یہ تقریباً چار دہائی پہلے کی بات ہے کہ دریائے راوی میں تیرتی ایک کشتی پر سوار کچھ نوجوان طلبا نے سفر کے دوران کشتی ران سے اس کا نام دریافت کیا، جواب ملا عابد حسین!
طلبا نے اگلا سوال داغا، کیا تم پڑھتے بھی ہو؟ کشتی ران نے جواب دیا، میں نے میٹرک کیا ہے۔
اب آگے نہیں پڑھنا، ایک طالبعلم نے پھر سوال کیا۔ کیا اس سے آگے بھی پڑھتے ہیں؟ نوجوان ملاح نے معصومانہ لہجے میں سوال کرنے والے سے حیران ہو کر پوچھا۔ جواب ملا ’ہاں یار، اس کے بعد بھی پڑھتے ہیں اور کالج جانا پڑتا ہے۔ تم تو اچھی کشتی چلا لیتے ہو تمھارا تو اس کھیل (روئنگ) کی بنیاد پر بھی داخلہ ہو سکتا ہے۔‘
اور پھر وہ کشتی ران کچھ روز بعد اپنے کاغذات لے کر گورنمنٹ کالج لاہور پہنچ گیا اور ان طلبا میں سے ایک سے جا کر ملا۔ پھر اس کا اسی کالج میں داخلہ ہو گیا مگر اس نوجوان کو اس وقت شاید علم نہیں تھا کہ اس درسگاہ میں داخلہ اس کی آنے والی زندگی کو کس قدر متاثر کرے گا، کیونکہ طالبعلم عابد حسین کے لیے عابد باکسر بننے کے سفر میں یہ داخلہ ہی سب سے اہم کڑی ثابت ہونے والا تھا۔
مجھے یہ واقعہ لاہور پولیس کے انسپکٹر عابد حسین المعروف عابد باکسر کے گورنمنٹ کالج لاہور(موجودہ یونیورسٹی) کے کلاس فیلو اور تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اُن کے دوست شاہد حسن نے سنایا۔ شاہد حسن آج کل ایف آئی اے میں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر تعینات ہیں۔
شاہد حسن کے مطابق ’عابد فزیکل فٹنس میں سب سے بہتر تھا۔ اسی وجہ سے ہم اسے باکسنگ کھیلنے کے لیے قائل کرتے رہتے کیونکہ ان دنوں اکثر گورنمنٹ کالج لاہور کی باکسنگ ٹیم بھی پوری نہیں ہوتی تھی۔‘
شاہد یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ایک دن سب دوست عابد کو باکسنگ رنگ میں لے گئے اور اسے کہا کہ پریکٹس کرے۔ اس نے دوران پریکٹس مدمقابل کھلاڑی کو ایسا مکا کارا کہ وہ رنگ سے باہر جا گرا۔ اساتذہ اور دوسرے کھلاڑی یہ سب دیکھ رہے تھے بس پھر اس روز کے بعد عابد نہ صرف کالج کی ٹیم میں شامل ہو گیا بلکہ اس سال انٹر کالج باکسنگ ٹورنامنٹ بھی جیت لایا۔‘
سنہ 1988 میں جب عابد باکسنگ کے کھیل میں کئی ٹورنامنٹ جیت کر اپنا نام بنا چکا تھا، پولیس میں بھرتیوں کا اعلان ہوا اور عابد باکسنگ کی بنیاد پر پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہو گیا۔ اگلے سال نیشنل گیمز میں پولیس کی طرف سے کھیلتے ہوئے باکسنگ میں گولڈ میڈل جیتنے پر تربیت کے دوران ہی عابد کو سب انسپکٹر بنا دیا گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب لاہور میں کئی بڑے جرائم پیشہ گروپ سرگرم تھے جن میں خنیفا اور شفیقا بابا، ہمایوں گجر، عاطف چوہدری، امیر الدین عرف بلا ٹرکاں والا، ججی اور گوگی بٹ اور بھولا سنیارا جیسے نام شامل تھے۔ لوگ ان جرائم پیشہ افراد کے نام سے ڈرتے تھے اور اجرتی قتل، ریپ، ڈکیتی اور بھتہ خوری کی وارداتیں عام تھیں۔
سنہ 1992-93 میں عابد باکسر کی تعیناتی سٹاف افسر کے طور پر اس وقت کے ایس پی کینٹ اور ایس پی سٹی لاہور اور بعد ازاں ایڈیشنل آئی جی کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے میر زبیر محمود کے ساتھ ہوئی۔ یہ ان کے پولیس کریئر میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا کیونکہ میر زبیر کے ساتھ تعیناتی کے دوران ہی عابد حسین نے عابد باکسر بننے تک کا سفر طے کیا اور یہ تبدیلی پھر زندگی بھر ان کے ساتھ جڑ گئی۔
میر زبیر کے ساتھ تعیناتی کے دوران ہی عابد باکسر نے ایک انتہائی مطلوب شدت پسند عبدالکریم کو لاہور میں یو ای ٹی کے سامنے ایک مقابلے میں ہلاک کیا۔ اس واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے عابد باکسر نے بتایا کہ عبدالکریم کو سنہ 1991 میں ایک پولیس ناکے پر پکڑا گیا تھا۔
’اسے اس وقت کے اے ایس پی میر زبیر کے پاس لے جایا گیا تو وہ کہنے لگا کہ صاحب مجھے ایک بھی جوتا پڑا تو میں آپ کا گھر بم سے آپ اڑا دوں گا۔ میر زبیر نے سمجھا شاید یہ مذاق کر رہا ہے لیکن دوبارہ پوچھنے پر اس نے گذشتہ چند برس میں ہونے والے بم دھماکوں کی تفصیلات دیں اور کہا کہ وہ بم اس نے نصب کیے تھے۔ جب پولیس اہلکاروں کو اس بات کی تصدیق کے لیے اس کے گھر بھیجا گیا تو وہاں سے واقعی بم برآمد بھی ہوئے۔‘
’کچھ عرصہ بعد وہ جیل چلا گیا اور سنہ 1993 میں لشکرِ جھنگوی کے شدت پسند ریاض بسرا کی مدد سے وہ ایک روز جیل سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور پھر اس نے میر زبیر کو فون کیا کہ میں باہر آ گیا ہوں اب آپ اپنی فکر کریں۔ انھوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ اسے ڈھونڈوں۔ میں نے دو ماہ تک اس کی ریکی کی اور پھر ایک روز جب میں رکشے میں ریکی کر رہا تھا تو یو ای ٹی کے سامنے وہ ایک موٹر سائیکل سے اترا اور میرے رکشے کے سامنے آ گیا اور جیسے ہی اس نے دیکھا کہ میں رکشے میں ہوں تو گولی چلانے لگا لیکن اس سے پہلے کہ وہ گولی چلاتا میں نے فائر کر دیا اور اسے مار ڈالا۔‘
اسی دوران عابد باکسر کے مقامی جرائم پیشہ گروپ کے سرغنہ عاطف چوہدری کے ساتھ بھی تین مرتبہ مقابلے ہوئے جن میں وہ زخمی تو ضرور ہوا لیکن بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔ عاطف چوہدری کے ساتھ ان پولیس مقابلوں کی وجہ سے ہی عابد حسین، عابد باکسر کے نام سے مشہور ہوئے۔
عابد باکسر کی اس کارکردگی نے انھیں لاہور پولیس میں اس وقت ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ سکواڈ‘ کے نام سے مشہور گروپ میں شامل کروا دیا جن میں اس وقت کے ڈی ایس پی عاشق مارتھ، ڈی ایس پی رانا فاروق، ڈی ایس پی طارق کمبوہ، انسپکٹر سعید نوید اور انسپکٹر عمر ورک شامل تھے۔
یہ پولیس افسران اور اہلکار سنہ 1999 تک بہت سے ایسے پولیس مقابلوں میں شامل رہے جن میں جرائم پیشہ عناصر کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق صرف شہباز شریف کے پہلے دور وزارت اعلیٰ (1997-99) کے دوران ایک ہزار کے قریب جرائم پیشہ افراد ایسے پولیس مقابلوں میں مارے گئے جن کے حقیقی ہونے پر سوال اٹھتے رہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق سنہ 1993 سے 1999 کے دوران صرف عابد باکسر کے ہاتھوں 70 سے زائد ایسے پولیس مقابلوں میں 100 سے زیادہ جرائم پیشہ افراد مارے گئے، جبکہ 160 سے زیادہ پولیس اہلکار اور 20 سے زیادہ عام شہری بھی ان مقابلوں کی نذر ہو گئے تھے۔
90 کی دہائی میں عابد باکسر کے ساتھ کام کرنے والے ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ جو بھی انکاؤنٹرز عابد باکسر نے کیے ہیں وہ سب اصلی ہی تھے۔ باقی پولیس والوں کی طرح عابد نے بھی بہت سے جرائم پیشہ لوگ ماورائے عدالت مارے ہیں اور اس وقت یہ تھوڑا ہی دیکھا جاتا تھا کہ انکاؤنٹرز اصلی ہیں یا جعلی، بس ایسے لوگوں کو پار کر کے جان چھڑانے کی پالیسی ہی رائج تھی۔‘
ان کے مطابق ’جب عابد باکسر تھانہ دھرم پورہ میں تعینات تھا تو عمیر راجہ نامی جرائم پیشہ شخص جس پر ریپ اور قتل کے مقدمے تھے اسے باکسر نے ایک کیس کی ’تفتیش‘ کے لیے ریمانڈ پر لے کر اگلے روز پولیس انکاؤنٹر میں مار دیا۔ ایک بات بڑی واضح ہے کہ جو بھی مقابلے رات کی تاریکی میں کیے جاتے ہیں وہ اکثر جعلی ہی ہوتے ہیں۔‘
پولیس افسر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اگر ایسے غنڈے اور بدمعاش جنھیں ہم نے ’پار‘ کیا اگر مناسب طریقے سے ان سے تحقیقات ہوتیں تو وہ لوگ بھی سامنے آتے جو انھیں پالتے ہیں، پناہ دیتے ہیں اور ایسا کچھ لوگ چاہتے نہیں تھے۔ آج تک ایسے جرائم پر اسی لیے تو قابو نہیں پایا گیا کیونکہ پولیس ان کی جڑ تک کبھی پہنچ ہی نہیں پائی۔‘
سنہ 1993 سے 1996 تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہنے والے میاں منظور وٹو نے صحافی شاہد اسلم کو بتایا کہ اپنے دورِ اقتدار میں ’غنڈہ عناصر سے نبٹنے کے لیے میں نے پولیس کو زیادہ اختیارات دیے جس کے بعد جرائم پیشہ افراد کے خلاف ایکشن لیا گیا۔‘
تاہم ان کے بقول پولیس کو زیادہ اختیارات دینے کا مطلب ہرگز یہ نہیں تھا کہ جرائم پیشہ افراد کو پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی تھی بلکہ پولیس کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے کو کہا گیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عابد باکسر جیسے کردار تب جنم لیتے ہیں جب قانون کی علمداری مساوی بنیادوں کی بجائے ’اپنے اور پرائے‘ کی بنیاد پر کی جائے۔ ان کے نزدیک ایسے عناصر کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے جو قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔
پنجاب کے موجودہ وزیر قانون راجہ بشارت، جو شہباز شریف کے پہلے دور وزارت اعلیٰ میں بھی وزیر قانون تھے، نے بتایا کہ اس وقت حالات کنٹرول کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں ہوم سیکرٹری پنجاب، آئی جی پنجاب، سپیشل برانچ کے سربراہ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے متعلقہ لوگ شامل تھے اور ان سے امن و عامہ پر مشاورت ہوتی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’اس دور میں بھی جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کے لیے پولیس مقابلوں کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی شخص ایسی باتوں کی حوصلہ افزائی کر سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ شہباز شریف کے دوسرے وزارت اعلیٰ کے دور میں بھی وزیر قانون کی سربراہی میں امن وعامہ پر کابینہ کی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور اس کمیٹی کی مشاورت کے بعد ہی امن و عامہ کے معاملات پر کوئی ایکشن لیا جاتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ کمیٹی اسی طرز پر اب بھی کام کر رہی ہے جس کی سربراہی وہ خود کر رہے ہیں۔
جعلی پولیس مقابلوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے عابد باکسر کا کہنا تھا کہ ’جرائم پیشہ لوگوں کو پار کرنے کی پالیسی ہمیشہ اوپر سے آتی ہے اور یہ کوئی تحریری شکل میں نہیں ہوتی۔ ایسی پالیسیوں کا گاڑیوں کی طرح چیسی نمبر نہیں ہوتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب کسی مریض کا شوگر یا کینسر کی بیماری کا لیول آخری سٹیج پہ چلا جائے تو پھر علاج ڈسپرین سے نہیں کرتے بلکہ آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے۔‘
عابد باکسر نے یہ بھی کہا کہ ’یہ تاثر کہ پولیس والے بندے اس لیے مارتے تھے کہ بڑا انعام یا ترقیاں ملتی تھیں، حقیقت نہیں ہے۔ میں نے کئی ایسے لوگوں کو بھی مارا جن پر لاکھوں روپے انعام تھا لیکن مجھے محکمے سے آج تک ایک روپیہ بھی نہیں ملااور نہ ہی کوئی ترقی ملی۔‘
پھر حالات کچھ ایسے بدلے کہ خود عابد باکسر پہ مقدمات قائم ہونے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور چند برس کے اندر ان پر جعلی پولیس مقابلوں، قتل، زمینوں پر قبضے جیسے الزامات کی بنیاد پر ایک درجن کے قریب مقدمات درج ہو گئے۔ عابد باکسر پر پہلی ایف آئی آر سنہ 1999 میں طاہر پرنس نامی شخص کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی بنیاد پر درج ہوئی اور پھر یہ سلسلہ چلتا چلا گیا۔
اکتوبر 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی نواز شریف کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی وجہ سے پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت بھی ختم ہوئی تو جہاں مبینہ پولیس مقابلوں کا سلسلہ جہاں تھما وہیں ایسے پولیس مقابلوں کے لیے بدنام پولیس اہلکار جو جرائم پیشہ عناصر کی ہٹ لسٹ پہ تھے ایک ایک کر کے مارے جانے لگے۔
ان افسران اور اہلکاروں میں سے صرف عمر ورک اور عابد باکسر ہی ایسے دو پولیس افسران ہیں جو زندہ بچے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ انھیں مارنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
عابد باکسر کی زندگی میں وہ لمحے بھی آئے جب انھیں محسوس ہوا کہ ایک ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ کو شاید ایک انکاؤنٹر میں ہی مار دیا جائے گا۔
انھوں نے بتایا کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب ’باغ بچہ اراضی کیس‘ میں وہ تین ماہ سے زیر حراست تھے تو ’11 اکتوبر 1999 کو اس وقت کے ایس ایس پی چوہنگ لاہور میر زبیر نے مجھے بتایا کہ ایک دو روز میں تمھیں مار دیں گے۔ اسی روز سپرنٹنڈنٹ کیمپ جیل نے بھی آ کر یہی کہا کہ یہ تمہیں مار دیں گے۔ میں ساری رات پریشانی کے عالم میں سو نہ سکا اور سوچتا رہا کہ میرے بچوں کا کیا بنے گا۔‘
’اگلے روز شام کے وقت کچھ اہلکار آئے اور کہنے لگے وضو کر لیں آپ کو تفتیش کے لیے لے کر جانا ہے۔ تب میں سمجھ گیا کہ مجھے مارنے کے لیے لے جانے لگے ہیں ورنہ وضو کروا کر کون تفتیش کرتا ہے۔ میں نے دعا کی یاﷲ میرے بچوں کی حفاظت کرنا۔ پھر تھوڑی دیر بعد سپرٹنڈنٹ دوبارہ بھاگتا ہوا آیا کہ ملک میں مارشل لا لگ گیا ہے اور فوج آ گئی ہے۔ اس طرح اس روز میری جان بچی۔‘
عابد باکسر کے مطابق ’سنہ 2008 میں جب دوست محمد کھوسہ وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے تو مجھے پھر اطلاع دی گئی کہ مجھے مار دیا جائے گا تو میں اسی رات دبئی چلا گیا۔‘
ان کے مطابق اس کے بعد دس برس کا عرصہ انھوں نے دبئی اور برطانیہ میں گزارا۔
عابد باکسر سنہ 2018 میں انتخابات سے قبل پاکستان واپس آئے تھے اور ان کی آمد کے موقع پر یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ انھیں شہباز شریف کے خلاف استعمال کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ تاہم اس بارے میں عابد باکسر کا کہنا ہے کہ ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں تھی اور وہ پاکستان اس لیے واپس آئے کیونکہ طویل جلاوطنی کاٹ چکے تھے اور مقدمات کا سامنا کر کے اپنا نام صاف کروانا چاہتے تھے۔
عابد باکسر کے بقول اب ان پر کوئی مقدمہ نہیں ہے اور پہلے درج کیے گئے مقدموں میں سے دو میں انھیں بری کر دیا گیا جبکہ باقی خارج ہو گئے۔
لاہور میں تعینات ایک سینیئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے کریمینل جسٹس سسٹم کے پانچ حصے ہیں جن میں مقننہ، قانون نافذ کرنے والے ادارے بشمول پولیس، پراسیکیوشن، عدالت اور جیل ہیں اگر یہ سب مل کر کام کریں گے تبھی جرائم پیشہ عناصر پہ قابو پایا جا سکے گا۔‘
انھوں نے کہا اگر پولیس تفتیش ٹھیک کرے، پراسیکیوشن موجود شہادتوں کو بہتر طور پر عدالت میں پیش کرے اور عدالتیں اس کے مطابق فیصلہ کر کے ملزمان کو سزائیں دیں تو ’پولیس مقابلوں‘ جیسے واقعات کبھی پیش ہی نہ آئیں۔ انھوں نے کہا کہ نظامِ انصاف میں خرابیاں ضرور موجود ہیں جنھیں صرف مل کر ہی حل کیا جا سکتا ہے نہ کہ سارا ملبہ پولیس پہ گرا دیا جائے۔
کریئر کے دوران جعلی پولیس مقابلوں کے علاوہ مختلف سکینڈلز اور الزامات بھی ان کی ذات کے ساتھ جڑتے رہے۔ سٹیج اداکارہ نرگس کے ساتھ ان کے تعلقات کی خبریں اور پھر کچھ اختلافات کی بنیاد پر مبینہ طور پر اداکارہ کا سر منڈوانے کا واقعہ مہینوں تک خبروں میں رہا۔
نرگس کے ساتھ اپنے افیئر کے متعلق بات کرتے ہوئے عابد باکسر نے کہا جب وہ سبزہ زار تھانے میں بطور ایس ایچ او تعینات تھے تو وہاں نرگس کے خاوند کی ایک کیس میں تفتیش کے دوران اُن سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے نرگس کے بال نہیں منڈوائے تھے مگر ڈانٹا ضرور تھا۔ انسان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ اس واقعے پر نرگس اور اپنے گھر والوں سے معافی مانگ چکا ہوں اور سنہ 2002 کے بعد سے میرا نرگس سے کوئی رابطہ نہیں ہے‘۔
یہی نہیں بلکہ ان پر پولیس مقابلوں میں ایک جرائم پیشہ گروہ سے پیسے لے کر مخالف گروہ کے لوگ مارنے اور زمینوں پر قبضے کروانے جیسے سنگین الزامات بھی لگے۔
لاہور کے سینیئر کرائم رپورٹر جمیل چشتی کے مطابق ’جب حکومت آپ سے کچھ غلط کام لیتی ہے تو کچھ غلط کام آپ پیسے لے کر اپنے لیے بھی کر لیتے ہیں اور کوئی آپ کو پوچھتا بھی نہیں اور عابد باکسر بھی ایسا ہی ایک کردار تھا۔‘
جمیل چشتی نے مزید کہا کہ کیا کبھی کسی نے پوچھا ہے کہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والا عابد باکسر اربوں روپے کا مالک کیسے بنا اور پولیس فورس میں رہتے ہوئے اس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟
پولیس مقابلوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے عابد باکسر کی نجی زندگی بھی متاثر ہوئی۔ ان کے مطابق ’برسرِ روزگار اور والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود انھیں کوئی رشتہ دینے پہ راضی نہ ہوتا بلکہ لڑکی والے ان کا نام سن کر بھاگ جاتے تھے۔‘
عابد باکسر نے بتایا ’1997 میں جب میں ایس ایچ او لوہاری تعینات تھا تو ایک روز ایک بڑی اچھی فیملی سے رشتہ آیا۔ لڑکی نے ایم بی بی ایس کیا ہوا تھا، وہ بھی خوش تھے کہ ایک ہی بیٹا ہے، انسپکٹر ہے اور گھر بار بھی ٹھیک ہے۔ میں انھیں پسند آ گیا اور پھر میری منگنی ہو گئی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’کچھ روزبعد انھوں نے فون کر کے پوچھا کہ بیٹا آپ کا اصل نام کیا ہے۔ میں نے کہا جی عابد حسین، انھوں نے کہا کہ آپ کو ویسے کیا کہتے ہیں، میں نے کہا جی کہ مجھے عابد حسین ہی کہتے ہیں تو وہ بولے تو بیٹا یہ عابد باکسر کون ہے۔ تب تک میں سمجھ گیا تھا کہ معاملہ گڑبڑ ہے،میں نے جواب دیا کہ میں ہی عابد باکسر ہوں۔ اس پر انھوں نے کہا بیٹا اپنا لائف سٹائل تبدیل کریں اور وہ رشتہ توڑ دیا۔‘
’ایک فیملی تو میرے مخافظوں کی تعداد دیکھ کر دروازے سے ہی بھاگ گئی اور دوسری میرا نام سُن کر۔ اس کے بعد جب بھی کوئی فیملی رشتہ دیکھنے گھر پر آتی تو ہم سب سے پہلے بندوقیں چھپا دیتے اور ساتھ ہی دعا کرتے کہ رشتہ ہو جائے۔ جہاں میری شادی ہوئی وہ لوگ جب مجھے پسند کر کے چلے گئے تو میں نے اپنے ماموں کو کہا کہ منگنی کی بجائے نکاح کرتے ہیں ایسا نہ ہو کہ انھیں بھی پتا چل جائے کہ میں عابد باکسر ہوں اور یہ بھی رشتہ ٹوٹ جائے۔‘
’انھیں بعد میں پتا تو چل گیا لیکن اس وقت تک نکاح ہو چکا تھا اور ہم نے انھیں اعتماد میں بھی لے لیا تھا کہ بہت سے باتیں بس ویسے ہی عابد باکسر کے ساتھ جوڑ دی گئی ہیں جن میں سچائی نہیں ہے‘۔
عابد باکسر کے بقول ’1999 میں ہدایت کار سید نور نے کہا کہ میں آپ پر فلم بنانا چاہتا ہوں اسی طرح مولا جٹ کے پروڈیوسر ملک یونس نے بھی کہا کہ آپ پر فلم بنانا چاہتا ہوں لیکن میں نے دونوں بار منع کر دیا تھا۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ نوکری پر دو سال قبل بحال بھی ہو گئے تھے لیکن فورس دوبارہ جوائن نہیں کی کیونکہ ان کے بقول وہ ایک اچھا دور گزار چکے ہیں اب واپس آ کر کیا کرنا ہے۔
پنجاب پولیس میں پولیس مقابلوں اور ان میں عابد باکسر جیسے اہلکاروں کے کردار پر بات کرتے ہوئے لاہور پولیس کے ایک سینیئر افسر کا کہنا ہے کہ ’جب معاشرے میں جرائم بڑھ جاتے ہیں تب عابد باکسر جیسے کردار اپنی شہرت اور پیسے کے لیے جرائم کی شرح کا جواز بنا کر جعلی پولیس مقابلے کرتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’عابد باکسر کے خلاف سنہ 1999 تک شاید ہی کوئی محکمانہ کارروائی ہوئی ہو کیونکہ محکمہ جرائم کو ختم کرنے میں ان کا معاون رہا لیکن جیسے ہی انھوں نے اپنی سرکاری حیثیت کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کیا تو محکمہ پیچھے ہٹ گیا۔‘