پاکستان میں ہاکی کے چند بہترین لیفٹ ان میں سے ایک، اسد ملک، اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اور اولمپئن پیر کو لاہور میں ٹریفک کے حادثے میں انتقال کرگئے۔ ان کی عمر78 سال تھی۔
اسد ملک کے بیٹے ڈاکٹر نوید اسد نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ موٹرسائیکل پر سفر کر رہے تھے کہ کسی گاڑی نے ان کی موٹرسائیکل کو پیچھے سے ٹکر مار دی۔ اس حادثے میں اسد ملک کی بیٹی بھی زخمی ہوئی ہیں۔
اسد ملک کا بین الاقوامی کیریئر
اسد ملک کا شمار پاکستان کے چند بہترین لیفٹ ان میں ہوتا ہے جو حریف ٹیموں کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھے جاتے تھے۔ اپنے ونگرز کے ساتھ ان کی ہم آہنگی دیکھنے والوں کو بہترین کھیل فراہم کرتی تھی۔ ان کے پاسز ساتھی کھلاڑیوں کو گول کرنے کے خوبصورت مواقع فراہم کرتے تھے۔
اسد ملک نے نے اپنے بین الاقوامی کریئر کا آغاز دسمبر 1961 میں ملائیشیا کے خلاف کھیلتے ہوئے کیا تھا۔ 1961 سے 1972 تک انھوں نے 121 بین الاقوامی میچز میں 41 گول کیے۔
جب پاکستان نے 1971 میں اولین ہاکی ورلڈ کپ جیتا تو اس وقت وہ ٹیم کے نائب کپتان تھے۔
اسد ملک تین ایشین گیمز کھیلے جن میں پاکستان نے 1962 اور 1970 میں گولڈ میڈل جیتا جبکہ 1966 میں اس نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ ان تین مقابلوں میں اسد ملک کے آٹھ گول شامل تھے۔
اسد ملک نے تین اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ سنہ 1964 کے ٹوکیو اولمپکس میں پاکستانی ٹیم نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔ ان مقابلوں میں اسد ملک نے دو گول کیے۔
وہ 1968 میں میکسیکو اولمپکس جیتنے والی پاکستانی ٹیم کے بھی نائب کپتان تھے۔ ان مقابلوں میں ان کی کارکردگی قابل ذکر رہی تھی۔ انھوں نے پانچ گول کیے جو رشید جونیئر کے سات اور تنویر ڈار کے چھ گول کے بعد تیسرے نمبر پر تھے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف فائنل میچ میں پاکستان انہی کے ریورس فلک گول کے ذریعے اولمپک چیمپیئن بنا تھا۔
افسوسناک انداز میں کیریئر کا اختتام
14 فروری 1966 کو جب جنرل موسٰی نے کراچی کے ہاکی کلب آف پاکستان اسٹیڈیم کا افتتاح کیا تو اس موقع پر کھیلے گئے میچ میں اسد ملک نے ہی کراچی کمبائنڈ کی طرف سے پاکستان ریسٹ الیون کے خلاف فیصلہ کن گول کیا تھا۔
لیکن اسد ملک کے بین الاقوامی کیریئر کا اختتام بڑے افسوسناک انداز میں ہوا۔
سنہ 1972 کے میونخ اولمپکس میں وہ پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان تھے۔ مغربی جرمنی کے خلاف فائنل میں پاکستانی ٹیم کو امپائرنگ سے بڑی شکایت رہی اور فائنل ہارنے کے بعد پاکستانی کھلاڑیوں نے میڈلز لیتے وقت نامناسب انداز اختیار کیا جس پر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے اسد ملک سمیت دیگر 12 کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی عائد کر دی۔
اسد ملک اس کے بعد دوبارہ پاکستان کی طرف سے نہیں کھیلے۔
اسد ملک ایشیائی اور ورلڈ الیون میں بھی شامل رہے۔ وہ پاکستان اے ہاکی ٹیم کے کوچ اور انڈر 19 ٹیم کے منیجر بھی رہے۔