فیچرز

موہٹہ پیلس: کلفٹن میں واقع ’کراچی کا تاج محل‘

Share

تاج محل کی کہانی کس نے نہیں سُنی۔

سب جانتے ہیں کہ قریب پونے چار سو سال پہلے ایک شہنشاہ نے اپنی ملکہ سے محبت کی یادگار تاج محل بنوائی۔ شاید شاہ جہاں کے نزدیک تو یہ عمارت صرف ممتاز محل کا مقبرہ ہی ہوگی لیکن آج یہ دنیا بھر میں پیار کی سب سے بڑی علامت کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔

جب ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر غریبوں کی محبت کا مذاق اُڑایا تو دوسرے پیسے والے کہاں پیچھے رہتے۔ ساحر لدھیانوی کے شکوے کی پروا کیے بغیر کراچی کے ماڑواری تاجر رائے بہادر شیورتن موہٹہ نے بھی اپنی بیوی کے لیے کراچی میں ایک شاندار محل کھڑا کر دیا۔

ہاں یہ ضرور تھا کہ ممتاز محل کے برعکس شیورتن کی اہلیہ زندہ تھیں لیکن ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اگر اُنھیں ساحلِ سمندر کے قریب رکھا جائے تو سمندری ہوا سے اُن کی صحت بہتر ہو سکتی ہے۔ بس پھر کیا تھا، سیٹھ شیورتن نے ٹھان لی کہ بحیرہ عرب کے کنارے ایک ایسا خوبصورت محل بنائیں گے جس کی نظیر پورے کراچی میں نہیں ملے گی۔

رائے بہادر شیورتن موہٹہ کے کراچی میں کئی گھر تھے لیکن 1933 میں تعمیر ہونے والا موہٹہ پیلس ہمیشہ اُن کا پسندیدہ رہا

شیورتن موہٹہ کون تھے؟

رائے بہادر شیورتن موہٹہ کا شمار کراچی کے سب سے مالدار افراد میں ہوتا تھا اور وہ شہر کی ایک معروف سماجی شخصیت بھی تھے۔ اُن کا خاندان کلکتہ سے آکر کراچی میں آباد ہوا اور انھوں نے صنعتی شعبے میں نام کمایا۔

شیورتن کا جہاز رانی اور جہاز سازی کا کاروبار تھا۔ اِس کے علاوہ شوگر اور سٹیل ملیں بھی تھیں۔ اُن کے کراچی میں کئی گھر تھے لیکن 1933 میں تعمیر ہونے والا موہٹہ پیلس ہمیشہ اُن کا پسندیدہ رہا۔

سیٹھ شیورتن موہٹہ نے کلفٹن کے ساحل پر بنگلہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تو اُن کے ذہن میں راجھستان کے نوابوں کے محل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کی نظرِ انتخاب آرکیٹیکٹ آغا احمد حسین پر پڑی جو اُس وقت کراچی میونسپلٹی میں خدمات انجام دے رہے تھے، لیکن اُن کا زیادہ وقت راجھستان میں گزرا تھا۔

آغا احمد حسین کو برِصغیر کے اولین مسلمان ماہرینِ تعمیرات میں شمار کیا جاتا ہے جو موہٹہ پیلس سے قبل کراچی کی دو اور مشہور عمارتوں ہندو جیم خانہ اور کراچی چیمبر آف کامرس کے نقشے تیار کر چکے تھے۔ اُن کا خاندان آج بھی کراچی میں رہتا ہے اور اپنے خاندانی ورثے پر ناز کرتا ہے۔

موہٹہ پیلس

نوابی عمارت

موہٹہ پیلس کو پہلی بار دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ آپ واقعی راجھستان کے کسی محل میں کھڑے ہیں۔ ابھی کوئی دروازہ کھلے گا اور کوئی راجہ مہاراجہ اپنے مصاحبوں کو ساتھ لیے محل کے باغ میں ٹہلنے لگے گا۔

پوری عمارت جے پور فنِ تعمیر کے زیراثر ڈیزائن کی گئی ہے جس میں مغل طرزِ تعمیر کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ محل کی تعمیر میں استعمال ہونے والا گلابی پتھر جودھ پور جبکہ پیلا پتھر گزری کے علاقے سے لایا گیا تھا۔

عمارت کی خاص پہچان گنبد، محرابیں اور مینار ہیں جو موہٹہ پیلس کو اُس دور کے کراچی کی دیگر عمارتوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ دو منزلہ محل میں سولہ کشادہ کمرے ہیں۔

بیرونی دیواروں پر گُل بوٹوں اور پرندوں کی اشکال پتھر پر تراشی گئی ہیں۔ آغا احمد حسین مقامی تاریخ سے بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے موہٹہ پیلس میں مکلی کے مزارات پر کندہ نقش استعمال کیے۔ برماٹیک لکڑی کے دروازے کھڑکیوں پر سٹین گلاس کا کام کیا گیا ہے۔

محل کے اندر پوجا کے لیے شیو کا مندر بھی بنایا گیا تھا جس کا اب کوئی نشان موجود نہیں۔ عمارت کے اطراف خوب صورت اور وسیع باغیچہ تھا جس میں لگے فوارے آج بھی کام کرتے ہیں۔

موہٹہ پیلس

صحت یابی کا جشن

اِتنی چاہت سے بنائے گئے گھر میں تریاق کی تاثیر کیوں نہ ہوتی۔ شیورتن موہٹہ کی اہلیہ پر کراچی کی سمندری ہوا نے اثر کیا یا یہ رائے بہادر کی بے بہا محبت تھی، وجہ جو بھی ہو، وہ صحت یاب ہو گئیں۔

اِس موقع پر جو جشنِ صحت یابی منایا گیا وہ سیٹھ شیورتن کی سماجی شخصیت اور اُن کے محل دونوں کے شایاں نشان تھا۔ جشن کی تقریبات میں شہر کی سرکردہ شخصیات کو دعوت دی گئی۔ کراچی کے پہلے منتخب میئر جمشید نسروانجی مہتہ بھی مہمانوں میں شامل تھے۔

جس ٹھنڈی سمندری ہوا نے شیورتن موہٹہ کی بیوی کو صحت بخشی وہ اب بھی چلتی ہے لیکن آلودہ فضا کی وجہ سے اپنی تاثیر کھو بیٹھی ہے۔ موہٹہ پیلس کی چھت سے آج بھی سمندر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے لیکن یہ منظر اُتنا دلفریب نہیں رہا جتنا قریب ایک صدی پہلے تھا۔ اب اردگرد کنکریٹ کا جنگل اُگ آیا ہے جو دیکھنے میں بدنما لگتا ہے۔

موہٹہ پیلس

چار دن کی چاندنی

یہاں تک تو شیورتن اور اُن کی پتنی کسی دیومالائی کہانی کے کردار لگتے ہیں جو ظالم جادوگر کے چُنگل سے نکل کر اپنی بقیہ زندگی ہنسی خوشی گزارنے لگتے ہیں۔ لیکن اِس سٹوری کا ایک ٹوئسٹ ابھی باقی ہے۔ میاں بیوی کی یہ خوشی چند ہی برس چلی اور پھر انیس سو سینتالیس کا سال آ گیا۔

پاکستان کا قیام ہوا تو دارالحکومت کا قرعہِ فال کراچی کے نام نکلا۔ سرکاری دفاتر کے لیے عمارتوں کی کمی محسوس ہوئی تو فیصلہ ہوا کہ جن کے پاس ایک سے زائد گھر ہیں، اُن کا ایک مکان حکومت اپنی تحویل میں لے لے گی۔ گھروں کی تلاش شروع ہوئی تو سرکاری افسر دوڑائے گئے۔ کسی ظالم کی نظر شیورتن کے موہٹہ پیلس پر پڑ گئی اور یوں یہ محل حکومت کے ہاتھ آ گیا۔

سیٹھ شیورتن تلملائے تو بہت لیکن کچھ نہ کر سکے اور دلبرداشتہ ہو کر ملک چھوڑ گئے۔ سالہا سال تک موہٹہ پیلس وزارتِ خارجہ کے ٹائپ رائٹروں کے شور سے گونجتا رہا۔

موہٹہ پیلس

‘قصرِ فاطمہ’

ڈیڑھ دہائی یوں گزری اور پھر دارالحکومت کراچی سے پہلے راولپنڈی اور پھر نئے تعمیر ہونے والے شہر اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ جاتے جاتے سرکاری کارندے محل کی چابیاں بانیِ پاکستان محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح کو تھما گئے جنھیں یہ عمارت جناح کی بمبئی کی رہائش گاہ کے بدلے دی گئی تھی۔ فاطمہ جناح کی نسبت سے یہ عمارت ‘قصرِ فاطمہ’ کہلائی جو آج بھی حکومتی کاغذوں میں اِس عمارت کا سرکاری نام ہے۔

شیورتن کی طرح فاطمہ جناح نے بھی موہٹہ پیلس کو سینے سے لگا کر رکھا۔ وہ اِتنے بڑے گھر میں تنہا رہا کرتی تھیں لیکن یہ اُنھیں پسند تھا۔ وہ اپنی اکثر شامیں محل کی چھت پر گزارتیں جہاں سمندر کا دلفریب نظارہ انھیں خوب بھاتا تھا۔ قریب ہی صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر ہر جمعرات ہونے والی محفلِ سماع وہ یہاں بیٹھ کر سُنا کرتی تھیں۔

موہٹہ پیلس میں ہی وہ ہر سال گیارہ ستمبر کو اپنے پیارے بھائی محمد علی کی برسی منایا کرتی تھیں۔ محل سے متصل باغیچے میں شامیانے لگائے جاتے اور شہر کی ایک مخصوص دکان سے بریانی کی دیگیں منگوا کر لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا۔

اِسی عمارت سے فاطمہ جناح نے اُس وقت کے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخاب کی مہم میں حصہ لیا اور شکست کھائی۔ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد اُن کی بہن شیریں جناح نے انیس سو اسّی میں اپنے انتقال تک یہاں قیام کیا جس کے بعد ورثا کی باہمی چپقلش کے باعث عمارت کو مقفل کر دیا گیا۔

موہٹہ پیلس

ثقافتی مرکز

کئی سال تک موہٹہ پیلس کے درودیوار پر گَرد جمتی رہی۔ لیکن پھر صوبہِ سندھ کی حکومت کو خیال آ ہی گیا اور نوے کی دہائی میں ستر لاکھ روپے کی رقم سے عمارت کو خرید کر اُس کی تزئین و آرائش کی گئی۔

موہٹہ پیلس کو ثقافتی ورثہ قرار دے کر اُسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا جہاں سارا سال فنونِ لطیفہ سے متعلق نمائشوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اِس طرح یہ تاریخی عمارت اب کراچی کی ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکی ہے۔

موہٹہ پیلس کی دیکھ بھال ایک خودمختار بورڈ آف ٹرسٹینر کرتا ہے جس میں شہر کی سرکردہ سماجی شخصیات شامل ہیں۔

موہٹہ پیلس
موہٹہ پیلس
موہٹہ پیلس

کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا

موہٹہ پیلس آنے والوں کے لیے جو چیز خوشگوار حیرت کا باعث بنتی ہے وہ یہاں رکھے گئے دھات اور پتھر کے مجسے ہیں جو کسی زمانے میں شہر کے معروف عوامی مقامات پر نصب تھے۔ لیکن پھر قوم کے جذبہِ ایمانی نے جوش مارا اور اِن بُتوں کو سڑکوں چوراہوں سے اُٹھا کر گوداموں اور سرکاری دفتروں میں پھینک دیا گیا۔

موہٹہ پیلس والوں نے جگہ جگہ جا کر یہ مجسمے اکھٹے کیے اور مرّمت کر کے اپنے احاطے میں نمائش پر رکھ دیے۔

اِن میں سب سے مشہور کراچی کے فریئر میں نصب ملکہ وکٹوریا کا مجسمہ ہے جو انیس سو ساٹھ کے عشرے کے دوران شہر میں ہونے والے فسادات کے بعد وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا۔

رائے بہادر شیورتن موہٹہ کا اپنی بیوی سے محبت کا مظہر موہٹہ پیلس آج بھی کراچی کی حاتم علوی روڈ پر جوں کا توں موجود ہے۔ لیکن اب نہ شیورتن ہیں اور نہ ہی اُن کی محبوب بیوی۔

آج اِس محل کے دروازے عام عوام کے لیے کُھلے ہیں جو اُن درودیوار کو دل بھر کے دیکھ سکتے ہیں جہاں کبھی شیورتن اور اُن کی بیوی رہا کرتے تھے۔ عمارت کے گرد بنے باغ میں ننگے پاؤں ٹہل سکتے ہیں جہاں کبھی رات گئے تک چلنے والی محفلیں منعقد ہوتی تھیں اور اُن فواروں سے چھلکتے پانی سے ہاتھ بھگو سکتے ہیں جہاں کبھی فاطمہ جناح شام کی چائے پیا کرتی تھیں۔

اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا۔