سال 2020کے شروع ہوتے ہی دنیا بھر میں ایک ایسی پریشانی کا دور شروع ہو اہے جس کو سوچ کر اب تک ذہن الجھا ہو اہے کہ آخر یہ پریشانیاں کب تک ہمارے ساتھ رہیں گی۔یوں تو کورونا کی شروعات پچھلے سال دسمبر میں چین سے ہوئی تھی لیکن جنوری کے آخر میں کورونا دھیرے دھیرے دنیا کے مختلف حصّوں میں پھیلنے لگا۔ پھر کورونا یورپ کے اٹلی میں داخل ہوا اور دھیرے دھیرے یورپ کے کئی ممالک میں پھیل گیا۔ اس کے بعد کورونا کا خوف پوری دنیا پر ایسا طاری ہوا کہ اب ہماری زندگی ایک عجیب و غریب کشمکش میں پھنس کر رہ گئی ہے۔
کورونا وائرس کا خوف تو طاری تھا ہی اسی دوران ایک نئی بات سامنے آئی اور وہ تھی ’لاک ڈاؤن‘ کا اعلان۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے ایک کے بعد ایک لاک ڈاؤن کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔ پھر کیا تھا ایسی افراتفری پھیلی کہ لوگ مارے خوف و ہراس گھروں میں بند ہوگئے۔ ضروری اشیاء کی دکانوں میں لوگوں کا ہجوم امڈ پڑا۔ کہیں گاہکوں کے بیچ جھڑپ ہونے لگی تو کہیں لوگ سامانوں کو جمع کرنے لگے۔ مت پوچھیے ہمیں تو قیامت کے منظر یاد آرہے تھے۔
لیکن ان ہی دنوں میں ایک اور بات سامنے آئی جو کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن سے بالکل الگ اور منفرد تھی۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں اس واقعہ کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں۔تمام کھیل کے مقابلے میں کھلاڑی ایک ٹانگ کو موڑ کر گھٹنوں پر بیٹھ کر اس واقعہ کی مذمت کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کھلاڑی اپنے کپڑوں پر (BLM-Black Lives Matter) بلیک لائیوز میٹر کے اشتہار بھی لگا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اشتہار کے طور پر بھی اسے دکھایا جارہا ہے۔
25مئی کو امریکہ کے شہر مینوپلیس میں ایک سیاہ فام شخص کو ایک پولیس آفیسر نے اپنے گھٹنے سے دبا کر مار ڈالا۔حالانکہ پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ وہ جورج فلویڈ کو زمین پر گرا کر اس کو گرفتار کرنا چاہ رہا تھا۔لیکن اس پورے واقعہ کابھانڈا اس وقت پھوٹا جب ایک عینی شاہد کی جانب سے بنائی گئی ویڈیو میں دکھایا گیا کہ اس شخص کو پولیس افسر نے زمین پر گرا کر اپنے گھٹنوں سے دبوچا ہوا ہے اور وہ سیاہ فام کہہ رہا ہے ’مجھے مت مارو‘،’میں سانس نہیں لے پارہا‘۔ اس واقعہ کے بعد سیاہ فام جورج فلویڈ نے دم توڑ دیا اور پورا امریکہ جلنے لگا۔اس واقعہ کے بعد امریکہ سمیت یورپ کے کئی ممالک میں پولیس کی درندگی کے خلاف زور دار احتجاج ہورہے ہیں۔
نسل پرستی ایک نظریہ ہے جو کسی انسانی نسل کا ممتاز ہونے یا کمتر ہونے سے متعلق ہے۔نسل پرستی کسی بھی خاص انسانی نسل کی کسی دوسری انسانی نسل یا ذات پر فوقیت یا احساس برتری کے بارے میں امتیاز کا ایک نظریہ ہے۔اس کے علاوہ نسل پرستی میں ایک نسل کی بنیاد پر سہولیات، حقوق اور سماجی فوائد تک رسائی محدود کر دی جاتی ہے اور نسل پرستی کے شکار لوگوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق، نسل پرستی اور گروہی امتیاز میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔یہ دونوں مجموعی طور پر ایک طرح کے معاشرتی مسائل ہیں۔ مثلاً ایک ایک خاص نسل کے لوگوں کو اعلیٰ سمجھنا یا ان کو سماج میں اعلیٰ مرتبہ دینا کیونکہ ان کا رنگ سفید یا وہ تاریخی اعتبار سے ایک کامیاب اور
اعلیٰ نسل مانے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر سفید امریکی،یورپ اورساؤتھ افریقہ کے لوگ جنہوں نے دنیا بھر میں حکومت کی اور دوسری نسل اور رنگ کے لوگوں کو غلام بنا کر اپنے لیے کام کروائے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نسل پرستی کے خلاف قوانین اور لوگوں میں اس کی جانکاری کچھ عرصہ قبل سے ہی عام ہوئی ہے۔ ورنہ تیس سال قبل نسل پرستی کے خلاف شکایت کرنا یا اس پر ایکشن لینا ایک غیر ضروری بات سمجھی جاتی تھی۔
حال ہی میں بی بی سی نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں شبنم چودھری کی نسل پرستی کی کہانی کی تفصیل ہے۔ شبنم چودھری میٹروپولیٹن پولیس کی اعلیٰ پولیس افسر ایشیائی خاتون تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پولیس کی نوکری کے دوران انہیں نسل پرستی کا سامنا رہا۔55 سالہ شبنم چودھری نے آخر کار30سال کی پولیس کی نوکری کے بعد 2019میں پولیس کی وردی کو خیر آباد کہہ دیا۔ان تیس برسوں میں شبنم چودھری کو کئی بار نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔
شبنم چودھری کا پولیس بننا ایک خواب تھا۔ لندن کے ایسٹ اینڈ میں پلنے بڑھنے والی شبنم چودھری کو ہمیشہ نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑا۔کبھی گھر کی کھڑکیوں کے شیشے چور کر دئے جاتے، تو کبھی نسل پرستی کے لیفلیٹ دروازے سے پھینکے جاتے تو کبھی سفید فام لوگ ان پر گالیوں کی بوچھار کرتے۔گویا کہ ایسی باتیں شبنم چودھری کی زندگی کا ایک حصّہ بن چکی تھی۔ ایک رات شبنم کی ماں مقامی مسجد سے پڑھا کر واپس آرہی تھیں تو ان پر نسل پرستوں نے زدوکوب کیا۔ کچھ دن بعد شبنم کی ماں نے نئے جوتے خریدے۔شبنم نے ماں سے پوچھا کہ آپ نے دوڑنے والے جوتے کیوں خریدے۔ شبنم کی ماں نے جواب دیا کہ اب نسل پرستوں کا حملہ مجھ پر ہوا تو میں آسانی سے بھاگ سکوں گی اور مسجد پڑھانے کا کام جاری رکھوں گی۔شبنم کا کہنا ہے کہ اس کی ماں کی اس بات نے اسے سکھایا کہ ’اسے اب نسل پرستی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا‘۔
شبنم چودھری اپنے والد کے کپڑے کی د کان پر کام کے دوران چوروں کو پکڑنے میں بڑی ماہر تھیں۔ وہ اکثر چور کو پکڑ لیتی اور پولیس شبنم سے کہتا کہ تم پولیس آفیسر کیوں نہیں بن جاتی۔
اس کے بعد شبنم چودھری نے پولیس کی نوکری کے لیے تین بار درخواست دی اور تینوں بار اس کی درخواست کو رد کر دیا گیا۔ تینوں بار شبنم سے کہا گیا کہ تم دبلی ہو، کم عمر ہو اور تمہیں زندگی کے تجربہ نہیں ہے۔ آخر کار 1989میں چھ سال بعد شبنم چودھری کو پولیس آفیسر کی نوکری مل گئی۔لیکن کچھ ہی برسوں میں شبنم چودھری کو اپنے کچھ ساتھیوں سے نسل پرستی کا تجربہ ہونے لگا۔ شبنم کو مذاق کے طور پر طرح طرح کی باتیں سنائی جاتیں تو کبھی اسے ایشیائی ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا۔ 1999میں شبنم کو ترقی ملی اور وہ ڈیٹیکٹیو سرجینٹ بن گئی۔ ان ہی دنوں میں میک پرسن رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد شبنم چودھری نے نسل پرستی کے خلاف شکایت درج کی۔ میک پرسن رپورٹ نے میٹروپولیٹن پولیس کو نسل پرستی کا ادارہ کہا تھا۔
شکایت درج کرنے کے کچھ ہی دنوں بعد شبنم کے ساتھ عجیب و غریب سلوک کیا جانے لگا۔ اس کے ساتھی اس سے بات نہیں کرتے۔ میز سے چیزیں غائب ہو جاتی۔شبنم چودھری کے حجاب پر مذاق بنا یا جاتا۔ اس طرح سے شبنم کی زندگی عذاب ہو گئی تھی اور اس کا نوکری کرنا دشوار ہوگیا تھا۔ تاہم ریٹائر ہونے سے قبل شبنم چودھری کچھ دنوں کے لیے سپریٹینڈنٹ ضرور بن گئی تھیں۔شبنم کا کہنا ہے کہ ان کو پولیس کی نوکری پر ناز ہے لیکن وہیں نسل پرستی پر بہت مایوس بھی ہیں۔
میٹروپولیٹن پولیس پر اس سے قبل بھی کئی بار نسل پرستی کا الزام لگ چکا ہے۔ اس کی کئی وجوہات مانی جاتی ہے۔ ایک تو بلیک ایشین مائنیریٹی ایتھنک پولیس آفیسر کو رنگ، نسل اور مذہبی عقیدے کی وجہ سے نسل پرستی کا شکار بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بلیک ایشین مائنیریٹی ایتھنک
کے آفیسر کو ترقی ہونے میں بھی نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی ایک مثال شبنم چودھری ہیں۔ جو ایک مسلم حجاب پہننے والی خاتون ہونے کی وجہ سے اپنے 30 سالہ پولیس کی نوکری میں متعدد بار نسل پرستی کی شکار ہوئی۔
55سالہ شبنم چودھری کی نسل پرستی کی کہانی سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ نسل پرستی کا زہر اب بھی سماج میں بلیک ایشین مائنیریٹی ایتھنک لوگوں کی زندگی کو عذاب بنائے ہوا ہے۔جو گاہے بگاہے شبنم چودھری جیسے لوگوں کو اپنا شکار بنا کر سماج میں ایک بدنام داغ چھوڑ دیتا ہے۔تاہم حکومت اور قانون ہمیشہ نسل پرستی کی پر زور مذمت کرتے رہتے ہیں اور نسل پرستی کے خلاف آوازیں بھی اٹھائی جاتی ہیں۔ لیکن آئے دن نسل پرستی کی کہانی سن کر اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ نسل پرستی اب بھی ہمارے درمیان سر اٹھائے اعلیٰ عہدے پر براجمان ہے۔