پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے راول ڈیم کے کنارے پاکستان بحریہ کی جانب مبینہ طور پر غیرقانونی طور پر تعمیر کیے گئے نیوی سیلنگ کلب کو سیل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا ہے کہ وہ اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کے ذریعے اس کلب کو سیل کروائیں۔
اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان نیوی کلب کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم بھی دیا ہے۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ اگر کلب سیل نہ کیا گیا تو آئندہ سماعت پر سیکریٹری کابینہ عدالت میں پیش ہوں۔
یاد رہے کہ پاکستان نیوی راول ڈیم کے کنارے ’پاکستان نیوی سیلنگ کلب‘ کی تعمیر کر رہی ہے جسے رواں ماہ وفاقی ترقیاتی ادارے نے ’غیرقانونی‘ قرار دیا تھا تاہم پاکستان بحریہ کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ جس جگہ یہ تعمیرات ہو رہی ہیں وہ جگہ پاکستان بحریہ کو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے الاٹ کی تھی۔
گذشتہ سماعت کے دوران سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ چیئرمین سی ڈی اے کو اس جگہ کے معائنے کے لیے ایک افسر متعین کرنے کے بعد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سماعت کے دوران کیا ہوا؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جمعرات کو اس کلب کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کی تو اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ اس سیلینگ کلب کی تعمیر کے حوالے سے نہ کوئی قانونی دستاویز جاری کیا گیا اور نہ ہی نیوی کو اس ضمن میں کوئی جگہ الاٹ کی گئی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود نیوی کے حکام سے استفسار کیا کہ کس اتھارٹی کے تحت پاکستان نیوی کمرشل پراجیکٹ چلا رہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ قبائلی علاقے نہیں ملک کا دارالحکومت ہے۔
انھوں نے نیوی کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بہت قربانی ہے آپ کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ’ہم آپ کے شہیدوں کی وجہ سے آپ کی قدر کرتے ہیں۔‘
اُنھوں نے کہا کہ نہ یہ عدالت نہ کوئی اور قانون سے بالاتر ہے۔
سماعت کے دوران سی ڈی اے کے بورڈ ممبر نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم نے سیلینگ کلب بنانے کی اجازت دی تھی جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سی ڈی اے کے ممبر بورڈ ر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں جو آپ سے پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دیں۔
اُنھوں نے کہا کہ زمین کی الاٹمنٹ کے دستاویزات کہاں ہے؟ سی ڈی اے کے ممبر بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ الاٹمنٹ لیٹر نہیں ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سی ڈی اے کے ممبر بورڈ سے استفسار کیا کہ پھر سی ڈی اے نے کیا کارروائی کی۔ اس پر سی ڈی اے کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ اس ضمن میں نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جائیں اور جا کر اس غیر قانونی عمارت کو گرائیں۔ انھوں نے کہا کہ غریب آدمی اور طاقتور کے لیے دوہرا معیار کیوں ہے۔
چیف جسٹس نے سی ڈی اے کے ممبر بورڈ سے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ نیوی سیلنگ کلب کی عمارت قانونی ہے یا غیرقانونی۔ جس پر سی ڈی اے کے افسر کا کہنا تھا کہ وہ قانون کے بارے میں اتنا نہیں جانتے لیکن ان کی نظر میں نیوی سیلنگ کلب غیرمنظور شدہ ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غیر منظور شدہ کیا ہوتا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ غیرقانونی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سی ڈی اے ممبر بورڈ بتانے میں کترا رہے ہیں کہ کمرشل بلڈنگ پاکستان نیوی کی ہے اور غیرقانونی ہے۔
سماعت کے دوران نیوی کے حکام نے عدالت سے استدعا کی کہ ’ہمیں کچھ وقت دیں ہم جواب جمع کرائیں گے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کس بات کا وقت اس عدالت سمیت کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ آپ کی بہت عزت ہے آپ کے شہیدوں کے لیے ہم کسی قسم کی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں لیکن اگر آپ غیرقانونی کام کریں گے تو یہ درست نہیں۔
چیف جسٹس نے نیوی کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کیوں اس چیز کا دفاع کر رہے ہیں جس کا دفاع نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سی ڈی اے کا جواب الارمنگ ہے اور وہ اتھارٹی منوانے میں ناکام رہے۔
اُنھوں نے کہا کہ کیوں نہ اس مبینہ غفلت کی وجہ سے سی ڈی اے کے حکام کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
سماعت کے دوران ایڈشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اس معاملے میں عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے اُنھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے اس عمارت کو سیل کریں۔
اس درخواست کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
راول ڈیم نیوی سینلگ کلب کا تنازع کیا ہے؟
رواں ماہ کے وسط میں بی بی سی کے نمائندے اعظم خان سے بات کرتے ہوئے بحریہ کے حکام کا کہنا تھا کہ اس کلب کی منظوری سنہ 1991 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے دی تھی۔
پاکستان بحریہ کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’پاکستان نیوی سیلنگ کلب‘ راول ڈیم پر سنہ 1992 سے قائم ہے اور اب اس میں تفریحی مقاصد کے لیے کچھ تبدیلیاں متعارف کرائی گئی ہیں جس کی وجہ سے سی ڈی اے نے غیر قانونی تعمیرات کا نوٹس بھیجا۔‘
تاہم سی ڈی اے کے حکام نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے ریکارڈ میں پاکستانی بحریہ کو ایسے مقاصد کے لیے کوئی جگہ راول ڈیم کے ساتھ کبھی الاٹ نہیں کی گئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ 13 جولائی کو بھیجے گئے نوٹس کے ذریعے سی ڈی اے نے بحریہ کے حکام کو متنبہ کیا تھا کہ اگر وہ قانون کے مطابق تعمیرات فوری طور پر نہیں روکتے تو پھر وفاقی ترقیاتی ادارے کو حق حاصل ہو گا کہ وہ یہ غیر قانونی تعمیرات گرا دے۔
واضح رہے کہ اس کلب کا افتتاح رواں ہفتے کیا گیا ہے اور اس کی رکنیت کو صرف افواج پاکستان کے موجودہ اور ریٹائرڈ ارکان، بیوروکریسی، کاروباری شخصیات اور سفارتکاروں تک محدود رکھا گیا ہے۔
افواج پاکستان کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین کے لیے ممبرشپ فیس دس ہزار، بیوروکریٹس کے لیے ڈیڑھ لاکھ جبکہ تاجروں اور سفارتکاروں کے لیے چھ لاکھ روپے تک ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سی ڈی اے کے حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نیوی کو راول ڈیم پر ان مقاصد کے لیے کوئی جگہ الاٹ نہیں کی گئی ہے اور جو تعمیرات کی گئی ہیں وہ سب غیر قانونی ہیں۔
سی ڈی اے کے بلڈنگ کنٹرول سیکشن کے حکام کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی پاکستان نیوی کو متعدد بار نوٹس بھیجے گئے مگر انھوں نے غیر قانونی تعمیرات نہیں روکیں اور اس کلب کا کاروباری مقاصد کے لیے افتتاح کر دیا گیا۔