زندگی میں کئی واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جو آپ کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ منگل کی رات میں نے ایسا ہی محسوس کیا۔ ہمارے ساتھی مطیع اللہ کے ساتھ اس دن ہوئے معاملے نے دل اداس کردیا تھا۔ The Nation کے لئے پریس گیلری والے کالم میں اس کا ذکر ضروری تھا۔ میں برجستہ لکھنے کا عادی ہوں۔لیپ ٹاپ کھول کر ٹائپ کرنا شروع کرتا ہوں تو کالم ختم کرنے کے بعد ہی رُکتا ہوں۔منگل کی شام مگر اپنے کالم کا ابتدائیہ (Intro)لکھنے میں بھی 90سے زیادہ منٹ خرچ ہوگئے۔ دل کی بے کلی اس کے باوجود برقرار رہی۔ دریں اثناء چند دوستوں کے فون آگئے۔ وہ مطیع اللہ کی بازیابی کو یقینی بنانے کے لئے سوشل میڈیا پر شورمچائے بغیر تن دہی سے متحرک تھے۔انہوں نے میری آواز سنی تو ملاقات ضروری سمجھی۔ ان کی صحبت میں بیٹھے ہوئے دریافت ہوا کہ وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر مرزا صاحب رات کے گیارہ بجے تک اس معاملے کو سلجھانے میں مصروف رہے۔ عمران خان صاحب کو بھی انہوں نے مستقل Updateرکھا۔ بالآخرخبر آئی کہ مطیع اللہ بازیاب ہوگئے ہیں۔ شہزاد اکبر سے میری سرسری شناسائی ہے۔تفصیلی ملاقات ایک بھی نہیں ہوئی۔موصوف مگر اکثر میرے پھکڑپن کی زد میں رہتے ہیں۔انہیں ٹی وی سکرینوں پر دیکھتا ہوں تو میرے اندر کا بھانڈ جگتیں لگانے کو مجبور ہوجاتا ہے۔مجھے ہمیشہ یہ گماں رہا کہ ان کے اندر ایک سخت گیر تھانے دار غصے سے تلملاتا رہتا ہے۔منگل کے روز ان کی کاوش نے لیکن مجھے حیران کیا۔اس حوالے سے ذرا شرمندہ بھی ہوا۔بعدازاں مگر ڈھیٹوں کی طرح خیال یہ بھی آیا کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا۔ ہفتے میں پانچ دن یہ کالم لکھنے کے لئے مواد درکار ہوتا ہے۔پھکڑپن کی گنجائش نکل آئے تو مشکل آسان ہوجاتی ہے۔شہزاد اکبر صاحب کی رحم دلی ریکارڈ پر لے آیا ہوں۔اس کے بعد آنے والی تھاں پر واپس جانا ہوگا تانکہ اپنی دوکان چلتی رہے۔ مطیع اللہ بازیاب ہوگئے ہیں۔ ان کے ساتھ کیا ہوا،کیوں ہوا۔ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی لگن ہی مجھ میں باقی نہیں رہی۔عملی رپورٹنگ سے ریٹائر ہونے کے بعد کونے میں بیٹھ کر دہی کھانے کی عادت اپنالی ہے۔ویسے بھی ’’جان بچی سولاکھوں پائے‘‘ والے فقرے کی اہمیت خوب جان چکا ہوں۔اس پر اکتفا کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ آگے بڑھنا مگر دشوار نظر آرہا ہے۔گزشتہ رات سے ایک بار پھر ’’غم جہاں کا حساب‘‘ کرنے کی اذیت سے گزررہا ہوں۔کئی واقعات یاد آرہے ہیں۔’’آتش‘‘ جن دنوں جوان تھا تو سرکار دربار کو اشتعال دلانے کی علت لاحق رہی۔نواز شریف صاحب کے پہلے دور حکومت میں یہ علت ضرورت سے زیادہ مسلط رہی۔میرے اخبار کے مدیر سے میری بابت شکوے شکایات نہ ہوتے تو ادا س ہوجاتا۔خود کو بے وقعت محسوس کرتا۔ ان دنوں بہت عرصہ تک The Nationکے اسلام آباد بیورو کا چیف بھی رہا۔نواز شریف صاحب نے دوبار مجید نظامی صاحب سے میری شکایت لگائی۔ نظامی صاحب مگر یہ کہتے ہوئے بات آگے نہ بڑھنے دیتے کہ ’’نصرت صاحب بھی آپ کی طرح لاہوری ہیں۔آپ جانیں اور وہ‘‘۔ ہر بادشاہ کے مگر شاہ سے زیادہ وفادار نوعیت کے مصاحبین بھی ہوتے ہیں۔انہوں نے طے کرلیا کہ مجھ بدنصیب کو ا ذیت وذلت سے دو چار کیا جائے تو ’’بادشاہ‘‘ خوش ہوگا۔اپنی وارداتوں میں مصروف رہے۔میں نے اُکتا کر روزانہ صحافت چھوڑ کر ایک کتاب لکھنے کا ارادہ باندھ لیا۔ابھی اپنے ذہن میں آئی کتاب کا پہلا باب بھی مکمل نہیں کر پایا تھا کہ ایک اور انگریزی اخبار میں چند دوستوں کی خاطر نوکری کے لئے آمادہ ہوگیا۔ خواہ مخواہ کے پنگے لینے کا چلن مگر برقرار رکھا۔ عجب اتفاق یہ بھی تھا کہ نواز شریف صاحب کے ان دنوں قریب ترین تصور ہوتے ملک نعیم مرحوم ہفتے میں کم از کم ایک بار مجھ سے تنہائی میں طویل ملاقات کرنے کے عادی تھے۔چودھری نثار علی خان ہمیشہ بہت محبت واحترام سے پیش آتے۔ حادثہ یہ بھی ہوا کہ میرے بہت ہی بے تکلف دوست عبدالستار لالیکا مرحوم نواز شریف صاحب کی پہلی حکومت کے وزیر اطلاعات بھی ہوگئے۔شاہ سے زیادہ وفادار مصاحبین کو میری ان لوگوں سے قربت بہت کھلتی تھی۔ان تینوں سے براہِ راست گفتگو کی ہمت مگر ان میں موجود نہیں تھی۔آبدوز کی طرح نگاہ سے اوجھل رہ کر وار کرنے کے مواقعہ ڈھونڈتے رہتے۔ دریں اثناء حیران کن واقعہ یہ ہوا کہ وزیر اعظم صاحب جرمنی کے دورے پر تشریف لے جارہے تھے۔ پریس انفارمیشن والوں نے آگاہ کیا کہ میرا نام ان کے ہمراہ سفر کرنے والے صحافیوں کی فہرست میں ڈالا گیا ہے۔مجھ سے پاسپورٹ طلب ہوا۔میرا دل مائل نہیں ہورہا تھا۔چند بزرگ صحافیوں نے مگر سمجھایا کہ ایک رپورٹر کو ذاتی انا کا غلام نہیں ہونا چاہیے۔سرکار دربار سے دوری اپنی جگہ لیکن ٹھوس معاملات تک رسائی بھی درکار ہوتی ہے۔بہرحال میرے پاسپورٹ پر ویزہ لگ کر آگیا۔ساتھ ہی یہ تحریری ہدایت بھی کہ مجھے کس وقت اسلام آباد ایئرپورٹ پر وزیر اعظم کے طیارے میں سوار ہونے کے لئے پہنچنا ہوگا۔ میں صرف ایک چھوٹے سوٹ کیس کے ساتھ سفرکرنے کا عادی ہوں۔اسے تیار کیا اور غسل فرمانے کے بعد کوٹ پہن کر ٹائی لگائی اور اپنی دانست میں بالم بناایئرپورٹ پہنچ گیا۔ وی آئی پی روم میں داخل ہونے لگا تو مجھے اطلاع یہ دی گئی کہ میرا نام وزیراعظم کے ہمراہ جانے والے صحافیوں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ ’’بے عزتی‘‘ ہوگئی اگرچہ دل میں ایک لمحہ کو بھی ملال نہ آیا۔دیانت داری سے بلکہ یہ سوچا کہ میری حرکات شاید یہ سلوکDeserveکرتی ہیں۔ٹیکسی لی اور گھرلوٹ آیا۔میری بیوی نے میرے ساتھ ہوئے سلوک سے بہت لطف اٹھایا۔ہماری جانب سے رات گئی بات گئی ہوگئی۔ ایمان داری کی بات مگر یہ بھی ہے کہ چودھری نثار علی خان کو اس واقعہ کا علم ہوا تو بہت رنجیدہ ہوئے۔وہ پیٹرول کے وزیر کے علاوہ وزیر اعظم کے طاقت ور ترین مشیر بھی شمار ہوتے تھے۔اکثر وزیر اعظم ہائوس یا دفتر کے ایک بڑے کمرے میں موجود ہوتے۔ نہایت خلوص سے انہوں نے جاننے کی کوشش کی کہ میرے ساتھ ’’کیا ہوا ہے‘‘۔انہیں کیا علم ہوا اس کی بابت مجھے ہرگز خبر نہیں۔چند ہی ہفتوں بعد البتہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے ایک اور فون آگیا۔وزیر اعظم اب کی بار جاپان جارہے تھے۔میرا نام ایک بار پھر ان کے ہمراہ جانے والے صحافیوں میں شامل تھا۔ ویزہ لگوانے کے لئے پاسپورٹ کا تقاضہ ہوا۔میں نے انکار کردیا۔میرے انکار کے بعد عبدالستار لالیکا مرحوم خود گاڑی چلاتے ہوئے میرے گھر آئے۔اپنی ’’جانگلی ‘‘کے بھرپور استعمال سے سفارت کاری چمکائی اور میرا پاسپورٹ لے کر ہی رخصت ہوئے۔یہ الگ با ت ہے کہ جب میں جاپان جانے کے لئے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچا تو جرمنی والا واقعہ Repeat Telecastہوگیا۔
اس واقعہ کے چند ماہ بعد نواز شریف صاحب کی فراغت ہوگئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔ نوازشریف صاحب نے ان کی حکومت کے خلاف ’’تحریکِ نجات‘‘ چلادی۔ اس تحریک کے حوالے سے ان کا مردان میں ایک جلسہ تھا۔وہ اس میں شرکت کے لئے لاہور سے چل رہے تھے تو انہیں خبر ہوئی کہ چند ہی روز قبل میرے والد کا انتقال ہوا ہے۔تعزیت کے لئے انہوں نے مردان جاتے ہوئے اسلام آباد میں میرے گھر رکنے کا فیصلہ کیا۔ چودھری نثار علی خان،جنرل مجید ملک اور مشاہد حسین سید کے ہمراہ وہ میرے ہاں آئے۔فاتحہ پڑھ لی تو اچانک بہت سنجیدگی سے پوچھنے لگے کہ مجھے ایئرپورٹ سے واپس ’’کون‘‘ بھیجتا رہا ہے۔ نواز شریف صاحب سے میں ہمیشہ لاہوری پنجابی میں بات کرتا ہوں۔مسکراتے ہوئے فقط یاد دلایا کہ مجھے جب ایئرپور ٹ سے ایک نہیں دوبار واپس بھیجا گیا تو وہ اس وقت ہمارے وزیر اعظم تھے۔ اگر وزیر اعظم اپنے غیر ملکی دورے سے جڑے واقعات کے ذمہ دار افراد کا سراغ نہیں لگاپایا تو میں دو ٹکے کا صحافی کیسے جان سکتا ہوں۔میرے بے ساختہ جواب سے ان کا چہرہ سرخ ہوگیا۔تھوڑے وقفے کے بعد مگر وہ یہ کہتے ہوئے مسکرادئیے کہ میں منہ پھٹ انداز میں کڑوی بات کردیتا ہوں۔ اس کا مگر انہیں ’’مزا‘‘ آیا ہے۔ یہ واقعہ میں نے کیوں لکھا؟ بخدا مجھے علم نہیں۔قلم اٹھایا تو شہزاد اکبر صاحب سے آغاز کیا اور روانی میں اس واقعہ کا ذکر بھی ہوگیا۔غالباََ میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ سرکار دربار کے معاملات بہت پراسرار ہوتے ہیں۔انگریزی زبان میں Wheels in to Wheels شاید اسے بیان کرنے ہی کو استعمال ہوتا ہے۔