سپریم کورٹ بار کی جسٹس عیسیٰ کیس کے فیصلے کے پیراگراف حذف کرنے کی درخواست
اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن( ایس سی بی اے ) نے عدالت عظمیٰ میں نظرثانی درخواست دائر کی ہے جس میں 19 جون کے اکثریتی فیصلے میں ٹیکس حکام کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر 3 آف شور جائیدادوں کی تصدیق سے متعلق عدالت کی ہدایت کو حذف کرنے استدعا کی گئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایس سی بی اے کے صدر قلبِ حسن کی جانب سے دائر اپیل میں درخواست کی گئی ہے کہ پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات، مشاہدات اور مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہیں لہذا انہیں مختصر حکم نامے سے حذف کیا جانا چاہیے۔
قبل ازیں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کے سامنے ایس سی بی اے کی نمائندگی سینئر وکیل حامد خان نے کی تھی۔
نظرثانی درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ پیراگرافس نمبر 3 سے 11 سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بینچ کے اکثر ججز چاہتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو قانون اور احتساب کی ضروری کارروائی پوری کرنے کے لیے ٹیکس حکام کے سامنے پیش کیا جائے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ اس مقصد کو عدالت عظمیٰ کے 3 ججز کی جانب سے لکھے گئے مختصر فیصلے میں پیراگراف 13 سے 14 کے ذریعے معقول طریقے سے پورا کیا گیا تھا لہذا پیراگرافس 3 سے 11 میں شامل ہدایات اور مشاہدات غیر ضروری ہیں اور انہیں حذف کیا جانا چاہیے۔
نظرثانی درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ کے جج، جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں انکم ٹیکس حکام کو دی گئی ٹائم لائنز یا ڈیڈ لائنز واضح طور پر غیر قانونی ہیں کیونکہ انکم ٹیکس آرڈیننس (آئی ٹی او) 2001 اور اس سے متعلق دیگر قوانین میں سیکشن 116 یا آئی ٹی او کی دیگر دفعات کے تحت کارروائی کرنے سے متعلق ایسی کوئی دفعات شامل نہیں ہیں۔
اس میں کہا گیا کہ کہ جب ریفرنس خارج کردیا گیا تو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے پاس اس مقصد کے لیے قانونی اختیار نہیں رہ گیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تسلیم شدہ اثاثوں اور جائیدادوں سے متعلق کوئی سوال ہی نہیں ہے تو جج کے خلاف مستقبل میں کسی رپورٹ کا نوٹس لینا ایس جے سی کے دائرہ اختیار سے باہر ہے لہذا جج کے خلاف کسی کی جانب سے مس کنڈکٹ کا کوئی الزام بھی نہیں ہے اس لیے 19 جون کا اکثریتی فیصلہ غیرآئینی ہونے کی وجہ سے کالعدم ہے اور عدلیہ کے مفاد میں اس پر نظرثانی ہونی چاہیے۔
ایس سی بی اے نے پوچھا کہ آئین و قانون کی کس دفعہ کے تحت عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں اور جائیدادوں سے متعلق معاملے کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ارسال کیا تھا جب وہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائیوں کے فریق نہیں تھے نا ہی آئین کے آرٹیکل (3)184 کے تحت سپریم کورٹ کی کارروائیوں میں فریق تھے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ نے کوئی وجوہات بتائے بغیر معاملہ ایف بی آر کو ارسال کردیا۔
نظرثانی درخواست میں مزید کہا گیا کہ آئی ٹی او کے سیکشن 122 کے تحت ٹیکس دہندگان کے تحفظ کے لیے طریقہ کار سے متعلق کچھ حفاظتی انتظامات فراہم کیے گئے ہیں جس میں کسی تعین کے دورانیے میں ترمیم شامل ہے۔
جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا حلف نامہ
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے عدلیہ اور ججز، خاص طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دھمکی و توہین آمیز ویڈیو ازخود نوٹس کیس میں ملزم آغا افتخار الدین مرزا پر فرد جرم عائد کردی تھی۔
سماعت کے دوران ملزم کو ایک صفحے پر مشتمل فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی اور پوچھا گیا کہ کیا الزمات سن اور سمجھ لیے ہیں، کیا وہ الزام میں خود کو قصور وار ٹھہراتے ہیں ان کے پاس اپنا کوئی دفاع موجود ہے ہے۔
جس پر مرزا افتخار الدین کے وکیل سرکار عباس نے اپنے موکل سے مشاورت کے لیے ایک ہفتے کی مہلت طلب کی تھی۔
مزید برآں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے 24 سوالات پر مشتمل بیان حلفی بھی جمع کرایا اور الزام لگایا کہ جس طرح سے اس جرم سے نمٹا گیا اس سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ اب ان کے شوہر کو ہٹانے کے لیے ایک اور براہ راست طریقے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
تاہم اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ وہ بیان حلفی کے مواد کا جائزہ لیں گے اور اگلے ہفتے ہونے والی سماعت میں اپنا جواب جمع کرائیں گے۔
اپنے بیان حلفی میں سرینا عیسیٰ نے پوچھا کہ ان کے شوہر کو جان سے مارنے کی دھمکیوں سے متعلق شکایت پر پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی اور کہا کہ انہیں یقین ہے کہ قصورواروں کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا وزارت داخلہ کی ہدایت کے بعد اس ملک میں ہر ایف آئی آر درج کی جاتی ہے؟ کیوں ان کی درخواست کسی چھوٹے جرم کے ارتکاب کے بہانے سے ایک دن کے بعد ایف آئی اے کو بھیجی گئی لیکن دہشت گردی کے سنگین جرم کو نظرانداز کردیا گیا؟ جب 26 جون کو توہین عدالت کیس میں ملزم مولوی کو سپریم کورٹ میں داخل ہوا تو اسے کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟
بیان حلفی میں سرینا عیسیٰ نے کہا کہ اگر مولوی کو فوراً گرفتار کرلیا جاتا اور ان کے موبائل فونز، کمپیوٹرز اور کیمرے اپنے قبضے میں لیے جاتے تو اسے ان معلومات کو مٹانے کا موقع نہ ملتا جس سے یہ معلوم ہوتا کہ اس نے کس کے لیے یہ کام کیا تھا۔
انہوں نے بیان حلفی میں پوچھا کہ ایک ‘دہشت گرد’ کو اس اہم معلومات کو ختم کرنے کے لیے 6 دن کیوں دیے گئے؟ کیوں اس کی رہائش گاہ اور دفتر کی تلاشی نہیں لی گئی، اس کا ذریعہ معاش کیا ہے اور اس شخص نے فوج کو کیوں بدنام کیا اور آرمی چیف کی تصاویر کو اپنی ویڈیو کلپ میں کیوں شامل کیا؟
سرینا عیسیٰ نے یہ بھی پوچھا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے سربراہ مرزا شہزاد اکبر سے کیوں پوچھ گچھ نہیں کی گئی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں شکایت کنندہ سے کیوںسوال جواب نہیں کیے گئے۔
انہوں نے پوچھا کہ کیا انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ سے ایسی سنگین دھمکی کے سلسلے میں رابطہ کیا گیا؟ کیا ان سوالوں کا جواب دیا جائے گا یا عدالت عظمیٰ کے جج کو نشانہ بنانا جائز ہے؟
خیال رہے کہ 24 جون کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے پولیس کو ایک درخواست دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے خاندان کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
بعد ازاں اگلے ہی روز چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے آغا افتخار الدین کی ججز، عدلیہ کے خلاف اس ویڈیو کلپ کا نوٹس لیا تھا۔
جس کے بعد 26 جون کو پہلی سماعت پر عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا اور آغا افتخار مرزا کو طلب کیا تھا اور اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ ایف آئی اے نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی ہے۔
عدالتی کارروائی کے بعد آغا افتخار کو حراست میں لیا گیا تھا اور 30 جون کو انسداد دہشت گردی عدالت نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے آغا افتخار الدین مرزا کو 7 روز کے جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے کردیا تھا۔
بعدازاں 9 جولائی کو سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر ججز سمیت عدلیہ مخالف اور توہین آمیز ویڈیو ازخود نوٹس کیس میں مولوی آغا افتخار الدین مرزا کی غیر مشروط معافی مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا پس منظر
خیال رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ مئی 2019 کے اواخر میں سامنے آیا تھا جس میں سپریم جوڈیشل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے ریفرنس میں جسٹس عیسیٰ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔
صدارتی ریفرنس میں اثاثوں کے حوالے سے مبینہ الزامات عائد کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل سے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی تھی، ریفرنس دائر ہونے کی خبر کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو خطوط لکھے تھے۔
بعد ازاں 7 اگست 2019 جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو ذاتی طور پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا اور 300 سے زائد صفحات پر مشتمل تفصیلی درخواست دائر میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ میرے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، لہٰذا عدالت سے استدعا ہے کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔
بعدازاں 19جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔
یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا تھا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئی تھیں۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے 19 جون کو جاری مختصر حکم کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ اور ان کے 2 بچوں ارسلان فائر عیسیٰ اور سحر عیسیٰ کی برطانیہ میں 3 آف شور جائیدادوں کی نوعیت اور فنڈنگ کے ذرائع کی وضاحت طلب کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مذکورہ ہدایت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کے تحت دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو شواہد کے ساتھ نوٹسز کے جوابات جمع کرانے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو تویہ اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ وقت پر جواب جمع کروائے اور کمشنر کے سامنے کارروائی کو کسی شخص کی پاکستان میں عدم موجودگی کی بنا پر ملتوی یا تاخیر کا شکار نہیں کیا جائے گا۔
حکم نامے کے مطابق فریقین نوٹسز کے جوابات، کسی مواد اور ریکارڈ جو مناسب سمجھیں ان کے ساتھ جمع کروائیں گے، اگر ان میں سے کوئی ملک سے باہر ہو۔
جوابات موصول ہونے کمشنر مدعی کو ذاتی طور پر یا نمائندہ/وکیل کے ذریعے سماعت کا موقع دے گا اور انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے مطابق حکم جاری کرے گا۔
نوٹسز موصول ہونے کے بعد کمشنر 60 دن کے اندر سماعت مکمل کرے گا اور وصولی کے 75 دن کے اندر حکم جاری کرے گا اور مذکورہ وقت میں کوئی التوا یا توسیع نہیں ہوگی۔
کمشنر کی جانب سے احکامات جاری ہونے کے 7 روز کے اندر فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین سماعت سے متعلق اپنی دستخط شدہ رپورٹ اپنے سیکریٹری-سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) میں جمع کروائیں گے۔
سیکریٹری رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کریں گے جو مناسب انداز میں اگر درخواست گزار سے متعلق کونسل کچھ تعین کرے تو رپورٹ کو جائزے، کارروائی، حکم یا سماعت کے لیے کونسل کے سامنے پیش کریں گے۔