Site icon DUNYA PAKISTAN

سونے کی قیمتوں میں اضافہ: عالمی کساد بازاری کے دوران سرمایہ کار سونے میں سرمایہ کاری کو محفوظ کیوں سمجھتے ہیں؟

Share

پاکستان میں سونے کی قیمت میں اضافے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ملک میں اس قیمتی دھات کی قیمتیں تاریخ کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر ہیں۔

پاکستان میں ایک تولہ سونے کی قیمت اس وقت ایک لاکھ نو ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔ سونے کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کا معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے اور سونے کی عالمی منڈی میں فی اونس قیمت اٹھارہ سو ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔

پاکستان اور عالمی سطح پر سونے کی قیمتوں میں اضافہ اس وقت دیکھنے میں آ رہا ہے جب کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے مکمل لاک ڈاون اور سمارٹ لاک ڈاون کا نفاذ کیا گیا جس نے معیشت کو شدید متاثر کیا اور اس کے نتیجے میں بیروزگاری اور غربت میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

پاکستان میں لاک ڈاون کی وجہ سے جہاں معاشی سرگرمیاں سست ہوئیں تو وہیں حکومت نے دوسرے بہت سارے شعبوں جیسا کہ شادی ہالز اور کیٹرنگ سروسز بھی بند کر دیں۔ شادی ہالز کے بند ہونے کی وجہ سے شادیوں کی تقریبات میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

عام صارف کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ جب شادی تقریبات موخر ہو چکی ہیں اور زیورات کی طلب میں کمی ہے تو سونے کی قیمت میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

سونے میں سرمایہ کاری محفوظ کیوں ہے؟

پاکستان میں سونے کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق سونے کی قیمتوں میں اضافے کی اصل وجہ اس قیمتی دھات میں عالمی سطح پر بھاری سرمایہ کاری ہے، جسے موجودہ غیر یقینی معاشی صورت حال میں سب سے محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق دوسرے لفظوں میں ’سونے کی ذخیرہ اندوزی‘ عالمی اور مقامی سطح پر زور و شور سے جاری ہے جس نے اس کی قمیت میں بے پناہ اضافے کو جنم دیا ہے۔

سونے میں سرمایہ کاری کو اس وقت دنیا بھر میں محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں عارف حبیب کموڈٹیز کے چیف ایگزیکٹیو احسن محنتی کا کہنا ہے کہ دنیا میں جب بھی معاشی طور پر غیر یقینی صورتحال ابھری ہے تو سونے میں سرمایہ کاری کو محفوظ سمجھا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سونے میں سرمایہ کاری سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو سرمایہ کاری محفوظ رہتی ہے اور دوسرا سرمائے کی قدر بھی بڑھتی ہی رہتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ شرح سود پاکستان سمیت دنیا بھر میں کم ہوا ہے جس کی وجہ سے بنکوں میں پیسے رکھنے سے کوئی خاص منافع حاصل نہیں ہوتا اور اس طرح سٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ سرمایہ کار کو خوف میں مبتلا رکھتا ہے۔

’اس صورت حال میں سونے میں سرمایہ کاری سب سے محفوظ ہے کہ جس میں منافع بھی اچھا ملتا ہے اور کوئی نمایاں خدشہ بھی نہیں جس کی وجہ سے یہ فی الحال دنیا بھر میں سرمایہ کاروں کے نزدیک سب سے پُرکشش اور محفوظ سرمایہ کاری ہے۔‘

ڈارسن سکیورٹیز میں معاشی امور کے تجزیہ کار یوسف سعید نے بتایا کہ اس وقت سونے میں زیادہ سرمایہ امریکی اور یورپی سرمایہ کاروں کی جانب سے لگایا جا رہا ہے۔ یوسف نے مطابق انفرادی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر کام کرنے والے ایکسچینج ٹریڈ فنڈز بھی اپنے سرمائے کو سونے میں لگا رہے ہیں کیونکہ سٹاک مارکیٹ اور اجناس میں سرمایہ کاری کو موجودہ حالات میں زیادہ محفوظ نہیں سمجھا جا رہا۔

پاکستان میں سونے کی قیمت عالمی سطح سے بھی زیادہ کیوں ہے؟

سونے کی عالمی منڈی میں فی اونس قیمت اٹھارہ سو ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے

پاکستان میں سونے کی قیمت میں اضافے کی شرح عالمی مارکیٹ سے بھی زیادہ ہے۔

احسن محنتی کے مطابق رواں برس کے پہلے چھ مہینوں میں عالمی سطح پر سونے کی قیمت میں 23 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اگر پاکستان میں ان چھ مہینوں میں سونے کی قیمت میں اضافے کا جائزہ لیا جائے تو یہ 34 فیصد ہے۔

انھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر قیمت میں اضافے کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے مقامی سطح پر سونے کی قیمت کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔

’ہمارے تجارتی خسارے اور ادائیگیوں میں عدم توازن کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس میں فی الحال کسی کمی کا کوئی امکان نہیں جس کی وجہ سے سونے کی قیمت میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آتا رہے گا۔‘

یوسف سعید کہتے ہیں کہ پاکستان میں سونے کی قیمت تو عالمی سطح پر قیمتوں سے منسلک ہے مگر دوسری جانب ایکسچینج ریٹ میں بہت عدم توازن ہے اور ساتھ ساتھ سونے میں سرمایہ کاری کی شرح بھی بہت زیادہ بلند ہے جس نے طلب کو بڑھا دیا ہے جس کے نتیجے میں اضافے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں سٹاک، پراپرٹی اور سونا تین ایسے شعبے ہیں جن میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ ’اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے پراپرٹی کے شعبے میں کوئی خاص سرگرمی دیکھنے میں نہیں آ رہی تو دوسری جانب سٹاک مارکیٹ کارکردگی تو اچھی دکھا رہی ہے لیکن معیشت کی بری صورتحال کی وجہ سے اس میں سرمایہ کاری کو بھی محفوظ نہیں سمجھا جا رہا۔‘

’ایسے حالات میں اب سونے میں سرمایہ کاری کا واحد راستہ بچتا ہے اور جس میں سرمایہ کار اپنا پیسہ لگا رہے ہیں۔‘

یوسف کے مطابق پاکستان میں سونے کی خرید پر کوئی پابندی نہیں اور آپ جتنا سونا خریدنا چاہیں خرید سکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا ملک میں پاکستان مرکنٹائل ایکسچینج میں دوسری دھاتوں کے علاوہ سونے کی خرید و فروخت بھی کی جا سکتی ہے تاہم اس وقت زیادہ تر سرمایہ کاری انفرادی سطح پر ہو رہی ہے جس میں بڑے بڑے سرمایہ کار شامل ہیں۔

سونے کی قیمت میں مزید اضافہ متوقع ہے؟

لاک ڈاؤن کی وجہ سے بیشتر کاروباری سرگرمیاں بند ہیں

آل سندھ صرافہ جیولرز ایسوی ایشن کے صدر حاجی ہارون رشید چاند کا کہنا ہے کہ اس وقت سونے کی عالمی قمیت فی اونس اٹھارہ سو ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں بہت سے ملک اور عالمی مالیاتی اداروں کا بھی سونے میں سرمایہ کاری کرنے کا امکان ہے۔

ان کے مطابق آنے والے چند مہینوں سونے کی عالمی سطح پر قیمت دو ہزار ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے اور اسی بنیاد پر پاکستان میں بھی اس کی قیمت میں اضافہ ہو گا۔

یوسف سعید کہتے ہیں کہ اگر آنے والے دنوں میں چین اور انڈیا کی جانب سے سونے کی مانگ میں اضافے دیکھنے میں آیا تو اس کی قیمت میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔

محنتی کہتے ہیں کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق رواں برس سونے میں سرمایہ کاری سے ایک سال میں پچیس فیصد تک منافع ملنے کا امکان ہے جو موجودہ صورت حال میں کسی اور شعبے میں سرمایہ کاری سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

سونے کی مقامی مارکیٹ کی صورتحال

پاکستان میں سونے کی مانگ تو پورے ملک میں ہے تاہم کراچی اور لاہور سونے کی سب سے بڑی منڈیاں ہیں جہاں سے پورے ملک کو خام سونے اور زیورات کی سپلائی کی جاتی ہے۔

پاکستان میں نوے فیصد سے زائد خام سونا اور زیورات ان بڑے شہروں سے سپلائی کیے جاتے ہیں۔

حاجی ہارون چاند نے اس سلسلے میں بتایا کہ اگرسونے کی قیمت یونہی بڑھتی رہی تو سونے کے کاروبار سے وابستہ درمیانے درجے کے تاجر کا دیوالیہ نکل جائے گا۔

’ایک جانب کورونا وائرس کی وجہ سے زیورات کی طلب میں کمی ہے تو دوسری جانب سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق سونے میں سرمایہ کار تو پیسہ لگا رہے ہیں لیکن درمیانے درجے کا سونے کا تاجر اس سے بُری طرح متاثر ہوا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر یہی صورت حال رہی تو کاریگر طبقہ فارغ ہو جائے گا جس کا روزگار زیورات بنانے سے جڑا ہوا ہے۔

یاد رہے کہ جولائی 2018 میں سونے کی عالمی منڈی میں فی اونس قیمت تیرہ سو ڈالر تھی جو صرف دو سال کے عرصے میں پانچ سو ڈالر بڑھ کر اٹھارہ سو ڈالر سے تجاوز کر گئی۔

Exit mobile version