کرونا کی وبا ابھی تک جاری ہے۔ جب تک اموات ہوتی رہیں گی اور جب تک نئے مریض سامنے آتے رہیں گے، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اب یہ ریلا گزر گیا ہے۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ اس کی شدت میں کمی آگئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی میڈیا ایسی خبریں بھی دے رہا ہے کہ سرکاری سطح پر کئے جانے والے ٹیسٹ بہت کم ہو گئے ہیں۔ لہذا وہ مریض بھی کسی گنتی شمار میں نہیں آرہے جو کرونا کا شکار تو ہیں لیکن ٹیسٹ نہ ہونے کے باعث انہیں مریضوں کی تعداد میں نہیں گنا جا رہا ہے۔ چار ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد ہم اس صورتحال کے عادی سے ہو چلے ہیں۔ بڑی حد تک ہمارے معمولات بھی بحال ہو گئے ہیں۔ لاک ڈاون یا سمارٹ لاک ڈاون کی باتیں بھی پس منظر میں چلی گئی ہیں۔ تعلیمی ادارے البتہ بند ہیں جو عام حالات میں بھی ان دنوں گرمیوں کی تعطیلات کے سبب بند ہوتے ہیں۔
اب جب کہ عید الاضحی قریب آ رہی ہے ایک بار پھر یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ کیا ہم عید الفطر ہی کی طرح احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرتے ہوئے بازاروں میں امڈ آئیں گے؟ قومی نفسیات تو یہی کہہ رہی ہے کہ ہم حفاظتی تدابیر(SOPs) کو کم ہی اہمیت دیتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی قوت نافذہ نہیں۔ سو ایک خوف موجود ہے کہ کیا گزشتہ عید کے بعد جس طرح کرونا نے یک لخت شدت اختیار کر لی تھی، خدانخواستہ اب بھی ایسا ہی ہو گا؟ عید الاضحی عید قرباں بھی کہلاتی ہے۔ جب ساری دنیا کے صاحب توفیق مسلمان اللہ کی راہ میں، سنت ابراہیمی کی تقلید میں جانوروں کی قربانیاں دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں قربانی کے نظام کو کسی قاعدے قانون کے تابع نہیں کیا گیا۔ سو قربانی کے بعد گھر گھر، گلی گلی، محلے محلے غلاظت کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ جگہ جگہ خون بہتا دکھائی دیتا ہے۔ آلودگی کی سطح یک لخت بڑھ جاتی ہے جو کسی بھی وبا کو بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔
اگر ہم حج کے نظام کی تقلید کرتے ہوئے اجتماعی قربانیوں کے اس طریقہ کار کو اپنا لیں جس کی حکومت حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور جس کی اجازت ہمارے ہر مکتبہ فکر کے علمائے کرام نے بھی دی ہے، تو یقینا آلودگی کے مسئلے پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے اور کرونا سے متاثر ہونے والے لا تعداد افراد کی مدد کا سامان بھی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ پاک خود فرما تا ہے اسے جانوروں کے گوشت یا خون کی ضرورت نہیں، وہ صرف ہمارے جذبہ ایمان کو دیکھتا ہے۔ اللہ کا یہ فرمان ہماری راہنمائی فرماتا ہے کہ ہم قربانی کا ایسا طریقہ اپنائیں کہ نہ صرف سنت ابراہیمی کے فریضے کی تکمیل ہو جائے بلکہ ہم اپنے ضرورت مند ہم وطنوں کے کام بھی آسکیں۔ قابل اعتماد اور اچھی شہرت کے حامل رفاہی و فلاحی اداروں کے ذریعے یہ کام بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
اللہ کے فضل سے پاکستان ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں سب سے ذیادہ خیرات کی جاتی ہے۔ایک تحقیق کیمطابق پاکستانی ہرسال دو ارب ڈالر سے ذیادہ رقم خیرات کرتے ہیں۔ لیکن عمومی طور پر لوگ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے بجائے انفرادی طور پر مستحق افراد کی مدد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وجہ یہ کہ انہیں خدشہ لاحق رہتا ہے کہ نجانے انکے عطیات مستحقین تک پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں۔ یہ خدشات بجا، تاہم ہمارے ملک میں کچھ رفاہی اور فلاحی ادارے ایسے ہیں جن پر ہم آنکھیں بند کر کے اعتبار کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایدھی فاونڈیشن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ایدھی کو عطیات دیتے وقت ایسا کوئی خدشہ ہمارے ذہن میں نہیں ابھرتا۔ برسوں سے ہم اس ادارے کی سماجی خدمات کے چشم دید گواہ ہیں۔ہر قسم کی قدرتی آفات اور حادثات میں ایدھی کے کارکن پیش پیش ہوتے ہیں۔ اسکی خدمات کا دائرہ پاکستان سے باہر بھی پھیلا ہوا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی سربراہی میں چلنے والا ادارہ ” اخوت” بھی اچھی ساکھ کا حامل ہے۔قرض حسنہ کیساتھ ساتھ شعبہ تعلیم میں بھی اسکی خدمات قابل تحسین ہیں۔ کرونا کی آفت میں اخوت کی جانب سے مستحقین میں باقاعدگی سے کھانا تقسیم کیا جا رہا ہے۔آج کل قربانی فی سبیل اللہ کے لئے رقوم اکھٹی ہو رہی ہیں۔اسی طرح ایک قابل بھروسہ نام” غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ ” ہے۔ یہ ادارہ غریب اور یتیم بچوں کی تعلیمی کفالت کرتا ہے۔کرونا کے ہنگام تعلیم و تدریس کا سلسلہ معطل ہوا تو ٹرسٹ نے مستحق طالب علموں اور ان کے خاندانوں کیلئے راشن فراہم کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔ سینکڑوں خاندانوں کو “کرونا فیملی سپورٹ پروگرام” کے تحت باقاعدگی سے راشن فراہم کیا جا رہا ہے۔ عیدالاضحی پر ان خاندانوں تک گوشت پہنچانے کیلئے قربانی فی سبیل اللہ کا اہتمام کیا گیا ہے۔
سماجی خدمت کے شعبے میں ایک معتبر نام “الخدمت فاونڈیشن” ہے۔ 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب جیسی آفات میں الخدمت کی خدمات نہایت قابل ستائش ہیں۔ سماجی خدمت کا کوئی بھی پہلو ہو، فاونڈیشن کے کارکن اور رضاکار ہر دم متحرک نظر آتے ہیں۔ کرونا کے ہنگام اس ادارے کی کاوشوں کا علم مجھے اپنے حلقہ تعارف کے کچھ مستحقین کے ذریعے ہوا۔ گھر کی دہلیز پر جنہیں راشن فراہم ہوتا رہا۔سوشل میڈیا کی وساطت سے، یہ اطلاع بھی ملی کہ جس وقت خدمت خلق کا ڈول پیٹتے کچھ ادارے اپنی ٹیسٹنگ لیب میں کرونا کا تشخیصی ٹیسٹ آٹھ نو ہزار روپے کے عوض کررہے تھے، الخدمت کی کرونا لیب نے ٹیسٹ کی قیمت تین ہزار روپے مقرر کی۔ ملک بھر میں اسکے ایک لاکھ کارکن موجود ہیں۔گلی محلے کی سطح پر ہزاروں کمیٹیاں قائم ہیں۔ موجودہ وبائی صورتحال میں کھانا بانٹنے اور راشن کی تقسیم کیساتھ ساتھ صابن، ہینڈ سینی ٹائیزر، ماسک کی تقسیم بھی جاری ہے۔ ہسپتالوں، بازاروں، جیلوں، مندروں، گردواروں، گرجا گھروں میں باقاعدگی سے سپرے کیا جاتا ہے۔ برسوں سے ” الخدمت فاونڈیشن ” قربانی کی رقوم اکھٹی کر کے گوشت مستحقین تک پہنچاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی پاکستان کے علاوہ شام اور روہنگیا کے مسلمانوں تک قربانی کا گوشت پہنچانے کیلئے رقوم جمع کی جا رہی ہیں۔
اپنی کم علمی کی بنا پر میں فقط چند اداروں کا تذکرہ کر سکی ہوں۔ یقینا ان کے علاوہ بھی درجنوں قابل اعتبار ادارے فلاحی اور رفاہی کاموں میں مشغول ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس مرتبہ ہم سب منڈیوں میں جا کر جانور تلاش کرنے، گلی محلے میں ذبیحہ کا اہتمام کرنے، اپنے عزیز و اقارب میں گوشت بانٹنے اور گھروں میں بار۔بی۔ کیو دعوتیں اڑانے کے بجائے، اللہ کے ان بندوں تک قربانی کا گوشت پہنچا نے کا اہتمام کریں، جنہیں سال بھر رب کی یہ نعمت میسر نہیں ہوتی۔ ہم سب اپنی معلومات، یقین اور اعتبار کے مطابق کسی بھی معتبر ادارے کے ذریعے یہ فریضہ نہایت خوبی سے ادا کر سکتے ہیں۔یقین جانیں یہی قربانی کی اصل روح ہے۔ یہی موجودہ وبائی صورتحال کا تقاضا ہے۔