کھیل

ہاکی اولمپیئن سمیع اللہ: چار ورلڈ کپس میں پاکستانی کی نمائندگی کرنے والے سمیع اللہ کو ’فلائنگ ہارس‘ کا خطاب کس نے دیا؟

Share

سنہ 1975 میں ملائیشیا میں منعقدہ تیسرے عالمی ہاکی کپ ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں پاکستان اور جرمنی مدِمقابل تھے۔ میونخ اولمپکس کے بعد دونوں ٹیموں کے درمیان یہ پہلا مقابلہ ہونے جا رہا تھا۔

میونخ اولمپکس کی تلخ یادیں پاکستانی شائقین اور کھلاڑیوں کے ذہنوں سے ابھی محو نہیں ہوئی تھیں لیکن اس بار کوئی تلخ واقعہ رونما نہیں ہوتا اور پاکستانی ہاکی ٹیم جرمنی کو ایک کے مقابلے میں پانچ گول سے آؤٹ کلاس کر دیتی ہے۔

پاکستانی ہاکی ٹیم کی اس یکطرفہ جیت میں ایک کھلاڑی کا کھیل سب سے نمایاں رہتا ہے، جو نہ صرف خود دو گول کرتے ہیں بلکہ میچ میں پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے دیگر تین گول بھی انھی کی کوششوں کے نتیجے میں ہوئے۔

اگلے دن ملائیشیا کے تمام بڑے اخبارات میں پاکستانی ٹیم کی جیت کی خبروں میں اس کھلاڑی کی غیرمعمولی کارکردگی کا ذکر تھا۔ یہ کھلاڑی لیفٹ آؤٹ سمیع اللہ تھے۔

سلوموشن تصاویر اور ’فلائنگ ہارس‘ کا خطاب

سمیع اللہ کو آج بھی یاد ہے کہ ’فلائنگ ہارس‘ کا خطاب کس طرح اُن کے نام کا حصہ بنا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’سیمی فائنل کے اگلے دن اختر رسول میرے کمرے میں آئے۔ ان کے ہاتھ میں چند اخبارات تھے، انھوں نے ازراہ تفنن کہا کہ لگتا ہے کہ یہ اخبار والے سب تمہارے دوست ہیں جنھوں نے تمہاری اتنی زیادہ تعریفیں لکھی ہیں۔‘

’ایک جرمن فوٹو گرافر نے میرے کھیلنے کی دس تصاویر ایک ترتیب سے بنائی تھیں تاکہ وہ شائقین کو یہ بتا سکیں کہ گیند کے ساتھ میری موومنٹ کس طرح رہتی ہے۔ انھی خبروں میں جرمن ٹیم کے کوچ پال لیزیک کا بیان بھی شامل تھا جنھوں نے کہا تھا کہ سمیع اللہ فلائنگ ہارس نے ہماری ٹیم کو تباہ کر کے رکھ دیا۔‘

سمیع اللہ

’یہی وہ پہلا موقع تھا جب مجھے کسی نے ’فلائنگ ہارس‘ کے نام سے پکارا جو بعدازاں میرے نام کا مستقل حصہ بن گیا۔‘

سمیع اللہ کو اس بات کا بہت دکھ ہے کہ اسی ورلڈ کپ کے فائنل میں وہ انڈین ہاف بیک وریندر سنگھ کی سٹک پاؤں میں پھنسنے کی وجہ سے گرے تھے اور ان کی ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، جس کی وجہ سے انھیں تین ماہ ہاکی سے دور رہنا پڑا تھا۔

کریئر پر کن لوگوں کے اثرات؟

سمیع اللہ کہتے ہیں ’میرا خاندان ایتھلیٹکس کیا کرتا تھا۔ میرے دو چچا اولمپیئن مطیع اللہ اور امان اللہ زمانہ طالب علمی میں ایتھلیٹک میٹ میں حصہ لیا کرتے تھے۔ میں نے بھی اپنے سکول اور کالج کے زمانے میں ایتھلیٹکس میں باقاعدہ حصہ لیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ وہ سنہ 1971 میں بہاولپور میں صادق ایجرٹن کالج کے بہترین ایتھلیٹ قرار پائے تھے۔

’چچا مطیع اللہ مجھے پچاس میٹر اور پھر سو میٹر کی سپرنٹ لگوایا کرتے تھے۔ وہ جب بھی پریکٹس کے لیے جاتے تھے میں ان کے ساتھ جایا کرتا تھا اور دیکھا کرتا تھا کہ وہ کس طرح ہٹ لگاتے ہیں اور کس طرح گیند روکتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ تم اس وقت تک اچھے کھلاڑی نہیں بن سکتے جب تک صحیح طریقے سے گیند نہ روک سکو۔‘

سمیع اللہ بتاتے ہیں کہ ان کے چچا مطیع اللہ روم اولمپکس کی فاتح ٹیم کے کھلاڑی تھے جنھوں نے لطیف الرحمن جیسے ورلڈ کلاس کھلاڑی کی جگہ لی تھی۔ مطیع اللہ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ُمڑے بغیر کراس لگاتے تھے اور گیند پنالٹی سٹروک کے نشان اور گول کیپر کے درمیان میں جایا کرتی تھی، یہی خوبی بعد میں سمیع اللہ کے کھیل کا حصہ بنی۔

سمیع اللہ

’میری سپیڈ شروع سے ہی تھی لیکن جب میں نے ہاکی کھیلنی شروع کی تو نبی کیلاٹ مرحوم اور سابق اولمپیئن سعید انور نے مجھے مہارت سکھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمہاری رفتار بہت تیز ہے، لہذا تمہارے ساتھ اگر کوئی ہاف بیک بھاگتا آ رہا ہو تو تم فوراً کوشش کرو کہ اسے اپنے پیچھے لے آؤ۔ میں نے ان کی باتوں پر عمل کیا اور اپنی سپیڈ سے فائدہ اٹھایا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’شہناز شیخ ڈربلنگ بہت کرتے تھے لیکن وہ جارحانہ انداز نہیں رکھتے تھے، میں نے یہ انداز دکھایا کہ جیسے ہی پچیس گز کے اندر جاتا تھا فوراً ’کٹ اِن‘ کرتا تھا۔ ہم نے ایک نئی روایت یہ ڈالی کہ بائیں جانب سے حریف ٹیموں پر حملے شروع کیے، دنیا کے لیے یہ حیران کن بات تھی کیونکہ پہلے پاکستانی ٹیم صرف دائیں طرف سے اٹیک کیا کرتی تھی۔‘

بھٹو کی نظر میں بہترین

ذوالفقار علی بھٹو

سمیع اللہ کو وہ وقت اچھی طرح یاد ہے جب سنہ 1974 کے ایشین گیمز کا ٹریننگ کیمپ حسن ابدال میں لگا ہوا تھا اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو خاص طور پر یہ دیکھنے آئے تھے کہ اچھا کھلاڑی کون ہے؟ میں یا صفدر عباس؟

’بھٹو صاحب کو عبدالحفیظ پیرزادہ نے بتا رکھا تھا کہ صفدر عباس بہترین لیفٹ آؤٹ ہے۔ پیرزادہ کا خیال تھا کہ چونکہ میں بہاولپور کا ہوں اور پی ایچ ایف کے صدر صادق حسین قریشی ملتان کے ہیں لہذا پسند ناپسند ہو رہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جب بھٹو صاحب نے کیمپ میں ان کا میچ اور انھیں کھیلتے ہوئے دیکھا تو جاتے جاتے حفیظ پیرزادہ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے ازرائے مذاق کہنے لگے ’پیرزادہ تم ہمیشہ مس گائیڈ کرتے ہو۔ سمیع اللہ از بیسٹ۔‘ ساتھ ہی انھوں نے مجھ سے کہا ’ویل ڈن بوائے۔‘

’گیند کلیم اللہ سے سمیع اللہ پھر کلیم اللہ‘

ہاکی کمنٹری میں سنا جانے والا یہ دلچسپ جملہ محض ذہنی اختراح یا مزاح نہیں بلکہ یہ سب کچھ میدان میں دیکھنے کو ملتا تھا۔

سمیع اللہ اپنے چھوٹے بھائی کلیم اللہ کے بارے میں کہتے ہیں ’کلیم اللہ ابتدا میں سینٹر ہاف کھیلا کرتے تھے لیکن جب بریگیڈیئر عاطف اور سعید انور نے ان کی پوزیشن رائٹ ہاف کرنے کی کوشش کی تو میں نے ان سے کافی بحث کی کہ انھیں کسی دوسری پوزیشن پر کھلایا جائے۔‘

’اس گفتگو میں ایئرمارشل نور خان بھی شامل تھے، بلاآخر کلیم اللہ کو اصلاح الدین کی ریٹائرمنٹ کے بعد رائٹ آؤٹ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ کلیم اللہ کے پاس سپیڈ بھی تھی اور ان کے کھیل میں ورائٹی بھی تھی اس کے علاوہ انھیں منظور جونیئر جیسا بہترین رائٹ ان بھی ملا جو انھیں گیند بنا کر دیا کرتا تھا۔‘

سمیع اللہ

سمیع اللہ کا کہنا ہے ’سب کو یاد ہو گا کہ جب میں لیفٹ آؤٹ اور کلیم اللہ رائٹ آؤٹ کھیلا کرتے تھے تو ہم بہت انٹرچینج کرتے تھے۔ ہم دونوں میں بہت ہم آہنگی تھی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک مشہور فقرہ آج بھی سننے کو ملتا ہے کہ سمیع اللہ سے کلیم اللہ۔ کلیم اللہ سے سمیع اللہ۔ یہ دونوں ہی آپس میں کھیلے جا رہے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیشنل ہاکی میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دونوں ونگرز آپس میں کراسنگ کریں اور کسی دوسرے کھلاڑی کے پاس گیند نہ جائے۔

سمیع اللہ کے بڑے بھائی ہدایت اللہ سنہ 1973 کے عالمی کپ میں سمیع اللہ کے ساتھ کھیلے تھے۔

سمیع اللہ کہتے ہیں ’ہدایت اللہ مجھ سے دو سال بڑے تھے لیکن جب بھی کوئی مشکل میچ آتا تھا تو اُن کے ہاتھ پیر پھول جاتے تھے۔ سنہ 1973 کے عالمی کپ میں وہ لیفٹ آؤٹ تھے اور میں لیفٹ ان کھیل رہا تھا۔ اکثر یہ ہوا کہ میں انھیں گیند دوں اور وہ فوراً مجھے واپس کر دیتے۔‘

’میں نے ان سے کہا کہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ گیند کو اپنے پاس رکھ کر اسے آگے لے جانا چاہیے لیکن جب میں نے دو میچوں میں دیکھا کہ میری بات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا تو مجھے خود ہی ان کا کام بھی کرنا پڑا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے انڈیا کے خلاف سیمی فائنل میں گول بھی کیا لیکن وہ آف سائیڈ قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔‘

چار ورلڈ کپ اور ہر ایک میں گول

سمیع اللہ نے چار ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کی، جن میں سے سنہ 1978 اور سنہ 1982 کے عالمی کپ پاکستان نے جیتے۔ سمیع اللہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے چاروں ورلڈ کپ مقابلوں میں گول کیے۔

سمیع اللہ دو چیمپیئنز ٹرافی اور تین ایشین گیمز جیتنے والی پاکستانی ٹیم میں بھی شامل تھے۔

وہ سنہ 1982 میں ایشین گیمز جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے جس نے فائنل میں انڈیا کو ایک کے مقابلے میں سات گول سے شکست دی تھی۔ یہ وہی میچ ہے جس میں انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی اپنی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی سے دلبرداشتہ ہو کر میچ ادھورا چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔