صحت

خوراک کو پکا کر کھانے میں کیا نقصانات چھپے ہیں؟

Share

ایک نئی تحقیق کے مطابق کھانا پکانے کے بعض طریقے صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔ یہ طریقے زہریلے مادے پیدا کرنے سے لے کر پھیپھڑوں کے کینسر کے خطرات کو بڑھانے تک کئی مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔

جینا میچی اوکی یقین سے کہتی ہیں ‘ارتقائی عمل سے گزر کر ہمارے انسان بننے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی خوراک کو پکانا شروع کر دیا تھا۔’

‘جب ہم صرف کچی غذا کھاتے تھے تو ہمیں مسلسل کھانا پڑتا تھا کیونکہ اس کچی خوراک میں سے غذائی اجزا کو حاصل کرنے کے لیے ہمارے جسم کو بہت محنت کرنی پڑتی تھی۔’

حیاتیات کے ماہرین میچی اوکی سے متفق بھی ہیں جنھوں نے سیسکس یونیورسٹی میں اس موضوع پر مطالعہ کیا کہ کسی شخص کی غذا اور طرزِ زندگی اُس کے مدافعتی نظام پر کیسے اثر ڈالتے ہیں۔ حقیقتاً اس بات کے بہت شواہد موجود ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ آگ کے استعمال سے انسانی ارتقا کا براہ راست تعلق ہے۔

جب ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے کھانے کو پکانا اور تبدیل کرنا شروع کیا تو اس سے جسم میں کیلوریز اور چکنائی کی مقدار بڑھنے لگی۔ اس کی وجہ سے کھانا ہضم کرنے میں توانائی کم خرچ ہوتی تھی اور زیادہ غذائی اجزا حاصل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ کھانے کو کم چبانا بھی پڑتا تھا۔

یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ خوراک کو پکا کر کھانے کی وجہ سے انسان کے جبڑا چھوٹا ہوا اور دماغ کے بڑے ہونے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بڑھنے میں مدد ملی۔ اس کے علاوہ پکانے سے کھانے پر نشوو نما پانے والے نقصان دہ بیکٹریا بھی مر جاتے ہیں جن کی وجہ سے فوڈ پوائزننگ کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

یہ تو ہیں اشیا کو پکا کر کھانے کے فوائد لیکن زیادہ درجۂ حرارت پر پکانے کے کچھ پوشیدہ نقصانات بھی ہیں۔

ایک طرف دنیا میں دوبارہ کچے کھانوں اور پکانے کے نت نئے طریقے مقبول ہو رہے ہیں تو دوسری طرف سائنسدان زیادہ پکے ہوئے کھانوں کو زیرِ بحث لا رہے ہیں۔

قدیم انسان کا مجسمہ

اکریلامائڈ: زیادہ پکانے سے کینسر کا خطرہ

کسی ڈش کو تیار کرنے کے لیے پکانے کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کھانا پکانے کے کچھ مخصوص طریقوں کے لیے یہ بات اہم ہے کہ آپ کیا پکا رہے ہیں؟

خاص طور پر ایسے کھانوں کے لیے جن میں نشاستہ ہوتا ہے برطانیہ میں کھانوں کے معیار کی نگرانی کرنے والا ادارہ فوڈ سٹینڈرڈ ایجنسی یا ایف ایس اے ایک خطرے کی نشاندہی کر چکا ہے اور وہ ہے اکریلامائڈ۔

یہ کیمیکل صنعتوں میں کاغذ اور پلاسٹک بنانے میں استعمال ہوتا ہے لیکن جب کھانے کی کسی چیز کو بہت زیادہ درجۂ حرارت میں اور بہت دیر تک بھونا، تلا یا گرل پر پکایا جائے تو اکریلامائڈ نامی یہ کیمیکل پیدا ہوتا ہے۔

باورچی خانہ

کھانے کی ایسی اشیا جن میں کاربوہائیڈریٹس زیادہ ہوتے ہیں جیسے آلو، ڈبل روٹی، سیریل، کافی، کیک اور بسکٹ وغیرہ میں یہ کیمیکل زیادہ پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ پکائے جانے کے دوران جب ان کا رنگ گہرا ہونے لگے، یہ زیادہ بھورے رنگ یا دیکھنے میں جلی ہوئی دکھائی دیں تو اس کیمیکل کے پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

اکریلامائڈ کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے کہ اس کی وجہ سے کینسر ہو سکتا ہے حالانکہ اس کے بارے میں تازہ شواہد جو کینسر اور اس کیمیکل کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتے ہیں وہ جانوروں سے حاصل ہوئے ہیں۔ میچی اوکی، غذا کے ماہرین اور اداروں کا موقف ہے کہ ایسی غذا کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے جس میں اکریلامائڈ کی زیادہ مقدار موجود ہو۔

زیادہ مقدار میں اکریلامائڈ پیدا ہونے سے بچنے کے لیے ایف ایس اے کا مشورہ ہے کہ آلو پکاتے وقت کوشش کریں کہ سنہرے رنگ آتے ہی مزید نہ پکائیں اور اگر آلو کو زیادہ درجۂ حرارت میں پکانا ہے تو انھیں ریفریجیریٹر میں مت رکھیں کیونکہ ٹھنڈے آلو شوگر خارج کرتے ہیں جو امینو ایسڈ کے ساتھ مل کر پکنے کے دوران اکریلامائڈ بناتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اکریلامائڈ کو پیدا ہونے سے روکنے کے لیے ان اشیا کو ضرورت سے زیادہ نہ پکائیں۔

تاہم میچی اوکی کا کہنا ہے کہ صرف اکریلامائڈ ہی واحد خطرہ نہیں ہے۔ اگر لوگوں کی غذا متوازن نہیں ہو گی اور وہ نقصان دہ چیزیں کھاتے رہیں گے تو کینسر کے خطرات بھی بڑھیں گے۔

باورچی خانے کا دھواں اور پھیپھڑوں کا کینسر

باورچی خانہ

کھانے پکانے کے اثرات کا انحصار صرف اس پر نہیں ہے کہ ہم کیا کھاتے ہیں بلکہ اس پر بھی ہے کہ سانس کے ذریعے ہمارے جسم میں کیا جا رہا ہے۔

ترقی پزیر ممالک میں چولہے خود بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ ان ممالک میں لکڑی، فصلوں کا فضلہ اور کوئلہ وغیرہ جیسا خام ایندھن کھانا پکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 38 لاکھ افراد اسی وجہ سے قبل از وقت مر جاتے ہیں۔

لیکن کھانے کی اشیا کے بعض اجزا بند جگہوں میں ہوا کی آلودگی اور اس کے نتیجے میں بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔

سنہ 2017 میں کینسر پر تحقیق اور اس کے علاج سے متعلق جریدے میں چھپنے والے ایک مطالعے میں یہ شواہد سامنے آئے کہ خوردنی تیل کے بخارات سے کینسر کے خطرے میں اضافہ ہوتا ہے۔

تحقیق کاروں نے چین میں 23 مختلف تحقیقوں میں ساڑھے نو ہزار کے قریب لوگوں کا بغور مطالعہ کیا اور انھیں معلوم ہوا کہ ایسی خواتین کو پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ زیادہ ہے جو اپنے باورچی خانوں میں ہوا کی مناسب آمد و رفت کے بغیر کھانے پکاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پکانے کے مختلف طریقوں کے اثرات بھی مختلف ہیں۔ مثلاً اسٹر فرائنگ سے پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ ڈیپ فرائنگ سے ایسا نہیں ہوتا۔

دیگر تحقیقوں میں بھی یہ سامنے آیا کہ حاملہ خواتین اگر کھانا پکانے میں استعمال ہونے والے تیل کے دھویں اور بخارات میں سانس لیتی رہیں تو پیدا ہونے والے بچے کا وزن کم ہو سکتا ہے۔

تائیوان میں سنہ 2017 میں ہونے والی ایک تحقیق میں کھانا پکانے کے مختلف طریقوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ اس تحقیق کے مصنفین کے مطابق سن فلاور کوکنگ آئل اور ڈیپ فرائنگ اور پین فرائنگ کی وجہ سے ایسے زہریلے مواد پیدا ہوتے ہیں جن میں سانس لینے سے پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے تیل جن میں انسیچوریٹڈ فیٹ کم ہوتا ہے جیسے پام اور ہلکی فرائنگ سے یہ خطرات کم کیے جا سکتے ہیں۔

پکا ہوا گوشت اور ذیابیطس

گوشت خوروں کو دو باتوں پر غور کرنا پڑے گا، ایک تو یہ کہ وہ کتنی مرتبہ گوشت کھاتے ہیں اور اسے پکاتے کیسے ہیں۔

مختلف تحقیقوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرخ گوشت کو آگ پر بھوننے، بار بی کیو اور اوون میں تیز درجۂ حرات میں پکانے سے امریکہ میں خواتین میں ذیابیطس کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ حالانکہ یہ ابھی واضح نہیں کہ یہ اثر صرف خواتین تک محدود کیوں ہے اور مردوں میں کیوں نہیں۔

ایک دوسری تحقیق میں بھی تیز آگ اور زیادہ درجۂ حرارت میں سرخ گوشت، مرغی اور مچھلی پکانے اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کے درمیان تعلق سامنے آیا ہے اور یہ خواتین اور مردوں دونوں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ ان تحقیقوں میں دیگر عناصر کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے جیسے طرز زندگی، ورزش اور شوگر کا استعمال وغیرہ۔ بہرحال تحقیق کاروں نے پکانے کے کچھ متبادل طریقوں کا مشورہ ضرور دیا ہے جن میں ابالنا اور بھاپ میں کھانا پکانا شامل ہے۔

آلو

پکانے کے متبادل طریقے

گذشتہ ایک صدی کے دوران پکانے کے طریقوں میں تبدیلیاں اور تنوع آیا ہے اور کھانا پکانے کے عمل میں گرمی حاصل کرنے کے قدیم ذرائع کے علاوہ دیگر چیزیں شامل ہو گئی ہیں۔ مائکرو ویوو، بجلی کے چولہے اور ٹوسٹر اب تقریباً ہر گھر میں موجود ہیں جو آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کا متبادل ہیں۔

سائنسدان مائکرو ویوو میں کھانا پکانے کو زیادہ صحت مند طریقہ کہہ رہے ہیں، یہ اس پر بھی منحصر ہے کہ آپ ان میں کیا پکا رہے ہیں۔

مثال کے طور پر سپین میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مشروم کو مائکرو ویوو میں پکانا زیادہ بہتر طریقہ ہے کیونکہ اس سے ان کے اندر پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹس محفوظ رہتے ہیں۔ اینٹی آکسیڈینٹس وہ اجزا ہوتے ہیں جو انسانی خلیوں کو ٹوٹ پھوٹ سے بجاتے ہیں۔ اس کے بجائے مشرومز کو اگر فرائی یا ابالا جائے تو ان میں اینٹی آکسیڈینٹس کم ہو جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ سبزیوں کو کم پکانے اور پکانے کے لیے کم پانی استعمال کرنے سے ان کے وٹامن اور مفید غذائی اجزا باقی رہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مائکرو ویوو کا استعمال بہتر ہے کیونکہ اس طریقے سے سبزیوں میں شامل مفید اجزا کم سے کم ضائع ہوتے ہیں۔ جبکہ ابالنے کے دوران مفید اجزا پانی میں چلے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ بھاپ میں پکانا بھی ابالنے سے بہتر ہے۔ کوئی بھی چیز اگر آپ زیادہ دیر تک اور زیادہ درجۂ حرارت میں پکاتے ہیں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

تیز آنچ میں فرائی کرنے کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بعض چکنائی زیادہ گرم ہونے کے بعد ایسے کیمیائی عمل سے گزرتی ہے کہ اس میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس کے مفید اجزا تبدیل ہو کر نقصان دہ بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر زیتون کا تیل تیز گرم ہونے کی صورت میں اپنا کئی فائدے مند اجزا کھو بیٹھتا ہے جیسے اولیوکینتھال جو جسم میں سوجن ختم کرنا ہے۔ اس کے بجائے ایلڈی ہائڈز جیسے نقصان دہ اجزا پیدا ہو جاتے ہیں۔

زیتون کا تیل اپنے فائدے مند اجزا کی وجہ سے آج بھی ماہرین کا انتخاب ہے بشرطیکہ اسے تیز آنچ میں بہت دیر تک نہ پکایا جائے۔

جینا میچی اوکی کہتی ہیں کہ گوشت اور کاربوہائڈریٹس کو پکا کر کھانے سے ہی ان کے غذائی اجزا ملتے ہیں اوریہ کچا کھانے سے بہتر ہے۔ آخر کار ہمارے آبا و اجداد نے کسی وجہ سے ہی چیزوں کو پکانا شروع کیا تھا۔