عمران خان عثمان بزدار صاحب کی پشت پہ بدستور کھڑے ہیں۔ صحافتی پیش گوئیاں ایک بار پھرخطرے میں پڑ گئیں۔
جس سیاست کی کوئی کَل سیدھی نہ ہو، اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی کیسے کی جا سکتی ہے؟ اہلِ صحافت کی مگر یہ مجبوری ہے کہ لوگ ان سے ‘اندر کی خبر‘ جاننا چاہتے ہیں۔ انہیں کچھ سن گن ملتی ہے تو اس میں اپنا تخیل شامل کرکے وہ اسے ایک پیش گوئی میں ڈھال دیتے ہیں۔ یوں لوگ ایک دو ماہ اس پر گفتگو کرتے اور مفروضے قائم کرتے گزار دیتے ہیں۔ دو ماہ بعد ایک نئی پیش گوئی سامنے آتی ہے اور یوں گلشنِ صحافت کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔
پیش گوئیاں وہاں پوری ہوتی ہیں جہاں نظام کسی فارمولے کے تحت آگے بڑھتا ہے۔ سیاست ایک سائنس ہے۔ اگر فطری ہو تو ریاضی کے فارمولوں کی طرح نتائج دیتی ہے۔ جہاں یہ اتائیوں کے نرغے میں ہو، وہاں کسی فارمولے کا اطلاق ممکن نہیں۔ ایسے معاشروں میں پیش گوئی کبھی پوری ہو جاتی ہے لیکن بسا اوقات ہوا میں بکھر جاتی ہیں۔ جیسے ایک اتائی کے علاج سے کوئی مریض صحت مند بھی ہو جاتا ہے لیکن اکثر جہانِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست دم توڑ چکی۔ سیاست کیا، نظامِ معاشرت ہی باقی نہیں رہا۔ روایت کی خوبی یہ ہے کہ وہ جاتے جاتے جاتی ہے۔ یوں سماجی انہدام یک دم نہیں ہوتا۔ اس میں کئی دھائیاں لگ جاتی ہیں۔ چالیس سال سے ہمارے ہاں سماجی شکست و ریخت کا عمل جاری ہے جس کے نتائج ہمیں اپنی گرفت میں لے رہے ہیں۔ افسوس کہ کم لوگ ہی اس کا ادراک کر پاتے ہیں۔
ریاست سماج کی سیاسی تجسیم ہے۔ سماج زوال پذیر ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ریاست ترقی کرے۔ سیاسی عمل چند سیاسی اقدارکا پابند ہوتا ہے۔ یہ اقدار باقی نہیں ہیں۔ اس ماحول میں ہم سیاست پر کسی فارمولے کا اطلاق نہیں کر سکتے۔ بزدار صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا انتخاب کوئی سیاسی فیصلہ تھا نہ ان کا منصب پر باقی رہنا کسی سیاسی بصیرت کا حامل تھا ۔ آپ چاہیں تو اس کی کوئی روحانی تعبیر کریں اور چاہیں تو نفسیاتی تحلیل۔ جب روحانیت اور نفسیاتی عارضے سیاست کے اجزائے ترکیبی بن جائیں تو کوئی پیشگوئی کیسے ہو سکتی ہے؟ عمران خان بزدار کو اس لیے نہیں ہٹاتے کہ ان کی تعیناتی خان صاحب کا اپنا فیصلہ تھا۔ تمامتر اعتراضات کے باوجود وہ ان کی پشت پر کھڑے رہے۔ وہ ان کے اعمال سے کسی طور بری الذمہ نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بزدار کو ہٹانے کا مطلب اپنے فیصلے کے غلط ہونے کا اعلان ہے۔ دوسری جانب عمران خان کی پشت بھی خالی نہیں ہے۔
اب کوئی اپنے فیصلے کو غلط ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنے فیصلے کا اسیر بن چکا۔ یہی معاملہ ن لیگ کا ہے۔ وہ پہلے دن سے ابہام کا شکار ہے۔ نہ نوازشریف صاحب کے بیانیے کو اس کی روح کے مطابق قبول کر پائے ہیں اور شہباز شریف صاحب کی حکمتِ عملی کو پوری طرح اختیار کر سکے ہیں۔ وہ اپنی اس دو رنگی کی گرفت میں ہیں۔ فطری سیاست کسی کی نہیں ہے۔ اب اس سیاست کے بارے میںکوئی کیا پیش گوئی کرے؟
ا س سیاست کی یہی شتر گربگی ہے کہ مجھے روزمرہ واقعات سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ بزدار کیا‘ اگر عمران خان بھی چلے جائیں اور نظام اسی طرح غیر فطری انداز میں آگے بڑھتا رہے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ کچھ دنوں کے لیے ان کے مخالفین کی نفسیاتی اطمینان کا باعث بن سکتا ہے، اس کے علاوہ اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔
پاکستان کی سیاست کو فطرت کی طرف لوٹنا ہو گا۔ اس باب میں چند بنیادی مقدمات پر جب تک کوئی فکری یک سوئی پیدا نہیں ہو گی، اس کی فطری ساخت بحال نہیں ہو سکتی۔ ہماری سیاست کا مسئلہ یہ نہیں کہ بزدار یا عمران خان رہیں یا نہ رہیں، بنیادی مسئلہ اس کو کسی فارمولے کا پابند کرنا ہے۔ یہ بنیادی مقدمات کچھ اس طرح ہیں:
1۔ ریاست اس لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی حدود میں آباد شہریوں کو بغیر کسی امتیاز کے جان و مال کا تحفظ فراہم کرے۔ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے۔ ریاست کے ساتھ سیکولر، اشتراکی یا اسلامی کے سابقے لاحقے صرف ابہام پیدا کرتے ہیں۔
2۔ ریاست کی مضبوطی سیاسی استحکام پر منحصر ہے۔ سیاسی استحکام اس وقت آتا ہے جب عوام کو یہ یقین ہو کہ سیاسی نظام ان کی مرضی سے قائم اور ختم ہوتا ہے۔ جبر سیاسی استحکام کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
3۔ ریاست کے سب ادارے ان حدود کے پابند ہوں جو آئین نے ان کے لیے طے کر دی ہیں۔
4۔ سیاست دان اپنے نعروں سے عملی وابستگی کا ثبوت دیں۔ سیاسی جماعتیں جمہوری اصولوں کے مطابق اور ایک منشور کے تحت منظم ہوں۔لیڈر کا انتخاب کارکنوں کا حق ہو۔
5۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور کے مطابق عوام کو ہم نوا بنائیں؛ تاہم چند بنیادی اقدار پر ان میں ہم آہنگی ہو۔ جیسے منصفانہ انتخابات، آزاد میڈیا، اہلِ سیاست کا احتساب یا جمہوری عمل کا تسلسل۔
ہماری سیاست ان بنیادی مقدمات میں سے کسی ایک کے ساتھ عملی وابستگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ بڑے بڑے سیاست دان اور ریاستی مناصب پر فائز لوگ بھی اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں کہ ریاست کیوں وجود میں آتی ہے اور اس میں استحکام کیسے پیدا ہوتا ہے؟ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ دانشور کہلوانے والے بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی ریاست کی عسکری قوت اس کے استحکام کی ضامن ہے۔ یہ قوت استحکام کی ایک ضرورت ہے، بنیاد نہیں۔ ضروریات بہت سی ہو سکتی ہیں، بنیاد ایک ہی ہوتی ہے۔
اسی طرح اسلامی یا سیکولر ریاست کی بات کر کے بھی ایک ابہام پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ اسی ابہام کا شاخسانہ ہے کہ اب احسان اللہ احسان بھی خود کو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ کہنے لگے ہیں۔ اگر عوام کی تائید ریاست کی اصل قوت ہے تو ان کی رائے کا احترام ہی مستحکم ریاست کا بنیادی پتھر ہے۔ ان کی رائے جس نظریے یا فکر کی مظہر ہو گی، اس کا اظہار ان کے منتخب افراد کی شخصیات کے افکار سے ہو جائے گا۔
اگر ان بنیادی مقدمات پر کوئی اتفاق نہیں ہے۔ لوگ ان کی اہمیت ہی سے واقف نہیں ہیں تو عمران خان ہوں یا کوئی اور، ملک کے حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اس میں شبہ نہیں کہ وزارتِ اعلیٰ ایک انتظامی منصب ہے۔ اگر اس پر کوئی باصلاحیت فرد بیٹھا ہو گا تو اس سے فرق پڑے گا۔ اس کا ادراک لیکن وہ آدمی کیسے کر سکتا جو خود کسی فطری سیاسی عمل کے نتیجے میں وزیر اعظم نہ بنا ہو؟
پاکستان پہلے تجربہ گاہ تھا، اب چراہ گاہ ہے۔ طاقت والے اپنی آرزوئوں کے لیے یہاں سے چارہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ وزارتِ عظمی کا منصب ہو یا وزارتِ اعلیٰ کا، وہ اس کو عوام یا ملک کے بجائے طبقاتی، اداراتی یا شخصی مفادات کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ جب لوگوں میں شعور بیدار ہونے لگتا ہے اور وہ صحیح نتائج کے قریب پہنچتے ہیں تو نیا چہرہ متعارف کرا دیا جاتا ہے۔ میڈیا کے غازے اور پروپیگنڈے کی سرخی پاؤڈر سے اس کے خدوخال کو خوش نما بنا دیا جاتا ہے۔ عوام ایک بار پھر دھوکہ کھا جاتے ہیں‘ جب یہ سرخی پاؤڈر اترنے لگتا ہے تو پھر نیا چہرہ سامنے آجاتا ہے۔
جو لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ بزدار صاحب جانے والے تھے، انہیں پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ جن کے آنے سے کچھ نہیں ہوتا، ان کے جانے سے بھی کچھ نہیں ہوتا۔