دنیابھرسے

یوکرین: بس میں مسافر 12 گھنٹے تک یرغمال رہنے کے بعد رہا

Share

یوکرین کی پولیس نے بتایا ہے کہ ایک مسلح شخص کی جانب سے 13 مسافروں پر مشتمل بس کا محاصرہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کے بعد ختم ہوگیا۔

 رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ نے ٹیلی گرام پر پوسٹ کیا کہ ‘مغوی رہا ہوگئے ہیں! جس شخص نے لوٹسک میں ایک بس میں انہیں یرغمال بنایا تھا اسے حراست میں لے لیا گیا ہے’۔

یہ بحران 12 گھنٹے تک جاری رہا جس میں پولیس مجرم سے طویل بات چیت کے بعد پہلے تین مغویوں کو گاڑی سے باہر لے جانے کا انتظام کرسکی تھی۔

ایس بی یو سیکیورٹی سروس نے بتایا کہ اس واقعے کے نتیجے میں مجموعی طور پر 13 مغویوں کو رہا کیا گیا ہے اور کسی شہری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔‎

انہوں نے بیان میں کہا کہ ‘دہشت گرد کی شناخت میکسم کریووش کے نام سے ہوئی ہے، جو انتہا پسند نظریات رکھتا تھا’۔

وزیر داخلہ ارسن آواکوف نے اپنے ٹوئٹر پر تصاویر جاری کیں جس میں سیکیورٹی اہلکاروں کو لوگوں کو لے جاتے دکھایا گیا جبکہ ایک جینز پہنا شخص زمین پر لیٹا ہوا بھی دیکھا گیا جس کے ہاتھ کمر پر بندھے ہوے تھے۔

اس سے قبل ، پولیس نے دارالحکومت کیف سے تقریبا 400 کلومیٹر دور 2 لاکھ سے زائد کی آبادی والے شہر کو گھیرے میں لے لیا تھا اور رہائشیوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اپنے گھر یا دفتر کو نہ چھوڑیں۔

نائب وزیر داخلہ انٹون گیراشینکو نے بتایا کہ یرغمال بنانے والے نے پولیس ڈرون پر گولیاں چلائیں جو بس کے اوپر اڑ رہا تھا اور دھماکہ خیز مواد سڑک پر پھینکا تھا۔

پولیس بیان میں کہا گیاکہ ؛حملہ آور نے بس سے دستی بم پھینکا جو خوش قسمتی سے پھٹ نہیں سکا’۔

مقامی میڈیا کی جانب سے شائع ہونے والی ویڈیو فوٹیج اور تصاویر میں مسلح پولیس کو نیلے اور سفید رنگ کی بس کے آس پاس دکھایا گیا اور اس بس کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں اور اس میں پردے لگے ہوئے تھے۔

پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر نے بتایا کہ حملہ آور نے دعویٰ کیا تھا کہ شہر میں ایک عوامی مقام پر ایک علیحدہ بم نصب ہے جسے ریموٹ سے دھماکا کیا جاسکتا تھا۔

انٹون گیراشینکو نے کہا کہ یرغمال بنائے جانے والے نے ابتدائی طور پر پولیس سے رابطہ کیا اور اپنی شناخت میکسم پلوخوئی کے نام سے کی تھی جو ایک فرضی نام تھا اور اس کا مطلب ہے ‘بیڈ میکسم’ (میکسم ایک نالی والی گن کو کہتے ہیں جو تیزی سے گولیاں چلاتی ہے)۔

بعد ازاں انہوں نے اس شخص کی شناخت 44 سالہ ماکسم کریووش کے نام سے کی۔

نائب وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ اس سے قبل ماکسم کریووش دھوکہ دہی اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے سمیت دیگر الزامات کے تحت تقریبا 10 سال جیل میں گزار چکا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ اس کا نفسیاتی علاج بھی کیا گیا تھا لیکن وزیر داخلہ ارسن آواکوف نے بعدازاں اس کی تردید کردی۔

نائب وزیر داخلہ نے اس سے قبل کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ماکسم کریووش سے بحران کو ‘مذاکرات کے ذریعے’ حل کرنے کی امید کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘صورتحان بہت ‘پریشان کن’ ہے حملہ آور مغویوں کو کھانے اور پینے کی بھی اجازت نہیں دے رہا اور نہ ہی انہیں واش روم جانے دے رہا ہے۔

ٹوئٹر نے پلوخوئی کے نام سے ایک اکاؤنٹ کو ڈیلیٹ کردیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ مسلح ہے اور اس کے پاس بم بھی ہے۔

اس اکاؤنٹ سے کی گئی ٹوئٹس میں اسے ‘نظام مخالف’ بتایا گیا اور حکام سے مطالبات کیے گئے تھے۔

وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ اکاؤنٹس اصلی تھے۔