کھیل

’مگر پی سی بی جیت گیا‘

Share

لاہیرو کمارا اگلی بال پھینکنے کے لیے اپنے رن اپ مارک کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اچانک ان کی نگاہیں گھاس میں سے باہر جھانکتی کسی نوکیلی چیز سے ٹکرائیں۔

کیمرے نے کلوز شاٹ لیا تو یہ ایک لمبا کیل تھا جو عام طور پر بیاہوں شادیوں پہ شامیانے باندھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ گراؤنڈ میں غالباً اسے پریکٹس نیٹ کی تنصیب کے لئے لایا گیا تھا مگر لانے والے واپس جاتے سمے اسے ساتھ لے جانا بھول گئے۔

یہ ایک ایسی ڈارک کامیڈی صورتِ حال ہے جو شاید کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار دیکھنا نصیب ہوئی۔ اگر خدانخواستہ یہ صورتِ حال بلیک کامیڈی میں ڈھل جاتی، بولر رن اپ کے دوران زخمی ہو جاتا تو فاسٹ بولر انجریز کی وجوہات میں ایک انوکھی وجہ کا اضافہ ہو جاتا۔

چونکہ پاکستان کے گراؤنڈز ایک دہائی سے ٹیسٹ کرکٹ سے محروم ہیں اس لیے پلئینگ کنڈیشنز کے معیارات میں بھی ابتری دیکھنے میں آئی ہے۔

پاکستان، سری لنکا، راولپنڈی ٹیسٹ
عابد علی کے لیے یہ ان کے کریئر کا یادگار موقع رہے گا

لیکن پھر بھی یہ تاریخی میچ ہر لحاظ سے تاریخی ثابت ہوا۔ انٹرنیشنل کرکٹ سے جلاوطنی کے بعد یہ پاکستان کا پہلا ہوم ٹیسٹ میچ تھا۔

اور اس میچ کی خاص ترین بات یہ رہی کہ کرکٹ بحالی کی کوششوں میں اب تک جتنے بھی میچز ہوئے، یہ پہلا موقع تھا کہ کسی بھی ملک کی مکمل ’فُل سٹرینتھ‘ ٹیم پاکستان کے مدِ مقابل ہوئی۔

اگرچہ بارش اور گیلی آؤٹ فیلڈ کے باعث پورے دو روز کا کھیل بھی ممکن نہ ہو پایا مگر راولپنڈی کے اس گراؤنڈ کو 15 سال بعد کسی انٹرنیشنل میچ میں سنچری دیکھنے کو ملی۔

آخری بار 2004 میں یہاں راہول ڈراویڈ نے سنچری کی تھی۔ آج مکمل ہوئے میچ میں ایک نہیں، تین خوبصورت سنچری اننگز تھیں۔

پاکستان، سری لنکا، راولپنڈی ٹیسٹ
چار روز تک جاری رہنے والی اننگز میں ڈی سلوا نے مکمل روانی کا مظاہرہ کیا

پہلے دھنن جایا ڈی سلوا کی اننگز تھی جو پریشر کے عالم میں بولنگ فرینڈلی کنڈیشنز میں مکمل ہوئی۔ چار روز تک جاری رہنے والی اس اننگز میں ڈی سلوا نے مکمل روانی اور کنٹرول کا مظاہرہ کیا۔

عابد علی کے لیے یہ ان کے کریئر کا یادگار ترین موقع رہے گا کہ ون ڈے کے اعزاز کے بعد ٹیسٹ میں بھی انھیں پہلے میچ میں سنچری بنانا نصیب ہوئی۔ بلاشبہ وہ ایشین کنڈیشنز کے نہایت شاندار کھلاڑی ہیں۔

راولپنڈی کے شائقینِ کرکٹ نے بارش سے متاثرہ اور حتمی طور پہ بے نتیجہ دکھائی دینے والے میچ میں بھی اپنی دلچسپی آخری گیند تک برقرار رکھی۔ عابد علی کو وہ تالیوں کی گونج تا دیر یاد رہے گی جو شاید دبئی، ابوظہبی میں کبھی سننے کو نہ ملتی۔

پاکستان کے لیے پریشان کن پہلو اظہر علی کی فارم کا تھا۔

میچ سے پہلے وہ کہہ بھی رہے تھے کہ ایسا نہیں کہ وہ فارم میں نہیں ہیں، وہ فارم میں ہیں مگر بدقسمتی سے رنز نہیں بنا پا رہے۔

اظہر علی
پاکستان کے لیے پریشان کن پہلو اظہر علی کی فارم کا تھا

یہاں بھی بدقسمتی سے وہ زیادہ رنز نہ بنا پائے۔ ان کے برعکس بابر اعظم نے ایک بار پھر خوب رنز بٹورے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں اوسط سے آغاز کے بعد یہ مسلسل تیسری سیریز ہے کہ بابر اعظم عظیم کھلاڑی بننے کے کواکب ظاہر کر رہے ہیں۔

پاکستان کے لیے اس بے نتیجہ کھیل سے بھی ساتھ لے جانے کو بہت سے مثبت پہلو ہیں۔ عابد علی اور بابر اعظم اگر اسی فارم کو لے کر کراچی تک چل سکتے ہیں تو پاکستان کے لیے طویل عرصے بعد ٹیسٹ سیریز جیتنے کا موقع ہو گا۔

گو بارش اور موسم نے پہلے دن ہی اس میچ کی قسمت پہ مہر لگا دی تھی مگر پھر بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ٹیموں کے لیے بے شک یہ بے نتیجہ رہا ہو مگر پی سی بی کے لیے یہ بہرحال نتیجہ خیز رہا۔

پی سی بی اپنے ہوم گراؤنڈز پہ محفوظ اور دلچسپ ٹیسٹ کرکٹ کے عوامل بجا لانے میں کامیاب رہا۔