پاکستان کے ڈاکٹر حفیظ پاشا کا شمار عالمی سطح کے ماہرینِ معیشت میں ہوتا ہے۔ان کے والد محمد اکبر پاشا نے انگریز کے دور میں ریلوے کو جوائن کیا۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان ریلوے میں چیف انجینئر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ پھر مغربی پاکستان ٹرانسفر ہوئے اور کراچی شپ یارڈ میں خدمات انجام دیں۔ وہاں سے لاہور ہیڈکوارٹر چلے آئے اور ریلوے کے سربراہ کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ 1973کے بدترین سیلاب میں ریکارڈ ٹائم میں ریلوے ٹریک کو بحال کردیا‘ جس پر وزیر اعظم بھٹو نے ملازمت میں دو سال توسیع کی پیش کش کی‘ لیکن انہوں نے شکریے کے ساتھ یہ کہہ کہ معذرت کرلی کہ اس سے بعد والوں کی حق تلفی ہوگی۔
حفیظ پاشا کو بیرونِ ملک بھی اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ کیمرج میں شہزادہ چارلس ان کے کلاس فیلو تھے۔ امریکہ کی سٹینفورڈیونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی‘ یہ مکہ شہر کی پلاننگ پر ہے‘ جسے وہ ایک اعزاز سے زیادہ اپنے لیے توشۂ آخرت سمجھتے ہیں۔ یورپ یا امریکہ میں ڈالروں اور پونڈ کے چکر میں پڑنے کی بجائے انہوں نے واپس آکر اپنے وطن اور اہلِ وطن کی خدمت کو ترجیح دی۔
یہاں انہیں مختلف ادوار میں ‘ مختلف حیثیتوں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ایک بینک میں ملازمت کررہے تھے کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے سپیچ رائٹرز کی ٹیم میں معیشت پر ریسرچ میٹریل کے لیے کسی نوجوان ریسرچر کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تو ممتاز بینکار آغا حسن عابدی نے حفیظ پاشا کا نا م تجویز کردیا۔
شامی صاحب کے ماہنامہ قومی ڈائجسٹ میں کچھ عرصہ قبل ان کا طویل انٹرویو شائع ہوا‘ حامد ولید سے اس انٹرویو میں پاشا صاحب نے اس عہد کا ذکر بھی کیا اور پھر بات نوازشریف حکومت تک پہنچ گئی۔ اس انٹرویومیں ان دونوں ادوار کا موازنہ دلچسپ تھا۔ اس کے کچھ حصے نذرِ قارئین ہیں:
”بھٹو صاحب کی کابینہ حیرت انگیز تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک ۔ ملک معراج خالد ‘جے اے رحیم‘ عزیز احمد‘ رفیع رضا اور عبدالحفیظ پیرزادہ … وزیر اعظم کا دفتر ہمارے رہائشی کمرے سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔ رات کے دوتین بجے بھی ان کے دفتر کی بتی جل رہی ہوتی تھی۔ فائلنگ پر ان کی نوٹنگ زبردست ہوتی تھی۔ وہ تھوڑے سخت طبیعت کے تھے۔ کبھی رات کو ایک بجے اپنے سیکرٹری کو فون کرکے پوچھتے کہ فلاں فائل کے فلاں پیراگراف میں تم نے فلاں بات کیوں لکھی ہے؟ میں نے ان کے بعد تین وزراء اعظم کے ساتھ کام کیا۔ کسی اور میں اس قدر شاندار فائل ورک کی عادت نہیں دیکھی۔ میرا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ میں تو ریسرچ کا آدمی تھا‘‘۔
ملکی ترقی کے بارے میں بھٹو صاحب کا وژن ؟…وہ بڑے فیصلے کرنا پسند کرتے تھے‘ چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہیں الجھتے تھے۔ ایک تاثر یہ تھا کہ وہ بڑے پراجیکٹ بنانا پسند کرتے ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے:Big projects big impactمثال کے طور پر پاکستان سٹیل ملز‘ پورٹ قاسم ‘ پپڑی مارشلنگ یارڈ‘ اٹامک انرجی کمیشن‘ تربیلا ڈیم پر توجہ دینا اور سب سے اہم بات پاکستان کا ایٹمی پروگرام … البتہ نیشنلائزیشن کے ان کے فیصلوں سے پرائیویٹ انڈسٹری روبہ زوال ہوگئی۔ یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا ‘ جب تک ضیا الحق نہ آگئے۔ جس کے تین چار سال بعد انڈسٹری کی بحالی کا عمل شروع ہوا‘‘۔
وزیر اعظم نوازشریف اور ان کی ترجیحات کے حوالے سے ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا: ”انہیں ریفارمز کا بہت شوق تھا… تب سرتاج عزیز وزیر خزانہ تھے۔ میں نے ٹیکس ریفارمز اینڈ ریسورس موبلائز یشن کمیشن میں کئی ریفارمز متعارف کروائیں۔ نوازشریف کا فائدہ یہ تھا کہ وہ بزنس فیملی سے تعلق رکھتے تھے؛ چنانچہ ان میں معاشی فیصلوں کی صلاحیت بہت تھی۔ وہ سمجھ جاتے تھے کہ کونسی چیز چلے گی اور کونسی نہیں چلے گی۔ ان کا1991کا ریفارمز پیکیج تاریخی تھا‘ جسے انڈیا نے فالو کیا اور کہاں سے کہاں پہنچ گیا‘‘۔
نوازشریف کے شخصی رویے کے بارے میں حفیظ پاشا نے کہا: ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کا احترام کرتے ہیں ۔ دل کے بہت اچھے ہیں ‘ میٹنگ میں آتے تو سب سے ہاتھ ملاتے۔ وہ پنجاب کے پرانے لوگوں کی وضعداری رکھتے ہیں۔ میرے پاس آتے تو کہتے ‘ ڈاکٹر صاحب آپ بہت کام کرتے ہیں‘ سارا کام سنبھالا ہوا ہے‘ اپنی صحت کا بھی خیال رکھا کریں‘ تب میں پچاس کے پیٹے میں تھا۔
ایک دفعہ ہم سری لنکا جارہے تھے‘ پاکستان نے مالدیپ میں پارلیمنٹ کی عمارت کا خرچہ اٹھایا تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم نوازشریف کو مدعو کیا‘ہم سب ساتھ تھے۔ ان کی فیملی ذرا پیچھے بیٹھی تھی۔ فلائٹ روانہ ہوئی تو کچھ دیر بعد نوازشریف گنگنانے لگے۔ یہ پرانا فلمی گانا تھا۔ میں نے کہا کہ یہ گانافلم سونے کی چڑیا سے ہے‘ موسیقی سلیل چودھری نے دی تھی۔ مجھے بھی گانے کا شوق تھا‘ ادا کار ندیم کی وجہ سے (جو میرے کزن ہیں اور تب وہ گلوکار نذیم بیگ ہوتے تھے)میرا گانے کا شوق پروان چڑھا ۔ چٹاگانگ میں وہ ہمارے گھر میں رہتے تھے‘‘۔
مئی 1998کے ایٹمی دھماکوں کے پاکستان کی معیشت پر اثرات کے حوالے سے حفیظ پاشا نے بتایا : پہلے دو ہفتے ‘ تو ملک میں پیسے ہی نہیں تھے‘عالمی اقتصادی پابندیاں لگ گئی تھیں۔ فارن ایکسچینج ختم ہوچکا تھا‘ ہم نے سارے فارن کرنسی ڈپارٹمنٹ ختم کرکے ان کے عوض پاکستانی روپے دے دیے ۔ سارا نظام مشکلات میں گھر چکا تھا۔ ہم اس وقت گندم میں خود کفیل نہیں تھے۔ پریشانی یہ تھی کہ لوگوں کو آٹا کہاں سے دیں گے کہ گندم کی درآمد کے لیے پیسے ہی نہیں تھے۔ اس عالم میں تین ملکوں سے سپورٹ ملی‘ ایک تو سعودی عرب نے تیل کی سہولت مہیا کی ‘ کویت اور چین نے بھی مد د کی‘ لیکن تب جس ذہنی تنائو کی کیفیت سے ہم گزرے اس کی وجہ سے آگے چل کر میں بیمار ہوگیا۔کچھ عرصہ بعد مجھے سٹنٹ پڑا اور شوگر بھی ہوگئی‘‘۔
بنگلہ دیش کے حوالے سے حفیظ پاشا کہہ رہے تھے:مجھے وہاں بھی کام کرنے کا موقع ملا‘ تب بیگم خالدہ ضیا وزیر اعظم تھیں۔ ان کے وزیر خارجہ مجیب خان میرے سکول کے زمانے میں کلاس فیلو رہے تھے۔ پھر شیخ حسینہ واجد آگئیں تو معاملہ پہلے جیسا نہ رہا۔ ایک بار اداکارہ شبنم سے ملاقات ہوئی تو وہ لاہور کو یاد کرکے روتی رہیں۔
بھارتی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر چھڑا تو ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا:دہلی میں یواین او کے تحت ایک فنکشن تھامجھے بھی اس میں شرکت کا موقع ملا‘ تب اٹل بہاری واجپائی وزیر اعظم تھے۔ نائب وزیر اعظم ایل کے ایڈوانی کو پتہ چلا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے‘ تو مجھے اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دی۔ ایڈوانی نے بتایا کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے ۔ وہیں پلے بڑھے۔ جیکب لائن میں (جسے اب جمشید کوارٹرز کہا جاتا ہے) ان کا گھر تھا۔انہیں بچپن کی اور لڑکپن کی ایک ایک بات یاد تھی۔ ان یادوں کو تازہ کرتے ہوئے ‘ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ وہ بار بار جذباتی ہو جاتے۔ان کے جذباتی پن پر میں حیران رہ گیا۔
ایک اور بار ا نڈیا جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں من موہن سنگھ وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں ملنے گیا تو کہنے لگے کہ آپ لوگوں نے 1992میں نوازشریف کے دور میں جو اکنامک ریفارمز متعارف کروائیں ‘ ہم نے انہیں اپنے ہاںمن وعن اپنا لیا تھا۔ ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھااور فائدہ اٹھایا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی استحکام تھا؛ چنانچہ ہم وہاں پہنچ گئے ‘ جہاں آپ کو ہونا چاہیے تھا۔