دریائے مسسپی دنیا کا چوتھا طویل ترین دریا ہے۔ امریکا کی شمالی ریاست منی سوٹا کی ایک جھیل سے نکل کر 2300 میل کا فاصلہ طے کر کے جنوب میں لوزیانا کے قریب خلیج میکسیکو میں گرنے والے اس دریا کی کہانی امریکی تاریخ کے ساتھ بندھی ہے۔ نقشے پر دیکھیں تو یوں لگتا ہے گویا مسسپی دریا نے ایک عمودی لکیر کی صورت امریکا کو قریب قریب دو برابر حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ یہ محض ایک جغرافیائی حقیقت نہیں، اس کا ایک تاریخی پس منظر بھی ہے۔
1788 میں امریکا کا دستور منظور ہوا تو امریکی وفاق میں شامل ریاستوں کی تعداد صرف تیرہ تھی اور یہ سب ریاستیں دریائے مسسپی کے مشرق میں بحیرہ اوقیانوس کے ساحلوں کے ساتھ واقع تھیں۔ اس میں شمال کی صنعتی اور تجارتی ریاستیں بھی شامل تھیں اور غلاموں کی مشقت سے چلنے والی جنوب کی زرعی ریاستیں بھی۔ انیسویں صدی میں امریکا نے مغرب کے وسیع و عریض علاقوں کی طرف پھیلنا شروع کیا تو ناگزیر طور پر دریائے مسسپی سے واسطہ پڑا۔ کئی مقامات پر ریل کے پل باندھے گئے۔ اس تبدیلی سے مقامی تجارتی مفادات پر ضرب لگی۔
1856ء میں راک آئی لینڈ کے قریب ایک تجارتی کشتی ریل کے پل سے ٹکرا گئی۔ کشتی کے مالک نے ریل کمپنی پر مقدمہ دائر کر دیا۔ اس مقدمے میں بظاہر دریائی تجارت کے حامی فریق کا پلہ بھاری تھا لیکن ریل کمپنی کے وکیل کا نام ابراہم لنکن تھا۔ لنکن نے عدالت میں یہ دلچسپ سوال اٹھایا کہ دریا میں اوپر نیچے کشتیاں چلانا زیادہ اہم ہے یا دریا پار کرنے کا حق؟ جیوری کے بارہ میں سے نو ارکان نے لنکن کا نکتہ تسلیم کر لیا۔
اب اس تاریخی واقعے کو ایک استعارے کی صورت میں دیکھیے۔ دریا میں کشتی چلانا روزمرہ کا معمول ہے لیکن دریا پار کرنا دراصل ایک رکاوٹ عبور کر کے نئی زمینوں کی طرف پیش قدمی کرنا ہے۔ یہی سوال ہمیں آج پاکستان میں بطور ایک قوم درپیش ہے۔ سازش، جرم اور بحران کی دلدلی مثلث میں ایک دوسرے کی توہین کرتے رہنا ہے یا تاریخ کے جبر پر پل باندھ کر آگے بڑھنا ہے۔
ہم اپنے ملک پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں۔ عوام کے لئے بہتر معیار زندگی مانگتے ہیں۔ خوراک، لباس، علاج اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات میسر ہوں۔ تعلیم کی شرح اور معیار میں بہتری لائی جائے۔ عوام کو تحفظ اور انصاف مہیا ہو۔ یہ محض نعرے نہیں، ان خوابوں کو تعبیر مل سکتی ہے بشرطیکہ ہم حقائق کو میز پر رکھ کر اپنے وسائل، اپنی کمزوریوں اور اپنے امکانات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگا کر ایک لائحہ عمل طے کریں۔
دنیا کی دوسری قوموں کی طرح ہم پاکستانی بھی نہ تو فرشتے ہیں اور نہ شیطان۔ ہم عقل اور صلاحیت سے محروم نہیں ہیں۔ ہمارا رقبہ زیادہ نہیں، قریب نو لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ رقبے میں دنیا کی 33ویں بڑی قوم ہیں۔ ہماری آبادی کا موجودہ تخمینہ 23 کروڑ 30 لاکھ ہے۔ ہم نے حال ہی میں نائجیریا اور برازیل کو پچھاڑ کر پانچویں بڑی آبادی کا درجہ حاصل کیا ہے۔ رقبے اور آبادی میں یہ تناسب بذات خود ایک بڑا چیلنج ہے۔ شرح خواندگی سمیت انسانی ترقی کے بیشتر اشاریوں میں ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔
ہمارے قدرتی وسائل کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ تیل کی برآمد پر ہمارا بہت سا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ ہمارے دفاع پر بھی خاصے اخراجات ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنی معیشت کی بنیاد پیداوار کی بجائے امداد اور قرض پر رکھی۔ اب ہمیں قرض کی ادائی کے لئے بھی مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ چنانچہ قرض کا حجم بڑھتا جا رہا ہے اور ہم اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ ہمارے جی ڈی پی کا موجودہ اندازہ 260 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ گزشتہ دو برس میں ہمارے جی ڈی پی اور فی کس آمدنی میں واضح کمی آئی ہے۔
سمجھنا چاہیے کہ ہمارے خواب معیشت سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارے مسائل سیاسی ہیں۔ دریا میں کشتی چلانا معیشت ہے اور دریا پر پل باندھنا سیاست ہے۔ ہم اپنا سیاسی بندوبست مستحکم نہیں کر سکے چنانچہ ہماری معیشت پر پیوستہ مفادات رکھنے والے مختلف گروہوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ یہ مجرمانہ گٹھ جوڑ ہماری ریاست اور سماج کے ہر حصے میں سرایت کر گیا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کا وقار مجروح ہوا ہے، عدلیہ کی تکریم میں کمی آئی ہے۔ ریاست کی عملداری کمزور ہوئی ہے۔ عوام بے دست و پا ہو گئے ہیں۔ جس ملک کے عوام بے وقعت ہوں، وہاں کے رہنماؤں کی توقیر بھی باقی نہیں رہتی۔ ہمارے ملک میں اختیارات غصب کرنے والے گروہوں کو سیاسی عدم استحکام مرغوب ہے، ہمارے عوام کا مفاد آئین کی بالادستی اور شفاف سیاسی عمل میں ہے۔
خبر ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں عنقریب سڑکوں پر نکلنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس سے کیا حاصل ہو گا؟ ہمارا بحران حکومتیں گرانے اور بنانے سے آگے نکل گیا ہے۔ ہماری تاریخ میں دو روشن ترین دن آئے۔ 14 اگست 1973 جب ہم نے اپنا دستور منظور کیا۔ 14 مئی 2006 جب ہماری سیاسی قیادت نے میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ گزشتہ چودہ برس میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہ گیا ہے۔ کچھ نقصان ناقابل تلافی ہوتے ہیں لیکن سیاسی شعور ماتم کرنے کا نام نہیں، راستہ نکالنے اور پل باندھنے کا کام ہے۔ پاکستان کے دستور سے وابستگی رکھنے والی تمام سیاسی قوتوں کو خاموشی سے ایک سنجیدہ مکالمہ شروع کرنا چاہیے۔ کسی سیاسی گروہ کے تشخص پر انگلی اٹھائے بغیر زمینی حقائق کی روشنی میں قومی اہداف کا تعین کرنا چاہیے۔ اگر چاروں وفاقی اکائیوں کی نمائندہ سیاسی قیادت موجودہ سیاسی اور معاشی بحران کے بارے میں ایک وسیع تر بیانیے پر اتفاق کر لے تو اس مکالمے میں ریاست کے غیر منتخب حصوں کو شامل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ سیاسی مکالمے میں یہ صلاحیت ہمیشہ موجود رہتی ہے کہ کسی فریق کو نقصان پہنچائے بغیر سب کے لئے فائدے کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔
ہمیں داخلی اور خارجی سطحوں پر ایک مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔ یہ کسی کی شخصی انا یا ادارہ جاتی رعونت کا معاملہ نہیں، 23 کروڑ انسانوں کی بقا کا سوال ہے۔ ہمارے اردگرد دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ ہمیں بھی وقت کے دریا میں محدود مقاصد کی کاغذی کشتیاں چلانے کی بجائے دریا پر پل باندھنا چاہئے۔
بشکریہ ہم سب