Site icon DUNYA PAKISTAN

جنوبی ایشیا میں کورونا وائرس: کیا جانچ کی کمی عالمی وبا کی اصل شدت کو چھپا رہی ہے؟

Share

انڈیا میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے اور اب وہ امریکہ اور برازیل کے بعد دنیا میں کورونا وائرس کے کیسز میں تیسرا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔

انڈیا کی بڑی آبادی کو دیکھتے ہوئے یہ تعجب کی بات نہیں لیکن اس کے چھوٹے پڑوسی ممالک بھی اس وائرس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور افغانستان میں کیا ہو رہا ہے اس پر ہماری نظر ہے۔

عالمی ہاٹ سپاٹ

کورونا سے متاثرین کی تعداد انڈیا میں ہر 20 دن بعد دگنی ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے انڈیا اب کورونا وائرس کا عالمی ہاٹ سپاٹ ہے اور وہاں متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

لیکن ہمسایہ ممالک میں مئی اور جون میں تیزی سے اضافے کے بعد انفیکشن میں کمی کا رجحان نظر آ رہا ہے جو ایک الگ کہانی پیش کر رہا ہے۔

پاکستان خطے میں کورونا کے متاثرین میں دوسرے نمبر پر ہے اور وہاں انفیکشن میں کمی کے بارے میں محتاط امید ظاہر کی جا رہی ہے۔

جون کے وسط میں کورونا کیسز میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا۔ روزانہ تقریباً چھ ہزار متاثرین نئے کا اضافہ ہوا۔

لیکن اب جولائی کے وسط میں یہ اوسطاً تقریبا دو ہزار نئے کیسز تک آ گیا ہے۔

بہرحال خدشات بدستور موجود ہیں کیونکہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ وائرس قابو میں ہے۔

اسی طرح بنگلہ دیش ہے جہاں 16 جولائی تک تقریباً دو لاکھ کیسز رپورٹ کیے گئے ہیں اور وہاں سب سے زیادہ کیسز وسط جون سے جولائی کے اوائل تک نظر آئے ہیں۔

اس کے بعد سے کورونا کے متاثرین میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے اور فی الحال انفیکشن کے دگنا ہونے کی رفتار 28 دن ہے۔

افغانستان میں کورونا کیسز کے دگنا ہونے کی شرح اس کے ہمسائیوں کی نسبت سست ہے۔ فی الحال 41 دنوں کے بعد وہاں کیسز دگنے ہو رہے ہیں۔ لیکن سرکاری اعداد و شمار کی صداقت کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

نیپال اور سری لنکا میں مجموعی طور پر انفیکشن کی سطح بہت کم ہے۔ نیپال میں حکومت نے لاک ڈاؤن نافذ کیا جو 100 دنوں تک جاری رہا۔ اس عرصے میں انڈیا سے متصل علاقوں میں ہی زیادہ تر کیسز سامنے آئے۔

حالیہ رجحانات میں یومیہ متاثرین کی تعداد میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ اس کا ایک سبب یہ ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں متاثرین کی جانچ ہی نہیں ہو رہی ہے۔

سری لنکا میں اپریل سے ہی کورونا انفیکشن میں اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن وہ تعداد کم رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس نے ملک میں سخت لاک ڈاؤن نافذ کیا، کورونا کے پازیٹو کیسز کا پتہ چلایا اور اس کے رابطے میں آنے والے لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا گيا۔

بی بی سی سنہالا کی سروج پیتھیرانا کا کہنا ہے کہ ‘وہاں صحت عامہ کے افسران، مقامی پولیس، انٹیلیجنس حکام اور مقامی انتظامی عہدیداروں کا استعمال کرتے ہوئے کورونا کے نئے متاثرین کا پتا لگانے کے لیے ایک مکمل نظام موجود تھا۔’

سری لنکا نے آئندہ پارلیمانی انتخابات سے قبل حال ہی میں لاک ڈاؤن کو ختم کیا ہے۔

جانچ کی کم شرح

جنوبی ایشیا میں دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ آباد ہے، لیکن ریکارڈ کیے جانے والے مجموعی انفیکشن میں سے صرف 11 فیصد ہی اس خطے سے ہیں۔

وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر شاہد جمیل کہتے ہیں کہ ’انڈیا اور باقی جنوبی ایشیا میں فی دس لاکھ متاثرین کی تعداد کم ہے، لیکن فی دس لاکھ ٹیسٹنگ کی تعداد بھی یہی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان ممالک میں جانچ کی مجموعی تعداد زیادہ معلوم ہوتی ہے لیکن جب آپ اس کا موازنہ آبادی کے حجم کے تناظر میں کرتے ہیں تو یہ تعداد ’سب سے زیادہ سے نیچے‘ نظر آتی ہے۔

مثال کے طور پر انڈیا نے وقت کے ساتھ ساتھ جانچ میں اضافہ کیا ہے اور اب تک وہاں سوا کروڑ سے زیادہ جانچ ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں 16 لاکھ تک آبادی کی جانچ ہوئی ہے۔

لیکن ان سب کے باوجود ان ممالک میں فی کس ٹیسٹ کئی دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہوئے ہیں۔

مزید یہ کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں جانچ کی سطح کم ہوئی ہے جس کا اثر متاثرین کی تعداد پر نظر آتا ہے۔

پاکستان مین کورونا کے متاثرین کے عروج کے زمانے میں روزانہ 31 ہزار سے زیادہ ٹیسٹ کرائے گئے، لیکن جون کے آخری ہفتے سے اس میں کمی آئی ہے اور اب وہاں علامات کے بغیر جانچ نہیں ہو رہی ہے۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے آس پاس والے علاقوں میں کیے جانے والے ایک حالیہ سرکاری سروے میں بتایا گیا ہے کہ صرف وہاں تین لاکھ افراد اس وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں جن میں سے زیادہ تر میں علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔

بنگلہ دیش میں بھی جانچ کی رفتار میں سستی دیکھی گئی ہے اور جانچ کے قابل اعتماد ہونے پر شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے ہیں کیونکہ وہاں جعلی منفی سرٹیفیکیٹ دینے کا سکینڈل بھی سامنے آیا ہے۔

نیپال میں 16 جولائی تک تین لاکھ سے ذرا زیادہ ٹیسٹ کروائے گئے ہیں۔ حکومت نے پہلے کہا تھا کہ جولائی سے یومیہ دس ہزار ٹیسٹ ہوں گے لیکن وہاں جانچ کم ہو رہی ہے اور روزانہ کا اوسط تقریباً چار ہزار ہے۔

افغانستان میں جانچ کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں اور ریڈ کریسینٹ نے حال ہی میں اس کے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اصل کیسز کی تعداد سرکاری طور پر اعلان کردہ کیسز سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کسی ملک یا خطے میں جہاں تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 10 سے 30 کے درمیان ہے اس کے لیے ایک معیار قائم کیا ہے۔

اس معیار پر جنوبی ایشیائی ممالک بہت کم قیمت پورے اترتے ہیں۔ روس اور جاپان جن کی آبادی بنگلہ دیش کی آبادی کے آس پاس ہے وہان کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر جانچ کر ہو رہی ہے اور وہاں بالترتیب ہر 32 اور 26 ٹیسٹوں میں ایک مثبت کیس ملتا ہے۔

لیکن بنگلہ دیش میں کیے جانے والے ہر پانچ ٹیسٹ میں ایک مثبت کیس کی نشاندہی ہو رہی ہے جو ڈبلیو ایچ او کے معیار کے کافی نیچے ہے۔

نیپال میں 14 جون تک ہر 25 ٹیسٹ میں ایک مثبت کیس دیکھنے میں آیا ہے۔ اس کے بعد کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔

’ناقابل اعتماد‘ اعداد و شمار

ان ممالک میں کورونا سے ہونے والی اموات بھی مغربی ممالک کی نسبت بہت کم ہیں، چاہے ہم کل متاثرین کو دیکھیں یا پھر آبادی کے تناسب سے دیکھیں۔

یہ ایک حوصلہ افزا علامت ہے لیکن اس سے صحت کے انفراسٹرکچر پر خرچ کرنے کا ناقص ریکارڈ رکھنے والے خطے میں اعداد و شمار کے قابل اعتبار ہونے پر بھی سوال اٹھتا ہے۔

یارک یونیورسٹی میں پبلک ہیلتھ کے ماہر اور پروفیسر کامران صدیقی نے کہا: ‘بہت سی اموات کی اطلاع نہیں دی جاتی ہے اور اسے رجسٹر نہیں کیا جاتا ہے جو کہ بہت اہم ہے اور اموات کی وجوہات کی غلط درجہ بندی کی جاتی ہے۔’

لیکن ڈاکٹر شاہد جمیل کا کہنا ہے کہ اگرچہ اموات کی کم اطلاع دی گئی ہے تو بھی فرق ‘خاصا واضح’ ہے۔

پروفیسر صدیقی نے کہا: ’اس کی ممکنہ مناسب وضاحت یہ ہو سکتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں آبادی یورپ اور امریکہ کے مقابلے کہیں زیادہ نوجوان لوگوں پر مشتمل ہے۔‘

ان ممالک میں آبادی کی اوسط عمر 18 سے 34 کے درمیان ہے۔

اس معاملے میں مزید تحقیق ڈھاکہ سے ولی الرحمٰن معراج اور کھٹمنڈو سے رما پراجولی نے کی ہے۔

Exit mobile version