بابائے قنوطیت
ہمارے ایک دوست ہیں جن کا اصل نام تو ہم آپ کو نہیں بتا سکتے تاہم آپ انہیں بابائے قنوطیت کہہ سکتے ہیں۔ آنجناب کا تعلق مشہور جرمن فلسفی شوپنہار کے قبیلے سے ہے۔آپ کا پسندیدہ اور محبوب مشغلہ اِس دنیا میں مایوسی اور نا امیدی پھیلانا ہے۔اگر یہ شوپنہار کے زمانے میں زندہ ہوتے تو وہ مرد عاقل انہیں اپنا جانشین نامزدکرکے فوت ہوتا۔کبھی کبھی تو ہمیں یوں لگتا ہے جیسے حضرت عزرائیل نے موصوف کو دنیا میں اپنا ڈائریکٹر مقرر کیاہو ا ہے، اِس مسرت کے ساتھ کسی کی فوتیدگی کی اطلاع دیتے ہیں جیسے مرنے والے نے انہیں وصیت کی ہو کہ اُس کی وفات پر بھنگڑا ڈالا جائے۔ جب کرونا وائرس کی وبا پاکستان میں داخل ہوئی تو ایک روز غریب خانے پر تشریف لائے اور حسب عادت آتے ہی فہرست طعام طلب کی، یہ آنجناب کی پرانی عادت ہے کہ کہیں بھی جائیں ’مینو‘ضرور پوچھتے ہیں، ایک مرتبہ کسی کی قُل خوانی پر گئے تو وہاں نہایت استغنا سے لواحقین سے پوچھا کہ کھانے میں انہوں نے کیا اہتمام کیا ہے۔جواب میں انہوں نے گٹھلیاں آگے رکھ دیں۔اسی طرح ایک مرتبہ ہم اپنے ایک مشترکہ دوست کے ہاں گئے، سہ پہر کے چار بجے تھے، صوفے میں دھنستے ہی جناب نے پوچھا کہ گھر میں کیا پکا ہے، اُس شریف آدمی نے تین چار چیزوں کے نام گنوا دیے، موصوف نے سر ہلا کر کہا کہ نہیں آپ ایسا کریں صرف آلو والے پراٹھے بنوا لیں۔ سات پراٹھے تو میں نے گنے تھے اُس روز جو انہوں نے کھائے، ایک پراٹھے کے تین لقمے بنا کر۔خیراصل بات پر واپس آتے ہیں۔وبا کے دنوں میں شوپنہار کے یہ قلبی جانشین فدوی کے گھر آئے تو میں نے حسب توفیق جو کچھ تھا حاضر کر دیا۔کھانے کے دوران وبا پر گفتگو شروع ہوئی،فرمانے لگے کہ یہ وبا پاکستان میں بہت خطرناک شکل اختیار کر لے گی اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے دوستوں میں سے کوئی نہ کوئی اِس وبا میں مر جائے گا۔ یہ بات کرتے ہوئے موصوف کے چہرے پر ایسی طمانیت تھی جو بقول یوسفی صاحب ”بالعموم انجام سے بے خبر سٹے بازوں کے چہروں پر نظر آتی ہے۔“کھانا ختم کرکے انہوں نے سگریٹ سلگایا اور کش لگاتے ہوئے بولے تم احتیاطاً گھر میں آکسیجن کا ایک سلینڈر منگوا رکھو او ر ہو سکے تو کسی اسپتال میں بات کرکے ایک وینٹی لیٹر بھی مختص کروالو،ویسے اپنی وصیت تو تم لکھا ہی چکے ہو گے، آخر سیانے آدمی ہو!میں اُن کی اِس قسم کی باتیں سننے کا عادی ہوں اِس لیے میں نے کسی خاص تاثر کا اظہار نہیں کیا۔ فدوی کو بابائے قنوطیت کے ساتھ ہوا ئی سفر کرنے کا اتفاق بھی ہواہے، ا س دوران ان کا محبوب موضوع پاکستان میں ہواباز کمپنیوں کے ناقص حفاظتی معیارات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے حادثات کا باہمی ربط ہوتا ہے، اِس موضوع پر جناب اعداد و شمار کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر یہ جہاز منزل مقصود پر پہنچ گیا تو حضرت عیسی ٰ ؑکے مردوں کو زندہ کرنے والے معجزے کے بعد یہ تاریخ کا ایک بڑا معجزہ ہوگا۔اسی طرح جب ملک میں دہشت گر دی کا عروج تھا اُن دنوں اپنے دوستوں کو دفتر میں فون کرکے probabilityتھیوری کی رُو سے یہ سمجھاتے تھے کہ گھر سے دفتر جاتے ہوئے اُن کا خود کش دھماکے میں شہید ہونے کا امکان 1بٹا18ہے۔بم دھماکے تو اللہ کا شکر ہے اب نہیں ہوتے مگر جب سے یہ وبا آئی ہے تب سے ہمارے بابائے قنوطیت کے ہاتھ میں مایوسی پھیلانے کا ایک نیا ہتھیار ہاتھ آ گیا ہے۔ایک روز موصوف کا مجھے فون آیا، آواز میں ہلکی ہلکی کپکپاہٹ تھی، ایسا تب ہوتا ہے جب اُن کے پاس کوئی اندوہناک خبر ہو اور وہ اپنی خوشی نہ چھپا سکیں۔ کہنے لگے کہ حکومت نے متعلقہ محکموں کو خفیہ حکم نامہ جاری کیا ہے کہ فوری طور پر دس ہزار تابوت بنوا کر رکھ لیے جائیں اور اتنی ہی قبریں بھی تیار رکھی جائیں۔ میں یہ بات سُن کر لرز گیا۔ پوچھا، کیوں؟ اطمینان سے کہنے لگے کہ اِس وبا کے نتیجے میں جب اموات ہوں گی تو پھر ہنگامی حالت میں لوگوں کو ایسے ہی دفنانے پڑے گا اسی لیے حکومت پہلے سے تیاری کر رہی ہے اور یہ بہت اچھی بات ہے۔وہ کسی بچے کی طرح قلقاریاں مار رہے تھے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ وبا کے مضمرات کا تمہیں اُس وقت پتا چلے گا جب سڑکوں پر لوٹ مار شروع ہو گی، پٹرول پمپ، بنک، دفاتر، بند ہو جائیں گے،اسپتال لاشوں سے اٹ جائیں گے اورلوگ ایک دوسر ے کے گھروں پر حملے کریں گے۔۔۔۔۔میں نے مزید کچھ سننے سے پہلے فون بند کر دیا۔
ہمارے یہ دوست قنوطی ضرور ہیں مگر بلاکے ذہین بھی ہیں اور بے حد لچھے دار گفتگو کرتے ہیں۔ اپنی اسی لچھے دار گفتگو کی مدد سے کئی دوستوں کو قائل کرچکے ہیں کہ ملازمت جیسی بھی ہو، کتنی ہی پُر کشش کیوں نہ ہو،بہر حال ایک بیہودہ اور مبتذل کام ہے اور کسی غیرت مند شخص،کوجس کا ضمیر زندہ ہو، نوکری نہیں کرنی چاہیے، تاریخ سے ثابت ہے کہ دنیا کا کوئی ملازمت پیشہ شخص کبھی بڑا آدمی نہیں بن سکتا۔ آنجناب کی اِس گفتگو سے متاثر ہو کر اُن کے کئی دوست اپنی اچھی بھلی نوکریوں سے استعفی ٰ دے چکے ہیں اور آج کل خوار ہو رہے ہیں، ایک دو گھروں میں تو نوبت طلاق تک آ گئی ہے۔مجھے بھی گاہے بگاہے نوکری چھوڑنے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں، میرا جواب ہوتا ہے کہ جس دن آپ استعفی ٰ دیں گے اُس سے اگلے دن یہ فدوی بھی نوکری کو لات ماردے گا۔ قدرت نے اُن کو خاص ملکہ عطا کر رکھا ہے،آپ جس کام ہاتھ ڈالتے ہیں وہ برباد ہو جاتا ہے۔’بہر کجا کہ رسید یم آسماں پیدا است۔‘ (ہم جہاں بھی جائیں، بد نصیبی ہمارے ساتھ چلتی ہے)۔اپنے کئی کروڑپتی دوستوں کے چلتے ہوئے کاروبار بند کر وا چکے ہیں۔ اِس معاملے میں آپ کسی کے مقلد نہیں بلکہ یہ فن انہوں نے خود ایجادکیا ہے۔مثلاً ہمارے ایک دوست کی کافی شاپ تھی، بین الاقوامی چین کی فرینچائز(عربی میں بولیں تو الامتیاز التجاری)۔ایک روز ہم وہاں بیٹھے کافی پی رہے تھے، موصوف اُس دوست کو کاروبار بڑھانے کے مشورے دیتے ہوئے کہنے لگے کہ اِس کافی شاپ میں اور باقیوں میں کوئی خاص فرق نہیں، تم ایک تخلیقی ذہن کے مالک ہو، تمہاری کافی شاپ شہر میں ممتاز ہونی چاہیے، یہ کیا بات ہوئی کہ بین الاقوامی چین کا بورڈ لگا یا اور ڈھابہ کھول کر بیٹھ گئے، یہ تو کوئی گنوار
بھی کر سکتا ہے۔ ہمارا وہ دوست یہ گفتگو سُن کر بے حد مرعوب ہوا اور اپنے اچھے خاصے منافع بخش کاروبار میں ’تخلیقی تبدیلیاں‘کیں۔تین ماہ میں وہ کافی شاپ نہ صرف بند ہو گئی بلکہ اُس بھدر پُرش پر قرض بھی چڑھ گیا۔
کچھ عرصے سے مجھے لگ رہا ہے جیسے میں بھی اپنے اِس دوست کے رنگ میں رنگ گیا ہوں۔پہلے میں کسی بھی معاملے کے روشن اور تاریک دونوں پہلوؤں کا جائزہ لیتا تھا، اب لا شعوری طور پر صرف تاریک پہلو ہی دیکھتا ہوں، ملک کے مستقبل کے حوالے سے مایوس کُن باتیں کرتا ہوں اورکسی طرف سے بھی مجھے امید یا روشنی کی کرن نظر نہیں آتی۔کبھی کہیں سے کوئی اچھی خبر آ بھی جائے تو میں اُس کی باریکیوں میں پڑکر خواہ مخواہ منفی پہلو ڈھونڈ نکالتا ہوں۔ بعض اوقات تو مجھے لگتا ہے جیسے کسی معاملے میں معلومات کا ہونا بھی نقصان کا باعث ہوتا ہے، اِن معلومات کے تجزیئے سے عموماً آپ کا ذہن تاریک پہلو کو ہی بڑھا کر دکھاتا ہے۔حالانکہ جس طرح اپنی تمام تر عقل و دانش کے باوجود انسا ن کسی بھی معاملے کاہر تاریک پہلو نہیں جان سکتا بالکل اسی طرح ہم روشن پہلوؤں سے بھی واقف نہیں ہو سکتے۔ روشنی کب کہاں سے پھوٹے گی، ہم نہیں جانتے، مگر اندھیراکہیں بھی سدانہیں رہتا،کم ازم کم تاریخ کا سبق یہی ہے۔