کیا آئی سی سی سچن تندولکر کے کرکٹ میں ٹیکنالوجی کے استعمال والے مشورے کو تسلیم کرے گی؟
گذشتہ دنوں انڈیا کے سابق کپتان اور بلے باز سچن تندولکر نے ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان اور بلے باز برائن لارا کے ساتھ ویڈیو چیٹ کے دوران کہا تھا کہ کرکٹ میں ٹیکنالوجی کے استعمال کا مقصد یہی ہے کہ فیصلے درست ہوں۔
اس دوران سچن نے امپائر کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والے نظام یعنی ڈی آر ایس سے امپائروں کی کال کو ہٹانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جب گیند سٹمپس سے ٹکرا رہی ہو تو بلے باز کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ دیا جانا چاہیے۔
سچن نے واضح انداز میں کہا کہ وہ ایل بی ڈبلیو سے متعلق ڈی آر ایس کے فیصلے پر آئی سی سی سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈی آر ایس میں فیلڈ کا فیصلہ تب ہی بدلا جاسکتا ہے جب بال کا نصف حصہ سٹمپس پر لگتے ہوئے دیکھا جائے جو درست نہیں ہے۔
سچن کا کہنا ہے کہ جب معاملہ تیسرے امپائر تک جاتا ہے تو وہ اس میں ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں پھر اس کا فیصلہ ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہی کرنا چاہیے، جیسا کہ ٹینس میں ہوتا ہے کہ گیند یا تو کورٹ کے اندر ہے یا پھر باہر۔ کوئی درمیانی صورتحال نہیں ہوتی ہے۔
سابق انڈین سپنر ہربھجن سنگھ نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے سچن کی حمایت کی ہے۔
انھوں نے لکھا: ‘پاجی، میں آپ سے ہزار فیصد اتفاق رکھتا ہوں کہ اگر گیند سٹمپس کو چھو کر بھی نکل رہی ہے تو بیٹسمین کو آؤٹ قرار دیا جانا چاہیے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ گیند کتنا حصہ سٹمپس پر ٹکرا رہا ہے۔ کھیل کی بہتری کے لیے ضابطوں تبدیلی ہونی چاہیے اور ان میں سے ایک یہ ہے۔’
یو ڈی آر ایس کے اصول کیا کہتے ہیں؟
در حقیقت یو ڈی آر ایس کے اصول کے تحت جب کوئی کھلاڑی امپائر کے فیصلے پر اعتراض کرتا ہے تو وہ اس کی اپیل کرسکتا ہے کہ تیسرا امپائر ٹی وی پر ریکارڈنگ دیکھ کر فیصلے کے صحیح یا غلط کا فیصلہ کرے۔ لیکن یو ڈی آر ایس کے لیے سیریز سے قبل دونوں کرکٹ بورڈ کی رضامندی ضروری ہے۔
ماضی میں یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ آئی سی سی کو تمام ممالک میں یو ڈی آر ایس نافذ کرنا چاہیے اس سے کھیل میں بہتری آئے گی لیکن انڈین کرکٹ بورڈ بی سی سی آئی اس کی مخالفت کرتی رہی ہے۔
بہرحال یو ڈی آر ایس کے لیے تمام ممالک کے پاس ضروری ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یو ڈی آر ایس کا استعمال کرنے سے 96 فیصد فیصلے درست آئے ہیں لیکن اس کے بغیر بھی 92 فیصد فیصلے درست نکلے ہیں۔
بی سی سی آئی کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی 100 فیصد درست فیصلہ نہیں دے سکتی لہذا اس پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
انٹرنیشنل امپائر کے ہری ہرن کیا کہتے ہیں؟
انٹرنیشنل امپائر کے ہری ہرن کا کہنا ہے کہ ‘اس میں دو تین چیزیں اہم ہیں، خاص طور پر ایل بی ڈبلیو کے معاملے میں امپائر پہلے دیکھتا ہے کہ گیند کہاں پچ ہوئی ہے یعنی کہاں گری، پیڈ سے ٹکرائی اور بلے یعنی بیٹ سے نہیں ٹکرائی۔ اس کے بعد وہ اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ اس کے بعد کیا گیند سٹمپس پر لگنے والی تھی۔ اب یہ اہم بات نہیں ہے کہ گیند سٹمپس پر کتنے فیصد بیس، تیس یا پچاس فیصد لگ رہی ہے، یہ پہلا نکتہ ہے۔’
‘دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کیا گیند سٹمپس پر لگے گی یا نہیں۔ اس صورت میں اگر امپائر کے ذہن میں مخمصہ پیدا ہوتا ہے تو وہ ڈی آر ایس کے فیصلے کے لیے تھرڈ امپائر کے پاس جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ گیند صحیح جگہ پر پچ ہوئی ہے یا نہیں۔ اس کے بعد تھرڈ امپائر فیلڈ امپائر کے فیصلے کو درست یا غلط قرار دیتا ہے۔’
‘وہ دیکھتا ہے کہ گیند سٹمپس سے ٹکرا رہی ہے یا نہیں، دس، بیس یا پچاس فیصد اہم نہیں ہیں۔ اگر گیند سٹمپس سے ٹکرا رہی ہے تو بیٹسمین آؤٹ ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ گیند کہاں پچ ہو رہی ہے، وہاں سے کس جانب نکل رہی ہے اور پھر وہ سٹمپس سے ٹکرا رہی ہے یا نہیں۔ اب اگر ان میں سے کسی بھی چیز پر امپائر یا تھرڈ امپائر کے ذہن میں کوئی شک ہے تو وہ شک کا فائدہ دے کر بیٹسمین کو ناٹ آؤٹ قرار دیتا ہے۔’
امپائر ہری ہرن گیند کی پچنگ کہاں ہوئی، گیند کا امپیکٹ یا اثر اور سٹمپس سے ٹکرانے کو پوری طرح واضح کرتے ہیں۔ اگر امپائر کو ان میں سے کسی دو چیزوں پر شک و شبہ ہے تو وہ صد فیصد بیٹسمین کو ناٹ آؤٹ قرار دیں گے۔
جب فیلڈ امپائر کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں تب وہ تیسرے امپائر کے پاس جاتا ہے۔ تکنیک کے مطابق اگر گیند سٹمپ سے ٹکرا رہی ہے تو بلے باز کو آؤٹ دے دو۔
سچن کے سوال پر ہری ہرن کیا کہتے ہیں؟
اب سوال یہ ہے کہ ٹی وی ری پلے میں اگر گیند سٹمپس کو چھو کر یا سٹمپس سے اوپر جا رہی ہے تو پھر بیٹسمین کو ناٹ آؤٹ کیوں قرار دیا جاتا ہے؟
جواب میں امپائر ہری ہرن کا کہنا ہے کہ یہ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ سٹمپ پر گیند لگنے کے بعد بھی بعض اوقات گلیاں یعنی بیلز نہیں گرتی ہیں اور بلے باز آؤٹ نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ کئی بار ہلکا سا بھی چھونے پر وہ گر جاتی ہے اور بیٹسمین آؤٹ ہو جاتا ہے۔ لہذا ایسی صورتحال میں بھی بلے بازوں کو آؤٹ نہیں دیا جاتا ہے۔
تو کیا سچن تیندولکر کے مطابق بیٹسمین کو آؤٹ دیا جانا چاہیے؟
جواب میں امپائر ہری ہرن کا کہنا ہے کہ بیٹسمین کو آؤٹ تو دینا چاہیے لیکن تین مختلف قسم کی چیزیں ہیں پچنگ، امپیکٹ اور ہٹنگ دی سٹمپس، پچنگ میں تھوڑا سا باہر چل جائے گا۔ امپیکٹ میں بلے باز کو وکٹ کے سامنے ہونا چاہیے اور سٹمپس میں گیند کا لگنا امپائرز کی کال ہونی چاہیے اسی بنا پر بلے باز کو آؤٹ دیا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف یو ڈی آر ایس ٹیکنالوجی کو اپنانا نہ تو سستا ہے اور نہ ہی ہر ملک کے پاس یہ سہولت موجود ہے۔ امپائر ہری ہرن نے طنزیہ انداز میں جواب کہ آپ کرکٹ بھی کھیلنا چاہتے ہیں اور ٹیکنالوجی کو بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں تو پھر سستے اور مہنگے کا سوال کہاں سے آیا۔
تو کیا اس تکنیک پر تنازع ہوتا رہے گا؟
امپائر ہری ہرن اس کو متنازع نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ کھلاڑی ہی امپائر کے فیصلے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس میں سے 96 فیصد درستگی کے متعلق ہری ہرن کہتے ہیں کہ یہ تو ٹھیک ہے لیکن ایل بی ڈبلیو کے معاملے میں ہٹنگ دی سٹمپس سب سے اہم ہے۔ اس کا اندازہ امپائر بھی لگاتے ہیں اور کیمرا بھی۔ اس تکنیک کو 100 فیصد درست کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ ہری ہرن نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ کسی ایک ٹیم کا نہیں بلکہ دونوں ٹیموں کا ہے۔
’اگرکرکٹ کو ٹیکنالوجی کے حوالے کیا تو جوش و خروش چلا جائے گا‘
کرکٹ کے تجزیہ کار وجئے لوکپلی کہتے ہیں کہ سچن ٹھیک کہتے ہیں۔ اب اگر گیند سٹمپس پر لگ رہی ہے لیکن اگر امپائر ناٹ آؤٹ دیتا ہے تو وہ امپائرز کی کال ہے۔ بیلز کے معاملے میں لوکپلی کہتے ہیں کہ کرکٹ میں ایسا بہت کم ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ‘کئی بار تیز ہوا سے بیلز گری ہیں، لیکن اب وہ پہلے سے زیادہ وزنی ہیں۔ ایسی صورتحال میں اسے کرکٹ امپائر پر چھوڑ دیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ کرکٹ میں بہت پیسہ لگا ہوا ہے اور عوام دیکھ رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی ہے تو اس کا استعمال کریں، لیکن اگر ہم اسے ٹیکنالوجی پر مبنی بنائیں گے تو اس کھیل میں موجود سنسنی ختم ہو جائے گی۔’
وجئے لوکپلی کا کہنا ہے کہ اگر سچن جیسا بیٹسمین کہہ رہا ہے تو سوچیے کہ وہاں کس قدر مخمصہ ہے۔ آئی سی سی کو یہ سوچنا چاہیے کہ ایک عظیم کھلاڑی کو کرکٹ کی فکر ہے، کچھ تبدیلی ضرور ہونی چاہیے۔ آئی سی سی کے سامنے کرکٹ کو بچانے کا چیلنج ہے، اسے سچن کی بات پر غور کرنا چاہیے۔
کمنٹیٹر آکاش چوپڑا کی رائے کیا ہے؟
اسی دوران سابق اوپنر اور کمنٹیٹر آکاش چوپڑا کا کہنا ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ گیند بیٹسمین کے پیڈ پر لگی ہے تو آپ دس میں سے نو مرتبہ یہ بھی جان سکتے ہیں کہ بیٹسمین آؤٹ ہے یا کوئی قریبی معاملہ ہے۔
سچن کے بارے میں بات کریں تو ان کا صرف یہ کہنا ہے کہ گیند سٹمپس سے ٹکرا جاتی اگر پیڈ درمیان میں نہیں آتے ہیں۔ اب سچن کی بات سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر گیند سٹمپ سے ٹکرا جاتی تو بیلز گرتیں اور کھیل ختم۔
اب ایسا کیوں ہے کہ اگر گیند پچاس فیصد سے زیادہ سٹمپس سے ٹکرائے تو آؤٹ اور بیس فیصد لگے تو ناٹ آؤٹ؟
آکاش چوپڑا کا کہنا ہے کہ ‘ٹیکنالوجی میں کچھ کمیاں ہیں۔ شبہ یہ ہے کہ اگر تکنیک پچاس فیصد سے زیادہ گیند کو سٹمپس پر ٹکراتا دکھاتی ہے تو 99 فیصد یہ بات یقینی ہے کہ گیند سٹمپ پر لگے گی۔ لیکن اگر اس سے کم دکھائے تو اس کا احتمال کم ہے۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے۔ اب 50 فیصد سے کم ہو تو امپائرز کال آ جاتی ہے جو کہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
‘اگر پچاس فیصد سے زیادہ گیند سٹمپ پر لگی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ امپائر نے آؤٹ دیا یا نہیں، لیکن قواعد کے مطابق اگر امپائر نے آوٹ دے دیا ہے اور گیند پانچ فیصد بھی سٹمپس پر لگتی ہے تو بیٹسمین کو آوٹ قرار دیا جائے گا۔ لیکن اگر امپائر نے ناٹ آوٹ قرار دیا ہے تو پھر آپ اس فیصلے کو پانچ فیصد کی بنیاد پر بدل نہیں سکتے۔ یہ ایک بڑی غلطی ہے۔
کیا سچن کی بات تسلیم کی جائے گی؟
آکاش چوپڑا واضح طور پر کہتے ہیں کہ سچن کی بات کو قبول نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس میں بنیادی کمی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے زمانے میں قاعدہ یہ ہو کہ اگر امپائرز کال آؤٹ ہے تو آؤٹ اور ناٹ آؤٹ ہے تو ناٹ آؤٹ سمجھا جائے گا کیونکہ اس میں دو چیزیں نہیں ہوسکتی ہیں۔ ایک ہی اصول بنانا پڑے گا۔
آکاش چوپڑا کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر امپائر آؤٹ دیتا ہے تو آؤٹ ہوتا ہے اور ناٹ آؤٹ دیتا ہے تو ناٹ آؤٹ ہے جبکہ گیند اتنا ہی فیصد سٹمپس پر لگتی ہے، شاید یہ قاعدہ تبدیل ہو جائے لیکن اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ پانچ فیصد ہی گيند وکٹ سے ٹکراتی ہے اور بیٹسمین کو آؤٹ دے دیا جائے تو ایسا نہیں ہو گا۔ جب تک کہ تکنیک میں کمی ہے اور کوئی شبہ ہے اس وقت تک بیٹسمین کا وکٹ اتنی آسانی سے گنوایا نہیں جا سکتا۔
بیڈمنٹن یا ٹینس سے مقابلے کے بارے میں آکاش چوپڑا کا کہنا ہے کہ وہاں کوئی قیاس آرائی نہیں ہے۔ کرکٹ میں پچ پر ایک بیٹسمین ہوتا ہے اس کے بعد گیند پیڈ یا جسم سے ٹکرا جاتی ہے پھر اس کے بعد کیا ہو گا کوئی اسے دیکھ نہیں سکتا، صرف اندازہ لگا سکتا ہے یا سوچ سکتا ہے۔
ایسے میں یہ دیکھنا اہم ہے کہ سچن کا مشورہ مستقبل میں کیا رنگ لاتا ہے۔