ہندوستان میں مغلوں کی حکومت تیزی سے سمٹ رہی تھی۔ افغانستان اور ایران سے حملہ آوروں کی یورش بڑھ رہی تھی جس کے خلاف مزاحمت مقامی سکھ کرتے تھے۔ اسی اٹھارویں صدی میں سربت خالصہ پارلیمان کی طرح سکھوں کا اکال تخت، ہرمندر صاحب، امرتسر میں ہر دو سال بعد ہونے والا ایک اکٹھ تھا جہاں سکھوں کو درپیش کسی مسئلے کا حل ڈھونڈا جاتا تھا۔سربت خالصہ ہی کے انتظام کے تحت پنجاب میں سکھوں کے بارہ علاقے یا مثلیں تھیں۔ ان میں سے پانچ زیادہ طاقتور تھیں۔
سکرچکیا مثل راوی اور چناب دریاؤں کے درمیانی علاقے پرمشتمل تھی، گوجراں والا اس کا صدر مقام تھا۔ اسی علاقے سے افغان حملہ آور ہوتے تھے۔ لاہور اور امرتسر زیادہ طاقتور بھنگی مثل کے پاس تھے۔ مشرق میں ماجھا (فتح گڑھ کوریاں، بٹالا اور گرداس پور) کنہیا مثل کا علاقہ تھا۔ نکئی قصور کے عمومی علاقے پر حکمران تھے۔ رام گڑھیا، اہلووالیا اور سنگپوریا مثلیں زیادہ تر دوآبہ علاقے میں تھیں۔
دس سال کی عمر میں پہلی جنگ
سکرچکیا مثل کے سربراہ مہان سنگھ اور راج کور کا بیٹا 1780 میں پیدا ہوا تو بدھ سنگھ نام ملا۔ بچپن ہی میں چیچک نے بائیں آنکھ کی بینائی چھینی اور چہرے پر گڑھے ڈال دیے۔ چھوٹا قد، گورمکھی حروف تہجی کے علاوہ نہ کچھ پڑھ سکتے تھے نہ لکھ سکتے تھے۔ ہاں گھڑسواری اور گھر پر فن حرب خوب خوب سیکھا۔ پہلی لڑائی دس سال کی عمر میں اپنے والد کے ہم رکاب لڑی۔میدان جنگ میں لڑکپن ہی میں فتح پائی تو اسی رعایت سے والد نے نام رنجیت رکھ دیا۔
مہان سنگھ کے کنہیا مثل کے سربراہ جے سنگھ سے اچھے تعلقات تھے مگر جموں سے مال غنیمت کے معاملے پر اختلاف ہو گیا۔انھوں نے ان کے خلاف رام گڑھیا مثل سے الحاق کرلیا۔ 1785 میں بٹالا کی لڑائی میں کنہیا مثل کے ہونے والے سربراہ گربخش سنگھ مارے گئے۔
گربخش کی بیوی سدا کور نے کنہیا مثل کے سربراہ اور اپنے سسر پر صلح جوئی کے لیے زور دیا اور وہ ان کی بات مان بھی گئے۔ سدا کور نے دشمنی کے بجائے مل کر آگے بڑھنے اور طاقت بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ جوالا مکھی کے مقام پر رنجیت سنگھ کی والدہ راج کور سے 1786 میں ملیں اور دونوں خواتین نے دشمنی ختم کرنے کے لیے اپنے بچوں رنجیت سنگھ اور مہتاب کور کی شادی کا فیصلہ کیا۔
رنجیت سنگھ کی زندگی میں آنے والی اہم خواتین
رنجیت سنگھ بارہ سال کے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ تب ہی سے ان کی زندگی میں خواتین کے اہم کردار کی ابتدا ہوتی ہے۔
والد کی جگہ سکرچکیا مثل کے حکمران ہوئے تو والدہ راج کور کی سرپرستی میسر آئی جو اپنے معاون دیوان لکھ پت رائے سے مل کر جائیداد کا بندوبست کرتی تھیں۔ تیرہ سال کی عمر میں قاتلانہ حملہ ہوا مگر رنجیت سنگھ نے حملہ آور پر قابو پاکر اسے ہلاک کر دیا۔
پندرہ یا سولہ برس کے ہوں گے جب کنہیا مثل کے بانی جے سنگھ کنہیا کی پوتی اور گوربخش سنگھ اور سدا کور کی اکلوتی بیٹی مہتاب کور سے شادی ہوئی۔ مہتاب کور رنجیت سنگھ سے دو سال چھوٹی تھیں۔ تاہم یہ شادی ناکام ہی رہی کیوں کہ مہتاب کور نے کبھی یہ نہ بھلایا کہ ان کے باپ کی رنجیت سنگھ کے والد نے جان لی تھی اور وہ زیادہ عرصہ اپنے میکے ہی رہیں۔ مورخین کے مطابق مہارانی کا خطاب صرف انھیں ہی ملا باقی سب رانیاں تھیں۔ ان کی وفات کے بعد آخری رانی جندکور کو یہ خطاب نصیب ہوا۔
رنجیت سنگھ کی عمر 18 سال تھی جب ان کی ماں کی وفات ہوئی۔ دیوان لکھ پت رائے بھی قتل ہوگئے۔ تب ان کی پہلی بیوی مہتاب کور کی والدہ سدا کور ان کی مدد کے لیے موجود تھیں۔
سدا کور نے رنجیت سنگھ کے راج کی بنیادیں رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ افغان حکمران شاہ زمان نے تیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ لشکر کشی کی اور پنجاب میں لوٹ مار کی۔ تمام سکھ سردار افغانوں سے لڑنے سے خائف تھے۔ سدا کور نے رنجیت سنگھ کی طرف سے امرتسر میں سربت خالصہ کا اکٹھ کیا اور سکھ مثل داروں سے کہا ‘خالصہ جی اگر آپ میں لڑنے کی ہمت نہیں ہے تو میں پنجاب کی آن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دے دوں گی۔’
سداکور رنجیت سنگھ کی قسمت کی دیوی
سدا کور رنجیت سنگھ کی خوش دامن ہی نہیں ان کی قسمت کی دیوی بھی تھیں۔ سدا کور نے، جو اپنے سسر کی 1789 میں وفات کے بعد کنہیا مثل کی سربراہ بنی تھیں، مہاراجہ بننے میں رنجیت سنگھ کی مدد کی۔ سدا کور ہی کے کہنے پر رنجیت سنگھ کا 19 سال کی عمر میں دفاعی فوج کی کمان سنبھالنے کے لیے انتخاب ہوا۔
رنجیت سنگھ نے 1797 اور 1798 میں شاہ زمان کو شکست دی اور کنہیا مثل کے ساتھ مل کر بھنگی حکمرانوں کو 1799 میں لاہور سے نکال باہر کیا۔ بعد کے برسوں میں وسطی پنجاب کا ستلج سے جہلم تک کا علاقہ ان کے زیرنگیں ہوا اور سکھ سلطنت کی بنیاد ڈالی گئی۔
1804 میں پیدا ہونے والے مہتاب کور کے پہلے بیٹے ایشر سنگھ ڈیڑھ یا دو سال کی عمر میں چل بسے۔ یہ رنجیت سنگھ کے دوسرے بیٹے تھے کیوں کہ ان سے پہلے کھڑک سنگھ کی پیدائش 1801 میں ہو چکی تھی جو دوسری بیوی دتار کور کے بیٹے تھے۔ یہ دتار کور سے 1798 میں شادی ہی تھی جس سے مہتاب کور کی رنجیت سنگھ سے عارضی علیحدگی مکمل ہوگئی۔
دتار کور نکئی مثل کے سربراہ کی بہن اور سردار رن سنگھ نکئی کی سب سے چھوٹی بیٹی تھیں۔ ان کا اصل نام راج کور تھا جو رنجیت سنگھ کی والدہ کا بھی تھا۔ اسی لیے پنجابی روایت کے احترام میں یہ نام بدل دیا گیا۔ 1801 میں انھوں نے کھڑک سنگھ کو جنم دیا جو رنجیت سنگھ کے جاں نشین ہوئے۔ کھڑک سنگھ کو حکمرانی کے پہلے ایک آدھ سال ہی میں زہر دے دیا گیا۔
رنجیت سنگھ کا منکسر المزاج طرز حکومت
کھڑک سنگھ کی پیدائش کے بعد رنجیت سنگھ نے مہاراجہ کا لقب اپنا تو لیا مگر خود کو سنگھ صاحب کہلوانا زیادہ پسند کرتے تھے۔ رنجیت سنگھ نے اپنے نام کے سکے بھی جاری نہیں کیے بلکہ سکوں پر بابا گورونانک کا نام تھا۔ مصنف جے بنس سنگھ کے مطابق رنجیت چنگھ نے ان پڑھ ہونے کے باوجود زبانی حکم کی بجائے لکھے ہوئے احکامات کا نظام رائج کیا جس کے لیے پڑھے لکھے عمال مقرر کیے۔
ہردیو ورک لاہور کے فقیر گھرانے کی یادداشتوں پر مبنی رنجیت سنگھ پر لکھی اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ ’رنجیت سنگھ تخت پر براجمان نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ کرسی پر آلتی پالتی مار کر دربار منعقد کرتے تھے۔ اپنی پگڑی یا لباس میں کسی شاہانہ طغرا کا اضافہ نہیں کیا۔‘
وہ اپنے درباریوں سے کہتے تھے ’میں ایک کسان اور ایک سپاہی ہوں، مجھے کسی دکھاوے کی ضرورت نہیں۔ میری تلوار ہی مجھے وہ امتیاز دے دیتی ہے جس کی مجھے ضرورت ہے۔‘
رنجیت سنگھ اپنی شباہت پر تو کچھ خرچ نہیں کرتے تھے مگر اپنے اردگرد خوب صورتی، رنگ اور خوشی کی موجودگی کے طالب تھے۔
فقیر عزیزالدین کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ خدا کی طرف سے (چیچک کے بعد) آنے والی کمی پر راضی بہ رضا تھے۔ انہی کے مطابق ایک بار مہاراجہ ہاتھی پر سوار پھلا سنگھ کی بالکنی کے نیچے سے گزر رہے تھے۔ اس نہنگ سردار اور اکال تخت کے جتھے دار نے حقارت سے پکار کر کہا ’او کانے، تینوں ایہ جھوٹا کنے دتا سواری لئی ( اے ایک آنکھ والے، تمھیں یہ بھینسا کس نے دیا سواری کو)‘۔ رنجیت سنگھ نے نگاہ اوپر کی اور عاجزی سے کہا ’سرکار ایہ تھاڈا ای تحفہ اے (سرکار، یہ آپ ہی کا دیا تحفہ ہے)‘۔
نوجوانی میں مے نوشی کی عادت پڑی جو دربار کے مؤرخین اور یورپی مہمانوں کے بقول بعد کی دہائیوں میں پختہ ہوتی گئی۔ تاہم تمباکو نوشی خود کی نہ دربار میں اس کی اجازت دی بلکہ یہ ممانعت ملازمت کے معاہدے کا حصہ ہوتی تھی۔
دوسری بیوی دتار کور پسندیدہ اور اہم ریاستی امور کی مشیر
دتارکور سیاسی معاملات میں دلچسپی لیتیں اور کہا جاتا ہے کہ 1838 میں اپنی وفات تک وہ اہم ریاستی امور میں اپنے شوہر کی مشاورت کرتی رہیں۔ جانشین کی ماں کے طور پر مہاراجہ پر دتارکور کی خوب چلتی تھی۔
1818 میں جب رنجیت سنگھ نے لاڈلے بیٹے کھڑک سنگھ کو ایک مہم پر ملتان بھیجا تو وہ ان کے ساتھ گئیں۔ ساری زندگی رنجیت سنگھ کی پسندیدہ رہیں۔ وہ انھیں پیار سے مائی نکئین کہتے تھے۔ پہلی شادی کی طرح یہ شادی بھی تزویراتی فوجی اتحاد کا باعث بنی۔
دوسری شادی پر نہ مہتاب کور خوش تھیں نہ ان کی والدہ سدا کور۔ پھر دوسری بیوی کا پہلے بیٹے کو جنم دینا بھی انھیں ایک آنکھ نہ بھایا۔ رنجیت سنگھ کی دوسری شادی کے بعد تو مہتاب کور اپنی ماں کے گھر بٹالا ہی رہیں۔ ان کا رنجیت سنگھ سے میلان بھی نہ رہا۔
رنجیت سنگھ سے علیحدگی کے بعد مہتاب کور کے ہاں جڑواں بچوں تارا سنگھ اور شیر سنگھ کی پیدائش ہوئی۔ جب مہتاب کور نے 1807 میں جڑواں بچوں کو جنم دیا تو سدا کور کی خوشی دوبالا ہوگئی۔ جب یہ بچے چھ سال کے تھے تو مہتاب کور کا 1813 میں امرتسر میں انتقال ہوگیا۔ رنجیت سنگھ نے آخری رسومات میں تو شرکت نہیں کی لیکن دیوان محکم چند کے اصرار پر ایک تعزیتی تقریب ضرور منعقد کی۔ مگر کہا جاتا ہے کہ یہ تمام بچے سدا کور کے ملازمین کے تھے۔
ہندوستان کے کمانڈر ان چیف جنرل سرہنری فین کے بھتیجے اور معاون ہنری ایڈورڈ فین اپنی کتاب ‘ہندوستان میں پانچ سال’ میں لکھتے ہیں کہ ‘گو انھیں مہاراجہ کا بیٹا کہا جاتا تھا مگر مہاراجہ نے شیر سنگھ کو پورے طور سے اپنی اولاد تسلیم نہیں کیا۔ ان ہی کے دوسرے بھائی سے اس سے بھی بدتر سلوک ہوا، نہ دربار میں حاضری کی اجازت تھی، نہ کوئی ایسا عہدہ ملا جس کے ساتھ کوئی مالی منفعت یا عزت منسلک ہو۔’
تاہم لکھاری خوشونت سنگھ نے شیر سنگھ اور تارا سنگھ کی ولدیت کے بارے میں افواہوں کو غلط قرار دیا اور کہا کہ یہ کھڑک سنگھ اور ان کی والدہ دتار کور نے پھیلائیں تاکہ رنجیت سنگھ کے شیر سنگھ کو جاشینی کے لیے ترجیح دینے کا سدباب کیا جائے۔ شکوک کے باوجود رنجیت سنگھ نے شیر سنگھ کو فوج کی کمان دی اور ان کو عزت کا مقام دیا مگر کھڑک سنگھ ہی ان کے پسندیدہ رہے۔ تارا سنگھ کو تو دربار میں حاضری کی بھی اجازت نہیں تھی۔
بعد کے برسوں میں سداکور کی رنجیت سنگھ سے رنجش ہو گئی اور انھوں نے محسوس کیا کہ انھیں نظرانداز کیا جارہا ہے۔ انھیں لاہور میں نظر بند بھی کیا گیا اور بٹالا میں ان کی جاگیر کو تب ہی واپس جانے دیا گیا جب انھوں نے مہاراجہ کے بیٹے اور اپنے نواسے شیر سنگھ کے حق میں مالکانہ دستاویز پر دستخط کیے۔
رنجیت سنگھ کی شادیاں
رنجیت سنگھ نے مختلف تقریبات میں کئی شادیاں کیں اور ان کی 20 بیویاں تھیں۔ بعض مؤرخین کے مطابق مہاراجہ کی شادیوں سے متعلق معلومات غیر واضح ہیں اور یہ بات طے ہے کہ ان کی کئی داشتائیں تھیں۔ خوشونت سنگھ کا کہنا ہے کہ ایک فرانسیسی جریدے کو 1889 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں مہاراجہ کے بیٹے دلیپ سنگھ نے بتایا تھا کہ ‘میں اپنے والد کی 46 بیویوں میں سے ایک کی اولاد ہوں’۔
پتونت سنگھ کا رنجیت سنگھ پر لکھی اپنی کتاب میں بیان ہے ’سکھ مذہب کے دس گرووں کی تعلیمات سے متاثر، وہ خود سے رابطہ میں آنے والے تمام افراد کے حقوق کا خیال رکھتے مگر اپنے حقوق پر بھی آنچ نہ آنے دیتے۔ زندگی سے بھرپور طور پر لطف اندوز ہوئے اور ان کے دربار کی شان بھی نرالی تھی۔ بیس بیویاں تھیں اور داشتاؤں کا ایک لشکر۔‘
فرصت کے لمحات میں دربار میں رقص و سرور کی محفلیں سجتیں۔ رنجیت سنگھ ایسی محفلوں میں پسے ہوئے موتیوں ملی کشمش سے کشیدکی گئی شراب پیتے۔ مہاراجہ کے راج سے منتخب ایک سو پچیس خوش شکل لڑکیوں پر مشتمل شاہی طائفہ خدمات پیش کرتا۔ یہ لڑکیاں پچیس سال سےکم عمر ہوتیں۔ اس طائفہ کی بڑی فن کارہ بشیراں تھیں جنھیں ان کی آنکھوں کے بھورے رنگ کی رعایت سے مہاراجہ بلو پکارتے تھے۔
مہاراجہ جہاں گھوڑوں کے دیوانے تھے وہیں شراب، مقویات اور خوب صورت عورتیں ان کی چاہت تھیں۔ فقیر وحیدالدین اور امرندر سنگھ نے بھی اس امر کی تصدیق کی کہ حرم میں چھیالیس خواتین تھیں۔ نو سے سکھ مذہب کے تحت شادی کی، نو، جو تمام امیر بیوائیں تھیں، چادر اندازی کے ذریعے ان کے عقد میں آئیں، سات مسلم رقاصائیں تھیں جن سے بیاہ کیا۔ باقی سب کنیزیں تھیں۔وزیر داخلہ فقیرنور الدین مہاراجہ کے محلوں اور حرم کے بھی ذمہ دار تھے۔
سیاسی شادیوں کے بعد محبت کی شادیاں
مہتاب کور اور دتارکور سیاسی بیویاں تھیں، یعنی ان کے ساتھ تعلق سے پنجاب کے حکمراں کے طور پر ان کا تزویراتی مقام مستحکم ہوا۔ دو شادیاں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کیں۔ ان دونوں بیویوں کا تعلق امرتسر سے تھا۔
امرتسر کی مسلمان رقاصہ موراں سے 1802 میں شادی کی۔ نہنگوں سمیت جن کے رہنما اکالی پھلا سنگھ اکالی تخت کے جتھے دار تھے، کٹر سکھوں کو ان کا یہ اقدام نہ بھایا۔ جب رنجیت سنگھ امرتسر گئے تو انھیں اکال تخت کے باہر بلایا گیا اور انھیں اپنی غلطیوں پر معافی طلب کرنے کے لیے کہا گیا۔ اکالی پھلا سنگھ رنجیت سنگھ کو اکال تخت کے سامنے املی کے پودے کے پاس لے گئے اور کوڑوں کی سزا کے لیے تیاری کرنے لگے۔ پھر پاس ہی سکھ یاتریوں سے پوچھا کہ آیا وہ رنجیت سنگھ کی معافی قبول کرتے ہیں۔ یاتریوں نے جواب میں ست سری اکال کے نعرے لگائے اور یوں رنجیت سنگھ کو رہا اور معاف کردیا گیا۔ بعض دیگر روایات کے مطابق رنجیت سنگھ نے کوڑوں کی سزا کے لیے اپنی پیٹھ ننگی کر دی تو صرف جرمانے پر اکتفا کیا گیا۔
موراں رنجیت سنگھ کی پسندیدہ رانی تھیں۔ ان سے رنجیت سنگھ کو 22 سال کی عمر میں پہلی ہی نظرمیں پیار ہو گیا تھا۔ فقیر وحیدالدین کے مطابق ان سے شادی کے لیے رنجیت سنگھ نے موراں کے والد کی تمام شرائط قبول کیں۔ ایک شرط موراں کے گھر میں پھونکوں سے آگ جلانا بھی تھی۔ مہاراجہ نے یہ بھی کر ڈالا۔
موراں کے نام سے باغ تعمیر کیے، مسجد بنائی جو آج بھی اندرون لاہور میں قائم ہے، 1811 میں سکہ جاری کیا جس پر مور کندہ تھا، پٹھان کوٹ میں بغیر مالیہ کے جائیداد بخشی۔ موراں کنچنی کے نام سے مدرسہ بنوایا جس میں عربی، فارسی اور حدیث کے جید استاد تعلیم دیتے تھے۔ موراں لاہور میں خوب مقبول ہوئیں۔ وہ فلاحی کام کرتیں اور لوگوں کے مسائل مہاراجہ تک پہنچاتیں تھی۔ اسی لیے لوگ رانی صاحبہ کی بجائے انھیں موراں سرکار کہتے تھے۔ رنجیت سنگھ کے بعد موراں لاہور میں پاپڑ منڈی کے علاقے میں اپنے انتقال تک رہائش پذیر رہیں۔
موراں سے بیاہ سے تین دہایوں بعد گل بہار بیگم سے شادی کی۔ امرتسر میں شادی کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ سوہن لال سوری لکھتے ہیں کہ شادی کی تقریب کے لیے رنجیت سنگھ نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کو لاہور بھیجا تاکہ وہ وہاں سے بروکیڈ کے بغیر پول کے ٹینٹ لائیں۔ پیسہ خوب خرچ کیا گیا۔ شادی سے دو روز پہلے رنجیت سنگھ نے ہاتھوں پر مہندی لگوائی۔ سکھ مذہبی رہنماؤں کو دامے، درمے، سخنے خوش کیا اور پھر شادی میں مدعو مہمانوں کا رخ کیا۔ امرتسر اور لاہور سے رقاصاؤں کو بلوایا گیا اور انھیں سات سات ہزار روپے انعام کے طور پر دیے گئے۔
فقیر وحید الدین کے مطابق مہاراجہ گل بہار بیگم سے گنجلک مسائل پر مشورہ لیتے تھے۔ سوہن لال جو درباری روزنامچہ لکھتے تھے، کہتے ہیں کہ 14 ستمبر 1832 کو امرتسر میں دربار منعقد کرتے ہوئے رنجیت سنگھ نے گل بہار بیگم کی سفارش پر ان چند افراد کو معاف کر دیا جن کو ایک روز پہلے کسی جرم میں سزا سنا چکے تھے۔
امرتسر میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد رنجیت سنگھ بیگم کو لے کر پوٹھوار کے دورے پرنکل گئے۔ 11 دسمبر کو ڈھول کی تھاپ پر مستی دروازے کی جانب سے ہاتھی پر سوار یہ شاہی جوڑا لاہور میں داخل ہوا اور موتی بازار، ٹکسالی دروازہ، پاپڑ منڈی، حویلی نونہال سنگھ، سید مٹھا سے ہوتے ہوئے حضوری باغ پر رکا جہاں اس جوڑے کو توپوں کی سلامی دی گئی۔ تمام راستے سونے کے سکے تماشائیوں پر پھینکے گئے۔
گل بہار بیگم کی اپنی اولاد تو نہیں تھی مگر انھوں نے ایک مسلمان بچہ سردار خان گود لے لیا تھا جس کی اولاد اب بھی لاہور میں رہتی ہے۔ لاہور ہی میں ایک کوچہ، ایک رہائشی علاقہ اور ایک باغ گل بہار بیگم کے نام سے موسوم ہیں۔ پنجاب پر قبضے کے بعد برطانوی حکومت نے گل بہار بیگم کے لیے ان کی وسیع جائیداد کے بدلے 12380 روپے سالانہ وظیفہ مقرر کیا۔
گجرات کے صاحب سنگھ بھنگی کی وفات کے بعد ان کی بیویوں رتن کور اور دیا کور پر رنجیت سنگھ نے چادراندازی (سروں پرچادر ڈالنے کی رسم) سے 1811 میں بیاہ کر اپنی حفاظت میں لیا۔ رتن کور نے 1819 میں ملتانا سنگھ کو اور دیا کور نے 1821 میں کشمیرا سنگھ اور پشورا سنگھ کو جنم دیا۔ مگر کہا جاتا ہے کہ یہ بچے رنجیت سنگھ کی بجائے ملازمین کے تھے جنھیں رانیوں نے حاصل کیا اور اپنے بچوں کے طور پر پیش کیا۔
چاند کور سے 1815 میں، لکشمی سے 1820 میں، اور سمن کور سے 1832 میں شادی کی۔
رنجیت سنگھ نے ایک مہم کے دوران کانگڑا میں گورکھاؤں کو شکست دینے کے بعد راجہ سنسار چند سے الحاق کرتے ہوئے ان کی دو بیٹیوں مہتاب دیوی ( گڈاں) اور راج بنسو سے جن کے حسن کا چرچا تھا، بیاہ کیا۔ کرتار سنگھ دگل کے مطابق سنسار چند کانگڑا آرٹ کے سرپرست تھے۔ گڈاں میں بھی یہ صفت بدرجہ اتم موجود تھی۔ ان کے پاس منی ایچر پینٹنگز کا ایک ذخیرہ موجود تھا۔
1830 اور 1832 کے درمیانی عرصہ میں تین شادیاں کیں۔ ان تین بیویوں میں سے ایک رنجیت سنگھ کی زندگی ہی میں وفات پاگئیں۔
ڈبلیو جی او سبورن کے مطابق مہاراجہ چاہتے تھے کہ ان کے حرم میں کوئی انگریز خاتون بھی ہو۔ اسی ضمن میں وہ مہاراجہ کے ساتھ ایک مکالمہ یوں بیان کرتے ہیں:
کیا لارڈ آک لینڈ شادی شدہ ہیں؟
نہیں۔
کیا؟ ان کی ایک بھی بیوی نہیں؟
مجھے علم نہیں۔
آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟
میں خرچہ نہیں چلا سکتا۔
کیوں نہیں؟ کیا انگریز بیویوں کا اتنا خرچہ ہوتا ہے؟
جی، جناب۔
میں کچھ عرصہ پہلے اپنے لیے بھی چاہتا تھا۔ میں نے حکومت کو خط بھی لکھا لیکن انھوں نے بھجوائی ہی نہیں۔
چندکور کو مہارانی کا آخری خطاب ملا
آخری شادی 1835 میں جندکور سے کی۔
جندکور کے والد منا سنگھ اولکھ نے رنجیت سنگھ کے سامنے تب اپنی بیٹی کی خوبیاں بیان کیں جب وہ اپنے جانشین کھڑک سنگھ کی کمزور صحت کے بارے میں پریشان تھے۔ مہاراجہ نے 1835 میں جندکور کے گاؤں ‘اپنی کمان اور تلوار بھیج کر’ شادی کی۔1835 میں جندکور نے دلیپ سنگھ کو جنم دیا جو سکھ سلطنت کے آخری مہاراجہ بنے۔ جندکور کو مہارانی کا خطاب ملا۔ ان سے پہلے یہ خطاب صرف پہلی بیوی مہتاب کور کو ملا تھا۔
لکھاری آروی سمتھ کا کہنا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ آخری برسوں میں بڑھتی عمر اور حرم میں موجود 17 بیویوں کے مابین چپقلش جیسے مسائل کا مقابلہ کرتے افیون کے عادی ہوگئے۔ 1839 میں فالج اور شراب نوشی کی کثرت جان لیوا ثابت ہوئی۔ رنجیت سنگھ کی چار ہندو بیویاں اور سات ہندو داشتائیں ان کے ساتھ ہی ستی ہو گئیں۔
مہاراجہ کے دربار میں ایک طبیب ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر اپنی آپ بیتی ‘مشرق میں پینتیس سال’ میں ستی کا احوال بتاتے ہیں کہ ’مہاراجہ کی وفات سے اگلے روز صبح سویرے کیسے رانیاں ایک ایک کر کے پہلی اور آخری مرتبہ محل سے نکل کر لوگوں میں آتی ہیں اور موت کی راہ لیتی ہیں، سادہ لباس، ننگے پاؤں، پیدل حرم سے باہر آتی ہیں، آئینہ سامنے ہے تاکہ یقین ہو کہ وہ خوف چھپا نہیں رہیں۔ سو کے قریب افراد کچھ فاصلہ رکھتے ہوئے ساتھ ہیں۔ قریب ترین ایک شخص ایک چھوٹا ڈبا اٹھائے ہوئے ہے جس میں غریبوں میں تقسیم سے بچ جانے والے زیورات ہیں۔‘
ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر لکھتے ہیں ’ایک رانی تو سنسار چند کی بیٹی (گڈاں) ہیں جن سے اور جن کی بہن سے رنجیت سنگھ نے اکٹھے شادی کی تھی اور جس میں میں شریک بھی ہوا تھا مگر میں انھیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ ان کی بہن کا پہلے ہی میری عدم موجودگی میں انتقال ہو چکا ہے۔‘
ایک اور احوال کے مطابق 1835 میں موراں کے سب سے خوبصورت ہونے پر مہاراجہ کے منہ سے تعریف راج بنسو کی خودکشی کا باعث بنی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ موراں سے تقابل کو انھوں نے اپنی بے عزتی سمجھا اور زیادہ مقدار میں افیون لے کر اپنی جان لے لی۔ گڈاں کے علاوہ مہاراجہ کی تین راجپوت بیویاں، ہردیوی، راج دیوی اور رجنو کور بھی ستی ہوئیں۔
ڈاکٹر مارٹن ہونی برجر لکھتے ہیں ’اب جنازے کا جلوس چل رہا ہے۔ ہزاروں افراد پیدل ساتھ ہیں۔ جنازے کے پیچھے چار رانیوں کو اب کھلی پالکیوں میں لایا جا رہا ہے۔ ان کے پیچھے سات کنیزیں پیدل اور ننگے پاوں آرہی ہیں۔ ان کی عمر چودہ پندرہ سال سے زیادہ نہیں لگتی۔ اس غم ناک منظر پر شاید ہمارے دل ان سب سے زیادہ دھڑک رہے تھے جو اس رسم کا شکار ہونے جارہی تھیں۔ برہمن اشلوک، سکھ گرنتھ صاحب پڑھتے اور مسلمان یا اللہ، یااللہ پکارتے ساتھ تھے۔ آہستہ بجتے ڈھول اور دھیمے لہجے میں بولتے لوگوں کی آوازیں ماحول کی سوگواریت میں اضافہ کر رہے ہیں۔‘
’رانیاں رنجیت سنگھ کے جسد کے سر کی جانب اور کنیزیں پاوں کی جانب درد انگیز انتظار میں لیٹ جاتی ہیں۔ کچھ ہی دیر میں اس تقریب کے بعد سب کچھ راکھ ہو جاتا ہے۔ رنجیت سنگھ کی سمادھی کی تعمیر اسی وقت کھڑک سنگھ نے شروع کروائی تھی۔ اس کی تکمیل 1847 میں دلیپ سنگھ کے ہاتھوں ہوئی۔ ایک بڑے کوزے میں رنجیت سنگھ جبکہ چھوٹے برتنوں میں رانیوں اور کنیزوں کی راکھ ہے۔
کنہیا لال ہندی کتاب تاریخ پنجاب میں لکھتے ہیں کہ مردوں میں وزیراعظم راجہ دھیان سنگھ نے بھی ساتھ ہی جل مرنے کا اعلان کردیا اور انھیں بہت منع کیا گیا۔ بالآخر کھڑک سنگھ کے اس وعدے پر کہ انھیں وزارت عظمیٰ پر برقرار رہنے کے لیے نہیں کہا جائے گا انھوں نے یہ ارادہ ترک کیا۔
رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد سکھ سلطنت 10 سال تک قائم رہی۔ مہاراجہ کھڑک سنگھ (1839 سے 1841 تک) اور شیر سنگھ (1841 سے 1843 تک) کی یکے بعد دیگرے وفات کے بعد دلیپ سنگھ کی کم عمری کے باعث 1843 سے 1846 تک جندکور ان کی نائب رہیں اور پنجاب پر قبضہ کرتی برطانوی فوج کے سامنے سینہ سپر ہوئیں۔
رنجیت سنگھ کے دور کے شاعر شاہ محمد نے تب کی صورتحال کو شاعری کی صورت دی۔ ایک اقتباس ان عورتوں کی جدوجہد کو رنجیت سنگھ کی اہلیہ اور سکھ سلطنت کی آخری حکمران رانی جندکور کے الفاظ میں کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ
جٹی ہوواں تے کراں پنجاب رنڈی
سارے دیس وچ چاٹرن واراں
چھڈاں نہیں لاہور دے وڑن جوگے
سنیں وڈیاں افسراں جمعداراں
(اگر میں جٹی ہوں تو سارے پنجاب کو بیوہ کر کے چھوڑوں گی۔ سارے دیس میں جنگ و جدل کے سلسلے شروع ہوجائیں گے۔ میں ان بڑے بڑے افسروں اور جمعداروں کو لاہور میں داخل نہیں ہونے دوں گی۔)
انگریزوں کے خلاف لڑائی میں سکھوں کی شکست کے بعد اپنے نو سالہ بیٹے سے جدا ہوئیں، قید ہوئیں اور نیپال میں جلا وطن ہوئیں۔ 1861 میں، یعنی تیرہ سال بعد، ان کے بیٹے دلیپ سنگھ انھیں لندن لے گئے جہاں 46 سال کی عمر میں ان کا انتقال 1863 میں ہوا۔ دلیپ سنگھ کو انگریز اپنے ساتھ انگلستان لے گئے تھے اور وہیں ان کی پرورش ہوئی۔ انھوں نے ایک بار سکھ سلطنت واپس حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جو ناکام رہی۔ ان کی زندگی پر ہالی وڈ کی فلم ‘دی بلیک پرنس’ بنی۔