ان سیاستدانوں کو نیشنل پارک میں چھوڑ دیں
کہا جاتا ہے بلی کو رومن سپاہی مصر سے یورپ لائے چونکہ وہ چوہے اور مضر کیڑے مکوڑے کھاتی تھی لہٰذا اطالوی کسان بلی سے خوش تھے اور پھر بلی دبے پاؤں باقی یورپ میں بھی پھیل گئی۔
کئی سو برس بعد تیرہویں صدی عیسوی میں پوپ گریگری نہم نے فتوی دیا کہ بلی شیطان کی چیلی اور کالی بلی بالخصوص منحوس ہے لہٰذا اس سے نمٹا جائے۔ چنانچہ یورپ کی کیتھولک دنیا بلی دشمن ہو گئی۔ بلیاں کم ہوتی چلی گئیں اور چوہے اور حشرات الارض بڑھتے چلے گئے۔
جب چودھویں صدی کے وسط میں یورپ میں طاعون پھیلا اور اس نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں تو یہ تاثر پھیلا کہ طاعون چوہے پھیلا رہے ہیں۔ چنانچہ ایک بار پھر یادِ گربہ ستانے لگی۔ ایشیا سے بلیاں درآمد ہونے لگیں اور اطالوی تاجروں کو دولت کمانے کا نیا ذریعہ ہاتھ آ گیا۔
تب کے بعد سے کہتے ہیں کہ یورپ میں عوام دوست بلی کی ماحول دوست ساکھ بحال ہو گئی۔ بہت بعد میں تحقیق نے بتایا کہ چوہے تو مفت میں بدنام ہوئے۔ طاعون کے جرثومے پھیلانے میں دراصل سب سے موثر کردار تو مکھیوں اور جوؤں نے نبھایا۔ وہ جس جانور پر بھی بیٹھ جاتیں طاعون کا ایلچی بن جاتا۔
ایک اور قصہ سنیے۔ چین میں کیمونسٹ انقلاب کے نو برس بعد تیز رفتار صنعتی و زرعی ترقی کے لیے 1958 سے 1962 کے عرصے میں چیرمین ماؤزے تنگ کی ہدایت پر آگے کی طرف عظیم چھلانگ ( گریٹ لیپ فارورڈ ) لگائی گئی۔ اس مہم کے دوران قحط سالی اور بیماریوں کے خلاف جہاد میں چار دشمنوں کو ہدف بنایا گیا۔ یعنی چوہے، مکھیاں اور مچھر بیماریاں پھیلاتے ہیں اور چڑیاں غلہ کھا جاتی ہیں لہذا چاروں کو ختم کر دیا جائے۔
پوری قوم پیچھے لگ گئی۔ سب سے زیادہ شامت چڑیوں کی آئی۔ ہر جگہ برتن بجا بجا کر ان کا ہانکا کیا گیا تاکہ وہ کہیں بیٹھ نہ پائیں اور تھک کے گر جائیں۔ اس وقت چین کی آبادی ساٹھ کروڑ تھی۔ اگر ہر شہری نے ایک چڑیا بھی مار گرائی ہو تو ساٹھ کروڑ چڑیاں تو سیدھی سیدھی ختم ہو گئیں۔ مگر چڑیوں کی آبادی میں کمی کے سبب اگلے موسم میں فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کی تعداد قابو سے باہر ہو گئی۔ ٹڈی دل پہلے سے زیادہ شیر ہو گئے۔ گویا قحط سالی اور بڑھ گئی۔ لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ آبادی بھک مری سے ختم ہو گئی۔
چنانچہ دو برس بعد 1960 میں اعلان ہوا کہ چڑیوں کی جان بخش دی جائے کیونکہ یہ اناج دشمن نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے کھانے کے سبب عوام دوست ہیں۔ ان کی جگہ لال بیگ کو عوام دشمن فہرست میں ڈال دیا گیا۔
چڑیوں کی آبادی محدود کرنے سے جو ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہو گیا اسے کم کرنے کے لیے منگولیا اور سوویت ریاستوں سے لاکھوں نئی چڑیاں درآمد کی گئیں۔ مگر قحط سالی کے اثرات مندمل ہوتے ہوتے کئی برس لگ گئے۔
پاکستان اگرچہ سیاست دانوں نے سیاست کے بل پر حاصل کیا مگر حصول کے چند برس بعد جناح صاحب سے بھی زیادہ محبِ وطن مامے چاچے اس نتیجے پر پہنچے کہ ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاستداں ہیں۔ اور یہ کہ سیاستداں اچھے یا برے نہیں ہوتے صرف سیاستداں ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس دھرتی دشمن طبقے کو یا تو قوانین کے اسپرے سے مار دیا جائے یا پھر نوآبادیاتی دور سے قائم جبریہ پنجروں میں بند کر دیا جائے یا پھر ملک سے ہی دوڑا دیا جائے۔
چنانچہ ہر طرح کی پابندیوں، سزاؤں اور زندگی اجیرن کرنے والے جھوٹے سچے ہتھکنڈوں سمیت تمام حربے استعمال ہوئے۔ پچھلے تہتر برس میں چار کھلی سیاست کش اور درجنوں پوشیدہ مہمات چلائی گئیں۔ ان مہمات میں بدکردار ناسور تو جانے کتنے تلف ہوئے نہ ہوئے، البتہ ماحولیات دوست صاف ستھرے شرفاِ سیاست اچھی خاصی تعداد میں معدوم ہو گئے۔
آج سیاسی نسل کشی کو ایک عظیم قومی کارنامہ بتانے والوں سمیت سب ہی حیرت کی اوور ایکٹنگ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ آخر کو یہ زمین دماغی اعتبار سے بنجر کیوں ہو گئی؟ میدان تاحدِ نگاہ فکری جھاڑ جھنکاڑ اور بھانت بھانت کے نت نئے حشرات اور معیشت اجاڑ ٹڈی دلوں کی مسلسل زد میں کیوں ہے؟
اب کیا کیا جائے؟ نئی پنیری لگانے کا موسم بھی نہیں۔ ماضی اور حال کی لیبارٹریوں کے کنٹرولڈ ماحول میں جو نمونے تیار کیے گئے وہ وضع قطع سے تو سیاستداں لگتے ہیں مگر وہ قدرتی ماحول کے لیے اور قدرتی ماحول ان کے لیے اجنبی ہے۔
کچھ سیاسی پودے اس خلا کو پُر کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً مہنگے داموں درآمد بھی کیے جاتے رہے ہیں مگر یا تو وہ زیرِ زمین تھوڑا بہت بچا پانی بھی چوس گئے یا پھر بے بو، بے ذائقہ، بے ثمر جھاڑیاں ثابت ہوئے۔
اگر آج سے ہی آرگینک سیاست کی فارمنگ شروع کی جائے تب بھی ذہین سیاستدانوں کی تازہ فصل تیار کرنے میں ایک نسل لگے گی۔ کوئی حل ہے تو وہی کہ جس طرح اہلِ یورپ کو بالآخر بلیوں کی اور اہلِ چین کو چڑیوں کی افادیت کا قائل ہونا پڑا۔ اسی طرح ہمارے سیاست ساز ترکھانوں کو بھی اپنی انا کا ٹوپا اتار کر مصنوعی تولیدی طریقے سے پیدا ہونے والے سیاستدانوں کو کچھ عرصے کے لیے پولٹیکل نیشنل پارک کے قدرتی ماحول میں چھوڑنا پڑے گا۔ تاکہ کم ازکم ان کی اگلی نسل یہاں کی آب و ہوا میں ازخود زندہ رہنے کے قابل ہو سکے۔
بصورتِ دیگر اپنی بقراطیاں اور ایک سے دوسرے درخت تک جھولنے کی ٹائم پاس استادیاں دکھاتے رہیے۔