سپریم کورٹ کا فیصلہ اور احترام آدمیت
نیب یعنی ” قومی احتساب بیورو ” میرا موضوع نہیں۔ سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں یاد دلایا کہ یہ ادارہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنا جو اس وقت سے ” سیاسی انجینئرنگ” کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ خیال آتا ہے کہ جب سیاستدانوں نے کئی مہینوں کی محنت اور مشاورت سے اٹھارھویں آئینی ترمیم کے ذریعے آمر پرویز مشرف کے تمام قوانین، ضابطوں اور آئینی ترامیم کو دستور سے خارج کر دیا تو ” نیب” کو کس مصلحت کے تحت برقرار رکھا گیا۔ اب اس ادارے کو،جو بے لاگ احتساب کے نام پر قائم ہوا تھا، اکیس سال ہو گئے ہیں۔ جنرل مشرف کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ(ن) بر سر اقتدار آئی۔ اب تحریک انصاف کو بھی دو سال ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ ادارہ آج بھی بدستور قائم ہے اور ہمیشہ کی طرح وہی کچھ کر رہا ہے جو برسوں سے کرتا چلا آیا ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا، میرا موضوع نیب یا اس کا غلط استعمال نہیں۔ میرے پیش نظر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے دو معزز جج صاحبان کا فیصلہ ہے جو دو سیاستدانوں (خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق) کی ضمانت کے تفصیلی فیصلے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ میری دلچسپی کا محور وہ ریمارکس یا آبزرویشنز ہیں جو مسٹر جسٹس مقبول باقر اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل نے دیں۔معزز جج صاحبان کا کہنا ہے کہ ” مہذب معاشروں میں سزا کا عمل کسی شخص کو مجرم قرار دینے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ گرفتاری کا اختیار کسی پر ظلم و زیادتی، اور ہراسانی کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ آئین میں انسانی احترام کا حق غیر مشروط ہے جو کسی بھی حالت میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔سزا کے بغیر قید شخصی توہین ہے۔ انسانی وقار کا احترام سب سے ذیادہ اہم ہوتا ہے۔ شخصی تضحیک خاندان بھر کے لئے اذیت اور رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ فرد اور معاشرے کے حقوق میں توازن رکھنا بہت ضروری ہے۔ بنیادی حقوق یقینی بنانے کے لئے کسی ادارے کی زیادتی نظر انداز نہ کریں۔ ریاست کو شخصی آزادیاں سلب کرنے کی اجازت نہ دیں۔۔۔”۔ستاسی (87) صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں، جسے تاریخی قرار دیا جا رہا ہے، معزز جج صاحبان نے اور بھی بہت کچھ کہا ہے جو نہ صرف حکومت، تمام سیاسی جماعتوں، معاشرے کے تمام طبقوں اور خاص طور پر میڈیا اور اساتذہ کے لئے قابل توجہ ہے۔
ہم اللہ کے فضل سے ایک اسلامی ریاست کے شہری ہیں۔ قرآن کریم نے انسانی فضیلت اور احترام آدمیت پر بہت زور دیا ہے۔ انسان کو اگر اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے تو اس کا تقاضا ہے کہ انسان کے” شرف” اور اس کی عزت کو ہمیشہ اولیت دی جائے۔ ہمارے نبی، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں بھی انسان اور انسانیت کی تکریم کو بڑا درجہ حاصل ہے۔ حضور اقدس کو محسن انسانیت کہا جاتا ہے کیونکہ آپ نے رنگ، نسل، قبیلے، ذات اور اس طرح کے تفرقے کو مٹا کر انسانوں کو مساوات سے آشنا کیا۔ ہمارا دین، سراپا انسانیت ہے جو ظلم وزیادتی کی ہر شکل میں نفی کرتا ہے اور احترام آدمیت کو یقینی بناتا ہے۔ انصاف کا جو تصور اسلام نے دیا اور جو عملی طور پر قائم بھی ہوا، اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا مشہور واقعہ ہے جب آپ نے مصر کے گورنر عمرو بن عاصؓ کو، ان کے بیٹے کی زیادتی پر سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ” تم نے کیوں ان لوگوں کو غلام بنا لیا ہے۔ ان کی ماوں نے تو انہیں آزاد جنا تھا”۔اسلامی تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انسان کی تکریم کا یہ تصور ہمارے ہاں بہت کمزور ہو چکا ہے۔ یہ صرف نیب ہی نہیں جو کسی کو عدالتی سزا سے پہلے ہی جیل میں ڈال دیتا اور پھر مہینوں بلکہ سالوں اسے آزادی سے محروم کر دیتا ہے۔ اس طرح کے شکنجے قدم قدم پر ہیں۔ ایسی باتوں کو ہمارے ہاں معمولات کا درجہ حاصل ہو چکا ہے اور معاشرہ ان قدروں سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے جن کا ذکر عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نے کیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ درس گاہوں میں خواہ وہ کسی بھی سطح کی ہوں، اخلاقیات کے ان بنیادی اصولوں اور انسانیت کی قدروں کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانا چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ جب ایک طالب علم سکول سطح کی تعلیم سے فارغ ہو تو وہ جانتا ہو کہ میرے کچھ فرائض ہیں۔ اور یہ فرائض بجا لانے کے بعد ہی مجھے وہ حقوق مل سکتے ہیں جن کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔جبر یا ذیادتی صرف حکومت یا ریاست کے کارندوں کی طرف ہی سے نہیں ہوتی۔ معاشرے کے دیگر زور آور طبقات بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ میڈیا ہی کو لے لیں۔ میں سوشل میڈیا کی بات نہیں کر رہی جو بڑی حد تک مادر پدر آزاد ہو چکا ہے۔ رسمی میڈیا کی مثال لے لیجیے، جو ایک تحریری ضابطہ اخلاق رکھتا ہے۔ لیکن کسی کی پگڑی اچھالتے وقت، کسی کی کردار کشی کرتے وقت، کسی پر الزام عائد کرتے وقت اس بات کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا کہ اس خبر کی پوری طرح چھان بین کر لی جائے۔ بعد میں خبر کے غلط ہونے کی صورت میں (جو اکثر و بیشتر ہوتی ہے) اسکی کمزور سی وضاحت یا تردید کر دینے سے اس شخص کی عزت نفس بحال نہیں ہو جاتی۔ جسے جھوٹے الزام یا بہتان کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر تشریف فرما، بڑے بڑے جید صحافی منہ بھر کے اتنا بڑا الزام عائد کر دیتے ہیں کہ وہ زمین و آسمان میں سمائی نہیں دیتا۔
عزت نفس، انسانی وقار، احترام آدمیت اور شخصی آزادی کی جن روشن قدروں کی طرف پاکستان کی سپریم کورٹ نے توجہ دلائی ہے، انہیں یقینی بنانے کے لئے سب سے موثر اقدام بھی عدالتوں ہی کو کرنا ہو گا۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت عدلیہ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی باقاعدہ درخواست یا پٹیشن وغیرہ کے بغیر کسی بھی بے قاعدگی کا نوٹس لے سکتی ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ انہی حدوں سے تجاوز کرنے اور شہری کو حاصل آئینی حقوق پامال کرنے والے کرداروں کا کڑا محاسبہ نہیں ہوتا۔ اسلام آباد جیسے شہر میں کتنے ہی واقعات ایسے ہوئے جن کا سخت نوٹس لیا جانا چاہیے تھا لیکن نہیں لیا گیا۔ دنیا میں کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے، جھوٹا الزام لگانے یا کسی بھی طرح کی توہین کرنے کے بارے میں بڑے سخت ضابطے موجود ہیں۔ عدالتیں ان ضابطوں کو یقینی بناتی ہیں۔ الزام لگانے والا جواب دہ ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنے الزام کے حق میں ٹھوس شواہد پیش نہ کر سکے تو اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں اس معاملے میں قانون موجود ہے۔ متاثرہ و لوگ فریاد لے کر عدالتوں میں جاتے ہیں۔ لیکن سال ہا سال ان مقدموں کا فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ الزام لگانے والا عدالتی بلاوے پر کان نہیں دھرتا۔ ہم نے تو آج تک نہیں سنا کہ غلط اور جھوٹا الزام عائد کرنے یا بہتان باندھنے پر کسی کو کوئی سزا ملی ہو۔ کیا ہی اچھا ہو “احترام آدمیت” کے حوالے سے الگ عدالتیں قائم کر دی جائیں جو کیچڑ اچھالنے والوں کو دنوں یا ہفتوں میں سزا سنا دیں۔ ایسا ہو جائے تو معاشرہ بڑی حد تک اس بیماری سے پاک ہو سکتا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے نکات، معاشرے، حکومت، ریاست، سیاستدانوں اور میڈیا کے لئے غور و حوض کا بڑا سامان فراہم کرتے ہیں۔ انسان کی عزت محفوظ نہ رہے، اس کا احترام سب سے ارزاں چیز بنا دی جائے، اسکی شخصی آزادی کی کوئی اہمیت نہ رہے تو پھر سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ جسکی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون لاگو ہو جاتا ہے۔ اور ” عزت و وقار” کی وقعت دھول مٹی سے بھی کم ہو جاتی ہے۔ احترام آدمیت ہمارے دین کا بھی اولیں تقاضا ہے اور دنیا بھر کی مہذب اقوام کے طرز عمل کا بھی۔