اب پنجاب میں کوئی کتاب چھاپ کر دکھائے
جوں جوں پاکستان کے نظریاتی تشخص کے تحفظ کے لیے ایک پر ایک قانون کی تہہ چڑھائی جا رہی ہے توں توں نظریاتی شناخت محفوظ ہونے کے بجائے مزید عدم تحفظ کا شکار نظر آ رہی ہے۔
مثلاً اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کو برقرار رکھنے کے لیے 1949 میں منظور کردہ قراردادِ مقاصد 1973 کے آئین کے دیباچے کا حصہ ہے۔
اس آئین کے تحت کوئی بھی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہ ہو اسے پرکھنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے۔ احمدیوں کو آئین کے تحت 46 برس پہلے غیر مسلم اقلیت قرار دیا جا چکا ہے اور انھیں اضافی قوانین کے تحت شعائرِ اسلامی کے کھلم کھلا استعمال سے قانوناً منع کیا جا چکا ہے۔
توہینِ مذہب کے قانون 295 سی کے تحت توہینِ رسالت و توہینِ قرآن کی سزا موت ہے اور دیگر مقدس ہستیوں کی توہین پر بھی بھاری سزا مقرر ہے۔ پارلیمانی اور آئینی عہدوں کے حلف کی عبارت میں یہ عہد بھی شامل ہے کہ میں ختمِ نبوت پر کامل یقین رکھتا ہوں۔
کسی بھی مسلمان شہری کا شناختی کارڈ ختمِ نبوت پر کامل یقین کے حلف نامے پر دستتخط کے بغیر نہیں بن سکتا۔
اس کے باوجود ہر وقت دل و دماغ کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں یہ ادارے، قوانین اور سزائیں ناکافی تو نہیں۔ کہیں انھیں اور مضبوط بنانے کی ضرورت تو نہیں۔
اسی مسلسل خدشے کے ہوتے گذشتہ جمعرات (23 جولائی) کو ملک کے سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی نے متفقہ طور پر پنجاب تحفظ بنیادِ اسلام ایکٹ منظور کر لیا۔ اس کے تحت انبیا، صحابہ اور اہلِ بیت سمیت مقدس ہستیوں کے ناموں کے ساتھ متبرک القابات لگانے لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ بل کی ان سفارشات پر کسی مسلمان کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔
مگر اس بل کے پردے میں اصل کام کچھ اور ہوا ہے۔ وہ یہ کہ پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسی کتاب کو شائع یا صوبے میں درآمد کرنے سے منع کر سکتا ہے جس میں قومی مفاد، ثقافت، مذہبی اقدار و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے مضر مواد ہو۔
(قومی مفاد، ثقافت، مذہبی اقدار، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی تشریح کیا ہے؟ اس کا حتمی دار و مدار بھی غالباً ڈی جی پی آر کی ذاتی فہم و قابلیت پر ہو گا۔)
متعلقہ افسر کسی بھی وقت کسی بھی چھاپہ خانہ، اشاعتی مرکز، بک سٹور پر جا کر مقررہ معیار پر پوری نہ اترنے والی کسی بھی کتاب کے مسودے یا کاپی کو شائع ہونے سے پہلے یا بعد میں ضبط کر سکتا ہے۔ جو بھی کتاب شائع ہو گی۔ اسی روز اس کی چار کاپیاں مجازِ افسر کو بھیجنا ہوں گی۔
مذہب سے متعلق جو بھی کتابی مواد ڈی جی پی آر کے سامنے آئے گا وہ مواد ڈی جی پی آر متحدہ علما بورڈ کو پیش کرنے کا پابند ہو گا اور یہ بورڈ ہی اسے شائع کرنے نہ کرنے کے بارے میں حتمی رائے دے گا۔
اس آرڈیننس میں کہیں بھی آئین کے آرٹیکل دس اے کا حوالہ نہیں دیا گیا جس کے تحت ہر شہری کا بنیادی حق ہے کہ وہ خود پر عائد الزام یا فردِ جرم کے خلاف اپنا دفاع کر سکے یعنی اس قانون کے تحت ایک بیوروکریٹ مستغیث بھی ہے، جج اور جلاد بھی۔
اس آرڈیننس کی منظوری سے دو دن پہلے خبر آئی کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے تعلیمی اداروں کے لیے سفارش کردہ سو سے زائد کتابوں کو اسلامی اقدار، ثقافت اور نظریہ پاکستان سے متصادم مواد کی بنیاد پر ضبط کرنے کا اعلان کر دیا۔
مجھے نہیں معلوم کہ جن ارکانِ اسمبلی نے صرف تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کا ٹائٹل دیکھ کر ہاتھ کھڑے کر دیے انھوں نے اس مسودے کو دھیان سے بھی پڑھا یا نہیں۔ البتہ اس مسودے کی ظاہری شکل کے پیچھے پوشیدہ ممکنہ مقاصد دیکھ کر مجھے 1984 کا ضیا الحق ریفرنڈم یاد آگیا جس کا مقصد ضیا االحق کو مزید پانچ برس کے لیے صدر بنوانا تھا۔
اگر سیدھا سیدھا پوچھا جاتا کہ کیا آپ موجودہ صدرِ مملکت کی کارکردگی دیکھتے ہوئے اگلے پانچ برس کے لیے بطور صدر ان کی تائید کرتے ہیں تو شاید بہت سے لوگ پولنگ اسٹیشن ہی نہ جاتے۔
چنانچہ اصل مدعے کو چھپانے کے لیے جو سوالیہ جلیبی بنائی گئی وہ کچھ یوں تھی۔
’صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیا الحق نے نظریہِ پاکستان کے تحفظ اور قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے جو اقدامات کئے ہیں کیا آپ ان کے تسلسل کے حامی ہیں اور کیا آپ چاہتے ہیں کہ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کا عمل جاری رہے۔ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ 1990 تک اگلے پانچ برس کے لیے جنرل محمد ضیا الحق کو صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز رکھنا چاہتے ہیں۔‘
پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ کے ایک حصے میں مقدس ہستیوں کے تقدس اور القابات کی وضاحت کی گئی۔ مگر دوسرے حصے میں مستقبل میں شائع یا درآمد کی جانے والی تمام کتابوں کو نظریاتی چھان پھٹک کی زنجیر سے باندھ کر پڑھائی لکھائی تحقیق کے دائرے کو اور محدود کرنے اور ریاستی تشریح سے مختلف آرا کے اظہار کو اطلاقی جرم قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
اگر اس ایکٹ پر ہو بہو عمل ہوتا ہے تو پھر علما بورڈ کی منظور شدہ مذہبی کتابوں کے علاوہ کوئی بھی کتاب شائع یا درآمد کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ سائنس، تاریخ، فلسفے، جغرافیے، حالاتِ حاضرہ، ادبیات وغیرہ کو بھول جائیں۔
کیونکہ غالب و اقبال کی شاعری سمیت ہر کتاب میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور نکل آئے گا جو قومی سلامتی، ثقافتی و مذہبی اقدار و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے منافی ہو۔
اسلامی یا مسلم تاریخ سے متعلق بیرونِ پاکستان شائع ہونے والی کوئی بھی کتاب درآمد نہیں ہو سکے گی۔ کیونکہ ان میں سے کوئی بھی کتاب مقدس ہستیوں کے ساتھ لگائے جانے والے القابات سے متعلق بنیادِ اسلام ایکٹ کے معیار پر پوری نہیں اترے گی۔
اب صورت یہ ہے کہ اس ایکٹ کی منظوری کے بعد پاکستان کے دیگر صوبوں کے مصنف اور ناشر کیا کریں گے؟
کیا وہ ہر کتاب کا پنجاب ایڈیشن علیحدہ سے شائع کریں گے یا پھر ابنِ انشا کی ’اردو کی آخری کتاب‘ کی طرح سرورق پر موٹا موٹا لکھیں گے ’پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ سے نامنظور شدہ۔‘
سمجھ میں نہیں آتا کہ دیگر مسلمان ممالک ان قوانین کے بغیر کیسے زندہ ہیں جن کے بغیر ہم سانس لینے کا بھی تصور نہیں کر سکتے۔ یا تو وہ ہماری طرح اچھے مسلمان نہیں یا پھر انھیں اس سے بھی زیادہ اہم مسائل درپیش ہیں۔