی ہمارے پاس کافی ہے، ہم نے تو اسے برآمد بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔‘
سلطنت عثمانیہ اور بارود
’عمومی طور پر عثمانیوں نے اپنے یورپی اور مشرق وسطیٰ کے حریفوں سے پہلے آتشیں اسلحہ بنانے اور استعمال کرنے کے لیے کل وقتی اور مرکز سے کنٹرول ہونے والے خصوصی دستے قائم کر لیے تھے۔‘
اگوستون نے اس تاثر کو کہ عثمانی ہتھیاروں کی نئی ٹیکنالوجی کے لیے یورپی ماہرین پر انحصار کرتے تھے۔ انھوں نے کہا ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا مختلف سلطنتوں میں آنا جانا اس زمانے میں عام بات تھی اور مسلم مسیحی فرق کو حد سے زیادہ اہمیت نھیں دینی چاہیے۔
’تہذیبوں کے ٹکراؤ کا نظریے جو آج کل فیشن میں ہے 15ویں سے 18ویں صدی تک یورپ اور سلطنت عثمانیہ بین الثقافتی رابطوں کو سمجھنے میں زیادہ مددگار نہیں ہو سکتا۔‘
تو پھر سلطنت عثمانیہ کے مسائل کہاں سے شروع ہوئے
صدیوں تک لاکھوں مربع کلومیٹر پر پھیلی سرحدوں اور ہر سمت سے جنگی میدانوں میں اپنی برتری قائم رکھنے کے بعد سلطنت عثمانیہ کے مسائل کہاں سے شروع ہوئے؟ اس کا نہ تو کوئی سیدھا سا جواب ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک مؤرخ وضاحت کر سکتا ہے۔
کتاب ’گنز فار دی سلطان‘ میں مختلف مؤرخین کے بیانیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اگوستون کے نزدیک اس کی زیادہ اہم وجہ اقتصادی ماحول میں تبدیلی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ بحیرہ روم کے علاقے میں عمومی طور خراب اقتصادی صورتحال کی وجہ سے اتنے وسیع پیداواری سیکٹر کو قائم رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔
اس دوران یورپ میں بڑے پیمانے پر اقتصادی اور انتظامی اصطلاحات کی جا چکی تھیں اور وہ سائنس اور فنانس کے میدان میں بھی آگے نکل گیا تھا۔
’عثمانیوں اور یورپی کی جنگ نے جب نوعیت بدلی تو یہ تبدیلیاں بہت اہم ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔ سنہ 1526 سے سنہ 1683 یورپ میں صرف دو بڑی جنگیں میدان میں لڑی گئی تھیں۔۔۔۔ سلطان کی فوج زیادہ تر محاصروں میں مصروف رہی۔‘
مشکل اقتصادی صورتحال میں 18ویں صدی میں روس کے ساتھ جنگیں بھی سلطنت کو مہنگی پڑی تھیں جو اس وقت ان کا بڑا مخالف بن چکا تھا۔
اس دوران استنبول کی شاہی فاؤنڈری میں کیا صورتحال تھی؟ کتاب ’گنز فار دی سلطان‘ میں بتایا گیا ہے کہ 18ویں صدی کے اختتام تک بھی وہ کئی مواقعوں پر سینکڑوں توپیں بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی جن کا کل وزن دو لاکھ کلوگرام تک بھی ہو جاتا تھا۔ لیکن بتایا جاتا ہے کہ اصل مسئلہ بارود کی پیداوار کا تھا جس کی پیداوار 16ویں اور 17ویں صدی کے مقابلے میں 15-30 فیصد کم ہو چکی تھی۔
اگوستون اس زمانے کے یورپی اور عثمانی مبصرین کے حوالے سے بتاتے ہیں عثمانی فوج میں ڈسپلن اور تکنیک کی بھی کمزوریاں پیدا ہو گئی تھیں۔
کیا سلطنت کو ان کمزوریوں کا احساس نہیں تھا اور انھیں دور کرنے کے لیے کوششیں کیوں نہیں کی گئیں؟ اس سلسلے میں کتاب میں سنہ 1734 کی ایک ترک دستاویز کا ذکر ہے جس میں ’نظام جدید‘ کے لیے اصلاحات پر زور دیا گیا تھا۔
اگوستون بتاتے ہیں عثمانی قیادت اس کے لیے تیار نہیں تھی کیونکہ وہ کہتے تھے کہ اس سے ’سماجی ڈھانچہ‘ خطرے میں پڑ جائے گا اور جب انھوں نے سنہ 1787-92 کی روس کے ساتھ جنگ میں ناکامی کے بعد ایسی کوشش کی تو بہت دیر ہو چکی تھی۔
سلطنت عثمانیہ کے 28ویں سلطان سلیم سوم (1789-1807) کو اس کوشش کی قیمت، جس میں وہ ایک ’نئی ماڈل آرمی‘ بنانا چاہتے تھے، اپنی جان کی صورت میں دینی پڑی۔