اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کرپشن کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے طرز عمل کو قانون، عدل، انصاف اور معقولیت کی مکمل خلاف ورزی کا واضح اظہار قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق پیراگون سٹی (پرائیویٹ) لمیٹڈ کیس کے 87 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس مقبول باقر نے لکھا کہ ’موجودہ کیس آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی سے غیرقانونی محرومی اور انسانی وقار کو مکمل طور پر اہمیت نہ دینے کی بدترین مثال ہے‘۔
سابق وزیر ریلوے اور پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کو 30، 30 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد رواں برس 17 مارچ کو مذکورہ کیس میں ضمانت دی گئی تھی۔
جسٹس مقبول باقر نے خواجہ برادران کی ضمانت بعداز گرفتاری سے متعلق درخواست پر سماعت کرنے والے 2 رکنی بینچ کی سربراہی کی تھی۔
خواجہ برادران نے گزشتہ برس 18 جون کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی ضمانت مسترد کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
فیصلے میں جسٹس مقبول باقر نے افسوس کا اظہار کیا کہ اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نیب کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اس کا امتیازی سلوک بھی اس کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے جس کی وجہ اس کی صداقت اور غیرجانبداری پر لوگوں کے یقین کو دھچکا لگا ہے۔
فیصلے میں انہوں نے کہا کہ ’بیورو بڑے مالیاتی گھپلوں کی صورت میں بھی ایک جانب کے افراد کے خلاف کارروائی سے گریزاں نظر آتا ہے جبکہ دوسری جانب لوگوں کو بغیر کوئی واضح وجہ بتائے بغیر مہینوں اور سالوں کے لیے گرفتار کرلیا جاتا ہے جبکہ قانون کے تحت تفتیش تیزی سے اور ٹرائل 3 روز میں مکمل ہوجانا چاہیئے’۔
فیصلہ میں کہا گیا ’حالانکہ تفتیش اکثر مہینوں تک مکمل نیں ہوتی اور کیسز برسوں زیر التوا رہتے ہیں، پروفیشنل ازم ، مہارت کے فقدان اور مقصد سے مخلص نہ ہونے کی وجہ سے نیب کیسز میں سزا ہونے کی شرح انتہائی کم ہے‘۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’مذکورہ بالایقیناً قومی مفاد کی خدمت نہیں کررہا بلکہ اس کے بجائے ملک، قوم اور معاشرے کو متعدد طریقوں سے ناقابل تلافی نقصان پہنچارہا ہے‘۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ حالانکہ لوٹ مار اور بدعنوانی سے لڑنا ایک نیک مقصد ہے لیکن اس کے لیے اختیار کیا جانے والا طریقہ، کارروائی اور میکانزم قانون کے دائرے میں ہونا چاہیئے۔
فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ ’کسی شخص کی گرفتاری ایک بڑا معاملہ ہے لیکن گرفتاری کے لیے طاقت کے غلط استعمال سے سنگین نتائج مرتب ہوئے ہیں اس لیے اسے بہت احتیاط، اور حساس طریقے سے انجام دینے کی ضرورت ہے‘۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ’کسی شخص کی گرفتاری ٹھوس ثبوت اور ایسے قابلِ کارروائی مواد کی بنیاد پر ہونی چاہیے جو اسے جرم سے جوڑتا ہو، گرفتاری کی طاقت کو جبر و استحصال کے آلے کے طور استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے‘۔
جسٹس مقبول باقر نے لکھا کہ ’کسی شخص کی آزادی سے متعلق کیس میں ہمیں انصاف کے اس بنیادی اصول کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے کہ ایک شخص اس وقت تک بے گناہ تصور کیا جاتا ہے جب تک اس پر جرم ثابت نہ ہوجائے‘۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’ نہ صرف ٹرائل پر موجود ملزم کے تحفظ بلکہ نظام انصاف کی دیانت، صداقت، غیر جانبداری اور تحفظ پر عوام کے یقین کو قائم رکھنے کے لیے گناہی کا تصور انتہائی اہم ہے‘۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ’آئین میں صرف ایک بنیادی حق ہے جو غیر مشروط، ناقابل منسوخ اور کسی بھی صورت اسے محدود نہیں کیا جاسکتا اور وہ ہے انسان کی عزت، اور گرفتاری سے قبل قید کے سنگین نتائج میں سے ایک اس قسم کی حراست کے نتیجے میں نہ صرف ملزم بلکہ اس کے اہلِخانہ اور اس سے وابستہ افراد کی ہونے والی بے عزتی ہے‘۔
فیصلے میں کہا گیا کہ حراست کسی شخص کی ساکھ اور ماشرے میں اس کے مقام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہے اور اکثر اسے نفرت، طعنوں اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آج کل پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے دور میں ملزم کی گرفتاری اور اس کے خلاف الزامات، وسوسوں اور چہ مگوئیوں کی بری مہم کو جنم دیتے ہیں جبکہ ملزم اور اس کے اہلِ خانہ ذلت و رسوائی، پشیمانی اور اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کیا ملزم کو ضمانت دینی چاہیے کے جواب میں فیصلہ میں کہا گیا کہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ ضمانت کا مقصد ،ملزم کی ٹرائل میں حاضری یقینی بنانا ہے۔
فیصلے کے مطابق ’تمام مہذب معاشرے اس اصول کو تسلیم کرتے ہیں کہ سزا صرف جرم ثابت ہونے پر دی جاتی ہے اور جب تک ٹرائل کے بعد سزا نہیں دے دی جاتی ملزم کو بے گناہ تصور کیا جائے گا، یہ بات دہرانے کی شاید ہی کبھی ضرورت پڑتی ہے کہ ٹرائل سے قبل اور دوران گرفتاتی سخت مشکلات کا سبب بنتی ہے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ’بدقسمتی سے ملک کو قائم ہونے کے 72 سال اور آئین کے نفاذ کے 47 سال بعد بھی ہم اس کے نظریات کو حقیقی معنوں میں سمجھنے سے قاصر ہیں، اس ملک کی عوام کو مسلسل آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا اور مساوات، عدل اور جمہوری روایات کے لیے برداشت اور احترام کی کھلے عام دھجیاں بکھیری گئیں‘۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’ہمارے معاشرے میں ہٹ دھرمی، عدم برداشت، اقربا پروری، نااہلیت، رجعت پسندی، دھوکہ دہی، مکر و فریب، خودنمائی، برتری کا غلط احساس، مختلف جانبداریاں اور تعصبات، بدعنوانی پھیل گئی ہے اور معاشرہ ان میں ڈوب چکا ہے‘۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ’جب بھی آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی کوششیں کی گئیں انہیں پوری طاقت سے ناکام بنادیا گیا‘۔
جسٹس مقبول باقر نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوامی فلاح و بہبود اور تحفیف غربت ہماری ترجیحات میں سب سے نیچے ہیں، بڑے پیمانے پر اختلاف رائے کو دبانا ہماری جمہوریت کے لیے ایک اور لعنت ہے اور مساوات صرف ایک خواب ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’ملزمان کی گرفتاری، ان کے خلاف انکوائری تحقیقات شروع کرنے کا مقصد اور انہیں 15 ماہ کی طویل مدت تک قید میں رکھنا بادی النظر میں قومی احتساب آرڈیننس کی تعمیل یا اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔
فیصلے میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ’نیب چیئرمین نے جس بنیاد پر اس معاملے میں کارروائی کا فیصلہ کیا وہ اب تک نامعلوم ہے، اگر مطلوبہ شکایت اس کی بنیاد تھی تو اس میں یہ بات ظاہر نہیں کہ اصل میں الزام کیا تھا اور اس بات کا فیصلہ کرنے نیب کے سامنے کیا معلومات یا مواد رکھا گیا کہ کمپنی انتظامیہ کا طرز عمل قومی احتساب آرڈیننس کی دفعہ 9 کے دائرہ کار میں آتا ہے۔