لاہور کے چند بڑے اسپتالوں کے بارے میں ادھر ادھر سے سننے میں آ رہا تھا کہ جو مریض ان کے ہتھے چڑھ جاتا ہے وہ اس کی کھال اتار کر اسے واپس نہیں کرتے، کہیں سے اس کے دام ہی وصول کر لیتے ہوں گے مگر سوشل میڈیا پر جہاں سچی باتیں بھی ہوتی ہیں وہاں بہت سی جھوٹی کہانیاں بھی بڑے دھڑلے سے کثیر تعداد میں نظر آتی ہیں چنانچہ میں غیرمصدقہ کہانیوں پر یقین نہیں کرتا لیکن کل میرے ایک عالم فاضل دوست نصیر خان نے فون پر اپنے سسر کے ساتھ بیتا جانے والا جو واقعہ سنایا اس سے تصدیق ہو جاتی ہے کہ یہ اسپتال واقعی لوٹ مار کے علاوہ لاپروائی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ خان صاحب نے بتایا کہ ان کے سسر کو نمونیہ ہو گیا تو وہ انہیں ایک اسی طرح کے اسپتال میں لے گئے جہاں مریض کے داخلے سے قبل ہی ایک لاکھ روپے وصول کر لئے گئے اور پھر بتایا گیا کہ مریض کو کورونا ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی انہیں علیحدہ وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے اور کورونا کی تصدیق یا عدم تصدیق کے لئے ان کے خون کا سمپل لیبارٹری کو بھیج دیا گیا۔ میرے دوست بتاتے ہیں کہ اس وارڈ میں کسی ڈاکٹر کے بجائے نرسیں اور صفائی کرنے والے عملے ہی کو اندر آتے جاتے دیکھا گیا، اگلے دن بتایا گیا کہ مریض کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں، عزیز و اقربا کو شک گزرا تو انہوں نے اگلے دن بزرگ کو شیخ زید اسپتال منتقل کر دیا جہاں پتا چلا کہ ان کے دونوں گردے ٹھیک ٹھاک کام کر رہے ہیں۔ متعلقہ اسپتال کے ڈاکٹروں کو جب بتایا گیا کہ آپ کی اطلاع صحیح نہیں تھی تو انہوں نے کہا تشخیص میں غلطی بھی تو ہو سکتی ہے تاہم کورونا کی رپورٹ کل تک موصول نہیں ہوئی تھی۔ میرے دوست کے مطابق شیخ زید اسپتال میں مریض کی حالت بتدریج بہتر ہو رہی ہے اور ہاں، اس مہنگے اسپتال میں پیشگی لئے گئے ایک لاکھ روپے کے علاوہ پچاس ہزار مزید وصول کر لئے گئے تھے۔
اگر واقعی ایسا ہے اور بظاہر یقین نہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ سمجھ نہیں آتی تو یہ انتہائی افسوسناک رویہ ہے مگر ہم کس کس کا رونا روئیں، جدھر نکل جائیں ہر جگہ اسی طرح کے مناظر دکھائی دیں گے۔ ایک مافیا ہے جو ہر شعبے پر اپنا تسلط جمائے ہوئے ہے۔ اشیائے خورونوش بھی اب ایک عام پاکستانی کی دسترس سے دور ہوتی چلی جا رہی ہیں، سرکاری محکموں میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ کی بڑھتی ہوئی ’’فیسوں‘‘ کے بارے میں بھی سننے میں آ رہا ہے، تعلیم بھی اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ کمپلکس کی ماری ہوئی لوئر مڈل کلاس بھی اپنے بچوں کو ان اسکولوں اور کالجوں میں داخلے کی خواہشمند نظر آتی ہے جن کی ماہانہ تنخواہ جتنی یہاں فیس ہوتی ہے، تاہم سرکاری اسپتالوں کی کمی اور ان کی زبوں حالی کی وجہ سے وہاں بھی مریض کو جگہ نہیں ملتی اور جگہ مل جائے تو لواحقین اپنے مریض کی صحیح سلامت واپسی کے لئے ہمہ وقت دست بدعا نظر آتے ہیں!
ان حالات میں فی الحال دیگر شعبوں کی بات کو طول نہیں دیتے صرف علاج معالجے کی بات کرتے ہیں چنانچہ جہاں دیگر شعبوں کی ’’مرمت‘‘ اور نئے سرکاری اسپتالوں کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے وہاں ایک دوست نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ حکومت پرائیویٹ اسپتالوں کو ایک سخت وارننگ دے کہ اگر انہوں نے لوٹ مار اور لاپروائی کا یہ سلسلہ بند نہ کیا تو حکومت ان اسپتالوں کو اسی طرح نیشنلائز کرے گی جس طرح بھٹو صاحب نے فیکٹریاں نیشنلائز کی تھیں مگر نہ تو یہ ممکن ہے اور نہ اس سے حالات کی بہتری ہو گی بلکہ اسپتالوں کا بھی وہی حال ہوگا جو بھٹو صاحب کے دور میں کی گئی انڈسٹری کا ہوا، یعنی یہ اسپتال سرے سے بند ہو جائیں گے۔ دوسری تجویز یہ سامنے آئی کہ ایک بورڈ آف گورنرز بنایا جائے جو ان اسپتالوں کو ’’بےراہرو‘‘ ہونے سے روک سکے۔ میرے نزدیک اس سے بھی اصلاح احوال کی توقع نہیں کیونکہ معاشرہ جس ہوس زر کا شکار ہو چکا ہے اس کے بعد اس امر کا امکان بھی موجود ہے کہ اسپتالوں کے مالکان ’’مال غنیمت‘‘ میں سے کچھ حصہ اس کے دو تین ’’فسادی‘‘ قسم کے ارکان کو ’’دان‘‘ کرکے اپنی سابقہ روش جاری رکھیں گے۔
تو پھر کیا کیا جائے! بس یہی کہ بیمار نہ ہوا جائے اور اگر بادل نخواستہ ہونا بھی پڑے تو پھر ان مہنگے اسپتالوں کا رخ انتہائی مجبوری کے عالم میں کیا جائے، میں جانتا ہوں کہ یہ تجویز بھی زخموں پر نمک چھڑکنے والی ہے۔ تاہم حکومت میں بڑے عالی دماغ موجود ہیں ان میں سے کچھ کے پاس تو دوہری شہریت (دوغلی شہریت؟) ہے، باہر سے آئے ہیں، حلوہ کھا کر پھر باہر چلے جائیں گے مگر جانے سے پہلے اپنے زرخیز دماغ کو کام میں لائیں اور کوئی ایسا سسٹم وضع کریں جو اس کرپٹ معاشرے کے افراد اور اداروں پر لاگو ہو سکے۔ اگر وہ اتنا کام بھی کر دیں تو ان کے کچھ نہ کچھ گناہ ضرور جڑ جائیں گے، میں تو 1971میں امریکہ کا پاسپورٹ لینے سے انکاری ہوا تھا اور واپس پاکستان آ گیا تھا، چنانچہ خاصا بےعقل ہوں، پورا کالم ضائع کر دیا اور بُھس بھرے دماغ میں کوئی ’’چج‘‘ کی تجویز ہی نہیں آ سکی۔ اب یہ بال ان دوستوں کی طرف پھینک رہا ہوں جو حکومت میں ہیں اور ’’دیسی‘‘ ہیں، وہی آگے بڑھیں اور غریب اور متوسط پاکستانیوں کی دعائیں لیں… صحت مند پاکستانی ہی صحت مند پاکستان کی ضمانت ہیں!