پاکستان

سی پیک کے منصوبے التوا کا شکار: ’سی پیک اتھارٹی کا قیام چین کی خواہش پر عمل میں لایا گیا‘

Share

چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) منصوبے التوا کا شکار ہونے کے بعد پاکستان نے سی پیک اتھارٹی کو نہ صرف بااختیار بنانے بلکہ اس میں چین کی نمائندگی کو بھی یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کا آغاز کر دیا ہے۔

پاکستانی حکام نے تصدیق کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ یہ قانون سازی دوست پڑوسی ملک چین کی خواہش پر کی جا رہی ہے۔

پاکستان اور چین کے درمیان تقریباً 62 بلین ڈالر کے ان منصوبوں کو سی پیک کا نام دیا گیا ہے جن کا آغاز سنہ 2013 میں ہوا۔ ان معاہدات کے تحت چین پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ان معاہدوں میں راہداری اور توانائی کے شعبے سے متعلق منصوبوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

خیال رہے کہ امریکا اور انڈیا متعدد بار چین کے پاکستان میں ان منصوبوں پر اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔

سی پیک

ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمشن نے وزارت منصوبہ بندی اور سی پیک اتھارٹی سے مشاورت کے بعد پارلیمان کو بھیجنے کے لیے ایک مجوزہ مسودہ تیار کر لیا ہے۔

بی بی سی کو پلاننگ کمشن کے ذرائع سے اس مجوزہ مسودے کی نقل حاصل ہوئی ہے۔ اس میں شامل اہم نکات کو زیر بحث لانے سے پہلے ایک اہم خبر کا ذکر ضروری ہے۔

‘وہ خبر جو شائع ہونے کے بعد لاپتہ ہو گئی‘

کیا پاکستان میں خبریں بھی لاپتہ ہوتی ہیں؟ اس کا جواب ہاں میں ہے۔

گذشتہ ہفتے پاکستان کے ایک انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبون کی ویب سائٹ پر ایک خبر شائع ہوئی کہ حکومت سی پیک اتھارٹی کو مزید اختیارات دینے سے متعلق قانون سازی کر رہی ہے۔

اس خبر کے مطابق وزارت منصوبہ بندی میں ہونے والے ایک حالیہ اجلاس میں ایک مجوزہ ڈرافٹ پر بھی غور کیا گیا، جس میں سی پیک کو وزارت منصوبہ بندی سے نکال کر براہ راست وزیر اعظم کے ماتحت کرنے کی تجویز دی گئی اور اتھارٹی میں ایک ’چیف آف سٹاف‘ تعینات کرنے کی تجویز بھی زیر غور آئی۔

یہ خبر شائع ہونے کے کچھ دیر بعد ویب سائٹ سے لاپتہ ہو گئی یعنی ہٹا دی گئی، جس کے بعد رپورٹر شہباز رانا نے ٹویٹ کیا کہ وہ اپنی خبر پر قائم ہیں اور انھوں نے جو خبر دی وہ بالکل حقائق پر مبنی ہے۔

شہباز رانا کے مطابق انھوں نے معتبر ذرائع سے یہ خبر دی تھی جس کی ابھی تک کوئی تردید جاری نہیں کی گئی ہے۔

بی بی سی نے اس حوالے سے حقائق جانچنے کے لیے پلاننگ کمشن، وزارت منصوبہ بندی اور سی پیک اتھارٹی کے حکام سے رابطہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آخر سی پیک اتھارٹی کو کون سے اختیارات دیے جا رہے ہیں، اس میں چین کو کیسے شامل کیا جا رہا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

’چین کی خواہش پر سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا‘

پاکستانی حکام کے مطابق سی پیک منصوبوں میں مسائل سامنے آنے کے بعد چین کی خواہش پر سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ حکام کے مطابق چین نے پاکستان کو بتایا کہ وہ سی پیک کے تحت منصوبوں پر پیش رفت سے مطمئن نہیں ہے۔

سی پیک اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) زکریا علی شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ چین کی حکومت نے یہ محسوس کیا کہ منصوبوں کی کوآرڈینشین صحیح طریقے سے نہیں ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق ان منصوبوں میں مانیٹرنگ کے مسائل بھی آ رہے تھے۔ جس کے بعد سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔

ان کے مطابق سی پیک کے ہر منصوبے میں مسائل ہیں لیکن اب پہلے سے صورتحال بہت بہتر ہے۔

سی پیک

زکریا علی شاہ کا کہنا ہے کہ ایک ایسی اتھارٹی کا قیام عمل میں لانے کا مقصد نہ صرف مانیٹرنگ کو یقینی بنانا ہے بلکہ اتھارٹی یہ بھی دیکھے کہ کسی منصوبے میں کیا ’پروسس فالو‘ ہو رہے ہیں۔

مجوزہ مسودے میں اس اتھارٹی میں چین کو بھی نمائندگی دینے کی تجویز شامل ہے۔ تاہم حکام کے مطابق یہ مسودہ ابھی حتمی نہیں ہے۔

تجویز کے مطابق سی پیک منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کی سربراہی مشترکہ طور پر پاکستان کی سی پیک اتھارٹی کے چئیرمین اور چین کے نیشنل ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے وائس چئیرمین کریں گے۔

اس کمیٹی کے تحت ایک جوائنٹ ورکنگ گروپ بھی ان منصوبوں کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے کام کر رہا ہو گا، جس میں دونوں ممالک کی نمائندگی شامل ہو گی۔

’سی پیک منصوبےالتوا کا شکار‘ مگر کیوں؟

پاکستانی حکام کے مطابق سی پیک کے منصوبے التوا کا شکار ہیں۔ یہ التوا کچھ مسائل سامنے آنے کی وجہ سے ہوا۔ حکام نے ان مسائل کی تفصیلات شیئر نہیں کی ہیں۔ تاہم حکام اس کی وجہ کچھ انتظامی اور ضابطے کی رکاوٹوں کو قرار دیتے ہیں۔

سی پیک اتھارٹی کے سی ای او کے مطابق حالیہ چند ماہ سے ان منصوبوں میں التوا کی ایک وجہ تو کورونا وائرس بھی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ سرمایہ کار (چینی کمپنیوں) اور ہمارے لیے بھی بہتر ہے کہ التوا کے شکار منصوبوں پر کام آگے بڑھایا جائے۔‘

ان کے مطابق سی پیک اتھارٹی نے باوجود کم وسائل اور افرادی قوت کے چند ہفتوں میں بہتر کوآرڈینیشن سے دو ڈیمز پر کام کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، جن پر کام گذشتہ دو سال سے رکا ہوا تھا۔

سی پیک کے تحت جاری ان منصوبوں کی نگرانی مختلف وزارتوں اور محکموں کے ذمے ہے۔ ایسے میں آخر ان منصوبوں میں سی پیک اتھارٹی کا کیا کردار ہوگا؟ اس سوال کے جواب کو سمجھنے کے لیے پہلے سی پیک اتھارٹی کے بنیادی تصور کو سمجھنا ضروری ہے۔

سی پیک کا بنیادی تصور ہے کیا؟

تحریک انصاف کی حکومت کے آتے ہی سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ چند ہفتے قبل تک یہ اتھارٹی ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اپنا نظم و نسق چلا رہی تھی۔

خیال رہے کہ چین کے ساتھ پاکستان نے سی پیک کا معاہدہ مسلم لیگ نواز کی گذشتہ حکومت کے دور میں کیا تھا مگر سی پیک اتھارٹی جیسے کسی ادارے کو ان معاہدوں کی نگرانی نہیں دی گئی تھی۔

تاہم اس آرڈیننس کی مدت پوری ہونے کے بعد اب اس اتھارٹی کو قانونی جواز بخشنے کے لیے موجودہ حکومت قانون سازی کر رہی ہے۔ اس قانون سازی کی تفصیل اس سٹوری میں آپ بعد میں پڑھ سکیں گے پہلے اس کے قیام کے مقاصد پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔

سی پیک اتھارٹی کے سی ای او زکریا علی شاہ کے مطابق اس اتھارٹی کے قیام کا آئیڈیا یہ تھا کہ اس کے ذریعے سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل کو معینہ مدت میں یقینی بنایا جا سکے۔ اس اتھارٹی کا بنیادی کام فیسلیٹیشن، کوآرڈینیشن اور مانیٹرنگ ہے۔

ان کے مطابق ایسے بہت سے معاملات ہوتے ہیں جو حکومتوں اور کمپنیوں کے درمیان کے ہوتے ہیں جنھیں آگے لے کر جانا ہوتا۔

زکریا علی شاہ کے مطابق چینی کنٹریکٹر اس اتھارٹی سے بہت ’کمفرٹ ایبل‘ محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ اتھارٹی ان کے لیے ’ون ونڈو‘ کے طور پر کام کرتی ہے یعنی انھیں اپنے کاموں کے لیے مختلف وزارتوں اور محکموں کے چکر نہیں لگانے پڑتے۔

سی پیک اتھارٹی کو بااختیار بنانے کے لیے کس قسم کی قانون سازی کی جا رہی ہے؟

زکریا علی شاہ کے مطابق صدارتی آرڈیننس سی پیک اتھارٹی کو وہ اختیارات نہیں دے رہا تھا جس کے تحت یہ اپنے قیام کے مقاصد کو بطور احسن انجام دے پاتی۔ لہٰذا وزیر اعظم نے پلاننگ کمشن کے ڈپٹی چیئرمین کو یہ ٹاسک سونپا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر اس اتھارٹی سے متعلق تجاویز (قانون سازی سے متعلق سفارشات) تیار کریں۔

ان کے مطابق اس قانون سازی کا بنیادی آئیڈیا یہ تھا کہ اس اتھارٹی کو تھوڑا مضبوط کیا جائے۔

سی پیک

انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ اتھارٹی وزارت منصوبہ بندی کے تحت صیحح معنوں میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی۔ تاہم ان کے مطابق اس کا ابھی فیصلہ ہونا ہے کہ یہ اتھارٹی براہ راست وزیر اعظم کے تحت کام کرے گی یا کیبینٹ ڈویژن کے تحت ہو گی۔

ان کے مطابق ہم نے یہ تجویز دی ہے کہ اگر اتھارٹی بن گئی ہے تو اسے مضبوط کیا جائے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنرل عاصم سلیم باجوہ یا زکریا علی شاہ کو مضبوط بنایا جائے۔

قانون سازی سے متعلق مجوزہ مسودے میں اس اتھارٹی کے دائرہ اختیار سے متلق مزید تفصلات بھی ملتی ہیں۔ اتھارٹی کو سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے لیے متعدد اقدامات اٹھانے کے اختیارات حاصل ہوں گے۔

وفاق اور صوبے اس اتھارٹی کی مدد کرنے کے پابند ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق ابھی صوبوں نے اس اتھارٹی کے صوبائی دفاتر کے قیام پر متفق نہیں ہیں۔ تاہم مجوزہ قانون سازی میں صوبائی حکومتوں کے تحت اداروں کو اس اتھارٹی سے تعاون کا پابند بنایا گیا ہے۔

سی پیک اتھارٹی کو معلومات تک رسائی دی جائے گی۔ اتھارٹی معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کسی شخصیت کو بھی طلب کر سکے گی۔ تعاون نہ کرنے کی صورت میں سزا تجویز کی گئی ہے۔ اس ڈرافٹ میں سی پیک اتھارٹی سے متعلق غیر متعلقہ افراد تک معلومات پہنچانے پر سخت سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔

اس میں سی پیک بزنس کونسل کے قیام کے علاوہ سی پیک اتھارٹی کے لیے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کیا جائے گا۔

سی پیک اتھارٹی کو یہ فنڈ حکومتی گرانٹس کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی مل سکے گا اور اتھارٹی اضافی فنڈز کے بہتر استعمال کے لیے کسی بہتر کاروبار میں سرمایہ کاری بھی کرنے کی مجاز ہو گی۔

چیئرمین سی پیک کو چار سال کی مدت کے لیے تعینات کیا جائے گا اور مدت ملازمت میں چار سال تک کی توسیع بھی مل سکے گی۔

وزیر اعظم اس اتھارٹی کے ممبران کا تقرر تین سال کے لیے کریں گے اور ان کی مدت ملازمت میں بھی تین سال تک کی توسیع کی جا سکے گی۔ کسی بیورو کریٹ کو اتھارٹی کا سربراہ یہ کلیدی عہدہ نہ دینے کی تجویز بھی اس مسودے کا حصہ ہے۔

سی پیک اتھارٹی میں چیف آف سٹاف بھی تعینات کیا جائے گا؟

زکریا علی شاہ کا کہنا ہے کہ سی پیک اتھارٹی نے وزارت منصوبہ بندی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ ان کے مطابق چیف آف سٹاف کے بجائے سی پیک میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر آپریشنل کا عہدہ ہو گا۔

وزارت منصوبہ بندی کے مطابق مجوزہ ڈرافٹ انھوں نے یعنی سی پیک اتھارٹی کے حکام کی طرف سے تیار کیا گیا ہے۔ وزارت کے ترجمان ظفرالحسن نے بی بی سی کو بتایا کہ سی پیک کے آغاز سے ہی اس اتھارٹی کو بااختیار بنانے سے متعلق کام ہو رہا تھا۔

سی پیک

ان کا کہنا ہے کہ وزارت منصوبہ بندی کے تحت کام کرنے والی اتھارٹیز زیادہ با اختیار ہیں اور ان کے کام میں وزارت کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔ انھوں نے اس حوالے سے ادارہ شماریات اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلمپنٹ اکنامکس کی مثال دی کہ وہ اپنے معاملات کو آگے بڑھانے میں آزاد ہیں۔

ترجمان کے مطابق انھوں نے مجوزہ ڈرافٹ نہیں دیکھا کیونکہ جس اجلاس میں اس پر غور کیا گیا وہ اس میں شریک نہیں تھے۔ تاہم ان کے مطابق یہ مجوزہ ڈرافٹ اتھارٹی کی طرف سے آیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت منصوبہ بندی کا ایک حد تک کردار ضرور ہے مگر اتھارٹی اپنے معاملات میں آزاد ہے۔

ترجمان نے تصدیق کی کہ اب اس اتھارٹی کو زیادہ اختیارات دینے کی ترمیم متعارف کرائی جا رہی ہے اور یہ مجوزہ بل سی پیک اتھارٹی نے بنایا ہے۔

’سی پیک اتھارٹی 20 فیصد تک فعال‘

سی پیک اتھارٹی کی سربراہی اس وقت لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کر رہے ہیں، جو افواج پاکستان کے میڈیا ونگ، آئی ایس پی آر، کے سربراہ بھی رہے ہیں۔

سی پیک کے سی ای او زکریا علی شاہ کے مطابق اس وقت سی پیک اتھارٹی 20 فیصد تک فعال ہے۔

اس اتھارٹی نے کسی سے درخواست کر کے ایک دفتر لیا ہے۔ ان کے مطابق اس وقت اتھارٹی کو وسائل اور افرادی قوت جیسی کمی کا سامنا ہے۔ ان کے مطابق وہ خود اپنی گاڑی چلاتے ہیں۔

ان کے مطابق ابھی تک مانیٹرنگ کا عمل شروع نہیں کیا جا سکا ہے۔ ان کے مطابق کچھ ایسے ایشو ہیں جو وزارت منصوبہ بندی کو مانیٹر کرنے ہوں گے۔

سی پیک اتھارٹی کے ایکٹ کے تحت کچھ مزید ملازمتیں اور سٹاف کی تقرری بھی ہو سکے گی۔