حال ہی میں امریکہ میں جوہری مواد کے تحفظ کے حوالے سے دنیا بھر کی مجموعی صورتحال پر ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں پاکستان اپنے جوہری مواد کا تحفظ کرنے اور اس بارے میں ضابطہ کار پر عمل درآمد کرنے کے نتیجے میں اس فہرست پر 19ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
نیشنل تھریٹ انیشیئیٹو کی سنہ 2020 کی اس رپورٹ میں پاکستان کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ملک میں جوہری مواد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے خاصی محنت کی گئی ہے اور اس بارے میں اقدامات پر عملدرآمد کرنے میں بھی ’بہتری آئی ہے۔‘
اس رپورٹ کے شائع ہوتے ہی پہلا سوال یہی پوچھا جا رہا ہے کہ اس رینکنگ کی کیا اہمیت ہے اور اس سے دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ پر کیا فرق پڑ سکتا ہے؟
اسی بارے میں بی بی سی نے چند سوالوں کے جواب معلوم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ اس رپورٹ کی اور اس میں پاکستان کی نئی رینکنگ کی کیا اہمیت ہے۔
این ٹی آئی انڈیکس کیا ہے؟
نیشنل تھریٹ انڈیکس امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک ادارہ ہے جو دنیا کے 170 ممالک کے جوہری ہتھیاروں پر تحقیق کرتا ہے۔ یہ ادارہ خود کو ناصرف جوہری ہتھیاروں کا مخالف بتاتا ہے بلکہ اس کے غلط استعمال کی روک تھام کی کوشش میں بھی مصروف عمل رہتا ہے۔
یہ ادارہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خطرات کے بارے میں سالانہ رپورٹ بھی شائع کرتا ہے جس سے یہ تعین کیا جاتا ہے کہ جوہری ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کے حامل ممالک ان ’اثاثوں‘ کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ اور یہ اقدامات ضابطہ کار پر پورے اترتے ہیں یا نہیں؟
قائد اعظم یونیورسٹی میں شعبہ فزکس کے سابق پروفیسر ڈاکٹر اے ایچ نئیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’این ٹی آئی ایک غیر جانبدار ادارہ ہے اور دنیا بھر میں ان کے تجزیوں اور رپورٹس کو مانا جاتا ہے۔‘
دوسری جانب پاکستانی نیوکلیئر فزسٹ پرویز ہودبھائی کہتے ہیں کہ ’یہ سب اعلانیہ طور پر ہے، ایسا نہیں ہے کہ کسی ٹیم نے یہاں آ کر معائنہ کیا ہوا ہے۔ یہ رپورٹ سرکاری ذرائع سے بات کرنے کے بعد بنائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کوئی بھی ملک ان کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔‘
پاکستان کے جوہری پروگرام کی مختصر تاریخ
کہا جاتا ہے کہ سنہ 1970 کے وسط میں پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے یورینیم کی افزودگی کا پروگرام شروع کیا۔ جس کے ذریعے پاکستان جوہری ہتھیار بنانا چاہتا تھا۔
ان ہتھیاروں کو بنانے کے پیچھے ایک بڑی وجہ پاکستان کی انڈیا کے ساتھ جاری کشمکش کو سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انڈیا کے جوہری تجربوں کے کچھ عرصے بعد ہی پاکستان نے 28 مئی 1998 کو ایٹمی تجربے ٹیسٹ کیے جس کے بعد پاکستان کا شمار ایٹمی صلاحیت کی حامل ریاستوں میں ہونے لگا۔
این ٹی آئی نے اپنی بیشتر رپورٹس میں پاکستان کے ’تیزی سے بڑھتے‘ ہوئے جوہری مواد اور پاکستان کی نان پرولیفریشن ٹریٹی(این پی ٹی) یعنی ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے میں شامل نہ ہونے کو خطرے کی علامت کہا ہے۔
اگر تاریخ میں تھوڑا سا پیچھے جائیں تو 11 ستمبر 2001 میں امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد دنیا بھر میں پاکستان کے جوہری اثاثوں اور ہتھیاروں کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی اور کہا جاتا رہا کہ یہ ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ ہے۔
پھر جب نومبر 2001 میں شمالی کوریا نے جوہری ہتھیار بنانے کی تصدیق کی تو اس وقت پاکستان پر الزام عائد کیا گیا کہ پاکستان نے مبینہ طور پر میزائل اور دیگر ہتھیار حاصل کرنے کے عوض شمالی کوریا کی مدد کی ہے۔
اسی بارے میں لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) معین الدین حیدر نے کہا کہ ’پاکستان میں لوگوں کو بہت تشویش ہوتی تھی کہ یہ ایٹمی اثاثے شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں بد امنی تھی۔ مختلف شہروں میں دہشتگرد دندناتے پھر رہے تھے۔ سابق قبائلی علاقوں میں اور سوات میں حکومت کی گرفت کمزور ہوچکی تھی۔‘
اس وقت خطرہ دو قسم کا تھا ایک ان جوہری ہتھیاروں کے پھیلنے کا اور دوسرا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کا۔
پاکستان نے جوہری مواد کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات اٹھائے؟
ڈاکٹر نئیر کا کہنا ہے کہ عالمی قوتوں کی جانب سے پاکستان کے جوہری پروگرام پر تحفظات اور الزامات کے بعد پاکستان نے اس ضمن میں وقت کے ساتھ کچھ اہم اقدامات کیے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 2002 اور 2004 کے دوران پاکستان اس حوالے میں عالمی قوتوں کے خاصے دباؤ میں رہا۔ پاکستان نے پھر ایسے قوانین اور ضابطہ کار بنائے کہ اگر کوئی جوہری ہتھیار ملک سے باہر جاتا ہے یا باہر سے ملک میں آتا ہے تو اس بارے میں ایک مکمل طریقہ کار موجود ہو تاکہ اس حوالے سے کچھ بھی ڈھکے چھپے انداز میں نہ ہو بلکہ دنیا کے سامنے ہو۔‘
دوسرا خطرہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سے منسلک تھا۔ جس میں جوہری ہتھیار کا حادثاتی طور پر لانچ ہو جانا، چوری ہو جانا وغیرہ شامل ہیں۔ اس خدشات کے نتیجے میں ملک کو عالمی اداروں کو یہ یقین دہانی کرانی ہوتی ہے کہ ان کے ملک میں موجود جوہری ہتھیاروں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات لیے جا رہے ہیں۔
این ٹی آئی نے بھی کئی بار پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کے بارے میں ناصرف اپنے خدشات کا اظہار کیا بلکہ اب تک یہ ادارہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف ہے۔
پاکستان نے ان تمام تحفظات کو دیکھتے ہوئے اپنے جوہری پروگرام کے لیے ایک خصوصی اٹامک سٹریٹیجک پلان ڈویژن فورس قائم کی۔
ڈاکٹر نئیر کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پھر دنیا بھر کے ممالک کو اس بحث میں شامل کیا کہ ہمارے پاس جوہری ہتھیار اور ٹیکنالوجی ہے اور پھر سنہ 2000 سے 2010 کے درمیان مختلف ورکشاپ، سیمینار کیے گئے جہاں ماہرین کو بلا کر ان کی رائے لی گئی تاکہ اُن سے سیکھا جا سکے کہ اس پروگرام کے تحت نظام میں مزید بہتری کہاں اور کیسے لائی جا سکتی ہے۔
معین الدین حیدر کا کہنا تھا کہ ’یہ حفاظتی اقدامات مختلف سطحوں پر مشتمل ہے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان نے ایک مضبوط نظام قائم کر لیا۔ اس دوران لوگوں کا اعتماد بڑھا کہ یہ واقع بہتری لانا چاہتے ہیں، سیکھنا چاہتے ہیں۔‘
کن اقدامات کی بنیاد پر رینکنگ کی گئی؟
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی دو بنیادی جہتیں ہیں۔ ایک اس کا استعمال پُرامن مقاصد کے لیے کرنا، اور دوسرا اس کا سٹریٹیجک پہلو ہے۔
چونکہ پاکستان این پی ٹی کا حصہ نہیں ہے اس لیے اس کے پُرامن مقاصد کے لیے استعمال ہونے والا پہلو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی نگرانی میں ہوتا ہے۔
پاکستان کے اس وقت چار ری ایکٹرز میانوالی ڈسٹرکٹ کے چشمہ علاقے میں لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ اسی طرز کے دو اور کراچی میں لگائے جائیں گے۔
اب ان ری ایکٹرز کے ڈیزائن کی منظوری سے لے کر اس کا ڈھانچہ اور پھر اس کا کام، حفاظتی اقدامات، ری ایکٹرز پر کام کرنے والے لوگوں کی ٹریننگ، یورینیم کا فیول لگنا، ری ایکٹرز کا چلنا یا بند ہونا، اس فیول کی سٹوریج اور اس کا اخراج کرنے کا تمام تر کام آئی اے ای اے کی نگرانی میں ہوتا ہے۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز سے منسلک نیوکلیئر ماہر سید محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘دنیا بھر میں 434 کے قریب نیوکلیئر ری ایکٹرز کی تمام تر نگرانی آئی اے ای اے کرتا ہے۔ پاکستان کا آئی اے ای اے کے ساتھ اشتراک تیسری دنیا کا سب سے بڑا اور پرانا پروگرام ہے۔ ری ایکٹرز کا کام اور قابلیت اور اس سے منسلک ٹریننگ دیکھنے کا کام آئی اے ای اے کرتا ہے۔’
انھیں پُرامن جہتوں میں ایٹمی ٹیکنالوجی کے ذریعے طبی علاج، بجلی بنانا اور زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
سید محمد علی کے مطابق پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے اس وقت اٹھارہ ہسپتال کینسر پر تحقیق، اس کی تشخیص اور اس کے علاج کے لیے کام کرتے ہیں۔ سید محمد علی نے دعویٰ کیا کہ تقریباً آٹھ لاکھ کے قریب کینسر کے مریضوں کا ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ان 18 ہسپتالوں میں علاج کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں ایٹمی ٹیسٹ کے بعد ایک پلاننگ ڈویژن کی ضرورت محسوس ہوئی جس کے نتیجے میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے تحت اس ادارے کو قائم کیا گیا۔ اور اس کمیٹی کا چیئرمین پاکستان کے وزیرِ اعظم کو بنایا، جو این سی اے ایکٹ کے آرٹیکل 4 کے تحت ہوتا ہے۔
این سی اے کے قوانین کے تحت پاکستان کے اس سٹریٹیجک ڈویژن کا کام ملک کے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کرنا اور اس کے استعمال کے لیے ہونے والی پلاننگ کو ممکن بنانا ہے۔
اس پلان کے تحت اس ایٹمی پروگرام کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھا جائے اور ساتھ ہی اس پروگرام کی مختلف جہتوں کو پلاننگ کے تحت چلایا جائے۔
پاکستان کے لیے اس رینکنگ کا کیا مطلب ہے؟
اس پس منظر میں یہ رینکنگ آنا اور اس میں پاکستان کے حفاظتی اقدامات کی پذیرائی ہونا ایک خوش آئند بات سمجھی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر اے ایچ نئیر اس بات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ایک مستند ادارہ ہے جو کئی برسوں سے پاکستان کے جوہری پروگرام پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی اس ادارے کا غیر جانبدار ہو کر رینکنگ دینا اچھی بات ہے۔‘
دوسری جانب پرویز ہودبھائی اس سے متفق نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک اس رینکنگ کی بات ہے تو جو سٹریٹیجک پلان ڈویژن فورس اس ادارے کو بتائے گا یہ ادارہ من و عن وہی مان لے گا۔ تو اس رینکینگ کے لیے ایٹمی تنصیبات کا جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ باہر سے اس جوہری پروگرام پر کسی طرح کی نگرانی نہیں ہوئی۔‘
پاکستان کی رینکنگ انڈیا سے کس قدر مماثلت رکھتی ہے؟
اس رپورٹ میں بنائی گئی فہرست میں پاکستان اور انڈیا کی رینکنگ میں انیس، بیس کا فرق ہے۔ یعنی پاکستان انیسویں نمبر پر ہے اور انڈیا بیسویں نمبر پر ہے۔
لیکن ماہرین کہتے ہیں اس کا اس رینکنگ پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیسے کہ ڈاکٹر نئیر نے کہا کہ ’یہ پاکستان اور انڈیا یا ان ملکوں میں رہنے والوں کے لیے بحث کا ایک اچھا مواد بن سکتا ہے۔ لیکن رینکنگ میں آگے پیچھے ہونا دل خوش کرنے سے زیادہ اور کچھ نہیں۔‘