آئین کی بالادستی کامسئلہ یہاں ہر گزنہیں ۔ آئین موجود اوربالادست ہے لیکن اس بالا دستی نے ہمارا کیا بگاڑا؟قانون کی حکمرانی نے ہماراکیابگاڑا؟ پاکستان کے بیشتر تھانوں میں جو تفتیش کے نام پہ مرمت ہوتی ہے کوئی قانون اسے روک سکا؟
قانون کی حکمرانی کا نظریہ ہمیں انگریز دے گئے ‘ نہیں تو ہمارا اس سے کیا لینا دینا ؟ضابطے اور قوانین ان کے مرتب کردہ ‘پر ہمارے خمیر کا حصہ نہ بن سکے۔ قانون کی کتابوں میں سب کچھ موجود ہے ۔ کوئی ممکنہ جرم ایسا نہیں جس کا احاطہ ان میں نہ کیاگیاہو۔ آئین پاکستان سے زیادہ فراخدل آئین شاید ہی دنیا میں کوئی ہو۔ ہر آزادی ہر بنیادی حق کی ضمانت اس میں درج ہے۔ محض الفاظ کا جادو ہوتا تو ہم سویڈن سے آگے کی رفاہی مملکت ہوتے۔
لہٰذا یہاں خطرہ کسی آئین وغیرہ کو نہیں ہے ۔سچ پوچھئے ‘ خطرہ ہے تو ہماری مسلمانیت کو ۔ پاکستان کی 99فیصد آبادی مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئی۔ ہمارے باپ مسلمان ‘ ہمارے داد امسلمان ‘ جنم ہوا تو کانوں میں اذان کی آوازدی گئی ۔ ہوش سنبھالا تو اسلام اورقرآن کی بات سنی ۔ اسلام ہمیں کسی مدرسے سے نہ ملا بلکہ ماؤ ں کی سانسوں سے ہمارے وجود میںداخل ہوا۔ ہر بے راہ روی کا شکار پاکستانی معاشر ہ ہوگا لیکن کوئی پاکستانی فرد اسلام اورقرآن کے خلاف ذرا برابر بات بھی سننے کیلئے تیار نہیں۔ لیکن ہر آنے والے کو ہماری مسلمانیت کی فکر پڑی رہتی ہے ۔ وہ اس پہ راضی نہیں ہوتے کہ ہم مسلمان ہیں اورہماری آنے والی نسلیں مسلمان رہیں گی ۔ اُن میں تڑپ رہتی ہے کہ ہمیں دوبارہ مسلمان کیاجائے۔
جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں اُن کے ایک وزیراطلاعات آئے جنہوں نے نظریہ پاکستان کی اصطلاح گھڑ ی ۔ جنرل یحییٰ کے ہاتھوں ملک آدھا ہوا اور اقوام عالم میں رسوائی کااہتمام کیاگیا لیکن جاتے جاتے ایک نیم مردہ آئینی ڈرافٹ دے گئے جس کے بارے میں تب کے امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد نے یہ خوشخبری سنائی کہ یہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو آئے تواُس آئین کی تیاری ہوئی جس کی کتابی بالادستی آج تک قائم ہے ۔ آئین کا دیباچہ پڑھئے تو گمان ہوتاہے کہ پاکستان کل نہیں تو پرسوں ایک رفاہی مملکت بننے جارہاہے۔ ایسا نیک خواہشات کا خزانہ شاید ہی کہیں اورملے۔ جنرل ضیاء الحق وارد ہوئے توآئین کو معطل کرنے اوربھٹو پہ مقدمہ قائم کرنے کے بعد اور تو اُن کے پا س کچھ رہا نہیں اسلام کا نعرہ انہوں نے بلندکردیا۔ ساڑھے گیارہ سال مسندِ اقتدار پہ قابض رہے اوراس عرصے میں پاکستانی قوم کو دوبارہ کیا سہ بارہ مسلمان بنانے میںمصروف رہے۔ مولوی صاحبان کو تقویت ملی ۔ ایک خاص مذہبی پارٹی کو کچھ زیادہ ہی حوصلہ ملا۔وہ پارٹی اوراُس کے زعماء اپنے زور پہ تو کبھی اقتدار کے قریب نہیںآ سکتے تھے لیکن انہوں نے اس موقع کو غنیمت جانا کہ جنرل ضیاء کے کندھوں پہ چڑھ کے کچھ حاصل کر لیں ۔
جنرل ضیاء الحق کی تمام تر نعرہ بازی کے باوجود پاکستان کا بنیادی انتظامی ڈھانچہ وہی رہا جو انگریزوں کا عطا کردہ تھا۔ لیکن جنرل صاحب نے سطحی طورپہ لیپا پوتی بہت کمال کی کی ۔ نامزداسمبلی فرمان برداروں کی چُنی تو ا س کانام مجلس شوریٰ رکھا ۔ گواہی کے قانون یعنی Law of Evidenceکو قانونِ شہادت کانام دیا۔ بینکوں کا نظام وہی رہاجو پہلے تھا لیکن اسلامک بینکنگ کی اصطلاح اس پہ چسپاں کی گئی۔سرکاری میٹنگوں میں لازمی قرارپایاکہ قرآن پاک کی تلاوت سے ان کی ابتدا ہو۔جنرل ضیاء کسی مجلس میں جاتے تو تلاوت اور نعتیہ کلام کا پڑھنا بھی روایت میں شامل ہو گیا۔ کاغذ جو دفتر ی استعمال میںآتے اُن کے اوپر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا جانے لگا۔ اس دور سے پہلے پاکستانی عموماًخدا حافظ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے ۔ جنرل ضیاء کے دور میں اللہ حافظ کی اصطلاح مقبولِ عام ہونے لگی ۔ یہ سب چیزیں بہت اچھی ہیں اورظاہرہے ان پہ زور دینا وابستگی ٔاسلام کا بہترین مظہرہے ۔ لیکن ان روایات کا کچھ اثرتوذہنوں پہ ہونا چاہیے ۔ تلاوتِ قرآن پاک کی افادیت سے کون انکارکرسکتاہے لیکن جس میٹنگ کی ابتدا اس نیک کام سے ہو اس میں جھوٹ ‘ خیانت اورلاپروائی سے تو پرہیز ہو۔ اجتماعی طورپہ جب یہ ساری چیزیں ہورہی ہوں تو اس معاشرے کو تو پاک وصاف ہونا چاہیے۔ جتنا ذکر اسلام کا ہمارے معاشرے میں ہوتاہے اس سے زیادہ ہونا چاہیے لیکن معاشرہ بھی توپھر کچھ ٹھیک ہوجائے۔ جو علتیں کوٹ کوٹ کے اس میں رچ بس گئی ہیں وہ ختم نہ بھی ہوں ان میں کچھ کمی تو آئے ۔ لیکن حالت یہ ہے کہ وردِ پاکیزگی بہت اورعمل قدرے دھیرا دھیرا۔ ماہ رمضان کو لے لیجیے۔ اس کے ظاہراً احترام کا کتنا اہتمام کیاجاتاہے لیکن دکانوں اور بازاروں کے نرخوں پہ کوئی اثر پڑتا ہے؟ اس مقدس مہینے میں تو پاکستان کے تمام سرکاری اہلکاروں کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ حرام کا پیسہ نہیں لیں گے ‘ باقی گیارہ مہینوں میں تو جو ہوتا ہے سب جانتے ہیں مگر اس ایک ماہ میں اجتناب کیاجائے گا۔ ایسا معجزہ کبھی رونما ہواہے ؟
لہٰذا جب کسی موجودہ اسمبلی میں یہ قرارداد پیش کی جاتی ہے کہ اسمبلی کی کارروائی کے شروع میں تلاوتِ قرآن پاک کے ساتھ ایک حدیث بھی بیان کی جائے تو ہم جیسے گناہگار بھی کہیں گے کہ یہ بہت اچھا اقدام ہے اورایک حدیث کیا ایک سے زیادہ کا ذکر ہر اسمبلی کی کارروائی کے شروع میں ہونا چاہیے‘ لیکن ساتھ ہی کمزور دلوں میں یہ خواہش ضرور ابھرے گی کہ ایسا کرنے سے اسمبلیوں کی کارروائی میں کچھ بہتری آئے‘ ممبران اسمبلی کے ذہنوں پہ کچھ خوشگوار اثر پڑے ۔وہی بیکار کی باتیں ہونی ہیں تو ایک حدیث چھوڑ کر ایک سو پڑھ ڈالیے‘ اس کا کیا فائدہ ہوگا؟
کچھ روز پہلے ہمارے ایک مہربان جن کی دلی خواہش ہے کہ میری فکری رہنمائی اوراخلاقی اصلاح ہو‘نے چند کتابیں بھیجیں اس تاکید کے ساتھ کہ میں ضرور پڑھوں ۔ ڈاک آئی تو میں نے پہلی کتاب پڑھنا شروع کردی ۔ وہ اس معتبر ہستی کی تحریر ہے جن کے افکار کااثر ہمارے کالجوں اورجامعات پربہت رہاہے۔ ز ندگی میں پہلی باران کی لکھی ہوئی کوئی چیز میں پڑھ رہاتھا لیکن پڑھتے ہی مجھ پہ ایک ڈپریشن کی کیفیت طاری ہو گئی۔خدامعاف کرے‘ اتنے سطحی دلائل پڑھنے کا مجھے شاذہی کبھی تجربہ ہوا ہو۔ ڈپریشن اس وجہ سے ہوئی کہ عرصہ دراز سے ایسے افکار یا اس قسم کے افکار ہماری سرکاری درسگاہوں پہ قابض رہے ہیں۔ کھیپ د ر کھیپ ہمارے نوجوانوں کی ان افکار کی اسیر رہی ہے۔ انہی نوجوانوں میں سے کچھ سرکاری محکموں میں گئے۔ بہت سے ہیں جو میڈیا میں آئے ۔ افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ہمارے وزیراعظم کی نظریاتی سو چ بھی اس قسم کے سطحی اجزاء کاایک مرکب ہے ۔ ہمارے نوجوان طبقات کو کب اورکیسے یہ بات سمجھائی جاسکے گی کہ بانی ٔپاکستان قائداعظم کے افکار بالکل مختلف تھے ۔ علامہ اقبال کی سوچ مختلف تھی ۔ یہ جو بعد میں ہمیں درس دینے آئے ان کی سوچ اورعلامہ اورقائد کی سوچ میں سمندروں سے گہری خلیج ہے ۔ لیکن جیت کس کی ہوئی ؟ جو عقل کا قتل روزانہ کی بنیاد پہ پاکستان میں ہوتاہے اس کا افکار ِقائدسے تھوڑا سی بھی تعلق بنتاہے ؟اُن کی 11اگست 1947ء کی تقریر کا مفہوم کیا ہے ؟جب انہوں نے کہا کہ مذہب آپ کا ذاتی مسئلہ ہے اوراس کا تعلق ریاست کے کاروبار سے نہیں تو دراصل وہ مسلمانانِ پاکستان سے کہہ رہے تھے کہ ماضی کو پیچھے رکھ کے آگے کی طرف دیکھو اوراپنے ذہنوں کے دریچوںکو ذراکھولو۔ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہی رہا ہے کہ قائد کی یہ سادہ سی بات ہم سمجھ نہ سکے اور بضد ہیں کہ کبھی نہ سمجھیں گے ۔