یورپی یونین میں فیک نیوز کے حوالے سے کام کرنے والے تحقیقی ادارے ’ای یو ڈس انفو لیب‘ کی جانب سے جاری کی گئی تفصیلی رپورٹ میں ان تنظیموں کی نشاندہی کی گئی ہے جو ایک منظم طریقے سے ہر سال اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اجلاس کے دوران پاکستان مخالف مہم چلاتی ہیں۔
تحقیقی رپورٹ کے مطابق ان تنظیموں کے تانے بانے انڈیا کے ایک غیر معروف کاروباری ادارے سری واستوا گروپ سے جا ملتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس پورے نیٹ ورک، جس میں غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز)، ان سے منسلک شخصیات اور تمام فیک نیوز ویب سائٹس شامل ہیں، کا انڈین حکومت سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ اس پورے نیٹ ورک کا مقصد انڈین بیانیے کو فروخ دینا اور بالخصوص پاکستان پر تنقید کرنا ہے۔
ای یو ڈس انفو لیب کے ایگزیکیٹو ایلیکزانڈر الافیلیپ نے بی بی سی کو بتایا ’اس پورے نیٹ ورک کی سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ جعلی این جی اوز اور جعلی ویب سائٹس کی مدد سے وہ ایک ایسا بیانیہ پیش کرتے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اس مؤقف کو بڑے پیمانے پر عام لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس سے ’ڈس انفارمیشن‘ ثابت ہوتی ہے۔‘
واضح رہے کہ نومبر میں ’ای یو ڈس انفو لیب‘ نے انکشاف کیا تھا کہ دنیا کے 65 سے زائد ممالک میں 260 سے زائد ایسی فیک نیوز ویب سائٹس ہیں جو انڈیا کے مفاد میں یورپی یونین اور اقوام متحدہ پر اثر انداز ہونے کے لیے بنائی گئی ہیں جو بارہا پاکستان پر تنقید کرتی پائی گئی ہیں۔
پاکستان مخالف تنظیمیں کونسی ہیں؟
ای یو ڈس انفو لیب کی تحقیق کے مطابق یورپین آرگنائزیشن فار پاکستانی مائیناریٹی (ای او پی ایم) نے جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے باہر پاکستان مخالف احتجاج کا انعقاد کیا۔
اگلے سال جنیوا کی سڑکوں پر ’فری بلوچستان‘ کے پیغامات سمیت کئی ایسے پوسٹرز نظر آئے جن میں پاکستان کی اقلیتوں کی حمایت کے لیے پیغامات درج تھے اور ان پر ای او پی ایم کا نام درج تھا۔
ان پوسٹرز کی اشاعت کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے سوئٹزرلینڈ کے سفیر کو بلا کر باضابطہ احتجاج بھی کیا تھا اور مطالبہ کیا کہ ان پوسٹرز کو ہٹایا جائے۔
ای یو ڈس انفو لیب کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اس سال بھی جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر بلوچستان کے حوالے سے مظاہرے کیے گئے اور آن لائن مہم چلائی گئی اور ان تمام مظاہروں کی بھرپور تشہیر اسی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے ایک میڈیا ادارے ’ٹائمز آف جنیوا‘ نے کی۔
تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ ’وائس آف پاکستانی مائناریٹی‘ بھی اسی نیٹ ورک سے منسلک تنظیم ہے جو سوشل میڈیا اور جنیوا میں کافی فعال نظر آتی ہے۔
ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ای او پی ایم کی ہر ٹویٹ اور مہم کو ری ٹویٹ کرتے ہیں اور اکثر ان افراد کو مخاطب کرتے ہیں جو اسلام دشمن خیالات رکھنے کے لیے مشہور ہیں۔
نیٹ ورک کی کھوج کیسے لگی؟
اکتوبر میں یورپی یونین کے اپنے تحقیقی ادارے ’ای یو بمقابلہ ڈس انفو‘ نے انکشاف کیا کہ یورپی پارلیمان کے حوالے سے خبریں شائع کرنے والا ’ای پی ٹوڈے‘ نامی جریدہ، رشیا ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کی خبریں چھاپ رہا ہے۔
اس پر مزید کام کرتے ہوئے ای یو ڈس انفو لیب نے تحقیق کی اور بتایا کہ اس جریدے کا انتظام انڈین سٹیک ہولڈرز کے ہاتھ میں ہے جن کے تعلقات ’سری واستوا‘ نامی ایک بڑے نیٹ ورک کے تحت کام کرنے والی این جی اوز، تھنک ٹینکس اور ان سے منسلک افراد سے ہے۔
تحقیق کے مطابق اس نیٹ ورک میں 250 سے زائد فیک ویب سائٹس سامنے آئیں جو پرانے اور غیر فعال یا جعلی نام والے اخبارات سے انڈین بیانیے کی حمایت والی خبریں شائع کر رہے تھے۔
انھی ویب سائٹس پر پاکستان مخالف مواد شائع کیا جاتا اور فیک این جی اوز کی جانب سے شروع کی گئی مختلف مہم کی خبریں ہوتیں تھیں۔
ان فیک ویب سائٹس میں سب سے زیادہ معروف ٹائمز آف جنیوا تھی جس میں خبروں کے علاوہ کئی ویڈیو انٹرویو تھے جن کا مقصد اقوام متحدہ کے عہدے داران کی توجہ مبذول کرنا تھا۔
لیکن 13 نومبر کو ای یو ڈس انفو لیب کی جانب سے کیے گئے انکشاف کے چھ دن بعد ٹائمز آف جنیوا نے خبروں کی اشاعت کا سلسلہ بند کر دیا۔
بی بی سی نے ٹائمز آف جنیوا کی ویب سائٹ پر دیے گئے نمبر پر رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی لیکن جواب نہ مل سکا۔ اس ادارے کا یوٹیوب چینل بند کر دیا گیا اور ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی معطل کر دیا گیا ہے۔
ڈس انفارمیشن کا جال
ای یو ڈس انفو لیب کے ایلیکزانڈر الافیلیپ کہتے ہیں کہ اس نیٹ ورک کی تشکیل کا مقصد بین الاقوامی اداروں اور ان میں کام کرنے والے عہدے داران کی توجہ حاصل کرنا تھا۔
’ہم سمجھتے ہیں کہ اس نیٹ ورک کا اصل مقصد جنیوا اور برسلز میں پالیسی بنانے والے عہدے داران تک بغیر اپنی شناخت ظاہر کیے پہنچ حاصل کرنا تھا تاکہ ان کے خیالات پر اثر انداز ہوا جائے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔‘
ایلیکزانڈر الافیلیپ نے یہ بھی کہا ’یورپی پارلیمان کے ممبران نے براہ راست اس نیٹ ورک سے منسلک افراد اور ویب سائٹس سے رابطہ کیا اور ان کے لیے مضامین لکھے، ان کی جانب سے بیرون ملک دوروں کی دعوتیں قبول کیں اور یورپی پارلیمان میں اس نیٹ ورک کے بیانیے کو پیش کیا۔‘
اسی حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے حوالے سے کام کرنے والے محقق کارل ملر نے بی بی سی کو بتایا کہ ماضی میں ایسے تجربات دیکھنے میں آئے ہیں لیکن یہ نیٹ ورک اس لیے مختلف ہے کیوں کہ اس میں انھوں نے میڈیا پر اثرانداز ہونے کے بجائے خود کو میڈیا بنا کر پیش کیا۔
فیک نیوز پر کام کرنے والے ایک اور محقق ریمنڈ سیراٹو کہتے ہیں کہ اس نیٹ ورک کی ایک انوکھی بات یہ تھے کہ انھوں نے ان فیک نیوز ویب سائٹس کی مدد سے یورپی پارلیمان کے عہدے داران کو یہ باور کرایا کہ ان کے مقاصد حقیقی ہیں اور انھوں نے اس حقیقت کو جانے بغیر اس بیانیے کو آگے بڑھایا۔‘
پاکستان یا انڈیا، بیانیہ کس کا بھاری؟
پاکستان اور انڈیا کے مابین بیانیے کی جنگ عملی زندگی اور انٹرنیٹ دونوں پر ہی جاری ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور متعدد بار ’ففتھ جنیریشن وار‘ کا تذکرہ کرتے ہیں۔
حال ہی میں ٹوئٹر کی جانب سے پاکستان کی حمایت میں ٹویٹ کرنے والے کئی اکاؤنٹس کی معطلی کے بعد انھوں نے لکھا کہ پاکستانی اکاؤنٹ کشمیر کی حمایت میں ٹویٹ کرنے کے سبب بند کیے جا رہے ہیں اور ان بندشوں کے خلاف قدم اٹھایا جائے گا۔
اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے وہ ڈھکے چھپے الفاظ میں ان عناصر کا ذکر کرتے ہیں جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک دشمن ہیں اور پیسے لے کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرے ہیں۔
اس سے قبل انگلینڈ میں کھیلے گئے کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران انڈیا اور سری لنکا کے درمیان کھیلے گئے میچ میں سٹیڈیم کے اوپر اڑنے والے جہاز نے پوسٹر لہرائے جس پر ’جسٹس فار کشمیر‘ یعنی کشمیر کے لیے انصاف اور ’انڈیا کشمیر کو آزاد کرو‘ کہ نعرے درج تھے۔
ڈس انفارمیشن کا جو طریقہ کار اس نیٹ ورک نے اختیار کیا ہے، حیران کن طور پر اسی طرز عمل کو استعمال کرنے والی کچھ ویب سائٹس کا انکشاف ایک پاکستانی بلاگ کیفے پیالہ نے دس سال قبل کیا تھا۔
سنہ 2012 سے غیر فعال اس بلاگ نے سنہ 2010 میں ایسی نیوز ویب سائٹس کا انکشاف کیا تھا جن کے نام ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے اور ان میں شائع ہونے والی خبروں کا جھکاؤ پاکستان کی جانب تھا اور وہ شدید طور پر انڈیا مخالف تھیں۔
کیفے پیالہ نے اپنے بلاگ میں تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ’ان تمام ویب سائٹس کی توجہ کا محور انڈیا مخالف خبروں کی اشاعت تھا‘ اور سوال اٹھایا تھا کہ پاکستان میں کونسا ایسا ادارہ ہے جس کے پاس اتنے وسائل ہوں جو اس طرح سے ویب سائٹس کا جال پھیلا سکے۔
اس نیٹ ورک کو چلانے والے سری واستوا گروپ کے پیچھے کون ہے؟
نیوز ویب سائٹس اور این جی اوز کے دفاتر کے دیے گئے نمبرز اور ان کی ویب سرورز سے معلوم ہوا کہ سری واستوا گروپ اس نیٹ ورک کی سربراہی کر رہا ہے۔
لیکن جب انڈیا کے اس کاروباری گروپ کے درج پتے پر رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہاں موجود سکیورٹی گارڈ نے بی بی سی ہندی کی کرتی دوبے کو بتایا کہ اس عمارت میں کوئی دفتر نہیں ہے۔
اسی علاقے میں چالیس سال سے رہنے والے ایک شخص نے کہا کہ انھوں نے اس مکان میں کسی کو نہیں دیکھا۔
واضح رہے کہ سری واستوا گروپ کے ایک ذیلی ادارے انٹرنیشنل انسٹٹیوٹ فار نان الائینڈ سٹیڈیز (آئی آئی این ایس) نے یورپی پارلیمان کے چند عہدے داران کا اکتوبر میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دورہ کرایا تھا۔ آئی آئی این ایس کا پتہ وہی عمارت ہے جہاں سری واستوا گروپ کا دفتر ہے۔
جب انڈیا میڈیا نے نومبر میں ای یو ڈس انفو لیب کی نومبر میں خبر جاری کی تو سری واستوا گروپ کے سربراہ اور نیو دہلی ٹائمز کے ایڈیٹر انکت سری واستوا نے ٹویٹ میں کہا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی ان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ماڈی شرما کا اس نیٹ ورک میں کیا کردار ہے؟
ای یو ڈس انفو لیب کی تحقیق میں ایک نام جو بار بار سامنے آیا ہے وہ ہے ماڈی شرما۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے لیے یورپی پارلیمان کو دعوت دینے کا خط ماڈی شرما نے اپنی قائم کی ہوئی تنظیم ’ویمن اکنامک اینڈ سوشل تھنک ٹینک‘ (ویسٹ) کے توسط سے لکھا تھا اور کہا کہ ان ممبران کے دورے کا خرچہ آئی آئی این ایس اٹھائے گا۔
رپورٹ سے یہ بھی سامنے آیا کہ ویسٹ میں کام کرنے والے افراد کا تعلق ای پی ٹوڈے اور ٹائمز آف جنیوا سے بھی ہے۔
اس کے علاوہ دسمبر 2018 میں ماڈی شرما نے یورپی پارلیمان کے اس وقت کے سربراہ انٹونیو تاجانی کو خط لکھا تھا کہ پاکستان کو تجارت کے لیے دی گئی خصوصی رعایات واپس لی جائیں۔
ماڈی شرما مادھو شرما کے نام سے بھی معروف ہیں اور وہ یورپین اکنامک اینڈ سوشل کمیٹی (ای ای ایس سی) میں برطانوی ممبر ہیں۔
وہ خود کو ایک کامیاب کاروباری شخصیت کے طور پر پیش کرتی ہیں لیکن برطانیہ میں ان کی صرف ایک کمپنی، ماڈی لمیٹڈ رجسٹرڈ ہے اور وہ بھی غیر فعال ہے۔
انکت سری واستوا نے ماڈی شرما کی کتاب ’نو ایکسکیوز‘ کی ویب سائٹ پر ان کی تعریف میں بھی لکھا ہے کہ وہ انسانی حقوق پر کتنا اہم کام کرتی ہیں اور’انڈیا کے لیے آپ کی خدمات کو سلام پیش کرتا ہوں۔‘
جب بی بی سی نے ای ای ایس سی سے اس تعلق اور مفادات کے ٹکراؤ کے حوالے سے سوال کیا تو ان کے ترجمان نے کہا کہ ان کی تنظیم کے رکن خود مختار ہیں۔
’ای ای ایس سی کسی حکومت کے لیے بیانیہ بڑھانے کے لیے کام نہیں کرتے اور وہ مکمل طور پر خود مختار ہیں۔‘
بی بی سی نے متعدد بار ماڈی شرما اور انکت سری واستوا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن جواب نہیں دیا گیا۔
اس نیٹ ورک کے اثر و رسوخ کی کتنی پہنچ ہے؟
کارل ملر کہتے ہیں کہ یہ نیٹ ورک واضح طور پر بتاتا ہے کہ ڈس انفارمیشن کا جال کتنا مہلک ہو سکتا ہے۔
’یہ ہمارے سامنے ہے کہ ایسے نیٹ ورک کا اثر آن لائن اور آف لائن دونوں جگہ پر ہے۔ انھوں نے انٹرنیٹ پر نقلی شناخت ظاہر کی مگر ان کے این جی اوز سے بھی رابطے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں پروپگینڈا اس سے بھی زیادہ خطرناک شکل اختیار کر سکتا ہے۔
’ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ریاستیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وسائل مختص کر رہے ہیں اور ان کو علم ہے کہ ڈس انفارمیشن کے جال کو پھیلانا کتنا آسان ہے اور اس کو پکڑنا کتنا مشکل۔ آج کے دور میں جہاں ہر طرف بیانیے کے پھیلاؤ کی جنگ ہے، وہاں ایسے نیٹ ورک بہت کامیاب ہیں اور انھیں روکنا اتنی ہی مشکل۔‘