منتخب تحریریں

The Choice of the Turks

Share

مولانا محمد علی جوہر برصغیر میں وقیع صحافت کے امام تھے۔ رچے ہوئے سیاسی موقف کو ایسی کانٹے کی تول انگریزی نثر میںکم کسی نے بخشی ہو گی۔ کلکتہ سے انگریزی ہفت روزہ کامریڈ اور دہلی سے اردو روزنامہ ہمدرد نکالا۔ حریت فکر اور جوش عمل کا نادر امتزاج تھے۔ برسوں انگریز کی قید کاٹی۔ جولائی 1914 میں پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو ابتدائی طور پر برطانوی حکومت کی خواہش تھی کہ سلطنت عثمانیہ جنگ میں برطانیہ عظمیٰ کا ساتھ دے۔ اس مضمون پر مبنی ایک اداریہ لندن ٹائمز میں شائع ہوا۔ وطن پرست محمد علی جوہر کو برطانوی سلطنت کی اعانت کب قبول تھی۔ مولانا نے 26 ستمبر 1914 کو ہفت روزہ کامریڈ میں چالیس کالم پر محیط ایک تاریخی اداریہ لکھا۔ عنوان تھا The choice of the Turks۔ مولانا کا موقف تھا کہ ترکی کو اس جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ اخبار ضبط ہو گیا اور مولانا اگلے پانچ برس کے لئے اسیر ہو گئے۔ 1919 میں رہائی ملی تو علامہ اقبال نے استقبالیہ تقریب میں وہ نظم پڑھی جس کا مصرع ہے،’’ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند‘‘۔ 1923 میں مصطفیٰ کمال نے ’’ینگ ترک‘‘ نامی گروہ کی مدد سے خلافت کی بساط لپیٹ دی اور اقبال نے لکھا،’’ چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا‘‘۔ ترک ناداں اور’’ینگ ٹرکس‘‘ میں تعلق آپ جیسے صاحبان فہم سے کیسے مخفی رہ سکتا ہے؟

آج رئیس الاحرار محمد علی جوہر کی یاد یوں آئی کہ مولانا کے تاریخی اداریے کا کلیدی لفظ چوائس ان دنوں ہماری سیاسی فضا میں گونج رہا ہے۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ ان کے متبادل کے طور پر کوئی چوائس موجود نہیں۔ ان کے طائفے میں ایک صاحب نے تو پارٹی سے ’’غداری‘‘ کرنے والوں کے لئے پھانسی کی سزا تجویز کی ہے۔ صاحب موصوف نے 2018 میں بھی صاحب الامر کے اتباع میں 5000 پھانسیوں کی تجویز دی تھی۔ اس دوران محترم صحافی سلیم صافی نے بھی ایک کالم سپرد قرطاس کیا،’’ نواز شریف اور زرداری کی مجرمانہ سیاست‘‘۔ سلیم صافی ان چنیدہ صحافیوں میں سے ہیں جو شائستہ قلم ہیں، دھیمے لہجے میں دلیل دیتے ہیں۔ ان سے اختلاف کرتے ہوئے بدمزگی کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ سلیم صافی کا بنیادی نقطہ نظر، جیسے میں سمجھ پایا، کچھ یوں ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف نے حالیہ ادوار میں اپنی ’’مجرمانہ سیاست‘‘ کی بدولت عمران خان کو چوائس بنا دیا۔ کس کی چوائس بنا دیا؟ یہ تصریح صافی صاحب نے نہیں کی۔ عمران خان کی حکومت ان دنوں معیشت اور گورننس کا جو کچومر بنا رہی ہے، سلیم صافی اس کی ذمہ داری زرداری اور نواز شریف کے کندھوں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہر دو سیاسی رہنماؤں کو’’روڈ میپ‘‘ دینا چاہیے۔ ایک مزے کا جملہ یہ بھی لکھا کہ ’’ یہ تو کوئی سیاست نہ ہوئی کہ۔۔۔ مقتدر حلقوں کو سزا دینے کے لئے پوری قوم کو سزا دی جائے‘‘۔ یوں کہیے کہ سلیم صافی ’’محفوظ راستہ‘‘ مانگ رہے ہیں۔

صحافی کسی سیاسی رہنما کا ترجمان نہیں ہوتا۔ اس کا کام اپنے مشاہدے اور تجزیے کی روشنی میں پڑھنے والے کے سامنے اپنی رائے رکھنا ہے۔ درویش آصف علی زرداری اور نواز شریف کو قوم کے محسنوں میں شمار کرتا ہے۔ دسمبر 2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے بہت بڑا بحران پیدا ہو گیا تھا۔ زرداری صاحب نے دکھ کی اس گھڑی میں’’پاکستان کھپے‘‘ کا اعلان کیا، اس دو لفظی جملے کی اہمیت وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جو ہمارے وفاق کی نزاکت ہی سے ناآشنا ہیں۔ صدر بننے کے بعد آصف زرداری کا کارنامہ اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کروانا تھا۔ اس ملک میں قصر صدارت روایتی طور پر منتخب وزرائے اعظم کے خلاف سازشوں کا مرکز رہا ہے۔ غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری تو آپ کو یاد ہوں گے۔ زرداری صاحب نے وزیر اعظم کے اختیارات قائد ایوان کو سونپ کر پارلیمانی جمہوریت بحال کر دی۔ انہوں نے محض چند اختیارات وزیر اعظم کو منتقل نہیں کئے، پارلیمانی جمہوریت وفاق پاکستان کے استحکام کی ضمانت ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ ضیاالحق اور پرویز مشرف نے آئینی ترامیم میں دستور کا پارلیمانی تشخص مسخ کیا۔ آصف علی زرداری کی انتظامی اہلیت پر سوال ہیں۔ وہ گروہی سیاست کی خرابیوں سے مبرا بھی نہیں ہیں۔ لیکن خیال رہے کہ ان کی حکومت کو مذہبی دہشت گردی کے خوفناک بحران، این آر او، عدلیہ بحالی، کیری لوگر بل، سوئس اکاؤنٹ کیس، این ایف سی ایوارڈ، اٹھارہویں آئینی ترمیم پر انیسویں ترمیم کے حملے، میمو گیٹ اسکینڈل اور مسلسل میڈیا ٹرائل جیسے مسائل کا سامنا رہا۔ ان مشکلات کے ہوتے ہوئے آصف علی زرداری نے سی پیک جیسے منصوبے کی بنیاد رکھی۔ 2013 میں نواز شریف نے حکومت سنبھالی تو ملک کو دو بدترین مسائل درپیش تھے۔ دہشت گردی اور توانائی کا شدید بحران۔ نواز حکومت کے خلاف سازشیں تو 2013 ہی میں شروع ہو گئی تھیں۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ نواز شریف بھارت سے تعلقات معمول پر لانے کے دیرینہ نصب العین پر قائم تھے اور سول بالادستی کے خواب سے دستبردار نہیں ہوئے۔ ان ’’جرائم‘‘ کی پاداش میں دھرنے سے لیکر ڈان لیکس اور پانامہ تک کی بساط بچھائی گئی،۔ اس کے باوجود اپریل 2018 تک توانائی کا بحران حل ہو چکا تھا، دہشت گردی کے سیل بے اماں پر بند باندھا جا چکا تھا اور ملکی معیشت 5.8 فیصد کی رفتار سے ترقی کر رہی تھی۔ محترم سلیم صافی کہتے ہیں کہ ’’آصف زرداری جعلی نظام کا سہارا بنے‘‘ نیز یہ کہ’’میاں نواز شریف نے۔۔۔ خوشامدیوں کے ورغلانے پر پنگے بازی کی۔۔۔ وہ اگر اس وقت بات مان جاتے اور میاں شہباز شریف کو آگے کرنے پر آمادہ ہوجاتے۔۔۔‘‘ حضور جعلی نظام کا خالق کون تھا؟ اور میاں نواز شریف سے کیا بات منوانا مقصود تھی؟ عمران خان کے سونامی کی خبر تو سب سے پہلے سلیم صافی نے جولائی 2011 میں ہمیں کچھ اس رنگ میں دی تھی کہ’’جہانگیر ترین اور اسحاق خاکوانی جیسے کلین سیاستدان‘‘ نئی سیاسی قوت تشکیل دیں گے۔ ترک تاریخ میں پاشا نام کا ایک منصب ملتا ہے۔ اسی رعایت سے جان لیجئے کہ انصاف کا سونامی تو’’نوجوان ترکوں کی چوائس‘‘ تھی۔ زرداری اور نواز شریف کیوں روڈ میپ دیں؟ ہمارا روڈ میپ دستور پاکستان کی صورت میں موجود ہے۔ البتہ فیصلہ سازوںیہ کی چوائس ہے کہ انہیں شاہراہ دستور پر چلنا ہے یا مزید گڑھے کھودنا ہیں۔