صحافی مطیع اللہ جان پر ججز کے خلاف ’توہین آمیز ٹویٹس‘ کا الزام، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کے بعد صحافی کو نوٹس جاری
سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیئر صحافی و اینکر پرسن مطیع اللہ جان کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اعلی عدلیہ کے ججز کے خلاف ’توہین آمیز‘ الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں نوٹس جاری کیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے بدھ کو اپنی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تشکیل دیا ہے جس نے آئندہ سماعت کے لیے صحافی مطیع اللہ جان کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
دوسری جانب بدھ ہی کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں مطیع اللہ جان کی جانب سے کی جانے والی ٹویٹس پر دائر توہین عدالت کی درخواست پر بھی کارروائی کی اور فیصلے میں کہا ہے کہ ’عدلیہ اور معزز جج صاحبان کی ساکھ سوشل میڈیا پیغامات کی مرہون منت نہیں‘۔ بدھ کے روز سپریم کورٹ میں اس معاملے پر ہونے والی مختصر سماعت کے دوران مطیع اللہ جان کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندے بھی موجود تھے۔
بدھ کو لیے جانے والے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کوئی ریمارکس نہیں دیے اور اس معاملے کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
جن افراد کو نوٹس جاری ہوا ہے ان کی طرف سے عدالت کو آئندہ سماعت پر جواب موصول ہونے کے بعد سپریم کورٹ صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف توہین عدالت سے متعلق کارروائی کا آغاز کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔
’اعلیٰ عدلیہ کی ججز کی برداشت کو بھی اعلیٰ ہونا چاہیے‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ ابھی ان کو بھی نہیں معلوم کہ ان کی کس ٹویٹ پر نوٹس لیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئندہ ایک، دو روز میں نوٹس موصول ہونے پر ہی معلوم ہو گا کہ اصل میں ان پر کیا الزام ہے۔
انھوں نے کہا کہ سماعت کے دوران صرف اتنا ہی معلوم ہو سکا ہے کہ یہ دس جون کو کی جانے والی ٹویٹس تھیں جن پر عدالت کو اعتراض ہے۔
انھوں نے کہا کہ ظاہری طور پر یہ اس ٹویٹ کا معاملہ ہو سکتا ہے جس میں انھوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے صدارتی ریفرنس کے کیس کے پس منظر میں اعلی عدلیہ کے سات ججز کے ’کردار‘ کی بابت بات کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’اعلیٰ عدلیہ کی ججز کی برداشت کو بھی اعلیٰ ہونا چاہیے اور ایک ایسے وقت میں جب ملک میں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے پہلے ہی گھٹن کا ماحول ہے تو کہیں نہ کہیں سے بات تو کی جاتی ہے جو شاید چند افراد کو ناپسندیدہ لگے۔‘
انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سے ان کی استدعا ہو گی کہ وہ آئندہ سماعت پر اس معاملے میں ان کا مکمل موقف سنیں۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد صحافی مطیع اللہ جان نے اپنی ٹویٹ میں ایسے الفاظ لکھے تھے جس سے عدلت عظمی نے یہ خیال کیا کہ اس سے توہین عدالت کا پہلو نکلتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ: صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری
اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں عدالت نے درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
- سوشل میڈیا پیغامات پر توہین عدالت کی کارروائی ہوئی تو درخواستوں کا سیلاب آ جائے گا
- سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی ساکھ کسی شک شبے سے پاک ہے
- عدلیہ اور معزز جج صاحبان کی ساکھ سوشل میڈیا پیغامات کی مرہون منت نہیں
- درخواست گزار وکیل کو ایک نازیبا پیغام پر عدالتی کارروائی کی طرف جانا زیب نہیں دیتا
- سوشل میڈیا پر ٹویٹ کچھ لوگوں نے دیکھی ہو گی، عدالتی کارروائی سے دنیا دیکھے گی
- اس معاملے پر عدالتی کارروائی ججوں کے خلاف پراپیگنڈے کو فروغ دینے جیسا ہو گا
بدھ کو رجسٹرار آفس کے اعتراض کے ساتھ اس درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ درخواست میں ان کی استدعا کیا ہے؟
جس پر درخواست گزار وکیل عدنان اقبال نے کہا کہ اُنھوں نے درخواست میں مذکورہ صحافی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کی استدعا کی ہے۔
بینچ کے سربراہ نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ وہ اس معاملے میں کیسے متاثرہ فریق ہیں؟جس پر درخواست گزار وکیل نے کہا کہ عدلیہ کے حوالے سے توہین آمیز ٹویٹ کی گئی ہے اور توہین عدالت کا قانون بھی موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا کورٹ ہر ٹویٹ پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دے؟ اُنھوں نے کہا کہ آزاد عدلیہ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُنھوں نے کہا کہ روزانہ ٹویٹس ہوتی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اور اسلام آباد بار کونسل کا فورم درخواست گزار کے پاس موجود ہے، ’عام شہری اور سیاسی جماعتیں بھی سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، کیا ہر ایک کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کریں۔‘
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ججز اور عدلیہ کو اس سے اوپر ہونا چاہیے، عدالت نے درخواست گزار وکیل کے دلائل مکمل ہونے پرفیصلہ محفوظ کر لیا۔
سوشل میڈیا پر ردِ عمل
مطیع اللہ جان کے خلاف سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ملاجلا ردِعمل دیکھنے میں آرہا ہے اور مطیع اللہ جان کی حمایت میں #WeStandWithMatiUlla صفِ اول کے ٹرینڈر میں شامل ہے جس میں اب تک تقریباً 17 ہزار ٹویٹس کی جا چکی ہیں۔
صحافی عمر چیمہ کہتے ہیں ’مطیع اللہ جان اس بے حس معاشرے کا جاگتا ہوا ضمیر ہے جسے سلانے کے لیے جن بھوتوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی معاشرے کے لیے فرض کفایہ کی حیثیت رکھتے ہیں، جو وہ کام کر رہے ہوتے ہیں جب باقی لوگ بے شرمی سے سودے بازی میں مصروف ہوتے ہیں۔‘
صحافی و مصنفہ عفت حسن رضوی جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے خلاف ٹوئٹر پر چلائے جانے والے ٹرینڈز کا حوالے دیتے ہوئے کہتی ہیں ’سپریم کورٹ نے مطیع اللہ جان کو توہین عدالت کیس میں بلالیا ہے، امید ہے اب سپریم کورٹ ٹوئٹر پر ایک راست جج اور ان کی اہلیہ کے خلاف چلنے والی مہم بلکہ ہر اس ٹویٹ اور جعلی ٹرینڈز کا از خود نوٹس لے گی جن کا مقصد گالم گلوچ، جنسی امتیاز، مذہبی منافرت یا سیاسی عدم برداشت پھیلانا ہوتا ہے۔‘
عوامی نیشنل پارٹی کے صدر افراسیاب خٹک کہتے ہیں ’مطیع اللہ جان واقعی ایک آزاد صحافی ہیں جنھوں نے ہائبرڈ مارشل لا کے سیاہ ایام میں اقتدار میں موجود طاقتوں کے خلاف سچ بولا ہے۔ انھوں نے آزادیِ صحافت کو زندہ رکھنے کے لیے خطرات مول لیے ہیں۔ وہ کئی بے آواز لوگوں کی آواز بنے ہیں۔‘
بلال غوری نامی صارف کہتے ہہیں ’مطیع اللہ جان ایک بہادر اور سچ بولنے والے صحافی ہیں۔ انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں اپنے خیالات اور آرا کا اظہار کیا جو نہ تو جرم ہے اور نہ ہی توہین عدالت۔‘
صحافی اسد علی طور کہتے ہیں ’ہم صحافی پاکستانی عدلیہ کو اپنی آزادی صحافت اور آزادی اظہارِ رائے کا مُحافظ سمجھتے ہیں۔ کیا اب عدلیہ ہی سینئیر صحافی مطیع اللہ جان (جن سے تین سال پہلے نوکری چھین لی گئی اور تاحال بے روزگار ہیں) سے اُن کا ٹوئٹر پر آزادی اظہارِ رائے اور حق صحافت بھی چھین لے گی؟‘
صحافی اور دنیا ٹی وی کے بیورو چیف خاور گھمن کہتے ہیں ’ججز ہوں، صحافی ہوں یا پھر سیاستدان۔۔۔ سوشل میڈیا پر بد زبانی، گالم گلوچ اور الزام تراشی کے حوالے سے کوئی دیر پا حل ہونا چاییے۔۔۔ نہیں تو ہر روز جس کا دل چاہے گا جس کو مرضی گالی دے گا۔۔۔ سنگین الزام لگائے گا اور یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا۔‘
دوسری جانب صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف بھی ایک ٹرینڈ چل رہا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے لوگ ان پر شدید تنقید کر رہے ہیں اور طرح طرح کے الزامات لگا رہے ہیں۔
مطیع اللہ جان ہم سب کی جان، صحافت میں صداقت کی جان ہیں۔ کاش چند اور ایسےسرپھرے پیدا ہوجائیں۔لیکن افسوس کہ سب مجھ جیسے گفتار کے غازی ہیں۔