جنوبی پنجاب میں محرومیوں‘ ترقیاتی فنڈز میں کٹوتیوں اور پسماندگی کے اصل ذمہ دار یہاں کے سیاستدان ہیں جنہیں عوام اپنی تقدیر کی بہتری کے لیے لاہور اور اسلام آباد بھیجتے ہیں لیکن وہ اپنے ذاتی معاملات کو بہتر کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرتے۔ سابق صدر فاروق لغاری کا ڈیرہ غازی خان‘ سابق گورنر و وزیراعلیٰ پنجاب ملک غلام مصطفی کھر کا مظفر گڑھ‘وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا ملتان اور ممتاز دولتانہ کا وہاڑی۔ کسی شہر کی بھی تقدیر مندرجہ بالا کسی بھی حکمران کے دور میں نہ بدل سکی۔ تختِ لاہور سے کیا گلہ کیا جائے؟ یہاں سے جو بھی ادھر گیا اْدھر کے رنگ میں ہی رنگا گیا۔
گزشتہ سے پیوستہ کالم میں میں نے جنوبی پنجاب میں صفر بٹا صفر قسم کے ترقیاتی کاموں کا تذکرہ کرتے ہوئے سارے کا سارا ملبہ وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار پر ڈالا کیونکہ وہ بھی اسی وسیب کے بیٹے ہیں اور فی الوقت سوائے تونسہ شریف اور کسی حد تک ڈیرہ غازی خان کے علاوہ کسی طرف نظرِکرم نہیں کر رہے‘ لیکن کیا کریں؟ قارئین کا دل بعض اوقات کسی بات سے ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ ایک قاری نے کالم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ آپ یہ گلہ اپنے جنوبی پنجاب کے نمائندوں سے کریں اور انہی کی طبیعت صاف کریں کہ اس کے سارے ذمہ دار آپ کے علاقے کے سیاستدان ہیں نہ کہ کوئی اور۔ اب بندہ کیا کرے اور کدھر جائے؟ سارا کالم وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کی بے رخی اور جنوبی پنجاب سے (علاوہ ڈیرہ غازی خان) مجموعی لاتعلقی اور بے پروائی پر تھا‘ جو جنوبی پنجاب کے نمائندے ہیں لیکن اس کے باوجود قاری کا دل ٹھنڈا نہیں ہو رہا کہ کالم نگار جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں کو اس کا ذمہ دار کیوں قرار نہیں دے رہا؟ویسے آج کل ملتان میں سب سیکرٹریٹ والے ڈرامے کو لے کر ایک شاندار دنگل برپا ہے۔ ایک طرف حلقہ این اے 154سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے ممبر قومی اسمبلی احمد حسین ڈیہڑ ہیں اور دوسری طرف سارا ملتان ہے۔ میرا مطلب ملتان کے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سارے ممبران قومی اسمبلی (علاوہ ابراہیم خان )اور سارے ارکان صوبائی اسمبلی ہیں۔ اگر نام لیں تو این اے 155سے ملک عامر ڈوگر‘ این اے 156سے شاہ محمود قریشی‘ این اے 157سے شاہ محمود قریشی کے فرزند زین قریشی‘ اسی طرح صوبائی اسمبلی کے ارکان میں سے ملک سلیم لابر‘ وسیم خان بادوزئی‘ ظہیر الدین علیزئی‘ جاوید انصاری‘ ندیم قریشی‘ واصف راں‘ ڈاکٹر اختر ملک‘ طارق عبداللہ ‘ خواتین کی مخصوص نشست پر منتخب ہونے والی سبین گل‘ اقلیتی نشست پر منتخب ہونے والا مہندر پال سنگھ اور آزاد (بظاہر) رکن صوبائی اسمبلی قاسم خان لنگاہ شامل ہیں۔
سارا فساد اس ہومیو پیتھک قسم کے سب سیکرٹریٹ سے شروع ہوا جس میں نسبتاً زیادہ اہم پوسٹ یعنی ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو بہاولپور میں بٹھانا وجہ تنازع بنا اور ملک احمد حسین ڈیہڑ نے اس ساری خرابی کا ملبہ شاہ محمود قریشی پر ڈال دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ملتان میں ہونے والی کرپشن پر دھواں دھار قسم کے بیانات جاری کر دیئے۔ دو دن تک احمد حسین ڈیہڑ نے شاہ محمود قریشی پر الزامات کی زبردست بمباری کی‘ جواباً اگلے روز درج بالا تمام ارکان قومی و صوبائی اسمبلی شاہ محمود قریشی کے دفاع میں سرگرم ہو گئے اور ایک عدد دھانسو قسم کی پریس کانفرنس کر دی۔ اس پریس کانفرنس کے پیچھے تو ظاہر ہے شاہ محمود قریشی ہی تھے تاہم فرنٹ پر حسب معمول ڈاکٹر اختر ملک ہی تھا۔ اس پریس کانفرنس میں ملتان سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے دس ارکان صوبائی اسمبلی (بشمول مخصوص نشستوں پر منتخب دو ارکان) ایک آزاد رکن اور ایک شکست خوردہ ٹکٹ ہولڈر خالد جاوید وڑائچ ‘جو آج کل تحریک انصاف کا ضلعی صدر ہے‘ شامل تھے۔ پورے ضلع ملتان سے صرف ایک ایم این اے‘ شجاع آباد سے سید یوسف رضا گیلانی اور سابقہ وفاقی وزیر سید جاوید علی شاہ کو شکست دینے والا ابراہیم خان اس گروپ کا حصہ نہیں تھا‘ بلکہ وہ ایک عرصے سے سیاسی تنہائی کا شکار ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ جہانگیر ترین گروپ سے تعلق رکھتا تھا اور دیگر کئی لوگوں کی طرح وقت کی نزاکت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ابھی تک شاہ محمود قریشی کے سامنے سرنڈر نہیں کیا۔ وہ دو اڑھائی ماہ قبل ملتان میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی ہونے والی افطار کی دو عدد دعوتوں میں‘ جو جاوید انصاری ایم پی اے اور قاسم خان لنگاہ ایم پی اے نے دی تھی‘ میں بھی شریک نہیں تھا۔ خدا جانے اسے کسی نے دعوت ہی نہیں دی تھی یا وہ خود نہیں آیا تھا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ ابھی تک اکیلے اپنی وفاداری نباہ رہا ہے۔ وگرنہ وہ بھی ہمارے دوست وسیم خان بادوزئی کی طرح ہوا کا رخ جانتے ہوئے شاہ محمود قریشی کے گروپ میں شامل ہو سکتا تھا ‘مگر وہ ابھی تک وفاداری نبھانے کو سیاسی مفاد پر ترجیح دے رہا ہے۔
اس زوردار پریس کانفرنس میں سب نے اپنے تئیں احمد حسین ڈیہڑ کے پرزے اڑانے کی کوشش کی‘تاہم احمد حسین ڈیہڑ کے نیچے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہونے والا ملک سلیم لابر واحد رکن صوبائی اسمبلی تھا جو اس پریس کانفرنس کے دوران خاموش رہا۔ کسی رازدار نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر ملک کی دعوت جو حقیقتاً شاہ محمود قریشی کی طرف سے دی گئی تھی کو رد بھی نہیں کرسکتا تھا اور احمد حسین ڈیہڑ کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتا تھا‘ لہٰذا وہ شریک تو ہوا لیکن خاموش رہا۔ یہ سب کچھ دو طرفہ معاہدے کا حصہ تھا۔ اخباری بیانات کے باعث ہونے والی اس تمام تر بدمزگی سے ادھر ادھر والوں نے خوب لطف لیا اور اس پر پارٹی کی طرف سے احمد حسین ڈیہڑ کو اظہارِوجوہ کا نوٹس بھی ملا‘ جس کا اس نے کئی صفحات پر مشتمل جواب بھی دے دیا ہے۔ اس کے بعد فی الحال راوی خاموش ہے۔ملتان میں سوائے سٹی کے صدر کے تحریک انصاف کے تقریباً تمام پارٹی عہدے شاہ محمود قریشی گروپ کے پاس ہیں۔ بلکہ سٹی صدر کی بھی کیا تخصیص ؟ وہ بھی رکن قومی اسمبلی ملک عامر ڈوگر کا چھوٹا بھائی ہے جو شاہ محمود قریشی کے گروپ کا ہی حصہ ہے۔ ضلعی صدر خالد جاوید وڑائچ ہے جو شاہ محمود قریشی کا نہایت ہی قریبی آدمی ہے۔ اسے شاہ محمود قریشی نے پی پی 209 سے ٹکٹ بھی جاری کروایا تھا لیکن سید یوسف رضا کے بیٹے علی حیدر گیلانی سے ہار گیا۔ ضلع ملتان میں صوبائی اسمبلی کی کل بارہ نشستوں میں سے پی ٹی آئی نے آٹھ سیٹیں حاصل کیں اور ایک آزاد رکن حکومت کی حمایت کر رہا ہے۔ باقی تین نشستوں میں سے ایک پیپلزپارٹی نے اور دو مسلم لیگ (ن) نے حاصل کی تھیں۔ ایم ڈی اے کا چیئرمین میاں جمیل‘ مارکیٹ کمیٹی کا چیئرمین اکرم چاون‘ ضلعی زکوٰۃ و عشر کمیٹی کا چیئرمین فرخ شفیق لابراور چیئرمین ضلعی بیت المال اعجاز راں‘ یہ سارے کے سارے شاہ محمود قریشی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چیئرمین پی ایچ اے اعجاز جنجوعہ کو بھی ان لوگوں میں شمار کیا جاتا سکتا ہے جو اَب شاہ محمود قریشی کے آگے ہتھیار پھینک چکے ہیں۔
کل رات ملک طارق کے پاس بیٹھے تھے‘ کسی نے کہا کہ شاہ محمود قریشی اس وقت ملتان میں ”آل اِن آل‘‘ ہیں‘ ملک طارق ہنس کر کہنے لگے: قریشی صاحب خود کا یوسف رضا گیلانی سے موازنہ کرنے کے بعد خود کو ان سے زیادہ نمبر دے کر وزارتِ عظمیٰ کو اپنا اصل مقام سمجھتے تھے۔ پہلے تو وہ ممکن نہ ہو سکا۔ پھر وہ ایک درجہ نیچے آکر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار بن گئے۔ وہاں سلمان نعیم قریشی کے ذریعے انہیں آدھے راستے میں فارغ کروا دیا گیا‘ اب لے دے کر ملتان بچتا ہے۔ آپ ان کا سیاسی قدکاٹھ دیکھیں۔ اب آپ کیا چاہتے ہیں‘ وہ ملتان میں بھی انجوائے نہ کریں ؟