کلاسیکی پنجابی شاعری میں ’’متراں‘‘ یعنی محبوب کی خبر لانے والوں کو اس کی دیوانی اپنے ہاتھ کی اُنگلیوں میں پڑے ’’چھلے‘‘ یعنی انگوٹھیاں دینے کو بے تاب ہوتی تھی۔جمعرات کی صبح چھپے کالم کو دیکھ کر میرے دل میں بھی ایسی ہی تمنا امڈ آئی ہے۔اس کالم کا ابتدائیہ شہزاد اکبر صاحب کی توصیف میں خرچ ہوا۔اسے لکھ کر دفتر بھجوانے تک موصوف وزیر اعظم کے ’’معاونِ خصوصی‘‘ تھے۔بدھ کی شام خبر آئی کہ انہیں اب ’’مشیر‘‘ بنادیا گیا ہے۔یہ رتبہ معاون خصوصی سے بالاتر شمار ہوتا ہے۔آئینی تقاضہ یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم پانچ سے زیادہ غیر منتخب مشیر نہ رکھے۔پروٹوکول کے اعتبار سے یہ منصب وفاقی وزیر کے برابر ہوتا ہے۔اس پر فائز شخص قومی اسمبلی یا سینٹ کا رکن نہ ہونے کے باوجود ان ایوانوں کی کارروائی میں حصہ لینے کا حقدار بھی ہوتا ہے۔اسی باعث پارلیمان سے لئے وزراء ’’مشیروں‘‘ کے حسد میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔شہزاد اکبر صاحب کو ’’پنج پیاروں‘‘میں شامل کرنے کی خاطر وزیر اعظم صاحب نے اپنے دیرینہ وفادار ملک امین اسلم کو مشیر کے بجائے اب معاون خصوصی بنادیا ہے۔سرکاردربار کی تام جھام کے تناظر میں یہ موصوف کی ’’تنزلی‘‘ تصور ہوگی۔ اٹک کے شمس آباد کے ملک صاحب مگر ’’وفاداری بشرط استواری‘‘ کے اصول پر کاربند رہیں گے۔انہیں ’’گمراہ‘‘ کرنے کو اگرچہ کہانی یہ بھی چلائی جاسکتی ہے کہ اٹک ہی سے اُبھرے زلفی بخاری صاحب نے اپنے اثرورسوخ کو ملک امین اسلم کے پر کاٹنے کے لئے مہارت سے استعمال کیا ہے۔یہ کہانی مگر چلے گی نہیں۔ملک صاحب کے پاس ماحولیات کا محکمہ ہے۔عمران خان صاحب اس شعبے میں ذاتی طورپر بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ملک بھر میں درختوں کا سونامی برپا کرناچاہ رہے ہیں۔شجر کاری کی مہم کو فروغ دیتے ہوئے امین اسلم عمران خان صاحب کی نگاہ کرم سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔
توجہ ذاتی طورپر مجھے لیکن شہزاد اکبر کی درکار ہے۔ جمعرات کی صبح چھپا کالم لکھتے ہوئے مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ ان کی ’’ترقی‘‘ ہونے والی ہے۔میری جانب سے توصیفی کلمات لکھنے کے بعد مگر ان کے چھپنے سے پہلے یہ واقعہ ہوگیا۔خواہش اب فقط اتنی ہے کہ شہزاد صاحب کو میری چمچہ گیری کی خبر مل جائے۔ان کی توجہ اس لئے بھی درکار ہے کہ ان کا مشیر داخلہ ہونا یہ عندیہ دے رہا ہے کہ اس وزارت کے حوالے سے اصل ’’تھانے داری‘‘ اب شہزاد صاحب کے سپرد ہوگئی ہے۔ایف آئی اے بہت ہی متحرک ہوجائے گی۔قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے فقط نیب پر انحصار کی ضرورت نہیں رہے گی۔ شہزاد اکبر ہوں گے اور ایف آئی اے کے واجد ضیاء صاحب۔ ان دونوں کی مہارت سے ’’رقص میں سارا جنگل ہوگا‘‘۔پاکستان مسلم لیگ (نون) کے خواجہ آصف کے ’’اقامہ‘‘ کا حساب ہوتابھی اب لازمی نظر آرہا ہے۔منگل کی شب قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر مراد سعید صاحب نے نہایت حقارت سے خواجہ صاحب کو ’’تم اور تو‘‘ پکارتے ہوئے اقامہ کے حوالے سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔تحریک انصاف کا خیال ہے کہ دفاع اور خارجہ امور ایسی ’’حساس‘‘ وزارتوں پر فائز رہے خواجہ آصف کو ’’اقامہ‘‘ سے دست بردار ہوجانا چاہیے تھا۔ وہ دست بردار نہیں ہوئے۔اس ضمن میں اپنائے رویے سے شبہات یہ بھی اُبھرے ہیں کہ وہ ’’قومی راز‘‘ اقامہ دینے والے کمپنی کو پہنچاتے رہے ہوں گے۔اس بنیاد پر 2018کے انتخابات سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی ایک فیصلہ آیا تھا۔ سپریم کورٹ نے مگر اس پر عملدرآمد نہ ہونے دیا۔خواجہ صاحب انتخاب لڑنے کے ’’اہل‘‘ قرار پائے اور قومی اسمبلی میں لوٹ آئے۔شہباز شریف کی عدم موجودگی میں وہ ان دنوں عملاََ اس ایوان میں قائد حزب اختلاف ہوچکے ہیں۔روزانہ کی بنیاد پر ایوان میں خطاب بھی فرماتے ہیں۔اس حوالے سے کبھی کبھار ان کا ’’آتش‘‘ جواں ہوجاتا ہے۔حکومت مراد سعید کو جوابی وار کے لئے کھڑا کرنے کو مجبور ہوجاتی ہے۔
مشیر داخلہ کے اختیار کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے شہزاد اکبر خواجہ صاحب کا ’’مکوٹھپنے‘‘ میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔خواجہ صاحب کی جانب سے ہوئی تندوتیز تقاریر ہی مسئلہ نہیں۔شکوہ یہ بھی ہے کہ ’’جمال ابروباراں میں‘‘ ان کی رات کے اندھیرے میں ’’اہم ملاقاتیں‘‘ بھی ہوتی ہیں۔شہزاد صاحب نے کوئی کاری ’’جگاڑ‘‘ ڈھونڈ لی تو شہباز صاحب ’’پیامبر نہ میسر ہوا…‘‘ گنگناتے پائے جائیں گے۔’’اقامہ‘‘ کے حوالے سے احسن اقبال بھی طعنوں کی زد میں رہتے ہیں۔دیکھنا ہوگا کہ ان کے بارے میں کیا سوچا جاتا ہے۔مشیر اور معاون خصوصی کے مابین ادلہ بدلی شروع ہوگئی ہے تو توجہ کے حق دار ڈاکٹر حفیظ شیخ بھی ہوں گے۔ 2019کا بجٹ تیار کرنے سے قبل تحریک انصاف کے ’’ایڈم سمتھ‘‘ شمار ہوئے اسد عمرصاحب کو وزارتِ خزانہ کے منصب سے ہٹادیا گیا تھا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ان کی رخصت کے بعد آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے تحت عالمی معیشت کے حتمی نگہبان نے پاکستان کو 6ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔اقساط میں ملی اس رقم کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے محاصل کے ضمن میں چند اہداف ہر صورت پورا کرنے تھے۔ گزشتہ بجٹ میں ٹیکسوں کا جو ٹارگٹ طے ہوا تھا وہ مگر حاصل نہ ہوپایا۔
آئی ایم ایف کی خواہش یہ بھی ہے کہ بجلی کے بلوں میں Cost Recoveryکے عنوان سے بتدریج اضافہ ہو۔حکم یہ بھی ہے کہ NEPRAاور OGRAجیسے ’’خودمختار‘‘ ریگولیٹر طلب ورسد کی منطق کا اتباع کرتے ہوئے ازخود بجلی،پیٹرول اور گیس کی قیمت کا تعین کریں۔اس حوالے سے کابینہ کی منظوری درکار نہ ہو۔ بجلی،پیٹرول اور گیس کی قیمت میں اضافے کی ’’سیاسی قیمت‘‘ بھی ہوتی ہے۔ عمران حکومت اسے مزید برداشت کرنے کے قابل نہیں رہی۔ اسی باعث کے-الیکٹرک کی فراہم کردہ بجلی کی قیمت میں اضافے کا فیصلہ مؤخر ہوا ہے۔کراچی سے منتخب ہوئے تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے-الیکٹرک کے خلاف ایوان میں کھڑے ہوکر مسلسل دہائی مچارہے ہیں۔ ایم کیو ایم ان کی ہمنوائی کو مجبور ہوجاتی ہے۔آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو خوش رکھنا ضروری ہے۔آئی ایم ایف ’’سیاسی‘‘ مجبوریوں کو لیکن خاطر میں نہیں لاتی۔ امید تھی کہ کرونا کا لایا عذاب اس کے دل میں ذرا نرمی لائے گا۔تھوڑی نرمی اگرچہ وقتی طورپر دکھائی گئی ہے۔یہ تقاضہ مگر جاری ہے کہ آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کے حصول کے لئے جو نسخہ تیار ہوا تھا اس کا اطلاق ہوتا نظر آئے۔ڈاکٹر حفیظ شیخ اس ضمن میں کوئی جلوہ دکھا نہیں پائے ہیں۔
شنید ہے کہ عمران حکومت آئی ایم ایف سے اب کسی نئے بندوبست کی تلاش میں ہے۔وہ بندوبست فراہم نہ ہوا تو حفیظ شیخ صاحب بھی فارغ ہوسکتے ہیں۔قومی اسمبلی میں دو بجٹ پڑھنے اور ان کا جارحانہ دفاع کرنے کے بعد لاہور سے آئے حماد اظہر کی On Job Trainingہوچکی ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے عمران حکومت کو شاید وزارت خزانہ چلانے کے لئے اب کسی ٹیکنوکریٹ کی ضرورت نہیں رہی۔ آئی ایم ایف کی ضرورت سے زیادہ محتاجی بھی لازمی نہیں رہی۔ چین اپنا یار ہے۔وہ CPECکے تحت چلائے منصوبوں کی سرعت سے تکمیل پر ڈٹا ہوا ہے۔آئی ایم ایف کا گویا ایک تگڑا متبادل موجود ہے۔حبیب جالبؔ کے ’’مشیر‘‘ نے بادشاہِ وقت کو مشورہ دیا تھا کہ چین اپنایار ہے۔اس پر جان بھی نثار ہے مگر وہاں جو نظام یعنی سوشلزم ہے ’’اس طرف نہ جائیو‘‘۔ شاید اب ہمیں ’’اس نظام‘‘ سے دوری رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ آج کا چین مائوزے تنگ کے چین سے قطعاََ مختلف ہے۔’’نظریات‘‘ کے بجائے معاشی ترقی پر بھرپور توجہ دیتا ہے اور وہاںکے شہری ٹویٹر اور فیس بک جیسی فروعات میں اپنا وقت بھی ضائع نہیں کرتے۔ ہمیں بھی ریگولر اور سوشل میڈیا کے شوروغوغا سے خلاصی پاتے ہوئے اپنی معیشت سنوارنے پر توجہ مرکوز رکھنا ہوگی۔