چین کو دنیا کی جانب سے ملنے والے چیلنجز کا سامنا ہے یا وہ خود پوری دنیا کو چینلج کر رہا ہے؟ جب چین نے ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کا قانون نافذ کیا تو پوری دنیا کی توجہ اسی ایک سوال پر مرکوز تھی۔
ہانگ کانگ کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات پر مغربی ممالک نے چین کی کھل کر مذمت کی جبکہ امریکہ اور برطانیہ نے تو چین کے ساتھ ہونے والے چند معاہدوں سے دستبرداری کا اعلان بھی کیا۔
چین کی برسرِ اقتدار جماعت کمیونسٹ پارٹی گذشتہ چند برسوں سے خودمختار ہانگ گانگ پر اپنا کنٹرول سخت کرنے کے لیے کوشاں ہے، اسی لیے ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کا قانون نافذ کرنا باعثِ تعحب نہیں ہے۔
لیکن حیران کُن بات یہ ہے کہ چین اس طرح کے اقدامات ایک ایسے وقت میں کر رہا ہے جب وہ خود ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔
چار مئی کو خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی تھی۔
اس رپورٹ کے مطابق ’چینی حکومت کی ایک اندرونی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں چین مخالف جذبات سنہ 1989 میں تینامن چوک پر ہونے والی قتل و غارت گری کے بعد اب سب سے زیادہ ہیں۔ دنیا بھر میں چین کے خلاف کورونا وائرس کی وجہ سے دشمنی بڑھے گی اور امریکہ کے ساتھ براہ راست تصادم ہو گا۔‘
اس رپورٹ کو چینی وزارت داخلہ نے ملک کے صدر شی جن پنگ کو سونپا تھا۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’امریکہ میں جیسے جیسے کورونا وائرس کے کیسز مزید بڑھیں گے ویسے ویسے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔‘
چین نے ہانگ کانگ میں پرتشدد مظاہروں اور انتخابی شکست کے بعد ایک برس سے بھی کم وقت میں قومی سلامتی کا قانون نافذ کر دیا۔ کوورنا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے چین پر پوری دنیا میں تنقید ہو رہی ہے۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے اس بارے میں شفافیت سے کام نہیں لیا۔
سفارتی اور کاروباری رشتوں کی تنقید
دنیا کے کئی بڑے ممالک چین کے ساتھ اپنے سفارتی اور کاروباری تعلقات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ چین سے آنے والی تیار اور خام مال کی سپلائی بھی محدود کی جا رہی ہے۔
امریکہ چین کو ہر طرف سے جھٹکا دے رہا ہے۔ چینی رہنماؤں کو معلوم ہو گا کہ چین مخالف جذبات انھیں ہر محاذ پر نقصان پہنچانے والے ہیں لیکن پھر وہ ایسے اقدامات کیوں کر رہا ہے جس سے امریکہ سمیت مغرب کے متعدد ممالک کو آسانی سے ناراض کیا جا سکتا ہے؟
بات صرف مغربی ممالک کی نہیں بلکہ چین انڈیا جیسے پڑوسی ملک کے ساتھ بھی اتنا ہی جارحانہ سلوک کر رہا ہے جبکہ اسے معلوم ہے کہ انڈیا کے ساتھ کاروبار میں اسے اربوں ڈالر کا فائدہ ہے۔
چین میں ہر طرف سے اٹھتے ہوئے سوالوں کے درمیان ملک کے اندر بھی یہ بحث جاری ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کو مزید قوم پرست ہونا چاہیے یا تھوڑا لبرل رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ بعض ماہرین کہہ رہے ہیں کہ چین کا جارحانہ رویہ بیک فائر کرے گا۔
چین کے اندر بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا بھر میں چین مخالف جذبات کے خلاف اگر چین جارحانہ رویہ اختیار کرتا ہے تو یہ قدم آگ کو تیل دکھانے جیسا ہو گا۔
رینمن یونیورسٹی آف چائنا میں عالمی امور کے پروفیسر شی ین ہانگ نے کالج کے ایک آن لائن سیمینار میں کہا تھا کہ ’ہمارا مقصد چین کے سیاسی نظام کو سب سے بہترین بنانا ہے اور جب پوری دنیا کو کورونا کی وبا کا سامنا ہے تو ایسے میں چین کو عالمی رہنما کے طور پر پیش کرنا ہے۔‘
’لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چین اس وبا کے دوران پوری دنیا میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھ رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں جارحیت سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں اور ہمیں کیا ملا، اس میں بہت فرق ہے۔‘
کورونا کی وبا کے دوران چین کے سرکاری میڈیا نے بہت جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ اس نے کھلے عام یہ کہا کہ چین نے اپنی قابلیت سے اس وبا کو قابو میں کر لیا لیکن امریکہ اس میں ناکام رہا۔ پروفیسر شی ین ہانگ نے ریاستی میڈیا کے اس رویے کو بیک فائر کرنے والا بتایا۔
رومانین انسٹیٹیوٹ فار سٹڈی آف دا ایشیا پیسیفک کے سربراہ اینڈری لونگو نے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ میں 15 مئی کو لکھا تھا کہ چین نے گذشتہ 40 برسوں میں اپنی محنت اور لگن کے دم پر دنیا میں جو مقام حاصل کیا تھا، اس نے اپنے حالیہ رویے سے اس پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
اینڈری مزید لکھتے ہیں ’چین نے گذشتہ 40 برسوں میں اپنے لاکھوں شہریوں کے کام، قربانی اور تخلیقی صلاحیت کی بنیاد پر جو اقتصادی ترقی کی، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ چین کے سفارتکاروں نے بھی اس میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ڈپلومیسی کی بنیاد پر چین نے ان ممالک کے ساتھ بھی رشتہ بہتر کیا جن کے ساتھ ان کے تعلق بہت اچھے نہیں تھے، چاہے وہ جاپان ہو یا امریکہ۔ چین نے اقوام متحدہ اور ’ڈبلیو ٹی او’ میں بھی اپنا ایک نمایاں مقام بنایا۔‘
’یہ اس لیے بھی ممکن ہوا کیونکہ چینی سفارت کار مکمل طور پر تربیت یافتہ اور نرم گو تھے۔ ان سفارتکاروں نے چین کو وہاں تک پہنچایا جہاں اس کا پہنچنا ناممکن لگتا تھا۔ انھوں نے ذاتی تعلقات استوار کیے اور لوگوں کا اعتماد حاصل کیا۔‘
انھوں نے مزید لکھا ہے ’یہ چین کی سفارتکاری کا سنہرا دور تھا لیکن آج کی تاریخ میں چین کے سفارتکاروں پر ہر جگہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اب یہ سفارتکار چین کی پروپیگنڈا مشینری کے حصہ بن چکے ہیں۔ ان کی توجہ اب بیرونی افراد پر نہیں بلکہ گھریلو عوام کے جذبات پر مرکوز ہے۔‘
’ایک اچھا سفارتکار وہ ہوتا ہے جو تنازعے کو بڑھانے کے بجائے کم کرتا ہے لیکن چین کے سفارتکار بیرونی حکومتوں کے سامنے کھلے عام بیان بازی کر رہے ہیں، بیرونی میڈیا پر تبصرے کر رہے ہیں اور یہاں تک کہ بیرونی رہنماؤں کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ فرانس، آسٹریلیا، سویڈن اور برازیل میں یہ دیکھا گیا ہے۔ چین کو جب چاہیے تھا کہ وہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے متاثر ہونے والی اپنی شبیہ کو کھلے ذہن سے درست کرے تو وہ جارحانہ رویے کا مظاہرہ کر رہا ہے۔‘
متعدد ممالک کے ساتھ ٹکراؤ
گذشتہ چند مہینوں میں چین نے کئی دہائیوں کے بعد انڈیا کے ساتھ سرحد پر پرتشدد کارروائی کی۔ جنوبی چین کے بحیرہ میں ویتنام اور ملیشیا کے ساتھ محاذ آرائی کی، تائیوان سٹریٹ میں رات کے وقت فوجی مشقیں کر کے تائیوان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی اور آسٹریلیا کی شراب، گائے کا گوشت، جو اور اس کے طلبا کے بائیکاٹ کی دھمکی دی۔
دوسری جانب چین کے سفارتی جنگجو کمیونسٹ پارٹی کے مفادات کے دفاع کے لیے پوری دنیا میں جارحانہ انداز میں سائبر مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ نیپال کی حکومت کو ابھی سیاسی بحران کا سامنا ہے تو دارالحکومت کھٹمنڈو میں چینی سفارتخانہ بے حد سرگرم تھا۔ چینی سفیر ہو یانکی کو نیپال کی حکمران جماعت کے رہنماؤں کے ساتھ مسلسل ملاقاتیں کرتے دیکھا گیا۔
چین کی ان سرگرمیوں کے بارے میں نیپال کے اندر بھی سوالات اٹھے۔ انڈیا کے اندر بھی خدشات بڑھ گئے کہ آیا نیپال میں بھی انڈیا کا اثر و رسوخ بھی ماضی کا حصہ بن گیا۔
چین کی اس بڑھتی ہوئی جارحیت نے ہند بحر الکاہل کے اتحادیوں آسٹریلیا، جاپان، انڈیا اور امریکہ کو ایک پختہ حکمت عملی تیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ امریکہ نے وادی گلوان میں ہلاک ہونے والے 20 انڈین فوجیوں کی کھل کر حمایت کی۔
انڈیا، جاپان، ملائشیا اور آسٹریلیا چین کے ساتھ کاروبار کم کر رہے ہیں۔ انڈیا نے چین سے آنے والے ایف ڈی آئی کے لیے آٹومیٹک راستہ بند کر دیا۔ جرمنی نے بھی ایسا ہی کیا اور یورپی یونین میں بھی ایسے ہی مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ فرانس میں چینی سفیر وہاں کی حکومت سے الجھتے ہوئے دکھائی دیے۔
آسٹریلیا نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ چین کے دھمکیوں سے نہیں ڈرے گا، بھلے چین اس کی شراب، گائے کا گوشت اور دیگر مصنوعات نہ خریدے۔
انڈیا نے ٹک ٹاک سمیت چین کی 52 ایپس پر پابندی عائد کر دی۔ بہت سے ممالک غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے نئے قوانین وضع کر رہے ہیں تاکہ چین کو روکا جا سکے۔ حالیہ ورچوئل اجلاس میں انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان فوجی سازوسامان سے متعلق معاہدہ کیا۔
اسی طرح کا ایک معاہدہ جاپان اور انڈیا کے مابین بھی ہونے والا ہے۔ چین ’ون چائنہ‘ پالیسی کے تحت تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور عالمی ادارہ صحت میں تائیوان کو ابزرو کا درجہ ملا۔ پوری دنیا میں فضا چین مخالف ہے لیکن وہ سر نہیں جھکا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟
چین کے جارحانہ رویے کی وجہ کیا ہے؟
چین میں انڈیا کے سابق سفارتکار شیام سرن کہتے ہیں ’چین جارحیت کو حکمت عملی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ وہ اپنے گھر میں بھی معاشی محاذ پر کمزور ہوا ہے لیکن اس کی جارحیت میں کمی نظر نہیں آرہی ہے۔ چاہے وہ ہانگ کانگ کا مسئلہ ہو یا تائیوان کا ہو یا بحیرہ جنوبی چین کا۔ یہاں تک کہ وہا کے دوران جاری بحران میں بھی اس نے انڈیا سے کشیدگی مول لی۔‘
’دوسری بات یہ ہے کہ چین نے وبا پر قابو پا لیا جبکہ امریکہ جیسے ممالک اب بھی یہ جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسے میں اسے لگتا ہے کہ وہ سب سے عظیم ہے لیکن اس جارحیت سے اسے کامیابی حاصل ہو گی؟ مجھے ایسا نہیں لگتا ہے۔ اس پر ہر جانب سے شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں۔ نہ صرف اس کی سفارت کاری مشکوک ہو چکی ہے بلکہ اس کی سرمایہ کاری اور قرضے بھی شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ سخت سوالات پوچھ رہے ہیں۔‘
کیا تیانامن چوک پر ہوئی قتل و غارت کے بعد چین کو جب پوری دنیا نے گھیرا تھا تب اس کا رویہ اتنا ہی جارحانہ تھا؟
شیام سرن کہتے ہیں ’تب چین میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ اتنا جارحانہ رویہ اختیار کرتا۔ آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ فوجی طاقت بھی ہے۔ ابھی وہ جارحیت کی حکمت عملی بنانے کے قابل ہے لیکن یہ حکمت عملی اس کے لیے کامیاب رہے گی اس پر شک ہے۔ اب یہ پیغام چین سے باہر چلا گیا ہے کہ وہ قوم پرستی کو ہوا دے رہا ہے۔‘
کہا جا رہا ہے کہ چین جیسے جیسے بیرونی ممالک میں گھرتا جا رہا ہے ویسے ہی چینی کمیونسٹ پارٹی اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کے لیے ملک میں قوم پرستی کو فروغ دے رہی ہے۔ چین کا جی ڈی پی یا شرح ترقی میں اس سہ ماہی میں چار دہائیوں میں پہلی بار 6.8 فیصد کمی واقع ہوئی۔
کورونا کی وبا کے دوران چین میں بے روزگاری کی شرح بھی 10 فیصد تھی۔ چینی وزیراعظم نے 29 مئی کو کھلے عام یہ اعتراف کیا تھا کہ 60 کروڑ چینی شہریوں کی ماہانہ آمدن اب صرف ایک ہزار رینمنبی (چینی کرنسی) یعنی 10،670 روپے ہے۔
جب ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کے قانون نافذ کرنے کے بارے میں بات ہو رہی تھی تب چین میں تائیوان کے بارے میں بھی بحث ہوئی تھی کہ کیا اس کو فوجی قبضہ کر لینا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ چین کے لیے تائیوان میں ایسا کرنا اتنا آسان نہیں۔
یہاں تک کہ تائیوان کی صدر سائی لنگ وین کھلے عام چین کو چیلنج کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ تائیوان دوسرا ہانگ کانگ نہیں بنے گا۔
یہ پہلے سے ہی طے تھا کہ اگر چین ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کا قانون نافذ کرتا ہے تو امریکہ اور برطانیہ پابندیاں عائد کردیں گے اور یورپ بھی ناراض ہو گا لیکن چین نے اس کی پرواہ نہیں کی۔
متعدد ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہانگ کانگ کے مسئلے پر جو چین کی بیرونی سطح پر تنقید ہو رہی ہے، اس سے اگر کسی کو طاقت حاصل ہو گی تو وہ صدر شی جن پنگ کی کمیونسٹ پارٹی ہے۔