پاکستان کی سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے۔
اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر حکومت چھ ماہ کے عرصے میں موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی نہ کر سکی تو جنرل باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے۔
اس سے قبل 28 نومبر کو سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ کو چھ ماہ کی مشروط توسیع دینے کا اعلان کیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ کا تحریر کردہ تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے پیر کی سہ پہر جاری کیا گیا۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے اس حوالے سے یقین دہانی کروائی ہے کہ پارلیمان اس معاملے پر چھ ماہ کے اندر قانون سازی کرے گی، مگر وفاقی حکومت اگر ایک جنرل اور نتیجتاً آرمی چیف کی ملازمت کے دورانیے اور اس کی شرائط کو قانون کے ذریعے ضابطے میں نہ لا سکی تو اس کے نتیجے میں آرمی چیف کے آئینی عہدے کو مکمل طور پر بےضابطہ اور ہمیشہ جاری رہنے کے لیے چھوڑا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ ‘ناقابلِ تصور’ اور ‘آئینی مضحکہ خیزی’ ہو گا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس مدت کے گزرنے کے بعد صدر مملکت وزیرِ اعظم کی سفارشات کی روشنی میں کسی بھی حاضر سروس جنرل کو نیا آرمی چیف تعینات کریں گے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فوج میں یہ روایت رہی ہے کہ کوئی بھی جنرل تین سال کی مدت مکمل کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتا ہے لیکن کسی ادارے کی روایت کو قانون کا متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ نہ تو قانون میں اور نہ ہی آرمی ایکٹ میں جنرل رینک کے افسر کی ریٹائرمنٹ کا ذکر ہے۔
اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 243 کی ذیلی شق 4 کے تحت صدرِ مملکت آرمی چیف کی تنخواہ اور ان کے الاؤنس کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ جنرل کی مدت ملازمت اور ریٹائرمنٹ قانون میں متعین نہیں ہے اس لیے آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے۔
فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قانون میں جنرل کی مدت ملازمت سے متعلق کوئی شق موجود نہیں ہے چنانچہ منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملے پر قانون سازی کریں۔
فیصلے کے مطابق آرمی ریگولیشن کا سیکشن 255 جنرل کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار نہیں دیتا اور یہ شق صرف عارضی مدت ملازمت کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کا ذکر کہیں بھی نہیں ہے اور وزیر اعظم کو ایسا کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ آرمی ریگولیشنز (رولز) کی دستاویز پر ایک مہر لگی ہوئی ہے جس کے مطابق یہ دستاویز ‘ممنوعہ’ ہے اور اس میں موجود کوئی معلومات بالواسطہ یا بلاواسطہ ذرائع ابلاغ یا کسی دیگر غیر مجاز شخص کو نہیں دی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ نے اس حوالے سے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ اور ذیلی قوانین عوامی دستاویزات ہیں اور انھیں ہر شہری کو فوراً دستیاب ہونا چاہیے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس ضمن میں حقِ معلومات کے قانون 2017 کے تحت جو حدود لاگو ہوتی ہیں وہ مسلح افواج، دفاعی تنصیبات اور دفاع اور قومی سلامتی سے متعلق دیگر ریکارڈ ہے، نہ کہ فوجی قوانین۔
عدالت کا کہنا تھا ہے کہ یہ یاد رکھنا اہم ہے کہ جب معلومات عام ہوتی ہیں تو آگاہی پھیلتی ہے اور جب بحث ہوتی ہے تو (مسائل کے) حل نکلتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اگر آرمی ریگولیشنز تک عوام کی رسائی ہوتی اور اگر ان معاملات پر پہلے بحث ہوچکی ہوتی تو 1947 سے لے کر اب تک پہلے بار منظرِ عام پر آنے والے کئی سقم کافی پہلے دور کیے جا سکتے تھے، اس لیے ہر قانونی دستاویز تک عوام کو ضرور رسائی دینی ہوگی
اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے اس از خود نوٹس کی سماعت کے دوران یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ حکومت موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں پارلیمنٹ سے قانون سازی کروائے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ عدالت عظمیٰ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو بے ضابطہ نہیں چھوڑے گی کیونکہ سپریم کورٹ کے سامنے مقدمہ ہی یہی تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک ترقی کرے گا۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے منتخب نمائندوں کے پاس اختیار ہے کہ وہ آرمی چیف کے معاملے پر قانون سازی کریں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس فیصلے کے ساتھ ایک اضافی نوٹ بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کےعہدے میں توسیع، دوبارہ تقرری کا کسی قانون میں ذکر نہ ہونا حیرت انگیز تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ملکی آئین کے تحت صدر کے مسلح افواج سے متعلق اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔
چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا ہے کہ آرمی چیف کا عہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقتور ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ آرمی چیف کا عہدہ اہم حیثیت اور لا محدود اختیارات کا حامل ہوتا ہے اس لیے غیر متعین صوابدید خطرناک ہوتی ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی سے اس بارے میں تاریخی غلطیاں درست کرنے میں مدد ملے گی۔
چیف جسٹس نے اپنے اضافی نوٹ میں برطانیہ کے سابق چیف جسٹس سر ایڈورڈ کوک کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ‘آپ جتنے بھی اوپر چلے جائیں قانون آپ کے اوپر ہے۔’
حکومت کو قانون سازی کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہو گی؟
تحریک انصاف کی حکومت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو جلد اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر آرمی ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ تیار کرے گی۔
تاہم پاکستان مسلم لیگ نواز کے پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے حال ہی میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کے دوران لندن میں نواز شریف کی رہائش گاہ کے باہر مظاہر ے کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے واقعات سے ان کی جماعت آئینی ترامیم اور ایوان کی کارروائی بہتر انداز میں چلانے کے سلسلے میں حکومت سے تعاون نہیں کر سکتی۔
آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے معاملے پر سپریم کورٹ کا مختصر فیصلہ آنے کے بعد سے یہ بحث جاری تھی کہ آیا اس عمل کے لیے آئین میں ترمیم کی غرض سے حکومت کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی یا نہیں۔
اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں یہ کہیں نہیں کہا کہ حکومت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت کرے یا اس میں ترمیم کرے۔
اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت اس معاملے کو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے حل کرے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت آئین کے آرٹیکل کے دائرہ اختیار کی وضاحت کرے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے حکومت اگر چاہے تو قانون سازی بھی کرسکتی ہے جس میں دو تہائی کی اکثریت درکار ہو گی لیکن یہ لازمی نہیں۔
خامیوں کی نشاندہی
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں آرمی چیف جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے پورے مرحلے میں کئی خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
- وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے 19 اگست 2019 کو جاری کیے گئے حکمنامے میں جنرل باجوہ کو ان کے موجودہ دورِ ملازمت کے خاتمے پر تین سال کی توسیع دینا جبکہ وزیرِ اعظم کو آئین کے تحت ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں
- وزیرِ اعظم کے مذکورہ حکمنامے میں جس تین سالہ مدت کا ذکر کیا گیا ہے، اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں
- 19 اگست 2019 کو جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کے ذریعے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں مزید تین سال کی توسیع کی کوئی قانونی بنیاد نہیں کیونکہ آئین یا قانون میں ملازمت میں توسیع کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔
- 19 اگست 2019 کو وزارتِ دفاع کی جاری کی گئی سمری میں کہا گیا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر 2019 کو مدتِ ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہونے والے ہیں، مگر ریٹائرمنٹ کی مدت سے متعلقہ قانون کا حوالہ نہیں دیا گیا
- مذکورہ سمری میں کہا گیا کہ جنرل افسر کو آرمی ریگولیشنز کی شق 255 کے تحت ایک اور دورانیے کی توسیع دی جائے، باوجود اس حقیقیت کہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952، پاکستان آرمی ایکٹ رولز 1954 یا آرمی ریگولیشنز (رولز) میں جنرل کے عہدے کے لیے مدت متعین نہیں ہے اور نہ ہی ایک اور مدت کی توسیع کی کوئی شق موجود ہے۔
- صدر نے آئین کی شق 243 (4)(ب) کے تحت جنرل باجوہ کو 19 اگست 2019 کو تین سال کے لیے توسیع دی جبکہ صدر کے پاس آئین یا قانون کے تحت توسیع دینے کا اختیار نہیں ہے
- اگلے ہی دن یعنی 20 اگست 2019 کو حکومت اپنے سابقہ مؤقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے اور صدر کی منظوری سے جنرل باجوہ کی ملازمت میں توسیع کا جاری شدہ نوٹیفیکیشن واپس لیے بغیر اس مسئلے کو آرمی ریگولیشنز 255 پر انحصار کرتے ہوئے کابینہ میں لے گئی، جبکہ کسی جنرل کے لیے مدت یا ریٹائرمنٹ کی عمر متعین نہیں ہے۔
- 25 میں سے صرف 11 کابینہ ارکان نے سرکولیٹ کی گئی سمری کی منظوری دی مگر وفاقی حکومت کے اختیار سے اس توسیع کے بارے میں کوئی نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا گیا، اس لیے اس مشق کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
- اس سمری کی سرکولیشن رولز آف بزنس 1973 کے رول 19 سے ہم آہنگ نہیں تھی جس میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری کابینہ کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ ارکان نے کتنے عرصے میں انھیں اپنی رائے سے آگاہ کرنا ہے۔ ایسا کوئی عرصہ متعین نہیں کیا گیا تھا۔
- وزارتِ دفاع نے 26 نومبر 2019 کو نوٹیفیکیشن جاری کیا جس میں لکھا گیا کہ جنرل باجوہ کی بطور جنرل ریٹائرمنٹ کو روک دیا گیا ہے اور انھیں تین سال کے لیے توسیع دی گئی ہے۔ آرمی ریگولیشنز (رولز) کی شق 255 میں ہونے والی حالیہ ترمیم کے ضمن میں کیا گیا یہ کام تب فائدہ مند ہوتا جب کسی جنرل کی مدتِ ملازمت یا ریٹائرمنٹ کی عمر قانون میں متعین ہوتی
- بالاخر 28 نومبر 2019 کو وزیرِ اعظم کے سامنے جنرل باجوہ کی 28 نومبر 2019 سے آئین کی شق 243 (4) (ب) کے تحت بطور آرمی چیف تعیناتی کی سمری پیش کی گئی جس کی منظوری صدر نے دی جس کے بعد 28 نومبر 2019 کو نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ اس میں کہا گیا کہ 26 نومبر 2019 کو جاری ہونے والا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب ایسا کوئی نوٹیفیکیشن موجود نہیں جو جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرتا ہو یا ان کی ریٹائرمنٹ روکتا ہو۔ 28 نومبر 2019 کو جنرل باجوہ کی دوبارہ تعیناتی ایک مرتبہ پھر اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ان کی مدتِ ملازمت تمام ہوچکی ہے۔