پاکستانی فوج میں افسران کو دورانِ سروس اور ریٹائرمنٹ کے بعد کون کون سی مراعات ملتی ہیں؟
افواج پاکستان کے سابق ترجمان لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر فوج اپنے افسران کو دوران سروس اور ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کیا مراعات دیتی ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات عاصم باجوہ کے اثاثوں میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ڈی ایچ ایز کے رہائشی اور کمرشل پلاٹس، کئی ایکڑ زرعی زمین، گھر اور گاڑی جیسی تفصیلات سامنے آنے کے بعد اب بہت سے لوگ فوج میں ملنے والی مراعات کے نظام پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
فوجی افسران کو حاصل مراعات سے متعلق بی بی سی نے متعدد حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسران سے بات کی ہے۔ چند افسران نے مراعات کے اس نظام پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تو کچھ افسران نے فوج کی پالیسی کو شفافیت پر مبنی قرار دیا ہے۔
فوج میں مراعات کا تصور کیا ہے؟
پاکستانی فوج میں افسران کو مراعات دینے کا نظام پہلے سے وضع کردہ ہے جس میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔
فوجی افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد جو پلاٹ، گھر اور دیگر مراعات ملتی ہیں اس کا تعلق فوج میں گزارے گئے وقت سے ہوتا ہے۔
عسکری حکام کے مطابق فوجی افسر کو ملازمت کے پہلے دن ہی ایک آپشنل فارم دیا جاتا ہے جو آرمی ہاؤسنگ کی رکنیت اختیار کرنے کا ہوتا ہے۔ رکنیت حاصل کرنے والے کو ایک لاکھ ڈاؤن پیمنٹ دینی ہوتی ہے اور پھر اس کی تنخواہ سے کٹوتی ہوتی رہتی ہے۔
ضابطہ کار کے تحت جب کوئی فوجی افسر 15 سال سروس کر لیتا ہے تو پھر وہ ایک پلاٹ کا حقدار ہو جاتا ہے۔ اس عرصے میں زیادہ تر افسران میجر کے رینک تک پہنچ چکے ہوتے ہیں، یعنی میجر کے عہدے سے ہی فوج میں مراعات ملنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد جب ایک افسر تقریباً 25 سال تک ملازمت کر لیتا ہے تو اس کے بعد وہ مراعات کے دوسرے پیکج کا حقدار ہو جاتا ہے۔ 25 سال کی ملازمت کے بعد افسران کرنل یا بریگیڈیئر کے رینک پر پہنچ چکے ہوتے ہیں۔
مصنفہ عائشہ صدیقہ نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کوئی بریگیڈیئر وار کورس کر لیتا ہے تو اس کے بعد وہ دو کمرشل اور ایک رہائشی پلاٹ کا حقدار ہو جاتا ہے۔ ان کے مطابق اس کورس کے بغیر بریگیڈیئر دو رہائشی اور ایک کمرشل پلاٹ حاصل کرتا ہے۔
میجر جنرل بننے سے ایک اضافی پلاٹ مل جاتا ہے جبکہ لیفٹیننٹ جنرل چار پلاٹوں تک کا حقدار ہو جاتا ہے۔ یہ پلاٹ رہائشی اور کمرشل ہوتے ہیں۔ البتہ یہ مختلف شہروں میں الاٹ کیے جاتے ہیں۔
ایک فور سٹار جنرل جو سروسز چیف بھی بن سکتا ہے، اسے ریٹائرمنٹ پر تین سرکاری ملازمین بھی دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک گھر کا ملازم، دوسرا ٹیلی فون آپریٹر اور تیسرا ڈرائیور ہوتا ہے۔
عائشہ صدیقہ کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل اگر کور کمانڈر بھی رہا ہو تو پھر ایسی صورت میں وہ تین سال تک اس عہدے پر رہتا ہے۔ ان کے مطابق ڈی ایچ اے کے ہر نئے سیکٹر میں کور کمانڈر کو پلاٹ ملتا ہے۔
ان کی رائے میں یہ پلاٹ دوسرے شہروں کے ڈی ایچ ایز کے ساتھ ایکسچینج بھی کیے جا سکتے ہیں، تاہم عسکری حکام ان کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔
اپنی بات کی دلیل کے طور پر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ تین سال تک سدرن کمانڈ کے سربراہ رہے مگر ان کا اثاثوں میں ایک پلاٹ بھی بلوچستان میں نہیں دکھایا گیا ہے۔
ان کے مطابق ایک جنرل ریٹائرمنٹ پر پلاٹوں اور زرعی زمین کی مد میں ایک ارب روپے سے زائد کی مراعات حاصل کر لیتا ہے۔
عسکری حکام کے مطابق پرویز مشرف کے دور میں مراعات کی پالیسی تنازعات کا شکار بنی مگر سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں اس معاملے میں زیادہ شفافیت لائی گئی۔ تاہم ان کے دور میں ڈی ایچ اے مختلف تنازعات کی زد میں بھی رہا اور متعدد معاملات عدالتوں تک پہنچ گئے۔
عائشہ صدیقہ کے مطابق ضیا الحق دور کے بعد آرمی افسران کی مراعات میں زیادہ اضافہ کیا گیا اور اس کے بعد اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا۔
فوجی افسران کو ان کے عہدے کے اعتبار سے ریٹائرمنٹ کے بعد زرعی زمین بھی الاٹ کی جاتی ہے۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف کو لاہور میں 90 ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ خبروں کی زینت بنتی رہی ہے۔
یہ زمین سرحدی علاقے کی زمین کہلاتی ہے اور جنرل راحیل شریف کو تین شرائط پر جی ایچ کیو کی طرف سے یہ زمین 33 سال کی لیز پر دی گئی ہے۔
فوج میں میجر کے عہدے سے مراعات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تاہم زرعی زمین کرنل سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک افسر کو تقریباً دو مربع زرعی زمین 99 سال کی لیز پر دی جاتی ہے جبکہ جنرل کو مزید اضافی زمین ملتی ہے۔
یہ افسران ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی کی ہاؤسنگ کالونیوں میں گھر بھی حاصل کرتے ہیں۔
کیا فوج کا مراعات کا نظام میرٹ پر مبنی ہے؟
حال ہی میں ریٹائر ہونے والے ایک بریگیڈیئر نے اپنی مدت پوری ہونے سے قبل فوج سے ریٹائرمنٹ لی۔ ان کے مطابق مراعات کا تو ایک نظام ہے مگر یہ درست ہے کہ زرعی زمین امتیازی بنیادوں پر تقسیم کی جاتی ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں اعلٰی فوجی افسران کے علاوہ کسی محکمے کے افسران کو زرعی زمین الاٹ نہیں کی جاتی۔
اس پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک فوجی افسر سخت جان ہوتا ہے اور اس سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر دوسری جگہ آباد ہو سکے گا اور بنجر زمین کو آباد کرے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ فوجی افسر کو ملنے والی مراعات مفت نہیں ہوتیں البتہ رعائتی ضرور ہوتی ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شعیب امجد کے مطابق فوجی افسران کو جو زرعی زمین لیز پر ملتی ہے وہ بنجر ہوتی ہے اور اسے آباد کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ یہ نہری بھی نہیں ہوتی۔ اس کے لیے ٹیوب ویل کا انتظام فوجی افسر نے خود کرنا ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ انھیں چولستان میں 50 ایکڑ زرعی زمین ملی جس پر وہ سات سال تک کام کراتے رہے۔ ریت زیادہ ہونے کی وجہ سے 25 ایکڑ سے ریت نکال کر دوسرے 25 ایکڑ پر ڈال دی گئی۔ مگر یہ زمین دور ہونے کی وجہ سے انھیں یہ 75 لاکھ میں بیچنی پڑی اور اس کے بعد انھوں نے اپنے خاندان کے لیے راولپنڈی میں ایک گھر خرید لیا۔
ان کے مطابق یہ زمین بیچنے کے لیے جی ایچ کیو سے اجازت لینی ضروری ہوتی ہے۔
جنرل امجد کے مطابق ان کے دور میں فوج افسران کو کینٹ میں ملٹری لینڈ پر گھر لیز پر دیا جاتا تھا جسے 20 سال تک فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ اب فوجی افسران کو آرمی کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹ اور گھر الاٹ کیے جاتے ہیں۔
فوج میں پلاٹ اور مراعات ملنے کا سلسلہ کب سے شروع ہوا؟
کچھ آرمی افسران نے اس حوالے سے فوج کے اندر مشہور ایک کہانی سنائی۔ یہ کہانی کچھ یوں ہے:
پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل گریسی کو اپنے ماتحت فوجی افسر کا خط موصول ہوا جس میں آرمی چیف سے پلاٹ لینے کی درخواست کی گئی تھی۔
آرمی چیف نے جواب میں اس افسر کو لکھا کہ کس قانون کے تحت آپ کو یہ پلاٹ ملنا چاہیے؟
اس وقت تو یہ بات رفع دفع ہو گئی مگر مسقتبل قریب میں پلاٹ کے خواہشمند یہ افسر نہ صرف آرمی چیف کے عہدے تک پہنچ گئے بلکہ انھوں نے ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے ذریعے خود فیلڈ مارشل بھی بن گئے۔
ان کے مطابق یہ تھے صدر پاکستان جنرل ایوب خان، جنھوں نے نہ صرف اپنی ادھوری خواہش پوری کی بلکہ پاکستان آرمی میں پلاٹ کلچر کو فروغ دیا۔
آرمی کے متعدد ریٹائرڈ افسران اس واقعے کی نہ صرف تصدیق کرتے ہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ آرمی میں پلاٹ اور زمین تقسیم کرنے کی پالیسی میں تضادات بھی ہیں۔
ریٹائرڈ بریگیڈیئر واصف علی کے مطابق شروع میں تو افسران کی تعداد کم تھی تو سب کو مراعات مل جاتی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہے۔ زرعی زمین کی الاٹمنٹ حق نہیں بلکہ دستیابی سے مشروط ہوتی ہے۔
ان کے مطابق خدمات کی بنیاد پر مراعات کا سلسلہ انگریز دور سے ہی جاری ہے۔ عائشہ صدیقہ کے مطابق زرعی زمین دینے کا سلسلہ انگریز دور سے چلتا آ رہا ہے۔
انگریز دور میں خدمات کے بدلے خطابات، وظیفے اور زمین انعام میں دی جاتی تھی۔ انگریز کی خدمات کے بدلے کسی کو نواب تو کسی کو خان کا ٹائٹل ملتا تھا۔ سر کا خطاب لینے والے تو بہت ہی خوش قسمت سمجھے جاتے تھے۔
سابق آرمی چیف جنرل ایوب کے صاحبزادے اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان کے دادا کو گھڑ سواری کا شوق تھا، وہ انگریزوں کو گھوڑے بھی بیچا کرتے تھے۔ انگریزوں نے انھیں فوج میں ملازمت بھی دی۔
وہ ان پڑھ تھے مگر پھر بھی اپنی خدمات کی وجہ سے انگریز دور میں مراعات لینے میں کامیاب رہے۔
سابق آرمی چیف راحیل شریف کو کن تین شرائط پر زرعی زمین الاٹ ہوئی
امجد شعیب کے مطابق جنرل راحیل شریف کو لاہور میں الاٹ ہونے والی زمین پر درخت لگانے ہوں گے، وہ اس زمین پر رہائشی سکیم نہیں بنا سکتے اور بوقت ضرورت فوج ان سے یہ زمین کسی بھی وقت واپس لے سکتی ہے۔
جنرل امجد شعیب کے مطابق چونکہ جنگ ہر وقت نہیں ہو رہی ہوتی ہے تو اس وجہ سے سرحدی سکیم کے تحت مقامی لوگوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کو یہ زمین الاٹ کی جاتی ہے۔
ان کے مطابق اس کا ایک مقصد وہاں دفاع کو یقینی بنانا بھی ہوتا ہے۔
جب فوج سرحدی علاقے خالی کراتی ہے تو پھر یہ فوجی افسران چوں چراں نہیں کر سکتے اور فوج صرف ان کو تیار فصلوں کا معاوضہ دیتی ہے۔
جنرل امجد شعیب اس بات سے متفق ہیں کہ زرعی زمین ملنے کا انحصار عہدے اور سروس کے علاوہ زمین کی دستیابی اور حالات کی سازگار ہونے پر بھی ہوتا ہے۔
پرویز مشرف اور جنرل کیانی کے ادوار میں متعارف ہونے والی تبدیلیاں
آرمی افسران کے مطابق پرویز مشرف نے ایک پریس کانفرنس میں ان مراعات کو فوجی افسران کی خوش قسمتی قرار دیا تھا۔
پرویز مشرف اور جنرل کیانی کے ادوار میں قانونی سازی کے ذریعے ڈی ایچ اے کو مزید اختیارت دیے گئے اور اس اتھارٹی نے دیگر نجی رہائشی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے ساتھ مل کر کاروباری منصوبے چلانے شروع کیے۔
تجزیہ کار اور سابق رکن قومی اسمبلی ایاز امیر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس معاملے پر اپنا قلم اٹھایا اور ان کی اس حوالے سے تحریریں اب بھی گوگل کر کے پڑھی جا سکتی ہیں۔
کرنل کے بعد ہر سال اثاثے ظاہر کرنا لازمی شرط
عسکری حکام کے مطابق کرنل اور اس سے اوپر کے رینک کے افسران کو آرمی میں ہر سال اثاثے ظاہر کرنے ہوتے ہیں۔ فوج میں ایک کمیٹی ان اثاثوں کا موازنہ ہر سال گذشتہ برس ظاہر کیے گئے اثاثوں سے کرتی ہے۔
جنرل امجد شعیب کے مطابق اگر اثاثوں میں فرق آئے تو منی ٹریل مانگا جاتا ہے۔
عائشہ صدیقہ کے مطابق اثاثے ظاہر کرنا محکمے کی اندرونی کہانی ہے۔ لیکن جب مراعات کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے تو پھر اثاثوں میں اضافے کو کیسے صیحح طور پر پرکھا جا سکتا ہے۔
بریگیڈیئر واصف کے مطابق پاکستان کی فوج کے متعدد فلاحی ادارے کام کرتے ہیں جن کو دنیا میں ایک ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
فوج میں شہدا کے خاندانوں کے لیے مراعات کا بھی ایک نظام وضع ہے اور ان کے لواحقین کو ڈی ایچ اے میں پلاٹ الاٹ کیے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق جب پاکستان اور انڈیا کی تقسیم ہوئی تھی تو فوجی فاؤنڈیشن کے لیے پاکستان کے حصے میں ایک کروڑ روپے آئے تھے جس کا استعمال پاکستانی فوج نے ذمہ داری سے کیا اور آج ملک میں فوج کے زیر نگرانی متعدد فلاحی ادارے، ہسپتالیں، درسگاہیں، رہائشی سکیمیں اور کمرشل ادارے چل رہے ہیں۔
عائشہ صدیقہ کے مطابق جس طرح کی مراعات پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران حاصل کرتے ہیں اس کی مثال میانمار اور مصر جیسے ممالک کے علاوہ بمشکل ہی دنیا کے کسی اور ملک میں ملتی ہے۔