میں ہوٹل رُوز ویلٹ ہوں…
اقوامِ عالم کے سب سے بڑے کاسمو پولیٹن شہر نیو یارک کی سر بفلک عمارتوں کے بیچوں بیچ مین ہٹن کی 45ویں اسٹریٹ پر جو خوبصورت ہوٹل نظر آتا ہے وہ میں ہوں۔ مجھے امریکی صدر تھیوڈور رُوز ویلٹ کے نام پر 1924میں تعمیر کیا گیا۔ میرے 1,015کمرے اور 52سویٹس ہیں، میرا آرکیٹیکٹ جارج بی پوسٹ اینڈ سن تھا اور میری مالک تیسری دنیا کے ملک پاکستان کی ایئر لائن پی آئی اے ہے۔
پاکستان سے آئے ہوئے سیاح اور نیو یارک کے پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور اکثر چلتے چلتے رک کر میری طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارا ہوٹل ہے۔ ان کے اس احساسِ ملکیت اور محبت سے میں سرشار ہو جاتا ہوں۔ تاہم پاکستانیوں کی مجھ سے یہ محبت سب کو اچھی نہیں لگتی، کئی لوگ میری تاریخی حیثیت اور معاشی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مجھے پاکستانی ایئر لائن سے خریدنا چاہتے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ خریداری کے خواہشمندوں میں اس وقت ٹاپ پر ہیں۔ ان کی مجھ پر رال 1989سے ٹپک رہی ہے کیونکہ ایک وقت میں اندر ہی سے انڈر گرائونڈ سے مربوط تھا اور اب بھی پین اسٹیشن کی تعمیر و ترقی ہوئی تو ہوٹل کو بھی راستہ دینا پڑے گا۔
میرے بڑے بڑے ہال، میرے بڑے شاندار ریسٹورنٹ، کھلے کمرے، صدارتی سویٹس ہر ایک کو بھاتے ہیں۔ میں ہی وہ پہلا ہوٹل تھا جس میں بچوں کے لئے الگ سے Play roomبنایا گیا۔ میں ہی وہ ہوٹل ہوں جس میں امریکہ کے صدارتی امیدوار ڈیوی کا ہیڈ کوارٹر تھا اور اس نے یہیں اپنی شکست کا اعلان بھی سنا تھا۔ میرے ہاں دنیا کے کئی نامور لوگ مہمان بن چکے ہیں۔ پاکستان کا ہر صدر، وزیراعظم، وزیر یا گورنر جو بھی نیو یارک آتا ہے وہ اکثر میرے پاس ہی ٹھہرتا ہے۔
میں بھی پاکستانیوں کو خصوصی احترام و اعزاز بخشتا ہوں۔ آخر وہ میرے مالک ہیں۔ وزیراعظم عمران خان امریکہ کے دورے پر آئے تو اِدھر میرے ہی صدارتی سویٹ میں قیام کیا تھا۔ میں نے ان کے آرام و سکون کا بہت خیال رکھا بلکہ ایسا اہتمام کیا کہ کوئی بھی براہِ راست ان کے کمرے تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔
کونرڈ ہلٹن جس نے بعد میں دنیا کا مہنگا ترین واڈ روف ہوٹل بھی خریدا تھا، مجھے بہت پسند کرتا تھا، وہ کئی سال تک مجھے بطور اپنی رہائش گاہ استعمال کرتا رہا۔
مجھے جب سے پی آئی اے نے خریدا ہے میں پاکستان کے اخبارات کی شہ سرخیوں کا موضوع رہا ہوں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ میں نقصان میں چلا گیا ہوں، کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ مجھے بیچ کر پی آئی اے اپنے قرضے اتارنا چاہتی ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ مجھے فروخت کر کے نئے جہاز خریدے جائیں گے۔
میرے دل سے پوچھیں تو مجھے غریب پاکستانیوں کا وہ فخر و انبساط جس کا اظہار وہ مجھے دیکھ کر کرتے ہیں، بہت پسند ہے۔ میں دنیا کے سرمایہ کے سب سے بڑے دارالحکومت میں پاکستان کی علامت اور نشانی ہوں، جس طرح فٹ بال ارجنٹائن کی انا اور فخر کی علامت ہے، پٹ سن بنگلہ دیش کی پہچان ہے، بیس بال امریکہ کی سپر گیم ہے یا پھر جیسے کبھی ہاکی پاکستانیوں کی انا کا استعارہ ہوا کرتی تھی بالکل اسی طرح جب پاکستانی مجھے دیکھتے ہیں یا آ کر یہاں چائے پیتے ہیں تو ان کے چہرے پر جو اطمینان ہوتا ہے وہ مجھے دلی جذبات سے معمور نظر آتا ہے۔ کاش پاکستانی مجھے نہ بیچیں، مجھے اور خوبصورت بنائیں اور اسے اپنی علامت اور اثاثے کے طور پر محفوظ رکھیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے 31برس پہلے 1989میں جب محترمہ بےنظیر بھٹو اپنے شوہر آصف زرداری کے ہمراہ امریکہ کے سرکاری دورے پر آئیں تو امریکی سرمایہ کار (اب صدر امریکہ) ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا۔ ضیافت کے بعد صدر ٹرمپ نے محترمہ سے رُوز ویلٹ ہوٹل خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
محترمہ مسکرا کر خاموش رہیں۔ واپس پاکستان آ کر انہوں نے میرے بارے میں ساری معلومات اکٹھی کیں اور میرے معاشی حالات کا جائزہ لیا۔ انہیں پتا چلا کہ میری ملکیت کے حوالے سے ایک امریکی سے تنازع ہے اسی طرح ایک عربی شہزادے کا بھی میری ملکیت میں حصہ تھا۔ محترمہ اور ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے میرے جیسے قومی اثاثے کی اہمیت کوسمجھتے ہوئے پہلے امریکی شہری سے ملکیت کے تنازعے کا مقدمہ جیتا اور بعد ازاں سعودی شہزادے کے ساتھ بھی معاملات کو طے کرکے اسے میری ملکیت سے فارغ کر دیا اب پی آئی اے 99فیصد میری مالک ہے۔
مجھے یہ بھی یاد ہے کہ 2007کے بعد میئر آف نیو یارک نے مجھے تاریخی یادگاری عمارتوں میں ڈال دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ اب میرے اندر کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ آپ صدر زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہیں یا کوئی اور نام دیں میرے معاملے میں اس نے عبداللہ ہارون کو پیغام بھیجا اور پھر عبداللہ ہارون نے میئر آف نیو یارک سے میرا نام اس فہرست سے نکلوا کے چھوڑا۔ وگرنہ میری تعمیر و ترقی ہی رک سکتی تھی۔
آپ بھی سوچیں گے کہ میں گوشت پوست کا انسان تو ہوں نہیں، میں سوچ کیسے سکتا ہوں، میرے جذبات کیسے ہو سکتے ہیں، میں تو صرف ہوٹل ہوں جسے بظاہر فرق نہیں پڑتا کہ اُسکا مالک کون ہے مگر اہلِ پاکستان کی آہیں، دکھ اور تکلیفیں اتنی زیادہ ہیں کہ میں جو پتھر، گارے اور سیمنٹ سے بنا ہوا ہوں، مجھ میں بھی جذبات آ گئے ہیں اور میں بھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ کاش میں جن پاکستانیوں کی علامت نظر آتا ہوں انہیں کوئی دکھ نہ پہنچنے دوں اور جس طرح پاکستان کی باقی چیزوں کیساتھ لوٹ کھسوٹ ہوئی ہے، کوئی ٹرمپ کارڈ یا کریڈٹ کارڈ کے ذریعے مجھے ہضم نہ کر جائے۔
نیو یارک میں جگہ جگہ ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہیں مگر یہاں ریاست پاکستان کا ایک ہی ہوٹل ہے اور وہ میں رُوز ویلٹ ہوٹل ہوں۔ مجھے فروخت کرنے کا باب ہمیشہ کے لئے بند کر کے مجھے کامیاب بنانے کا پلان بنائیں۔ اگر ریاست اور اس کے لوگ ایک ہوٹل کو کامیاب نہیں بنا سکتے تو وہ اپنے ملک کی معیشت کو کیسے ٹھیک کریں گے۔ وہاں کے لوگوں کو خوشحال کیسے بنائیں گے؟ میں ٹیسٹ کیس ہوں مجھے ٹھیک کر لیں تو پاکستان بھی ٹھیک کر لیں گے۔