Site icon DUNYA PAKISTAN

کراچی آپریشن: 1990 کی دہائی میں کراچی میں ہونے والے ’آپریشن بلیو فوکس‘ کی دل دہلا دینے والی داستان

Share

انسانی لاش سے رسنے والے خون کے دھبے اُس کے ہاتھوں پر لگے ہوئے تھے۔

مجھے دیکھ کر اُس کے چہرے پر عجیب سے تاثرات اُبھرے۔

پانچ میں سے تین لاشیں مردہ خانے کی سلیب پر رکھی تھیں اور دو سیڑھیوں کے پاس زمین پر۔

مردہ خانے کے دوسرے کونے میں لگے واش بیسن سے ہاتھ دھوتے وقت اُس نے بڑے اطمینان سے عملے کے رکُن سے پوچھا ’چاچا ، میرا ناشتہ لگا دیا؟‘

جواب میرے لیے سوال سے بھی زیادہ حیران کُن تھا۔ ’جی ، وہ رکھا ہے! آپ کے پیچھے۔‘

اب مجھ سے رہا نہیں گیا۔ ’تم یہاں ناشتہ کرو گے، مردہ خانے میں؟ ان لاشوں کی موجودگی میں؟‘

اب سوال کرنے کی باری اُس کی تھی۔

’کتنے دن ہوئے یہ کام کرتے ہوئے؟‘ یہی کوئی دو برس، میں نے جواب دیا۔

’تین برس اور کر لو۔ پھر یہیں تم بھی میرے ساتھ ناشتہ کر رہے ہو گے، لاشوں کے پاس۔ میری طرح تمہارے سینسز بھی ڈیمیج ہو جائیں گے۔‘

کراچی کے جناح ہسپتال کے میڈیکو لیگل آفیسر (ایم ایل او) کی بات مجھے کچھ غلط بھی نہیں لگی، آخر میں بھی تو اُن پانچ لاشوں کے درمیان تاثرات سے بالکل عاری کھڑا تھا۔

یہ پانچوں لاشیں گولیاں لگنے سے ہلاک ہونے والوں کی تھیں اور پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال لائی گئی تھیں۔

میں کراچی کے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے کرائم رپورٹر کے طور پر تفصیلات جاننے مردہ خانے پہنچا تھا۔

یہ سنہ 1992 میں شروع ہونے والے اُس ’آپریشن کلین اپ‘ کا اختتامی زمانہ تھا جس کا سرکاری نام ’آپریشن بلیو فوکس‘ رکھا گیا تھا، مگر یہ ’کراچی آپریشن‘ کے نام سے مشہور ہوا۔

اُس وقت تک کراچی اِتنی قتل و غارت اور لاشیں دیکھ چکا تھا کہ شاید ہم تمام اہلیان کراچی کے ’سینسز ڈیمیج‘ ہو چکے تھے۔

1990 کی اس پُرتشدد دہائی میں تب تک ڈاکٹرز، پولیس سرجنز اور رپورٹرز کے لیے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی کہ کوئی مردہ خانے میں ناشتہ کر رہا ہو۔

مگر پچیس برس تک یہ سب ہوتے دیکھنا اور اس کو رپورٹ کرنا کبھی آسان نہیں رہا۔

ذرا سا دل کڑا کیجیے تو میں آپ کو بھی اُسی پُرتشدد کراچی کی گلیوں میں لے چلوں، جہاں یہ آپریشن کیا گیا تھا۔

اِس کے لیے میری مدد کی اُس قتل و غارت اور اس کے گِرد گھومتی سیاست کی خبریں آپ تک پہنچاتے رہنے والے بہت سے صحافیوں، اس وقت فرائض انجام دینے والے رینجرز اور پولیس افسروں، کئی مقتولین کے اہلِخانہ اور آپریشن کا جائزہ لینے والے تجزیہ کاروں نے۔

،تصویر کا کیپشن24 اکتوبر 1990 کے انتخابات ہوئے تو نواز شریف کی قیادت میں مرکز میں ‘اسلامی جمہوری اتحاد’ نے حیران کُن کامیابی حاصل کی اور کراچی سے کامیاب ہونے والی مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے نواز شریف کی حکومت میں شمولیت اختیار کی

’آپریشن بلیو فوکس‘

کہانی کا آغاز کیا سینیئر صحافی اور ممتاز تجزیہ کار مظہر عباس نے جو اب پاکستان کے نجی نیوز چینل ’جیو‘ سے وابستہ ہیں۔

24 اکتوبر 1990 کے انتخابات ہوئے تو نواز شریف کی قیادت میں مرکز میں ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ نے حیران کُن کامیابی حاصل کی اور کراچی سے کامیاب ہونے والی مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے نواز شریف کی حکومت میں شمولیت اختیار کی۔

آج ایم کیو ایم پاکستان کے سینیئر ڈپٹی کنوینر عامر خان اور ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد، دونوں اس وقت الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ کی جوائنٹ سیکریٹری تھے۔ دونوں کو الطاف حسین اپنا ’دایاں اور بایاں بازو‘ قرار دیتے تھے۔

ایم کیو ایم نے اپنے تنظیمی ڈھانچے کو دو زونز میں تقسیم کر رکھا تھا۔

مغربی اور وسطی ضلعے پر مشتمل علاقوں کے ذمہ دار عامر خان تھے جبکہ مشرقی اور جنوبی اضلاع کی ذمہ داری آفاق احمد کے سپرد تھی۔

پھر خبریں آنا شروع ہوئیں کہ یونٹ اور سیکٹر کے ذریعے علاقہ کنٹرول کرنے کی سیاست ہو رہی ہے اور بھتے وصول کیے جا رہے ہیں اور الطاف حسین ان شکایات پر آفاق احمد اور عامر خان کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

سنہ 1991 میں عامر خان اور آفاق احمد کو تنظیم سے خارج کر دیا گیا اور سارا تنظیمی ڈھانچہ توڑ دیا گیا، یونٹ اور سیکٹرز تحلیل کر کے سینکڑوں کارکنوں کی تنظیمی رکنیت معطل کر دی گئی۔

عامر خان، آفاق احمد اور ایم کیو ایم سے نکالے جانے والے اُن کے کئی حامی شہر سے چلے گئے یا روپوش ہو گئے۔

ایم کیو ایم کا موقف تھا کہ انھوں نے جرائم پیشہ عناصر کو تنظیم سے نکال دیا ہے۔

اب ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد اُس وقت کی صورتحال کے اس تجزیے کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔

کراچی آپریشن کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے آفاق احمد نے دعویٰ کیا کہ آپریشن کو تو خود الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی حمایت حاصل تھی۔

’اگر آپ کو یاد ہو تو اس سلسلے میں ایک اجلاس میں ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت یعنی چیئرمین عظیم احمد طارق، جنرل سیکریٹری عمران فاروق اور وائس چیئرمین سلیم شہزاد تینوں موجود تھے۔ ایم کیو ایم نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کی حمایت کی۔‘

آفاق احمد کے بقول ’پھر فوج کے اس وقت کے سربراہ اسلم بیگ سے الطاف حسین کی ملاقات ہوئی تو مجھے لگا کہ سارے معاملات پہلے سے طے شدہ تھے۔

’اس ملاقات میں ایم کیو ایم سے فرمائش کی گئی کہ جناب آپ قومی دھارے کی سیاست کیجیے، الطاف حسین نے کہا کہ ہمارے پاس اتنے وسائل کہاں؟ تو جنرل بیگ نے یونس حبیب کو وسائل کا انتظام کرنے کو کہا اور جب وسائل کا انتظام ہو گیا تو الطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ بنانے کی تیاریاں ہوئیں۔‘

آفاقی احمد بتاتے ہیں کہ ’اُس وقت ہمارا (میرا اور عامر خان کا) اس بات پر اختلاف ہوا کہ ہم تو مہاجر سیاست کرنے آئے تھے اگر آپ قومی دھارے کی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور مہاجر لفظ سے دستبردار ہوں گے تو ہم تو پھر نہ یہ سیاست کریں گے نہ آپ کا ساتھ دیں گے اور یوں ہم ان سے علیحدہ ہو گئے۔‘

کہانی اور آگے تب بڑھی جب جنرل آصف نواز فوج کے سربراہ بنے تو خبریں آنے لگیں کہ سندھ میں ڈاکوؤں، پتھاریداروں، جرائم پیشہ عناصر خصوصاً اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے ’72 بڑی مچھلیوں‘ کے خلاف آپریشن ہونے والا ہے اور 28 مئی 1992 کو آپریشن بلیو فوکس شروع کر دیا گیا، جسے کراچی آپریشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

،تصویر کا کیپشنجنرل آصف نواز فوج کے سربراہ بنے تو خبریں آنے لگیں کہ سندھ میں ڈاکوؤں، پتھاریداروں، جرائم پیشہ عناصر خصوصاً اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے ’72 بڑی مچھلیوں’ کے خلاف آپریشن ہونے والا ہے

کراچی آپریشن 19 جون 1992 کو شروع ہوا اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کی حمایت خود ایم کیو ایم نے بھی کی۔

لیکن جب آفاق احمد اور عامر خان واپس آئے اور ایم کیو ایم کو اندازہ ہوا کے اُن کو ہدف بنا لیا گیا ہے تو معاملے نے دوسرا رخ اختیار کیا۔

آفاق احمد اور عامر خان کی قیادت میں بنائی جانے والی ’ایم کیو ایم حقیقی‘ کے لیے ریاست کی جانب سے کھلی حمایت اور الطاف حسین کی تنظیم کے خلاف یکطرفہ کارروائی سے خود ریاست کے اداروں میں اختلافات ابھرنے لگے۔

ایم کیو ایم نے اپنے خلاف ’یکطرفہ‘ کارروائی کی بنیاد پر احتجاجاً حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی اور آپریشن کلین اپ سیاست کی نذر ہو گیا۔

اسی دوران جام صادق کے انتقال پر نئے وزیر اعلیٰ کی تلاش شروع ہوئی اور ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

جو ماحول آپریشن سے قبل الطاف حسین کی تنظیم کے خلاف بنا ہوا تھا وہ یکطرفہ کارروائی سے متاثر ہوا اور ایم کیو ایم سیاسی طور پر مظلوم نظر آنے لگی۔

ذرائع ابلاغ میں بحث شروع ہو گئی کہ اگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کرنا تھا تو ایم کیو ایم حقیقی کیوں بنائی گئی؟ یہ تو وہی جرائم پیشہ عناصر ہیں جن کے خلاف یہ کارروائی شروع ہوئی تھی اور اس بحث میں آپریشن اپنی سمت کھو بیٹھا۔

پاکستان سے ترک وطن کر جانے والے سندھ پولیس کے ایک سابق افسر نے کہا کہ ’جب آپ ایک گینگسٹر کو ختم کرنے کے لیے دوسرے کو لاتے ہیں تو اصل مقصد پیچھے رہ جاتا ہے، کراچی آپریشن کے ساتھ بھی یہی ہوا۔‘

’دی نیوز‘ کے سابق چیف رپورٹر ضرار خان نے کہا ’ہم نے دیکھا کہ فوج کے ٹرکوں پر ایسے افراد علاقوں میں لائے گئے جو پہلے مفرور تھے اور بعد میں ایم کیو ایم حقیقی کی افرادی قوت بنے۔ الطاف حسین کی تصاویر اور پوسٹرز، سائن بورڈز طرز کی بڑی بڑی ہورڈنگز اور قد آور تصاویر پر کالک ملی گئی اور جوتوں کے ہار لٹکائے گئے۔‘

ایم کیو ایم کے کارکنوں کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے ملوایا گیا اور یہ زیر حراست افراد ’رٹّو طوطوں‘ کی طرح ’جرائم کا اعتراف‘ کرتے دکھائی دیے۔

ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد کہتے ہیں کہ ’یہ بالکل بیہودہ بات ہے کہ ہمیں سپورٹ یا مدد حاصل تھی۔‘

’الطاف حسین سے اختلافات کے بعد ہمارے خاندان کراچی بھر میں بے یار و مددگار تھے۔ ہمارے گھر جلائے جا رہے تھے اور ہم مزید باہر نہیں رہ سکتے تھے تو ہم نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ ہم تمام معتوبین اور مخالفین مل کر واپس آئے۔‘

’ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم رات کو آئے مگر طے تھا کہ تمام کارکنان ساتھ آئیں گے اور اگر ہمارے مخالفین علاقوں میں ہوں گے تو ان کو ٹریپ کریں گے اور کیا ہم نے واپس آ کر انھیں ٹریپ۔‘

’جب ہم آ گئے تو عام لوگوں کا حوصلہ بھی بڑھ گیا اور کارکنان اور عام لوگوں نے ایم کیو ایم کے خلاف اپنے جذبات و ناراضی کا کھل کر اظہار کیا۔ ہم تو بہت کم تعداد میں تھے جو غصہ ایم کیو ایم کے خلاف سڑکوں پر نظر آیا وہ تو عوام کا اظہار تھا۔‘

ہیرالڈ (ڈان گروپ آف نیوز پیپرز کا انگریزی جریدہ) نے لکھا کہ جب صورتحال بگڑی تو خود ایم کیو ایم کی قیادت نے فوج کو بلوایا کہ عوام بہت مشتعل ہیں، نائن زیرو (ایم کیو ایم ہیڈ کوارٹر) پر حملہ کر سکتے ہیں فوج کو بھیجیں۔

،تصویر کا کیپشنآفاق احمد اور عامر خان کی قیادت میں بنائی جانے والی ‘ایم کیو ایم حقیقی’ کے لیے ریاست کی جانب سے کھلی حمایت اور الطاف حسین کی تنظیم کے خلاف یکطرفہ کارروائی سے خود ریاست کے اداروں میں اختلافات ابھرنے لگے

آفاق نے وضاحت کی ’ہمیں کسی کی کوئی مدد نہیں تھی اور نہ مل سکی بلکہ ہمارا تو نقصان ہو گیا۔‘

ضرار خان نے کہا کہ آئی ایس پی آر نے ایک روز صحافیوں کو جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) کراچی میجر جنرل سلیم حیدر سے ملوایا تو انھوں (ضرار) نے سوال کیا کہ اب تک تو ہم صحافیوں کو مبینہ طور پر ایم کیو ایم کے صرف چار ’ٹارچر سیل‘ (مخالفین کو اغوا کرکے اذیت دینے کے مراکز یا عقوبت خانے) معلوم تھے جن میں ایک مہاجر خیل لانڈھی، دوسرا سیفی پولی ٹیکنیک کالج نارتھ ناظم آباد کے قریب، تیسرا لیبر سکوائر بلدیہ ٹاؤن میں اور چوتھا لائنز ایریا کے علاقے ٹیونیشیا لائنز میں بتایا جاتا تھا، مگر آپ تو دعویٰ کر رہے ہیں کہ شہر میں 52 ٹارچر سیل تھے۔ آپ نے تو گھروں کی چھتوں کو بھی ٹارچر سیل قرار دے دیا، رسیاں بھی دکھا دیں، یہ تو آپ جن پر الزام لگا رہے ہیں انہی کو مظلوم بھی بنا رہے ہیں یہ تو ’کاؤنٹر پروڈکٹِیو‘ ہو جائے گا، اور ہوا بھی یہی۔‘

آپریشن اور گرفتاریوں کے پیش نظر ایم کیو ایم کی قیادت روپوش ہو گئی اور پانچ چھ ماہ بعد ایم کیو ایم کے روپوش چئیرمین عظیم احمد طارق منظر عام پر آئے۔

مظہر عباس نے کہا کہ ’جب عظیم طارق پریس کانفرنس کرتے تھے تو وہاں کچھ انٹیلیجینس کے لوگ بھی دکھائی دیتے تھے۔ شاید حکام امید کر رہے تھے کہ ایم کیو ایم کی قیادت عظیم احمد طارق کے ہاتھ میں آ جائے گی۔

’اپنی آخری پریس کانفرنس میں انھوں نے الطاف حسین پر کافی تنقید کی۔ ایک یا شاید دو دن بعد ہی عظیم طارق کو ان ہی کی رہائش گاہ پر قتل کر دیا گیا۔‘

’شک تو ظاہر ہے کہ ایم کیو ایم پر ہی گیا۔ لیکن ایم کیو ایم نے واضح طور پر الزام خفیہ اداروں پر عائد کیا کہ انھوں نے عظیم طارق کو مار دیا تاکہ آپریشن کے نام پر ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی تیز کر دی جائے۔‘

’مگر بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ کیونکہ وہ پریس کانفرنس میں بہت تنقید کر چکے تھے الطاف حسین کے خلاف اور انھوں نے ایم کیو ایم کی قیادت کی مرضی کے خلاف روپوشی ختم کی تھی تو ایم کیو ایم کے اندر یہ خدشات بھی تھے کہ انھوں نے ریاستی اداروں سے ساز باز کر لی ہے اور یہی وجہ بنی ان کے قتل کی۔ یعنی عظیم طارق کے قتل پر مختلف حلقوں کی رائے مختلف تھی۔‘

آفاق احمد نے بھی اس قتل کا ذمہ دار ایم کیو ایم کو قرار دیا۔

’عظیم بھائی مجھ سے رابطے میں تھے۔ آخری پریس کانفرنس کے بعد مجھے عظیم بھائی کی سلامتی کی فکر ہوئی، میں نے ان سے کہا کہ فیڈرل بی ایریا سے نکلیں مگر انھوں نے کہا کہ میں نے اپنا انتظام کر لیا ہے لیکن انھیں قتل کر دیا گیا۔‘

’جب میں وہاں پہنچا تو جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) کراچی میجر جنرل سلیم حیدر نے مجھے بتایا کہ عظیم طارق نے ان سے کہا تھا سکیورٹی کا انتظام کرنے کے لیے اور ہم اُن کو سکیورٹی دینے کے انتظامات کر ہی رہے تھے کہ انھیں قتل کر دیا گیا۔‘

کراچی کے ایک سابق پولیس افسر نے جو اب پاکستان میں نہیں رہتے یاد دلایا کہ ’عظیم طارق کے قتل کے بھی تین ملزمان گرفتار ہوئے اور پھر ضمانت پر رہائی کے بعد ان تینوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔‘

مظہر عباس نے کہا ’ان قاتلوں کو کس نے مارا، یہ کبھی معلوم نہیں ہو سکا۔ مگر اس کے بعد آپریشن کریڈیبیلیٹی (معتبریت) کھو بیٹھا۔‘

سنہ 1993 میں صدر غلام اسحاق خان سے کشیدگی اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر نواز شریف کی حکومت برطرف ہوئی اور پھر عدالت سے بحال بھی ہوئی مگر بالآخر جنرل وحید کاکڑ کے زمانے میں نواز شریف اور غلام اسحاق خان دونوں کو جانا پڑا۔

،تصویر کا کیپشنآفاق احمد نے کہا کہ عام آدمی کو تو زیادہ قتل کیا گیا، باقاعدہ لہر چلتی تھی کہ بھئی آج جو لوگ مرے وہ پٹھان تھے، یا سنّی تھے، یا شیعہ تھے، بس سب مر رہے تھے

نئے انتخابات کے نتیجے میں جب بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی دوسری بار اقتدار میں آئی تب تک شہر میں خوف و دہشت کا راج قائم ہو چکا تھا۔

کراچی آپریشن کے نگرانوں میں شامل رہنے والے رینجرز کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ ’عجیب ماحول تھا۔ نامعلوم افراد پورے شہر پر راج کر رہے تھے۔ پورا شہر بدترین تشدد کی لپیٹ میں تھا۔ مختلف علاقوں میں قتل و غارت میں ملوث ان عناصر کو مکمل پشت پناہی اور مدد ملتی تھی یا پھر ان دہشتگردوں کا خوف ایسا تھا کہ پوری پوری آبادی خاموشی سے یہ قتل و غارت دیکھتی رہتی تھی۔‘

کراچی کے شہری بتاتے ہیں کہ کئی علاقوں میں ٹارچر سیل تھے، مخالفین کا اغوا اور قتل ہوتا، ان کی لاشوں کو عبرت بنا کر بوری میں بند کر کے پھینک دیا جاتا تھا، زندہ انسانوں کے گھٹنوں میں ڈرل مشین سے سوراخ کیے جاتے، کھمبوں سے لٹکا کر ان کو زندہ اور مردہ حالت میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا تھا، جسم کو آری، ہتھوڑے اور چھینی سے کاٹنا، ہاتھ پاؤں میں کیلیں ٹھونک دینا، گلے کاٹ دینا، زبان کی بنیاد پر شناخت کر کے لوگوں کو بسوں سے اتار کر مار دیا جانا سب کچھ روز کا معمول ہوتا تھا۔

آفتاب صدیقی تب کراچی کے شہری تھے اور اب شمالی لندن میں مقیم ہیں۔ آپریشن کے تناظر میں شہر کی بدامنی اور قتل و غارت کا ماحول بتاتے ہوئے انھوں نے اس وقت کراچی کے عام شہری کی زندگی میں اس خوف کی فضا کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔

’شہر میں اسلحے کی بھرمار اور مسلح گروہوں کی حکمرانی تھی۔ ریاست کی عملداری تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ پورا شہر یرغمال تھا۔ ہسپتالوں اور خیراتی اداروں تک میں سیاسی طور پر متحرک مسلح گروہ اور جتھے سرایت کر چکے تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’حکام قتل و غارت میں ملوث عناصر سے شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام دکھائی دے رہے تھے۔ اور دیتے بھی کیسے؟ جس شہر میں فوج کے افسر میجر کلیم کو اغوا کیا جاتا ہو، پولیس افسران گھر سے تھانے اور تھانے سے گھر جاتے ہوئے وردی نہ پہن سکتے ہوں کہ کوئی مار دے گا، یعنی جہاں عام شہری کو جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ دینے کے ذمہ دار ادارے اپنا تحفظ نہ کر پا رہے ہوں وہاں کیا تعجب کی بات تھی کہ سیاسی کارکنوں کے قتل و غارت کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بس سے اتار کر زبان کی بنیاد پر شناخت کر کے قتل کیا جا رہا ہو، کام پر جاتے مزدور ہوں یا بچوں کو سکول لے جانے والے والدین کوئی زندہ گھر واپس نہ آتا ہو، جہاں ساس بہو اور نند بھاوج کے جھگڑے تک سیاسی دفاتر میں نمٹائے جاتے ہوں وہاں ان عناصر کو بغیر کسی فوجی آپریشن کے کیسے قابو کیا جا سکتا تھا۔‘

انھوں نے کہا ’بلاشبہ ہزاروں عام شہری اس قتل و غارت کی نذر ہوئے۔‘

اس زمانے کے کراچی کی رہائشی بتاتے ہیں کہ ان مسلح سیاسی جماعتوں کی صحیح و غلط ہر بات سے صرفِ نظر کر لینے کی اسی ریاستی روش نے ان تنظیموں کی ایسی حوصلہ افزائی کی کہ پھر ان جماعتوں کی قیادت کے لیے تنقید یا سیاسی مخالفت ایسا ’گناہ‘ بن گئی جس کی ’کم سے کم سزا موت‘ قرار پائی۔

حکام، صحافیوں اور سرکاری شخصیات و افسران کے اندازے کے مطابق صرف ایم کیو ایم اور حقیقی کے مسلح تصادم میں ہزاروں لوگ، جن میں اکثریت سیاسی کارکنوں کی تھی، جان سے گئے۔

آفاق احمد کہتے ہیں کہ ’ہمارا تنظیمی ریکارڈ گواہ ہے کہ صرف ہمارے اپنے 432 کے لگ بھگ کارکنان شہید ہوئے۔ مجھے الطاف حسین کی تنظیم کو پہنچنے والے جانی نقصان کا نہیں پتا۔‘

ایدھی فاؤنڈیشن کا ریکارڈ کہتا ہے ہزاروں ’لاوارث لاشیں‘ تو انھوں نے دفنائیں۔ شہر میں عام لوگوں کو بھی بے دریغ قتل کیا گیا۔ وہ لوگ قتل ہوئے جو باہر سے روزگار کمانے کراچی آئے تھے، ان کے تو لواحقین بھی یہاں نہیں تھے بے چارے لاوارث قرار دے کر دفنائے گئے۔

اس سوال پر کہ کس نے کس کو کیوں مارا؟ آفاق احمد نے کہا کہ عام آدمی کو تو زیادہ قتل کیا گیا، باقاعدہ لہر چلتی تھی کہ بھئی آج جو لوگ مرے وہ پٹھان تھے، یا سنّی تھے، یا شیعہ تھے، بس سب مر رہے تھے۔

جب آفاق احمد سے پوچھا گیا کہ اس قتل و غارت کا ذمہ دار وہ کسے سمجھتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’غیر ملکی طاقتیں بھی کار فرما تھیں، کوئی تھا جو کراچی کو مسلسل مفلوج رکھنا چاہتا تھا، بھارت اور امریکہ کو بھی آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘

،تصویر کا کیپشنآفاق احمد نے دعویٰ کیا کہ ’آدھے لوگ تو انھوں نے خود مارے اس شک میں کہ کہیں وہ ہم سے تو نہیں مل گئے، شعیب شوبی جیسے لوگ ایسے ہی مارے گئے‘

آفاق احمد کا موقف ہے کہ ان کے کارکنان کو تو سیاسی مخالفین نے قتل کیا مگر صرف یہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کی آپس کی جنگ کا نتیجہ نہیں تھا۔

جب انھیں بتایا گیا کہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم تو الزام لگاتی رہی ہے کہ خود ان کے کارکنوں کو حقیقی کے ارکان نے قتل کیا یا خفیہ ادارے مارتے رہے تو اپنے مخالفین کے جانی نقصان پر آفاق احمد نے تسلیم کیا کہ ’اگر ہمارے لوگوں کا کوئی کردار رہا ہو گا تو اسی طرح رہا ہو گا کہ ہمارے کارکن اپنے علاقوں میں خوفزدہ تھے اور ظاہر ہے کہ اپنی جان بچانے کے لیے انھوں نے کہیں سے اسلحے کا بندوبست بھی کر ہی لیا ہوگا اب ۔۔۔ ظاہر ہے کہ کوئی حملہ کرنے آئے گا تو ہمارے کارکن پتھر یا ڈنڈے سے تو اپنا تحفظ نہیں کریں گے۔‘

’لوگوں کو گھروں میں گھس کر مارا جا رہا تھا، گھر جلائے جا رہے تھے تو لوگوں نے راتوں کو پہرے دیے ہوں گے اور کوئی حملہ ہوا ہو گا تو ظاہر ہے کہ جان بچانے کے لیے جانی نقصان ہوا ہو گا۔ لیکن کہیں ہم خود تو کسی لڑنے کہیں نہیں گئے۔‘

آفاق احمد نے دعویٰ کیا کہ ’آدھے لوگ تو انھوں نے خود مارے اس شک میں کہ کہیں وہ ہم سے تو نہیں مل گئے، شعیب شوبی جیسے لوگ ایسے ہی مارے گئے۔‘

ایسے حالات میں فوج، ریاست اور سیاست کی اعلیٰ قیادت کی ساتھ ساتھ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بھی روگردانی کی گئی جبکہ شہر میں اسلحے کی بھرمار اور ان جماعتوں کے خطرناک حد تک مسلح ہو جانے سے ’آنکھیں بند کر لی گئیں۔‘

ایسا نہیں تھا کہ صرف ایم کیو ایم اس پُرتشدد مسلح سیاست میں ملوث ہوئی یا کر دی گئی بلکہ اس سیاسی منظر نامے میں کم و بیش ہر سیاسی، لسانی، مذہبی، دینی و فرقہ وارانہ گروہ، تنظیم اور جماعت نے صرف بندوق کے لہجے میں بات کرنی شروع کر دی اور اپنے اپنے مسلح گروہ، دستے اور جتھے قائم کر لیے۔

آہستہ آہستہ کراچی کے کئی گنجان آباد علاقوں میں مختلف سیاسی جماعتوں اور لسانی گروہوں کے درمیان مسلح تصادم ہونے لگے۔

پھر تو اخبارات و جرائد سے وابستہ صحافی ہوں یا سیاسی مخالفین، عمائدین ہوں یا سرکردہ شخصیات، عوامی نمائندے ہوں یا سرکاری افسران و اہلکار، قانون نافذ کرنے والے اداروں کا عملہ ہو یا ممتاز شہری، ٹرانسپورٹرز ہوں یا تاجر، کاروباری شخصیات ہوں یا سماجی رہنما، ڈاکٹرز ہوں یا ہسپتالوں کا عملہ، ریاستّی ادارے ہوں یا عدلیہ سے متعلق اہلکار، جج اور وکلا، حتی کے طلبا ہوں یا اساتذہ، جس نے جب اور جہاں بندوقوں پستولوں سے مسلح ان گروہوں اور جتھوں پر تنقید کی یا ان کی مرضی کے خلاف آواز اٹھائی اسے جواب یا تو تشدد سے ملا یا گولی سے۔

نوبت آہستہ آہستہ پہلے اسلحے کے زور پر مخالفین کے اغوا اور پھر ان پر بدترین تشدد اور بالآخر قتل و غارت تک جا پہنچی۔

کئی گنجان آباد علاقوں میں کم و بیش ہر سیاسی، لسّانی اور مذہبی و فرقہ وارانہ گروہ اور جماعت نے اپنے اپنے عقوبت خانے یا تشدد اور قتل و غارت کے ایسے مراکز قائم کیے جن کا نام بھی دہشت خوف اور بربریت کی علامت بن کر رہ گیا۔

آفتاب صدیقی نے کہا کہ ’ہم عام شہری تو ہر وقت پیاروں کی زندگی کے لیے خوف و پریشانی میں زندہ رہتے تھے۔‘

مظہر عباس کہتے ہیں کہ کم و بیش ہر سیاسی، لسانی، مذہبی، دینی و فرقہ وارانہ گروہ، تنظیم اور جماعت کے مسلح گروہ اور جتھے تھے۔

،تصویر کا کیپشنسیاسی قائدین کا موقف یہ تھا کہ یہ لاشیں ان سیاسی جماعتوں اور ان کی ذیلی تنظیموں کے ارکان کی ہیں جنھیں ریاستی ادارے تشدد کر کے قتل کر رہے ہیں اور لاشیں، یا لاشوں کے ٹکڑے کر کے بوریوں میں بند کر کے پھینک رہے ہیں

یہاں تک ہوا کہ سیاسی مخالفین ایک دوسرے کے کارکنوں کو اغوا کرتے اور سرکاری اداروں کے حکام کی موجودگی میں ان یرغمال افراد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا۔

ذرائع ابلاغ کی پرانی اشاعتوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ تشدد و قتل و غارت کسی ایک علاقے، زبان، یا کسی ایک تنظیم اور جماعت تک محدود نہیں تھا۔ ہر تنظیم اور ہر سیاسی جماعت کے ارکان موت کے اس بھیانک کھیل کا شکار ہوئے۔ تشدد کی یہ خبریں عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی جگہ پاتی تھیں۔

حکام کا الزام تھا کہ مخالفین کے ساتھ یہ تشدد اور قتل و غارت کرنے والوں کو سیاسی پشت پناہی حاصل تھی۔

مگر سیاسی قائدین کا موقف یہ تھا کہ یہ لاشیں ان سیاسی جماعتوں اور ان کی ذیلی تنظیموں کے ارکان کی ہیں جنھیں ریاستی ادارے تشدد کر کے قتل کر رہے ہیں اور لاشیں، یا لاشوں کے ٹکڑے کر کے بوریوں میں بند کر کے پھینک رہے ہیں۔

کراچی کے ایک ڈاکٹر نے جو جان بچا کر برطانوی شہر برمنگھم پہنچے اور یہاں سیاسی پناہ حاصل کی، بتاتے ہیں ’میں تو ہارٹ سرجن بننا چاہتا تھا۔‘

’میرا تو قتل و غارت گری کی اس سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، اسی خوف میں کہیں کوئی کسی دن یوں ہی بلاوجہ مجھے بھی نہ مار دیا جائے، میرے اپنے ہی خاندان نے مجھے ملک میں رہنے نہیں دیا۔‘

’امّی کہتی تھیں تم ہمارا واحد سہارا ہو بیٹا، کسی محفوظ جگہ چلے جاؤ تاکہ ہم سب کو پال سکو اور مجھے ہارٹ سرجن بننے کا خواب دیکھنے والے ڈاکٹر کو یہاں اس ملک میں ٹیکسی چلانی پڑی، کراچی میں رہ جانے والے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے، ماں باپ اور بہن بھائی کی پرورش کرنے کے لیے زندہ رہنا پڑا اور اس کی قیمت یہ تھی کہ اپنا شہر، ماں باپ، بہن بھائی، دوست یار حتیٰ کے اپنا مستقبل اور اپنے پیشہ ورانہ خواب سے بھی دستبردار ہونا پڑا۔‘

اس صورتحال میں فوج، رینجرز اور پولیس حکام کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اب تک نہ تو کراچی آپریشن کے پہلے مرحلے کے مطلوبہ نتائج مل سکے اور نہ ہی مقاصد حاصل ہو سکے بلکہ معاملات سیاست کی نذر ہو جانے سے فوج کو سبکی اور بدنامی اٹھانی پڑی۔

سندھ اور وفاق میں برسرِ اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کو ان تمام حلقوں کی سیاسی حمایت حاصل تھی جن کی جانب سے اس قتل و غارت پر انگلیاں اٹھ رہی تھیں۔ قتل و غارت روکنے کی کوئی بھی کوشش حکومت کو اُس سیاسی حمایت سے محروم کر سکتی تھی جس کے بل پر حکومت کا اپنا وجود قائم تھا۔

’کراچی آپریشن کا دوسرا مرحلہ‘

بالآخر وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی حکومت اور فوج کی قیادت اس فیصلے ہر پہنچی کہ کراچی آپریشن کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے۔

پھر ریاستی اداروں کی جانب سے حکومت سے کہا گیا کہ فوج کو واپس بلایا جائے اور آپریشن کلین اپ کی دوسرے اور زیادہ سخت مرحلے کی کمان اب پولیس اور نیم فوجی ادارے رینجرز کے سپرد کی جائے اور انھیں خفیہ اداروں اور ریاست کی بھرپور مدد فراہم کی جائے۔

آپریشن کے اس دوسرے مرحلے کی قیادت بینظیر بھٹو حکومت کے وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نصیر اللہ بابر کو سونپی گئی جبکہ پولیس کی قیادت کے لیے ڈاکٹر شعیب سڈل کا انتخاب کیا گیا۔

برطانیہ کی ساؤتھ ویلز یونیورسٹی سے کرمنالوجی میں ڈاکٹریٹ کرنے والے ڈاکٹر شعیب سڈل اس وقت راولپنڈی شہر میں ڈی آئی جی تھے۔ وہ پاکستان کی پولیس سروسز میں پہلے افسر تھے جنھوں نے کریمنالوجی میں پی ایچ ڈی کی تھی۔

خود ڈاکٹر شعیب سڈل نے کراچی آپریشن پر کھل کر طویل گفتگو کی اور شہر کا نقشہ کچھ یوں بیان کیا۔

’تھانوں، پولیس کے دفاتر، افسروں اور اہلکاروں پر منظّم حملے ہوتے تھے۔ پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسر و اہلکار قتل کر دیے جاتے تھے یا حملوں کی زد میں تھے۔‘

’تھانوں کے دروازے عام آدمی پر بند تھے۔ رکاوٹیں لگا کر عام آدمی یا کسی ممکنہ حملہ آور دونوں ہی کا تھانے تک پہنچنے سے روکنے کے اقدامات ہوتے تھے۔ ریت کی بوریاں تھانوں کی چھتوں پر رکھی جاتی تھیں تاکہ کسی ممکنہ حملے میں حفاظت یا مورچہ بندی کا کام دے سکیں۔‘

ڈاکٹر سڈل نے کہا کہ ’ایک روز مغربی ضلعے میں تو خود میری گاڑی پر حملہ ہوا، ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا میرا سپاہی زخمی ہوا، مگر ہم بچ نکلے۔‘

مظہر عباس کہتے ہیں کہ آپریشن کی نگرانی کرنے والے حکام نے ساری صورتحال وزیراعظم کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ سمجھتی ہیں کہ ہم ان (پرتشدد عناصر یا حملہ آوروں) کو گرفتار کر لیں گے اور انھیں عدالتوں سے سزا ہو جائے گی، تو یہ سزا نہیں ہو گی۔‘

ایک سابق پولیس افسر نے کہا کہ ’تب وفاقی وزیر داخلہ نصیر اللّہ بابر نے قتل و غارت اور دہشتگردی کے خلاف بے دریغ اور بے رحمانہ آپریشن کرنے کے لیے وزیراعظم بینظیر بھٹّو سے مکمل فری ہینڈ لیا یعنی آزادانہ کام کرنے کی اجازت طلب کی۔‘

’طاقت کا جواب طاقت سے ہی دینے کے اس فیصلے نے وہ کیا جسے انگریزی میں ’اوپننگ دا گیٹ آف ہیل‘ کہا جاتا ہے۔‘

،تصویر کا کیپشنشعیب سڈل بتاتے ہیں: ‘جب 19 جون 1995 کو میں خود کراچی پولیس کا سربراہ بن کر آیا تو 25 ہزار کے قریب تعداد رکھنے والی پولیس کے مورال کا عالم یہ تھا کہ شہر کی پولیس کے سربراہ کی حفاظت کی ذمہ داری نیم فوجی اداروں کے سپرد تھی’

دونوں جانب سے یعنی پولیس اور سیاسی طور پر متحرک جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے درمیان ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا جو اگلے کئی برس تک جاری رہی۔

ایک سابق پولیس افسر نے کہا کہ ’طریقۂ کار ہی غلط تھا، سندھ ریزرو پولیس (ایس آر پی) سے بہت بڑی نفری لائی گئی ڈسٹرکٹ پولیس میں۔ فرض کریں کہ 100 لوگ لائے گئے اور ان میں سے پانچ نے بھی اوپر والوں کے حکم پر ماورائے قانون کام شروع کیے تو فیصلہ سازوں کا تو کام بن گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس آزادی سے پولیس کے کام کرنے کا طریقۂ کار ہی بدل گیا۔ کئی افسروں نے عجیب انداز اور چال چلن اپنا لیا۔ ذیشان کاظمی جیسے پولیس افسران نے تو اپنے علاقے میں جینز اور کلف والی شلوار قمیض پہننے پر پابندی لگا دی، اب اس کا کیا تعلق تھا آپریشن سے؟‘

مظہر عباس کہتے ہیں ’پولیس کے افسران کو خفیہ اداروں کے ساتھ مکمل آزادی اس حد تک دی گئی کہ انھیں عدالتوں میں بھی گرفت میں نہیں لیا جا سکا۔‘

جسٹس ناصر اسلم زاہد نے ایک موقع پر کہا کہ ’میں ان پولیس افسران کو شہر میں نہیں دیکھنا چاہتا مگر ہم نے دیکھا کہ جسٹس ناصر اسلم زاہد چلے گئے مگر وہ پولیس افسر وہیں رہے۔‘

اگرچہ پولیس افسران نے آپریشن کے اہداف حاصل کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی مگر اور بھی بہت کچھ کیا گیا اس دوران انتہائی مشکوک اور متنازع ’پولیس مقابلے‘ شروع ہوئے اور سیاسی وابستگی رکھنے والے سینکڑوں افراد مارے گئے۔

لیکن ساتھ ہی ان مقابلوں میں شریک ہونے والے پولیس افسران و اہلکاروں کی لگاتار ہلاکتوں کے ایسے سلسلے کا بھی آغاز ہوا جس نے کراچی کو دنیا کے چند خطرناک ترین شہروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔

اس قتل و غارت نے بلاشبہ ہزاروں جانوں کی بھینٹ لی، شہر کو کئی کئی دن تک محصور رکھا۔

پولیس ذرائع کے مطابق اس چار سالہ آپریشن کے دوران 450 کے لگ بھگ افسران و اہلکار ہلاک ہوئے۔

سیاسی جماعتوں نے بھی اس دوران اپنے ہزاروں کارکنوں کی ہلاکت کے دعوے کیے۔

ریاستی اداروں پر مشتمل ایک فیلڈ انویسٹیگیشن ٹیم (ایف آئی ٹی) بنائی گئی جس میں رینجرز اور پولیس افسران شامل ہوئے۔

پاکستان سے نقلِ مکانی کر جانے والے اس وقت کے ایک نامور سیاستدان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ’ایف آئی ٹی اور پولیس نے بے دریغ وہ سب کچھ کیا جسے زیادتی کہنا کم ہو گا۔‘

،تصویر کا کیپشن’طاقت کا جواب طاقت سے ہی دینے کے اس فیصلے نے وہ کیا جسے انگریزی میں ‘اوپننگ دا گیٹ آف ہیل’ کہا جاتا ہے۔’

’پورے پورے علاقوں کا محاصرہ، پوری پوری آبادی کی خانہ تلاشی، ہر گھر سے نوجوانوں کی ناجائز گرفتاریاں، چادر اور چار دیواری کی خلاف ورزی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں۔ گھروں کی خواتین سے بدسلوکی اور بچوں کے سامنے بڑوں کی گرفتاری۔‘

’فاروق دادا اور راؤ انوار‘

سینیئر صحافی افضل ندیم ڈوگر جنگ اور جیو نیوز سے منسلک ہیں اور کراچی میں ہونے والے اس آپریشن کے دوران پیش آنے والے واقعات کی باقاعدگی سے کوریج کرتے رہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ریاست کو ایک ’منظم دہشت گردی‘ کا سامنا تھا، لیکن اگر صورتحال کو سیاسی و قانونی انداز سے ’ڈیل‘ کیا جاتا تو شاید نتائج مختلف ہوتے۔

’اگر یہ سیاسی دہشت گردی تھی تو نواز شریف یا بینظیر بھٹو کی حکومتیں 10، 10 برس تک اسی جماعت کے ساتھ اتحاد بنا کر اقتدار میں کیوں رہیں؟ یہ بھی درست ہے کہ ایسے واقعات ہو رہے تھے کہ ایک بس اغوا کر کے ’نو گو ایریا‘ لے جائی گئی اور اس میں موجود تمام ایسے مسافروں کو قتل کر دیا گیا جو اردو بولنے والے نہیں تھے۔‘

’مگر دوسری جانب فاروق دادا جیسے لوگوں کی انتہائی مشکوک اور متنازع پولیس مقابلے میں ہلاکت جیسے واقعات نے تو الٹا اثر کیا اور ایم کیو ایم تو مظلوم نظر آئی اور ہمدردی سمیٹتی رہی۔‘

ایم کیو ایم سے منسلک اور کئی جرائم میں پولیس کو مطلوب فاروق پٹنی (جو فاروق دادا کے نام سے مشہور تھے) ایک متنازع پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے تھے۔

افضل ندیم ڈوگر نے بتایا کہ ’جس ایس ایس پی راؤ انوار پر چار سو سے زیادہ افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے کے الزامات آپ آج سنتے ہیں، وہ اس وقت ایس ایچ او تھے اور یہ مقابلہ انھوں نے کیا تھا۔‘

ایف آئی آر میں پولیس کا دعویٰ تھا کہ فاروق دادا نے اپنے پانچ ساتھیوں کے ہمراہ ایک شیراڈ گاڑی میں ایئر پورٹ کے قریب پولیس پر حملہ کیا اور جوابی کارروائی میں وہ مارے گئے اور ان ملزمان سے 11 یا 12 کلاشنکوف، پانچ ہزار گولیاں، دستی بم اور گولہ بارود بھی برآمد ہوئے۔

افضل ڈوگر کے مطابق ’یہ دعویٰ ہی انتہائی مضحکہ خیز تھا۔ مٹسوبشی شیراڈ جیسی چھوٹی سی گاڑی میں یا تو پانچ افراد سما سکتے ہیں یا پھر اتنا سارا اسلحہ و گولہ بارود۔ اگر یہ سب کچھ ایک شیراڈ گاڑی میں ٹھونس بھی دیا جائے تو پھر گاڑی میں بیٹھے افراد مقابلہ ہرگز نہیں کر سکتے۔‘

’آپ پوچھیں گے کہ دراصل پھر ہوا کیا تھا؟ تو ہوا یہ تھا کہ پولیس کو اطلاع ملی کی فاروق دادا گارڈن کے علاقے میں واقع اپنے فلیٹ پر موجود ہیں۔ پولیس نے چھاپہ مارا مگر وہاں نہ فاروق دادا ملے نہ ہی کوئی اسلحہ وغیرہ۔ جب پولیس ناکام واپس جا رہی تھی تو کسی علاقے والے نے یہ انکشاف کیا کہ دراصل اوپر نیچے واقع دو فلیٹ اندر سے آپس میں ملے ہوئے ہیں اور ممکن ہے کہ فاروق اپنے فلیٹ سے منسلک اوپر والے فلیٹ میں ہوں۔ دوبارہ چھاپے میں پولیس نے فاروق دادا کو گرفتار کیا اور ساتھ لے گئی۔‘

،تصویر کا کیپشن’ایم کیو ایم سے منسلک اور کئی جرائم میں پولیس کو مطلوب فاروق پٹنی (فاروق دادا) اس متنازع پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے جو بطور ایس ایچ او راؤ انوار نے کیا‘

’کئی دن بعد ہمیں اطلاع ملی کہ فاروق دادا نے ایئر پورٹ کے قریب ساتھیوں کے ہمراہ پولیس پر حملہ کیا اور جوابی حملے میں ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگئے۔‘

مگر آپریشن کی نگرانی کرنے والے کراچی پولیس کے سابق سربراہ ڈاکٹر شعیب سڈل کہتے ہیں کہ ’فاروق دادا کیس میرے دور کا پہلا واقعہ تھا اور میں اس وقت نیو یارک میں تھا جب مجھے اس کی اطلاع فون پر دی گئی تو اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کروائی گئی تھیں۔‘

’پولیس مقابلے اور جلاؤ گھیراؤ جن کی اطلاع پہلے مل جاتی‘

افضل ڈوگر بتاتے ہیں کہ ’میں ان دنوں عوام (جنگ گروپ کا شام کا اخبار جو سنسنی خیز صحافت کے لیے مشہور رہا) کا کرائم رپورٹر تھا۔ اب دوسری طرف کا احوال بھی سن لیں۔‘

’اکثر کسی سیاسی عہدیدار یا سیکٹر انچارج وغیرہ کا فون آتا تھا کہ کیا اخبار چھپنے چلا گیا؟ اگر نہیں تو کسی کو شہر کے فلاں علاقے کی طرف بھیج دیں۔ ہم سمجھ جاتے تھے کہ اب کچھ بڑا ہونے والا ہے یعنی جلاؤ گھیراؤ وغیرہ۔‘

’ہم فوٹو گرافرز یا رپورٹرز یا عملے کے ارکان کو اُدھر بھیج دیتے تھے اور کچھ دیر بعد اطلاع آتی تھی کہ وہاں کسی ماورائے عدالت ہلاکت یا متنازع سمجھے جانے والے پولیس مقابلے کے خلاف احتجاج کے دوران فائرنگ ہو رہی ہے، گاڑیاں جلائی جا رہی ہیں، بازار بند کروائے جا رہے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جلاؤ گھیراؤ میں اگر گاڑی مکمل طور پر جل چکی ہو تو شعلے بجھ جاتے ہیں اور تصویر دیکھنے سے واقعہ زیادہ سنسنی خیز یا اصلی نہیں لگتا تھا۔ مگر جلتی ہوئی گاڑی سے اٹھتے ہوئے شعلوں کی تصویر سے واقعہ تازہ، اصلی اور زیادہ سنسنی خیز لگتا تھا، اسی لیے اخباروں کے صحافیوں اور فوٹو جرنلسٹس کو گاڑی جلائے جانے سے پہلے بلا لیا جاتا۔‘

’سنسنی خیز تصویروں سے واقعہ تازہ اور درست خبر لگتی تھی اور سیاسی عہدیدار کی ’کارکردگی‘ رپورٹ ہو جاتی تھی۔‘

افضل ندیم ڈوگر نے بتایا کہ ’منظم دہشت گردی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘

’ایک روز پولیس نے اطلاع دی کہ نارتھ کراچی کے فلاں سکول کے قریب ابھی ابھی پولیس مقابلہ شروع ہو گیا ہے کسی کو بھیجیں۔ میں نے اپنے ایڈیٹر کو بتایا کہ اخبار کو اشاعت کے لیے پریس بھیجنے سے روکیں کسی ’بڑے پولیس مقابلے‘ کی ابتدائی اطلاع آئی ہے۔‘

’ایڈیٹر نے پوچھا کس علاقے میں؟ میں نے بتایا کہ نارتھ کراچی کے اس فلاں سکول کی عمارت کے قریب۔ تو ایڈیٹر نے کہا ایک منٹ رکو میرے رشتہ دار اسی علاقے میں اُسی اسکول کے بالکل سامنے رہتے ہیں۔‘

’انھوں نے خبر کی تصدیق کی غرض سے اپنے رشتہ داروں کے گھر فون کیا تو پتا چلا کہ وہاں تو مکمل سکون ہے کسی پولیس مقابلے کے دور دور تک امکانات نظر نہیں آ رہے۔ ایڈیٹر نے مجھے ڈانٹا کہ کوئی جھوٹی اطلاع دے کر اخبار کی اشاعت میں دیر کروا رہا ہے، کچھ نہیں ہے میں کاپی (اخبار چھپنے) بھیج رہا ہوں۔‘

’کچھ دیر بعد کاپی پریس جانے ہی والی تھی کہ ایڈیٹر کے رشتہ داروں کے گھر سے فون آیا کہ اب کچھ پولیس کی گاڑیوں کے سائرن اور فائرنگ کی آوازیں باہر سے آنا شروع ہو گئی ہیں۔ یعنی وہ مقابلہ جس کی اطلاع پولیس نے ہمیں کافی دیر پہلے دی تھی وہ اس وقت یعنی کافی دیر بعد شروع ہوا۔‘

’یعنی پولیس نے پہلے سے طے کر لیا تھا کہ ابھی کچھ دیر بعد سکول کے قریب پولیس مقابلہ ہو جائے گا۔ پریس یعنی میڈیا کو بتانے کی جلد بازی میں کسی سے ٹائمنگ کی غلطی ہو گئی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ایک روز نادرن بائی پاس کے قریب پولیس چوکی پر تعینات تین پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر کے اُنھیں قتل کر دیا گیا، اگر یہی خبر اخبارات میں چھپتی تو پولیس کے لیے شرمندگی کی وجہ بنتی، خوف بھی پھیلتا اور مورال بھی ڈاؤن ہوتا۔

،تصویر کا کیپشن’اکثر کسی سیاسی عہدیدار یا سیکٹر انچارج وغیرہ کا فون آتا تھا کہ کیا اخبار چھپنے چلا گیا؟ اگر نہیں تو کسی کو شہر کے فلاں علاقے کی طرف بھیج دیں۔ ہم سمجھ جاتے تھے کہ اب کچھ بڑا ہونے والا ہے یعنی جلاؤ گھیراؤ وغیرہ۔’

’تو شرمندگی سے بچنے کے لیے پولیس نے رپورٹرز کو اطلاع بھجوائی کہ مقابلہ شروع ہو گیا ہے۔ جب ہم موقع پر پہنچے تو ہم سے بہت پہلے وہاں پہنچ جانے والے اہل علاقہ نے بتایا کہ وہ بھی فائرنگ کی آواز سن کر آئے تو پتا چلا کہ تین پولیس اہلکار دہشتگردوں کا نشانہ بن گئے ہیں۔‘

’پولیس کارروائی یا عدالت کی سماعت کا حصہ بننے سے بچنے کے لیے اہل علاقہ پولیس کے آنے سے پہلے ہی وہاں سے چلے گئے۔ جب دوبارہ فائرنگ کی آوازیں آئیں اور اہل علاقہ دوبارہ وہاں پہنچے تو پتا چلا کہ چار دہشت گرد بھی مارے گئے۔‘

افضل ڈوگر نے دعویٰ کیا کہ ’علاقے والوں نے بعد میں ہم رپورٹرز کو بتایا کہ دوبارہ فائرنگ تب ہوئی تھی جب پولیس نے حوالات میں پہلے سے زیر حراست افراد کو نکالا اور وہاں لے جا کر گولی مار دی اور صحافیوں کے سامنے پولیس نے دعویٰ کر دیا کہ یہ وہ حملہ آور ہیں جنھوں نے چوکی پر حملہ کیا اور مقابلے میں مارے گئے مگر مرتے مرتے انھوں نے تین پولیس اہلکار ہلاک کر دیے۔‘

دوسری جانب شعیب سڈل کہتے ہیں کہ ’قطعاً نہیں۔ میں نے واضح طور بتا دیا تھا کہ ماورائے عدالت قتل نہیں ہوں گے ۔۔ نہیں کا مطلب نہیں۔‘

’بے گناہوں‘ کی رہائی کے عوض وصول کی جانے والی قیمت

لیکن پولیس ہی کے ایک اور افسر نے جو اب پاکستان میں مقیم نہیں ہیں ایک اور کہانی سنائی۔

افضل ندیم ڈوگر جیسے صحافیوں کے دعوؤں کی تصدیق کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جب ایف آئی ٹی کے چھاپوں میں پوری پوری آبادی کے نوجوانوں کو گرفتار کر کے انھی کی قمیضوں سے آنکھوں پر پٹی باندھ کر حوالات میں بند کر دیا جاتا تھا تو چند ہی گھنٹوں میں پتا چل جاتا کہ زیر حراست افراد میں سے کتنے جرائم میں ملوث ہیں اور کتنے بے گناہ۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پھر بھاؤ تاؤ ہوتا تھا۔ بے گناہوں کی رہائی کے عوض ان کے اہلخانہ سے قیمت وصول کی جاتی تھی، کبھی پیسے کی صورت میں اور کبھی اور انداز میں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس ’اور انداز‘ سے آپ کی مراد کیا ہے تو جھجھکتے ہوئے بڑی مشکل سے انھوں نے ’اعتراف‘ کیا ‘جو اہلخانہ اپنے جوان بچوں کو چھڑوانے کے لیے تھانے آتے تھے ان میں نوجوان خواتین بھی ہوتی تھیں۔‘

’کبھی چھاپوں کے دوران بھی ان خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے پولیس اہلکاروں کا سامنا ہو جاتا تھا تو بات بہت غلط طرف چلی جاتی تھی۔‘

سابق پولیس افسر نے شرمندگی سے بھرپور لہجے میں کہا ’پھر کیا قیمت لی جا سکتی ہو گی جعفر بھائی، یہ آپ بھی سمجھ سکتے ہیں۔۔۔ میں شاید اس سے زیادہ تو نہ بتا پاؤں گا اور نہ آپ شائع کر سکیں گے۔‘

،تصویر کا کیپشنسابق پولیس افسر نے انکشاف کیا کہ ‘کبھی چھاپوں کے دوران بھی ان خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے پولیس اہلکاروں کا سامنا ہو جاتا تھا تو بات بہت غلط طرف چلی جاتی تھی۔’

’پولیس افسران کے لیے کمائی کا ذریعہ‘

پولیس افسر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’بعض اوقات بے گناہ سیاسی کارکنان کو جو محض اپنی جماعت کے لیے پوسٹر لگایا کرتے تھے یا چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث بھی رہے ہوں گے یعنی ہڑتال میں دکانیں یا بازار بند کروائے ہوں یا ٹریفک معطل کروا دیا ہو، انھیں باقاعدہ دہشتگرد گردان کر پیسے کے لیے قتل کیا جاتا تھا۔‘

’ایسے لوگوں کو پہلے گرفتار کر کے خفیہ یا نجی حراستی مراکز میں رکھا جاتا اور پھر شہر میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کا ذمہ دار انھیں قرار دے کر ایف آئی آر میں مفرور ظاہر کیا جاتا تھا۔‘

کئی کئی وارداتوں پر ایف آئی آر ان ’مفروروں‘ کے نام کٹ جانے کی صورت میں وہ نامی گرامی ’مطلوب دہشتگرد‘ بنا دیے جاتے تھے۔

’پھر حکومت اور عدالتی حکام کی جانب سے ان ایف آئی آرز کی بنیاد پر یہ افراد اشتہاری ملزم قرار دیے جاتے تھے اور ان کے سروں کی قیمت مقرر ہو جاتی تھی۔ پھر ان افراد کو ماورائے عدالت ایسے ہی مشکوک مقابلوں میں محض اس لیے مار دیا جاتا تھا کہ سر کی قیمت ان افسران کو مل جاتی تھی جو ایف آئی آر میں اس مقابلے میں شریک دکھائے جاتے تھے۔‘

’یوں کمائی کا ایک راستہ بن گئے تھے یہ مقابلے، ابھی آپ نے حال ہی میں دیکھا ناں کہ لیاری گینگ وار ڈان عزیر بلوچ کے سر کی قیمت مقرر ہونے اور معاف کرنے کی خبریں آ رہی ہیں؟‘

پولیس افسر نے اپنے دعوے کا ثبوت کچھ ایسے پیش کیا ’تو عزیر بلوچ نے بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنے سر کی قیمت معاف کروائی تھی تاکہ اس کی لالچ میں کوئی پولیس یا سرکاری افسر اسے بھی قتل ہی نہ کروا دے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں ایسی زیادتی کا حصہ نہیں بن سکتا تھا اسی لیے وہ سب چھوڑ کر یہاں چلا آیا۔‘

مگر ایسا ہرگز نہیں تھا کہ زیادتی صرف پولیس کی طرف اور صرف سیاسی کارکنان کے خلاف ہوتی رہی۔

سندھ پولیس کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں سنہ 1991 سے سنہ 2014 تک دو ہزار سے زائد اہلکار و افسران کو گھات لگا کر، ہدف بنا کر یا فرائض کی ادائیگی کے دوران ہلاک کیا گیا، ان میں سے 451 کے قریب افسران و اہلکار صرف کراچی آپریشن کی نذر ہوئے۔

،تصویر کا کیپشنایس ایچ او نیو کراچی بہادر علی کو تین دیگر پولیس اہلکاروں سمیت 28 جون 1994 کو نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں ان کے گھر کے قریب ہی گھات لگا کر قتل کر دیا گیا

کراچی آپریشن میں نمایاں پولیس افسران کہاں گئے؟

سندھ پولیس کے ایک حاضر سروس ڈی آئی جی نے بتایا کہ ’درجنوں افسران کراچی آپریشن میں نمایاں کارکردگی دکھا کر اور جان پر کھیل کر نامور افسر بنے مگر اب اُن درجنوں نامی گرامی افسروں میں سے صرف چار ہی زندہ ہیں۔‘

جو نامی گرامی پولیس افسر اب بھی شہریوں کو یاد ہیں ان میں ایس ایچ او نیو کراچی بہادر علی، ذیشان کاظمی، توفیق زاہد، غضنفر کاظمی، سجاد حیدر، بہاؤ الدین بابر اور ناصرالحسن وغیرہ شامل ہیں۔

اور اُن میں سب سے بڑا نام تھا انسپکٹر بہادر علی۔

آپریشن کے وقت انسپکڑ بہادر علی تھے تو ایس ایچ او نیو کراچی مگر ان کے نام کی شہرت اور گونج پورے شہر میں تھی۔

ایس ایچ او نیو کراچی بہادر علی کو تین دیگر پولیس اہلکاروں سمیت 28 جون 1994 کو نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں ان کے گھر کے قریب ہی گھات لگا کر قتل کر دیا گیا۔

انسپکٹر بہادر علی کے صاحبزادے عرفان بہادر اب خود سندھ پولیس میں ایس ایس پی ہیں اور اپنے والد کے قتل کا ذمہ دار ایم کیو ایم کو قرار دیتے ہیں۔

’ہمارے خاندان کا کوئی فرد وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا جب ہم نے اپنے والد کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ میں پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور اس وقت میری عمر محض 17 برس تھی، سب سے چھوٹا بھائی تو سات سال کا تھا، میں تعلیمی چھٹی گزارنے شہر سے باہر گیا ہوا تھا۔‘

’ہمارا گھر نارتھ ناظم آباد کے این بلاک میں ڈسٹرکٹ سینٹرل کے ڈی سی آفس کے بالکل سامنے والی گلی میں تھا۔ تب روزانہ کم از کم 30، 30افراد مارے جاتے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ان کے والد انسپکٹر بہادر علی صبح ساڑھے نو بجے گھر سے نکلے، ان کے ساتھ عملے کے تین ارکان یعنی گن مین بھی تھے۔

’یہ چاروں پولیس کی موبائل وین میں نکلے۔ گلی سے سیدھے ہاتھ پر مڑتے ہی سامنے لیڈی برڈ سکول تھا جو تعطیلات کی وجہ سے بند تھا۔ دہشتگرد اسی سکول اور اس کے سامنے کے ایک گھر کی چھتوں اور دوسری طرف کی مسجد کے بالائی حصے پر مورچہ بند تھے۔‘

’جیسے ہی میرے والد کی گاڑی سکول کے قریب پہنچ کر مڑنے کے لیے آہستہ ہوئی تو سکول، گھر کی چھت اور مسجد کے بالائی حصے میں پہلے سے مورچہ بند حملہ آوروں نے تین اطراف سے گاڑی پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ میرے والد سمیت چاروں افراد موقع پر ہی شہید ہو گئے۔‘

انھوں نے جذبات سے بھری آواز میں بتایا کہ جیسے ہی فائرنگ شروع ہوئی تو اُن کی والدہ خود باہر نکل کر گئیں۔ ’میرا سات برس کا بھائی اور میری والدہ۔ انھوں نے میرے والد کو ان ہی کے خون میں لت پت شہید دیکھا۔ اپنی آنکھوں سے۔‘

’پھر ایک لڑکا فہیم کمانڈو جو ایم کیو ایم کا کارکن تھا گرفتار ہوا اور اس نے دوران تفتیش پولیس اہلکاروں کو بتایا کہ لندن سے احکامات الطاف حسین نے دیے تھے، پھر ایک دہشتگرد جاوید لنگڑا جو انڈیا میں تھا اس کی مدد سے یہاں ٹیم تشکیل دی گئی اور فہیم اور اس کے ساتھیوں کو یہ کام سونپا گیا۔‘

’قاتلوں نے کئی دن تک میرے والد کے آنے جانے کے اوقات پر نظر رکھی، کچھ لڑکے ناظم آباد کے تھے، کچھ بلدیہ کے تھے، اور پھر منظم منصوبہ بندی کی ساتھ انھیں قتل کر دیا گیا۔

’ہمارے جیسے خاندانوں نے اس بدقسمت شہر کی بدقسمتی کی قیمت اپنے پیاروں کو کھو کر ادا کی۔‘

عرفان بہادر کے مطابق ڈی ایس پی شمیم کو بھی اُسی علاقے میں قتل کیا گیا جو ان کی عقبی گلی میں رہتے تھے۔

والد کے قتل کے بعد مالی اور خاندانی مشکلات کو سب سے مشکل سوال قرار دیتے ہوئے عرفان بہادر نے کہا کہ ’کوئی الفاظ میں بتا سکتا ہے، نہ کوئی سن کر سمجھ سکتا ہے۔‘

’اب ہر برس یہ دن ہمارے لیے ایک تکلیف دہ دن ہوتا ہے اور یہ درد ساری عمر ہمارے ساتھ رہے گا۔‘

،تصویر کا کیپشن’ہمارے جیسے خاندانوں نے اس بدقسمت شہر کی بدقسمتی کی قیمت اپنے پیاروں کو کھو کر ادا کی’

فہیم کمانڈو: ’قتل کیے بغیر مجھے نیند نہیں آتی‘

پاکستان سے ترک وطن کر جانے والے سندھ پولیس کے ایک سابق افسر نے کہا کہ ’گرفتار ہو جانے پر فہیم کمانڈو نے تفتیش کے دوران بتایا کہ مجھے تو قتل کیے بغیر نیند نہیں آتی تھی، جیسے نشئی کو نشے کے بغیر سکون نہیں ملتا بالکل ایسے ہی اُسے قتل کیے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔

’اس نے بتایا کہ وہ اپنے طور پر بھی یوں ہی رات کو کسی کو موٹرسائیکل پر بٹھا کر نکل جاتا تھا، کسی پر شک بھی ہو گیا کہ یہ پولیس اہلکار ہے تو اسے قتل کر دیتا تھا۔‘

اُس زمانے میں بھی فہیم کمانڈو کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر تھی۔ گرفتار ہو جانے کے بعد فہیم کمانڈو نے اس سب قتل و غارت کو اپنے اعترافی بیان میں قبول کر لیا اور تفتیش کاروں کو ہر جرم کی تفصیل بتائی۔

بعد میں خود فہیم کمانڈو بھی دورانِ حراست اس وقت ہلاک ہوا جب اسے ایک نشاندہی کے لیے لے جایا گیا۔

مستقلاً پاکستان سے منتقل ہو جانے والے ایک سابق سیاسی رہنما نے فہیم کمانڈو کے قتل پر ردعمل میں کہا ’آپ کا نظام، ریاست اور اس کے ادارے انسپکٹر بہادر علی کے قتل کو قتل کہتے ہیں مگر فہیم کمانڈو کے ماورائے عدالت قتل کا ذمہ دار بھی دہشتگردی کے ایک حملے کو قرار دیتے ہیں۔

’وہاں انصاف کہاں سونے چلا جاتا ہے؟ کون جواب دے گا آج؟ فہیم اور اس جیسے ہمارے بھی تو سیکڑوں کارکن ساتھی مارے گئے ماورائے عدالت! اُن کا بھی تو خاندان تھا ناں؟ وہ کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟ بتائیے۔‘

خود عرفان بہادر نے بھی تسلیم کیا کہ ساری ایم کیو ایم دہشتگرد نہیں تھی ’مگر ایک جنگ کی کیفیت تھی اور اس میں ہر دو طرف سے زیادتیوں کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔‘

’ہوئی ہو گی زیادتی پولیس کی جانب سے بھی، مگر اس کے لیے مکینزم آج بھی ہے اور اس وقت بھی تھا۔ شکایات سیل تھے، عدالتیں تھیں، ہوم ڈپارٹمنٹ تھا، پولیس افسران تھے، سب کچھ تھا، شکایتیں کی جا سکتی تھیں۔‘

سندھ پولیس کے ایک سابق سربراہ اور سابق آئی جی نے کہا ’فہیم کمانڈو کوئی معمولی مجرم نہیں تھا، میں ذاتی طور پر گواہ ہوں کہ اس کی گرفتاری اور ہلاکت دونوں کا تذکرہ وزیر اعظم اور صدر مملکت کی سطح تک ہوا تھا۔ وزیراعظم بینظیر بھٹو اور صدر فاروق لغاری کو میں نے ان معاملات پر خود بریفنگ اور دلچسپی لیتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘

فہیم کمانڈو کی ہلاکت کے وقت ڈی آئی جی کراچی رہنے والے ڈاکٹر شعیب سڈل اس معاملے پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔

’میرے دور میں 149 پولیس مقابلے ہوئے، مگر یہ (فہیم کمانڈو والا) نہیں ہونا چاہیے تھا، نہ ہوتا تو اچھا تھا۔ بدنامی بھی ہوئی، یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس نے ہماری ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔‘

تفصیل بتاتے ہوئے ڈاکٹر سڈل نے کہا ’ایک روز مجھے اطلاع ملی کہ چند لڑکے کہیں بلیئرڈ کھیل رہے ہیں، جن میں فہیم بھی ہے۔ اس وقت بھی وہ قتل کی 100 کے قریب وارداتوں میں ملوث تھا۔ میں نے فورس کو بتائے بغیر ٹیم بھیجی کہ سب کو لے آؤ۔ وہ اسے لے آئے۔ مگر کوئی اس کو جانتا نہیں تھا، شناخت کے لیے کوئی تصویر نہیں تھی ہمارے پاس۔ افسروں نے آ کر بتایا کہ ان میں کوئی فہیم نہیں ہے۔‘

شعیب سڈل نے بتایا کہ ’میں نے خفیہ اداروں سے رابطہ کیا اور تصویر مل گئی اس وقت سب سے بڑی ہیڈ منی فہیم کی تھی۔ پھر ایک سیاسی شخصیت نے جا کر تصدیق کی کہ ہاں ان میں فہیم شامل ہے۔ تھوڑی دیر بعد مجھے خود وزیراعظم کا فون آیا، فہیم کی گرفتاری پر اتنی بڑی کامیابی پر مبارکباد کے لیے۔ بعد میں تصدیق کرنے والے سیاستدان کو بھی قتل کر دیا گیا۔‘

ڈاکٹر سڈل کا موقف جو بھی ہو مگر اس کہانی کے لیے میری مدد کرنے والے افراد میں سے ایک نے ’ریکارڈڈ‘ گفتگو میں تسلیم کیا کہ فہیم کی گرفتاری پر ریاست کے فیصلہ سازوں میں اس بات پر غور ہوا کہ ’ہم اس کو رکھ کر کیا کریں گے؟ یہ بھاگ جائے گا اور پھر ہمارے لیے تباہی کرے گا۔ اس غور میں خود وزیر داخلہ جنرل نصیر اللّہ بابر بھی شریک تھے۔‘

اسی اثنا میں سندھ اسمبلی بلڈنگ اور سندھ سیکریٹریٹ پر راکٹ حملے کیے گئے اور ایک راکٹ سیکریٹریٹ کی پانچویں منزل پر وزیرِ اعلیٰ کے دفتر پر بھی لگا۔

ڈاکٹر سڈل سے جب اس گفتگو کا حوالہ دے کر سوال کیا گیا تو انھوں نے تردید سے گریز کرتے ہوئے کہا ’پولیس کا کردار کرائے کے قاتل کا نہیں۔

’میں نے چارج لیتے وقت بتا دیا تھا کہ میں قانون کے مطابق کام کروں گا۔ میں نے ماورائے عدالت ہلاکتوں کی ہمیشہ بھرپور مخالفت کی، میرے دور میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔‘

،تصویر کا کیپشنشعیب سڈل: ‘کئی ماہ بعد میں صبح ناشتے پر اخبار پڑھ رہا تھا تو انگریزی اخبار ڈان کے بیک پیج پر خبر دیکھی کہ فہیم کمانڈو ایک مقابلے کے دوران ہلاک ہوگیا اور ہلاکت کے وقت اسے ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔’

شعیب سڈل نے کہا کہ ’14 دن کے ریمانڈ کے بعد گرفتار فہیم کو جیل بھیج دیا گیا، میں نے خود جیل حکام کو پابند کیا کہ مجھے بتائے بغیر اسے عدالت بھی مت بھیجنا کیونکہ میں خود اس کے لیے خصوصی حفاظتی انتظامات کی نگرانی کروں گا۔‘

’کئی ماہ بعد میں صبح ناشتے پر اخبار پڑھ رہا تھا تو انگریزی اخبار ڈان کے بیک پیج پر خبر دیکھی کہ فہیم کمانڈو ایک مقابلے کے دوران ہلاک ہوگیا اور ہلاکت کے وقت اسے ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔‘

’جس دن سیکریٹریٹ پر حملہ ہوا اسی رات ایس ایچ او راؤ انوار نے مجسٹریٹ سے رات کو ہی یہ آرڈر حاصل کیا کہ وہ جیل میں زیرِ حراست فہیم کمانڈو کو نشاندہی کے لیے کہیں لے جانا چاہتا ہے اسے اجازت دی جائے کہ فہیم کو وہاں سے لے جا سکے۔‘

ِ’فہیم کے ساتھیوں کو خبر ہو گئی اور فہیم کو چھڑوانے کے لیے انھوں نے پولیس ٹیم پر حملہ کیا اور فہیم پولیس اور حملہ آوروں کی درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران ہتھکڑی میں حملہ آوروں کی گولی سے ہلاک ہو گیا۔‘

بتانے والوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد ڈاکٹر سڈل کو جب یہ محسوس ہوا کہ انھیں بائی پاس کیا گیا ہے تو انھوں نے جنرل نصیر اللّہ بابر سے کہا کہ اگر مجھ پر اعتماد نہیں تو مجھے اس ذمہ داری (آئی جی کراچی کے عہدے) سے آزاد کر دیں۔

مگر جنرل بابر نے مجھ سے کہا کہ نہیں یہ میری ذمہ داری پر ہوا ہے اور اگر کہیں کوئی پوچھے گا تو میں مکمل ذمہ داری سے تسلیم کروں گا۔

ڈاکٹر سڈل کہتے ہیں کہ پریس نے رپورٹ کیا کہ ہلاکت کے وقت فہیم کو ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بدنامی کا باعث بنا فورس کے لیے اور اس لیے میں کہتا ہوں کہ اس نے ہماری محنت پر پانی پھیر دیا اور یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔

’یہاں تک ہوا کہ جب صدر لغاری نے ایک اجلاس میں اس واقعے کے بارے میں پوچھا تو جنرل بابر نے کہا کہ میرے حکم پر فہیم کمانڈو کو نشاندہی کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔‘

ڈاکٹر سڈل کا ماننا ہے کہ ’زیر حراست افراد کا قتل سرخ لکیر ہے اسے کسی بھی حال میں عبور نہیں کرنا چاہیے۔‘

ایم کیو ایم کے سیکریٹری مالیات ایس ایم طارق کی ہلاکت

نوجوان ایس ایم تابش اب اکاؤنٹنٹ ہیں لندن کے مل ہل کے علاقے میں مقیم ہیں۔ وہ ایم کیو ایم کے پہلے اور واحد سیکریٹری مالیات ایس ایم طارق کے صاحبزادے ہیں۔

ایس ایم طارق عظیم احمد طارق کی کابینہ میں پارٹی کے مرکزی سیکریٹری مالیات تھے۔

ایس ایم طارق کو جمعہ 23 جون 1995 کو فیڈرل بی ایریا کے علاقے دستگیر میں ان کے گھر سے انھی کے میڈیکل سٹور جاتے وقت گاڑی پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔

ایس ایم طارق کے صاحبزادے ایس ایم تابش اب خود ایم کیو ایم کی اندرونی چپقلش ہی کو اپنے والد کے قتل کا ذمہ دار سمجھتے اور قرار دیتے ہیں۔

اپنے مقتول والد کو یاد کرتے ہوئے تابش نے بتایا کہ ان کے والد ایس ایم طارق، اپنے چیئرمین عظیم طارق کے قتل کے بعد سیاست سے کنارہ ہوئے تو یہ خاندان دستگیر 14 نمبر میں رہائش پذیر تھا۔

’اس شام لگ بھگ چار بجے فون آیا کہ کسی ضرورت مند بچے کو فوراً کسی انجیکشن کی ضرورت ہے ، میرے والد نے کہا اچھا میں خود آتا ہوں۔ وہ اپنے میڈیکل سٹور کی جانب جا ہی رہے تھے کہ گھر کی قریب ہی کسی نے گاڑی پر گولی چلائی۔‘

’گولی میرے والد کے ہاتھ پر لگی اور اس کے بعد گاڑی بے قابو ہو کر ایک گھر کی دیوار سے ٹکرا گئی۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ قاتلوں نے گاڑی کے قریب پہنچ کر دروازہ کھولا، اُن کا نام پوچھا اور میرے زخمی والد نے ان سے کہا کہ میرے بچّے چھوٹے ہیں، مجھے کیوں مار رہے ہو؟ مگر دہشتگردوں نے نام سنتے ہی ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔‘

تابش کہتے ہیں کہ ’کلاشنکوف رائفل کی انیس گولیاں ماری گئیں انھیں، میرے والد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ والد کے قتل کے کئی برس بعد ہمارے خاندان نے برطانیہ پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کی۔‘

’ڈونکاسٹر میں سرکار (کاؤنسل) کے دیے گئے گھر میں رہنا، بغیر کسی سہارے یا مدد کے خود ہی تعلیم حاصل کرنا، پڑھتے ہوئے ہی ریستوران اور سکیورٹی جیسی ملازمتوں سے گزرنا، بہت مشکل تھا۔ مگر کرنا پڑا۔

اپنے والد سے محروم رہتے ہوئے، قدم قدم پر ان کو یاد کرتے ہوئے، اپنے خاندان کی مدد کرنا تھی، تعلیم مکمل کرنا تھی۔ جب بھی کبھی مالی مشکلات یا مسائل درپیش آتے تھے مجھے اپنے والد بے تحاشہ یاد آتے تھے، اور کوئی بڑا تھا نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کراچی کی 30، 35 برس کی پرتشدد سیاست کے سب سے بڑے ذمہ دار خود الطاف حسین اور ان کی ایم کیو ایم ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ بنیادی ذمہ داری جس پر عائد کی جا سکتی ہے وہ خود ایم کیو ایم اور اس کی اندرونی چپقلش ہی ہے۔‘

اس سوال پر کہ ایم کیو ایم تو الزام عائد کرتی ہے عظیم احمد طارق یا ایس ایم طارق جیسے لوگوں کو خفیہ اداروں نے مارا، ایس ایم تابش نے کہا ’شروع میں تو ہم بھی اسی کہانی کو درست سمجھتے تھے۔ وہ تو مجھے بھی کہتے ہیں میں ایجنسیز سے مل گیا ہوں۔ میں تو یہاں رہتا ہوں، مجھے تو ایجنسیز کے لوگوں کے نام تک نہیں پتا۔

’یہ ان کا بہت پرانا الزام ہے جو بھی ان سے اختلاف کرتا ہے یہ اس پر ایسے ہی الزام عائد کر دیتے ہیں۔ میں تو خود اپنی ہی پارٹی کا شکار رہا۔‘

،تصویر کا کیپشنمرحوم ایس ایم طارق کے بیٹے تابش: ‘گولی میرے والد کے ہاتھ پر لگی اور اس کے بعد گاڑی بے قابو ہو کر ایک گھر کی دیوار سے ٹکرا گئی۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ قاتلوں نے گاڑی کے قریب پہنچ کر دروازہ کھولا، اُن کا نام پوچھا اور میرے زخمی والد نے ان سے کہا کہ میرے بچّے چھوٹے ہیں، مجھے کیوں مار رہے ہو؟ مگر دہشتگردوں نے نام سنتے ہی ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔’

اس کہانی میں تمام کرداروں کی جانب سے عائد کیے جانے والے الزامات پر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا موقف جاننے اور شامل کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔

الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا موقف حاصل کرنے کے لیے کم از ایک ہفتے تک روزانہ پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات مصطفیٰ عزیز آبادی سے دن میں تین، تین بار رابطے کیے گئے، ان کی فرمائش پر تمام الزامات پر مبنی سوالات لکھ کر پیشگی انھیں بھجوا دیے گئے، اور کم از کم تین مرتبہ انھوں نے مؤقف دینے کا وعدہ بھی کیا مگر ہر بار موقف دینے کے لیے وہ دستیاب نہیں ہو سکے۔

ایم کیو ایم لندن کے دیگر رہنماؤں سے بھی رابطے کی متعدد کوششیں قریباً نو روز تک مسلسل کی گئیں مگر سب رہنماؤں نے اس حوالے سے بات کرنے سے معذرت کر لی۔

لگاتار پانچ روز تک رابطے کی کوشش کے بعد جناب مصطفیٰ عزیز آبادی صاحب نے بالآخر فون اٹھانا بھی بند کر دیا۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ اس کراچی آپریشن نے اپنے نتائج حاصل کیے یا نہیں اور یہ متنازعہ تھا کہ نہیں، یہ فیصلہ قارئین کو کرنا ہے۔

کراچی آپریشن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکا؟

مجھ سے گفتگو میں تو سوائے سابق ڈی آئی جی ڈاکٹر شعیب سڈل کے اس کہانی کو آپ تک پہنچانے کے لیے مدد کرنے والے تمام افراد نے اتفاق کیا کہ کراچی آپریشن وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکا جس کے لیے اسے شروع کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر سڈل نے دعویٰ کیا کہ مارچ 1996 سے جون 1996 تک شہر میں قتل و غارت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔

’جس شہر میں ایک مہینے میں تین تین سو لوگ قتل کر دیے جاتے تھے وہاں مکمل سکون واپس لایا گیا۔ یہی میرا ٹاسک تھا مجھے اسی لیے بھیجا گیا تھا کہ قتل و غارت گری روکی جائے۔‘

مگر دیگر تمام افراد نے اتفاق کیا کہ کمزور عدالتی نظام، خامیوں سے بھرپور استغاثہ، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناقص کارکردگی اور سیاسی حل دیے بغیر آپریشن کو اچانک شروع کرنے اور اچانک ختم کر دیے جانے کی پالیسی کی وجہ سے آپریشن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکا۔

پولیس جانتی تھی کہ آپریشن کے بعد کیا ہو گا، انھوں نے مقدمات میں استغاثہ جان بوجھ کر کمزور رکھا تاکہ بعد کے حکمرانوں کی مدد کر کے پولیس حکام عتاب سے محفوظ رہ سکیں۔

اگر سیاسی حل پر بھی غور ہوتا اور آپریشن میں ریاست کی جانبداری مشکوک نہ بنائی جاتی تو شاید صورتحال بہتر ہو سکتی تھی۔

اگر آپریشن کے نتائج حاصل ہوئے تو پھر سنہ 2013 میں سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران انہی ریاستی اداروں نے خود سپریم کورٹ کو کیوں لکھ کر بتایا کہ شہر میں آج بھی اے کلاس خطرناک سمجھے جانے والے 17 اور بی کلاس خطرناک سمجھے جانے والے 75 کے قریب نو گو ایریاز ایسے ہیں جہاں آج بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار یا افسر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔

آپریشن کے 21 سال بعد یعنی 2013 تک بھی اگر کراچی میں 92 نو گو ایریاز تھے تو پھر کیا فائدہ ہوا اُس کراچی آپریشن کا، بتائیے؟

Exit mobile version