ایک نیم سیاسی کالم اور ایک غیر سیاسی لطیفہ
یہ اٹھارہ جولائی کی بات ہے۔ ہم تین چار دوست بیٹھے ہوئے تھے اور حسبِ معمول گپ شپ چل رہی تھی کہ اچانک آصف نے مجھ سے پوچھا کہ بزدار صاحب کا کیا مستقبل ہے؟ میں نے کہا خیر سے میں ان کے مستقبل کو روشن کہنے کی جرأت تو نہیں کر سکتا مگر یہ کہہ سکتا ہوں کہ فی الحال محفوظ ہے۔ اس وقت سامنے ٹی وی سکرین پر عمران خان صاحب کے دورۂ لاہور کی خبر چل رہی تھی۔ اس خبر کے حوالے سے آصف کہنے لگا کہ کیا عمران خان اپنے اس دورۂ لاہور کے دوران اپنی عظیم الشان دریافت جناب عثمان بزدار سے فراغت حاصل کرنے آ رہے ہیں۔ میں نے کہا: میرا نہیں خیال کہ وہ اپنے عمدہ فیصلے پر یوٹرن لیں اور اپنے ”وسیم اکرم پلس‘‘ کو فارغ کریں۔ آصف نے کہا شرط لگاتے ہو؟ میں نے کہا گو کہ میں شرط لگانے کے معاملے میں خاصا بدنام ہوں لیکن آپ پہلے بھی کئی شرطیں ہار کر کافی عرصہ سے نادہندہ چلے آ رہے ہیں اس لیے مزید شرط کی فی الوقت کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ ویسے بھی میں اپنا شرط جیتنے کا ریکارڈ خراب نہیں کرنا چاہتا کیونکہ عمران خان صاحب اور بزدار صاحب کی وزارتِ عالیہ والا معاملہ عقل و سمجھ سے بالاتر ہے اس لیے ایسی چیزوں پر شرط لگانا میرے طے شدہ اصولوں کے منافی ہے آپ مجھے اس سے معاف رکھیے۔
شوکت گجر کہنے لگا: میں بھی خالد صاحب سے متفق ہوں۔ عمران خان صاحب کے دورۂ لاہور کے دوران کچھ بھی نہیں ہوگا اور سب کچھ حسبِ سابق والا ہی چلتا رہے گا۔ آصف کہنے لگا :پاکستان میں کسی نئی سیاسی خبر کا اندازہ عموماً اس کے بارے میں تردیدی بیان سے چلتا ہے‘ جیسا کہ آج کل بزدار صاحب کی فراغت کے بارے میں مسلسل حکومتی تردیدی بیانات آ رہے ہیں۔ چلیں اپنے فیاض چوہان صاحب کی تو خیر ہے‘ بندہ ان کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا بلکہ ”زیادہ‘‘ کا لفظ بھی فالتو ہے‘ لیکن جب سے اس خبر نما افواہ یا افواہ نما خبر کی تردید شبلی فراز صاحب نے کی ہے تو مجھے یقین ہونے لگا ہے کہ دال میں ضرور کچھ نہ کچھ کالا ہے۔ احمد فراز کے بیٹے کو بہر حال ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ میں زور سے ہنسا اور آصف کو کہا کہ آپ کو بزدار صاحب کو بھی ہرگز ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ کم از کم وہ اس بار تو ہر حال میں اپنی ”ایکسٹینشن‘‘ کروا لیں گے۔ آصف نے پوچھا ‘کیسے؟ میں نے کہا: تابعداری کے زور پر اور کیسے؟
اسی شام بلی تھیلے سے باہر آ گئی اور عمران خان صاحب نے بڑے پُر زور طریقے سے بزدار صاحب پر اپنے اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کو تھپکی دے کر کم از کم اپنے دورہ ٔلاہور تک ان کی رخصتی کے غبارے سے ہوا نکال دی ۔ دو دن بعد آصف سے ملاقات ہوئی (مورخہ بیس جولائی) تو میں نے کہا: آپ شکر ادا کریں کہ آپ کی سابقہ نادہندگی کے پیش نظر میں نے شرط نہیں لگائی تھی وگرنہ آپ مزید مقروض ہو جاتے۔ شوکت گجر نے پوچھا ‘یہ کیسے ہوا؟ میں نے کہا کہ اس روز بھی میرا مؤقف تھا کہ بزدار صاحب اپنی تابعداری کے زور پر عمران خان کو رام کر لیں گے اور عمران خان بھی دراصل یہی چاہتے ہیں کہ پنجاب کا وزیراعلیٰ ان کا ویسا ہی فرمانبردار ہو جیساکہ مرحوم غلام حیدر وائیں میاں صاحبان کے تابعدار اور فرمانبردار ہوتے تھے۔ سو معاملہ تب بھی خوب چلتا رہا اور اب بھی خوب چل رہا ہے۔
پھر میں نے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں نے کل کے اخبار میں کمشنر لاہور محمد آصف بلال لودھی اور سیکرٹری سروسز پنجاب ڈاکٹر محمد شعیب اکبر کی ٹرانسفر کی خبر پڑھی ہے؟ دونوں نے کہا کہ ہاں دیکھی تو ہے‘ لیکن اس میں کیا خاص بات ہے؟ ٹرانسفر پوسٹنگ تو سرکاری نوکری کا حصہ ہے اور معمول کی بات ہے۔ میں نے کہا: آپ کی بات سو فیصد درست ہے لیکن یہ معمول کی ٹرانسفرز نہیں ہیں۔ آصف بلال صاحب ابھی صرف چند دن قبل ہی کمشنر لاہور تعینات ہوئے تھے‘ بلکہ یہ چند دن والی بات شاید آپ اصطلاحاً سمجھ رہے ہیں‘ وہ شاید پانچ یا چھ دن قبل ہی کمشنر لاہور تعینات ہوئے تھے۔ ہر دو حضرات کا تبادلہ محترم عمران خان صاحب کی ہدایت پر ہوا ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ کم از کم ڈاکٹر شعیب اکبر کی حد تک تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ سردار عثمان بزدار صاحب کی بڑی باقاعدہ قسم کی ”گڈ بک‘‘ میں تھے۔ ڈاکٹر شعیب اکبر اس سے قبل عثمان بزدار کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر فرائض انجام دے چکے ہیں اور ان کو بہت عزیز تھے‘ لیکن عمران خان صاحب کی ہدایت پر انہوں نے دونوں افسران کو فارغ کرنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگایا۔ کمشنر لاہور کی تعیناتی اصولی طور پر بھی اور آئینی طور پر بھی صوبائی حکومت کا اختیار ہے نہ کہ وفاقی حکومت کا۔ اس حوالے سے صوبائی حکومت کے چیف ایگزیکٹو وزیراعلیٰ ہیں اور یہ ان کی صوابدید پر ہے کہ وہ کس انتظامی افسر کو کس جگہ پر لگانا پسند کرتے ہیں۔ وفاقی حکومت کا صرف اتنا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے وفاقی کیڈر والے سول سروس افسر کو کسی بھی صوبے کی ضرورت کے مطابق اس صوبے میں بھجوا دے اور پھر صوبائی حکمت اسے اپنی ضرورت اور صوابدید کے مطابق کسی بھی عہدے پر تعینات کر دے اور اگر ضرورت نہ ہو تو اسے دوبارہ وفاق کیلئے سرنڈر کر دے۔ شنید ہے کہ ہر دوافسران کو پہلے بھی اوپر کی ہدایت پر فارغ کیا گیا تھا مگر عثمان بزدار صاحب نے خود کو با اختیار وزیراعلیٰ سمجھتے ہوئے ان دونوں افسران کو پتلی گلی میں سے لے جا کر دوبارہ زوردار قسم کے عہدوں پر تعینات کر دیا۔ آصف بلال کو کمشنر لاہور کے علاوہ لاہور رنگ روڈ اتھارٹی کا ایڈیشنل چارج بھی دیا گیا تھا جبکہ ڈاکٹر شعیب اکبر کو پنجاب بیورو کریسی کی بہت اہم پوسٹ سیکرٹری سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن پنجاب تعینات کر دیا۔ اس دورۂ لاہور کے دوران جونہی عمران خان صاحب کو کسی مخبر نے بتایا گیا کہ ان دونوں افسران کو جناب عثمان بزدار نے دوبارہ اپنے ”صوابدیدی‘‘ اختیارات کے تحت کمشنر لاہور اورسیکرٹری سروسز لگا دیا ہے تو خان صاحب نے ماتھے پر تیوری چڑھائی اور سردار عثمان بزدار نے پلک جھپکتے ہی دونوں افسران کو فارغ کیا اور ان کی سروسز وفاق کو واپس کرتے ہوئے انہیں اسلام آباد رپورٹ کرنے کے لیے چلتا کر دیا۔ ان دونوں افسران کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک بار مرحوم غلام حیدر وائیں نے‘ جب وہ صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے‘ ایک تھانیدار کو معطل کرنے کے بعد بیان جاری کیا تھا کہ مجھے تو اب پتا چلا ہے کہ میں کتنا با اختیار وزیراعلیٰ ہوں۔ جناب عثمان بزدار سے دوستانہ گزارش ہے کہ وہ گمراہ کن خواب دیکھ کر وسیم اکرم پلس نہ بنیں اور نوکری کو داؤ پر نہ لگائیں بلکہ غلام حیدر وائیں پلس بن کر مزے کرتے رہیں۔ رسک لینے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔ ان کے حوالے سے رسک کی رتی برابر گنجائش نہیں ہے‘ آگے ان کی مرضی!
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
اب آخر میں ایک غیر سیاسی لطیفہ۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی شخص نے کابل کے بادشاہ کو کہا کہ وہ ایک ایسی توپ بنا سکتا ہے جو کابل سے براہ راست دہلی پر گولہ پھینک سکے گی۔ بادشاہ نے خوش ہو کر اجازت دے دی۔ چند ماہ بعد وہ شخص بادشاہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: حضور! توپ تیار ہے ‘آپ اس کے افتتاح پر تشریف لائیں۔ اگلے روز بادشاہ مصاحبین کے ساتھ توپ کے افتتاحی مرحلے کو رونق بخشنے پہنچ گیا۔ توپ نہایت شاندار تھی‘ بادشاہ دیکھ کر بڑا خوش ہوا۔ توپچی نے گولہ داغا۔ ایک زوردار دھماکہ ہوا‘ گولہ توپ کے اندر ہی پھٹ گیا اور توپ کی نالی کے پرخچے اڑ گئے۔ کئی لوگ جاں بحق ہو گئے اور بڑی تباہی پھیلی۔ بادشاہ نے پریشان ہو کر پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے؟ توپچی نے نہایت فخر سے کہا: حضور! گھبرائیں نہیں‘ یہاں جو تباہی ہوئی سو ہوئی‘ اندازہ لگائیں وہاں کتنی تباہی مچی ہوگی جہاں اس کا گولہ جا کر گرا ہوگا۔