کراچی: عیدقرباں پر کراچی میں بڑے پیمانے پرجانوروں کی آمدسے کانگو وائرس پھیلنے کاخدشہ پیداہوگیاہے اور پہلے مریض کی تصدیق ہوگئی جوایک نجی اسپتال میں زیر علاج ہے۔
گرمی میں اضافے کے ساتھ ہی کراچی میں نگلیریاکے مرض نے سراٹھانا شروع کردیا ہے اورایک مریض کے نگلیریاسے متاثرہونے کی تصدیق ہوگئی ہے جونجی اسپتال میں زیرعلاج ہے، نگلیریا کا جرثومہ شدید گرم موسم اورصاف پانی میں نشو و نما پاتا ہے اور ناک ومنہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوکردماغ کے خلیوں کوکھاناشروع کردیتا ہے۔
اگرشہرکا درجہ حرارت 36 سے 38 ڈگری ہوتویہ جرثومہ نشو و نما شروع کردیتا ہے جس کا خاتمہ پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدارشامل کرکے کیا جاسکتا ہے، گزشتہ 10 سال سے مسلسل نگلیریا کے کیس رپورٹ ہورہے ہیں تاہم محکمہ صحت اورواٹربورڈ حکام نے اس مسئلے پر چپ ساد رکھی ہے جبکہ حکومت کی ساری توجہ کوروناوباسے نمٹنے میں لگی ہوئی ہے۔
دوسری جانب کراچی میں عیدقرباں پر بڑے پیمانے پر جانوروں کی آمدسے کانگو وائرس پھیلنے کابھی خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق کانگو وائرس کے ٹکس( ایک قسم کا کیڑا)مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پایا جاتا ہے جوجانورکی کھال سے چپک کراس کا خون چوستا رہتا ہے اور یہ کیڑا ہی اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا پسو سے متاثرہ جانورذبح کرتے ہوئے بے احتیاطی کی وجہ سے قصائی کے ہاتھ پرکاٹ لے تویہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے اوریوںکانگو وائرس جانورسے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوجاتا ہے۔
کانگو وائرس کے شکارمریض کو تیز بخارہوتا ہے، اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری ،غنودگی، منہ میں چھالے اورآنکھوں میںسوجن ہوجاتی ہے، متاثرہ مریض کے جسم سے خون نکلنے لگتا ہے اورکچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں جبکہ جگراورگردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور یوں مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے، شہری مویشی منڈی جاتے ہوئے احتیاطی تدابیرپرعمل کریں، حکومت سندھ اورمحکمہ صحت نے کانگو وائرس اور نگلیریا سے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدامات سے عوام کوآگاہ کیا اور نہ ہی ان امراض سے بچاؤکے لیے کوئی گائیڈلائن جاری کی ہے۔