ہم سرعت کے ساتھ ایک ایسے معاشرے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں آزادیٔ رائے ہر صورت ختم ہو جائے اور شہری روبوٹ میں ڈھل جائیں۔ جو ریاست کے طے کردہ مذہب‘ قومی مفاد اور نظریۂ پاکستان کے بر خلاف رائے رکھے اور زبان کھولے، وہ قابلِ تعزیر ٹھہرے۔ لگتا ہے کہ اہلِ مذہب اس کے لیے ریاست کے دست و بازو بن رہے ہیں، یہ سمجھے بغیر کہ کل وہی اس کا ہدف ہو سکتے ہیں۔ میری نظر میں ‘تحفظِ بنیادِ اسلام بل‘ ایسے معاشرے کی طرف ایک بڑی جست ہے۔
آزادیٔ رائے اہلِ اقتدار کو کبھی پسند نہیں رہی۔ بادشاہتوں اور آمریتوں میں تو یہ رویہ قابلِ فہم ہے کہ شخصی اقتدار کسی اخلاق اور قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ انسانیت طویل عرصہ اسی نظامِ حکومت کی زد میں رہی۔ یہاں تک کہ اللہ کے پیغمبروں نے غلامی پر ضرب لگائی اور اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ کے شاگردِ رشید سیدنا عمرؓ کا جملہ لوحِ تاریخ پر ثبت ہو گیا کہ جن کو ماؤں نے آزاد جنا، کوئی انہیں غلام بنانے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ اٹھارہویں صدی میں روسو نے بہ اندازِ دگر یہی کہہ کر گویا اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی کہ یہ الہامی علم ہو یا غیر الہامی، دونوں انسان کی آزاد حیثیت پر متفق ہیں۔ اس آزادی میں، آزادیٔ رائے بدرجہ اولیٰ شامل ہے۔
تاریخ یہ ہے کہ حکمران، توہینِ ریاست اور توہینِ مذہب دونوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے رہے ہیں۔ اموی دور میں اہلِ اقتدار پر گرفت کرنے والے ‘بغاوت‘ یا دوسرے الفاظ میں توہینِ ریاست کے مرتکب قرار پائے۔ عباسیوں نے توہینِ مذہب کے نام پر اپنے مخالفین پر عرصۂ حیات تنگ کیا۔ امام احمد ابنِ حنبلؒ پر یہی مقدمہ قائم ہوا کہ وہ قرآن مجید کو مخلوق نہیں مانتے، اس لیے قابلِ تعزیر ہیں۔
دورِ جدید نے سیدنا عمرؓ کے جملے کو ایک سیاسی نظام کی صورت میں متشکل کر دیا۔ جمہوریت میں آزادیٔ رائے بنیادی انسانی حق ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ انسانی عزت و حرمت اور جان و مال کا تحفظ بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے اور آزادی رائے کا وہ تصور کہیں بھی قابلِ قبول نہیں جو کسی فرد کی آبرو یا جان و مال کو نقصان پہنچانے کا سبب بنے۔ اس کے لیے سخت قوانیں بنائے گئے ہیں۔ مغربی ممالک میں، کسی پر جھوٹا الزام لگانے کی پاداش میں، لوگ عمر بھر کی کمائی سے محروم کر دیے جاتے ہیں؛ تاہم ریاست کو کہیں یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ لوگوں کے بنیادی عقائد میں مداخلت کرے یا وہ طے کرے کہ کیا لکھنا چاہیے اور کیا نہیں۔
پاکستان کہنے کو ایک جمہوری ملک ہے لیکن اسے تدریجاً ایک پولیس سٹیٹ میں بدلا جا رہا ہے۔ پہلے قومی مفاد کی تعریف کے حقوق ریاست نے اپنے نام کیے اور اب مذہبی مقدمات کی تعریف و تشریح بھی اپنے ذمہ لے لی۔ اس کا مظہر یہ نیا بل ہے جو پنجاب اسمبلی نے منظور کیا اور جسے تحفظِ بنیادِ اسلام کا نام دیا گیا ہے۔ اس بل کے تحت ایک سرکاری افسر، جب چاہے کسی کتاب کو بازار سے اٹھا لے اور کتاب فروش کو گرفتار کر لے۔ آدمی صفائی دیتا رہے گا اور اس میں برس ہا برس گزر جائیں گے۔ کیا اس ماحول میں کسی معاشرے کا فکری ارتقا ممکن ہے؟ کیا اسلام یہی چاہتا ہے؟
پھر یہ بل ایک طرف اس مقصد کو پورا کرتا دکھائی نہیں دیتا جسے اس کا شانِ نزول بتایا جا رہا ہے اور دوسری طرف اس نے بے شمار نئے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ مجھے کوئی شبہ نہیں کہ یہ بل نہ مذہب کی تفہیم کا کوئی اچھا نمونہ ہے اور نہ معاشرے کے ساخت سے واقفیت کا اظہار ہے۔ میں یہاں چند امور کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں:
1۔ توہین سے ہماری مراد کیا ہے؟ توہین اور تنقید میں کیا فرق ہے؟ یہ فرق کون بیان کرے گا؟ ایک افسر کس بنیاد پر کسی کتاب کے مصنف کو اس کا مرتکب قرار دے گا؟ اس بل میں تورات، انجیل اور پرانی الہامی کتب کی توہین کو بھی جرم کہا گیا ہے۔ اب مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ موجود کتبِ سماوی، الا قرآن مجید، محرّف ہیں۔ ان میں تحریف کر دی گئی ہے۔ کسی آسمانی کتاب کے بارے میں یہ کہنا کہ اس میں تحریف ہو گئی ہے، کیا توہین ہے؟ کیا کسی مسیحی کے لیے یہ قابلِ قبول ہے؟
2۔ کافر اور غیر مسلم میں کیا فرق ہے؟ کیا ہر غیر مسلم کافر ہے؟ ہم اگر کسی مسیحی کو کافر کہیں تو وہ اسے اپنی توہین سمجھتا ہے۔ وہ خود کو صاحبِ ایمان کہتا ہے کیونکہ وہ خدا اور حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان رکھتا ہے۔ یہی معاملہ یہودیوں کا ہے۔ اگر کل کوئی پاکستانی مسیحی عدالت میں جا کر یہ مقدمہ قائم کرے کہ انہیں کافر نہ کہا جائے تو اس بل کی روشنی میں، اس کا کیا جواب ہو گا؟
3۔ مسلم تاریخ کے باب میں ہمارے ہاں دو مستقل آرا ہیں جو مسلمانوں میں قدیم ترین فرقہ بندی کی بنیاد ہیں۔ بعض جدید شیعہ علما نے صحابہ کی توہین کو حرام کہا لیکن اس کے با وصف تاریخ کے بارے میں ان کا نقطہ نظر وہی ہے۔ وہ تنقید اور توہین میں فرق کرتے ہیں۔ کیا اس بل کے بعد شیعہ نقطہ نظر پیش کیا جا سکے گا؟ اس بل پر شیعہ ردِ عمل ہمارے سامنے ہے۔
4۔ روایات اور تاریخ کی وہ کتب جنہیں مسلم روایت میں مراجع و مصادر کی حیثیت حاصل ہے، اُن میں ان گنت روایات ایسی ہیں، جن کی بنیاد پر وہ کتابیں لکھی گئیں جن پر آج پابندی لگائی جا رہی ہے۔ اگر ان روایات کے اصل ماخذ کی اشاعت جائز ہے تو ان کی بنیاد پر قائم مقدمات کی حامل کتب پر پابندی کا کیا جواز ہے؟
5۔ اس بل کا اطلاق کیا شائع شدہ کتب پر بھی ہو گا؟ بر صغیر میں ایک دوسرے کو گستاخ قرار دینے کی ایک روایت ہے اور اس کی بنیاد بعض کتب پر ہے۔ کیا وہ کتابیں شائع ہوتی رہیں گی؟ اگر ان کی اشاعت جاری ہے تو پھر نئی پابندی کیسے نتیجہ خیز ہو سکتی ہے؟ اسی طرح ہمارے قدیم مصنفین جو جید عالم تھے، اپنی تحریروں میں زیادہ القاب استعمال نہیں کرتے تھے۔ مثال کے طور پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتابوں میںجہاں رسالت مآبﷺ کا نامِ نامی آیا ہے، وہ کم و بیش ہر جگہ صرف ‘نبیﷺ‘ لکھتے ہیں۔ کیا ان کتب کے نئے ایڈیشن تبدیلی کے ساتھ شائع ہوں گے؟
6۔ مسلمان ہمیشہ حفظِ مراتب کے قائل رہے ہیں مگر اس کا کوئی مسلمہ اصول نہیں۔ اس کا تعلق ذوق اور تفہیم سے ہے۔ اہلِ تشیع سیدنا علی کے ساتھ علیہ السلام اور سنی، رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں۔ بعض سنی بھی سیدنا علی کے لیے علیہ السلام لکھتے ہیں۔ اسی طرح غیر صحابی کے لیے بھی رضی اللہ عنہ لکھا جاتا ہے۔ اس پرکوئی پابندی کیسے لگائی جا سکتی ہے اور اس کی دینی دلیل کیا ہے؟
7۔ احترامِ مذاہب و شخصیات کا ایک قانون پہلے سے موجود ہے۔ ایسے میں ایک نئے قانون کا جواز کیا ہے؟
نصابی کتب کے بارے میں، میں الگ سے لکھوں گا۔ مذہبی معاملات میں ریاست کی بڑھتی مداخلت کے دو نتائج ناگزیر ہیں۔ ایک یہ کہ خود اہلِ مذہب دیوار سے لگ جائیں اور ایک دن خود ہی اس کے خلاف نکل پڑیں دوسرا یہ کہ عوام مذہبی معاملات اور ان سے وابستہ خوف کے باعث ایک سیکولر ریاست کا مطالبہ لے کر کھڑے ہو جائیں۔ یہ اس طرزِ عمل کا ناگزیر نتیجہ ہے جس پر یورپی تاریخ کی گواہی ثبت ہے۔