پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی ہراس کتنا سنگین مسئلہ ہے؟
’انھوں نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ رشتہ قائم کرنا چاہتا ہوں، ایسا رشتہ جس میں کوئی حد مقرر نہ ہو، میں نے انھیں کہا کہ سر آپ میرے استاد ہیں ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں، انھوں نے کہا کہ آپ مجھے استاد نہ مانیں کیونکہ میں آپ کو ایک طالب علم نہیں سمجھتا۔‘
’میں نے انھیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر وہ کہنے لگے کہ وہ میرے ساتھ ایک جسمانی رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ میرا فِگر رومانوی اور پُرکشش ہے۔‘
میں نے ایک مرتبہ پھر انھیں کوئی جواب نہیں دیا اور چند روز بعد مجھے یہ کچھ پڑھنے کو ملا: ’کیا آپ میرے ساتھ ہوٹل میں تین راتیں گزار سکتی ہیں؟‘ ’کیا آپ میرے ساتھ سو سکتی ہیں؟‘ ’کیا آپ میرے ساتھ بغیر کسی حد کے رشتہ قائم کر سکتی ہیں؟‘
یہ الفاظ صنوبر (فرضی نام) نامی ایک طالبہ کے ہیں جنھوں نے سنہ 2019 میں اپنے ساتھ پیش آنے والے مبینہ جنسی ہراسانی کے واقعے کی تفصیلات بی بی سی کے ساتھ شیئر کی ہیں۔
گذشتہ ماہ سوشل میڈیا پر متعدد طلبہ نے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات پر آواز اٹھائی۔
اس کی ابتدا لاہور گرامر سکول (ایل جی ایس) سے تعلق رکھنے والی طالبات نے اپنی شکایات سے کی، جس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے دیگر تعلیمی اداروں کی طالبات نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات کی نشاندہی کرنا شروع کر دی۔
ان الزامات کو منظر عام پر آئے اب ایک ماہ گزر چکا ہے اور جہاں کچھ سکولوں نے سامنے آنے والے الزامات کی بنیاد پر کئی اساتذہ کو برطرف کیا، وہیں پولیس اور حکومت کو اس حوالے سے کوئی تحریری شکایت موصول نہیں ہوئی اور وہ یہ سوال پوچھتے دکھائی دیے کہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے متاثرین آخر گئے تو گئے کہاں؟
آمنہ (فرضی نام) نامی ایک طالبہ نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی اس مہم نے ہی انھیں یہ ہمت دی کہ وہ بی بی سی سے بات کر سکیں تاہم انھوں نے اس حوالے سے دوسری طالبات کے برعکس سوشل میڈیا پر آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی کسی قانونی فورم سے رابطہ کیا ہے۔
آمنہ نے بتایا کہ ’میرے گھر والوں کو اور بالخصوص میرے والد کو لگتا ہے کہ استاد کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔‘
استاد کے طالبات کو ’قابلِ اعتراض پیغامات‘
لاہور کے ہی ایک نجی تعلیمی ادارے سے منسلک ایک درجن سے زائد طالبات نے اپنے استاد پر سوشل میڈیا کے ذریعے جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کیے، جنھیں مذکورہ استاد کی جانب سے مسترد کیا گیا ہے۔
بی بی سی نے ان میں سے چار طالبات سے گفتگو کی، جن کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مبینہ جنسی ہراسانی کی نوعیت یقیناً ہر معاملے میں مختلف ہے مگر طالبات کے بیانات کے بہت سے پہلو ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔
صنوبر کو مذکورہ استاد سے یہ پیغامات ایک طویل عرصے تک موصول ہوتے رہے اور ان کے بقول وہ انھیں نظر انداز بھی کرتی رہیں۔
جبکہ دیگر دو طالبات کی فراہم کردہ معلومات سے یہ پتا چلا کہ مذکورہ استاد کی جانب سے مبینہ طور پر کالج میں جمع کرائے گئے فارمز سے ہی ان لڑکیوں کے فون نمبر حاصل کیے گئے تھے۔
ماہرہ (فرضی نام) نے موصول ہونے والے پیغامات میں سے ایک کا حوالہ دیا اور کہا ’وہ کہتے تھے باقی سب میری بہنوں کی طرح ہیں پر تم میرے لیے خاص ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ کلاس میں یہی استاد ’غیر اخلاقی اور فحش‘ لطیفے سناتے تھے۔ اِن طالبات سے بات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ استاد اپنی ازدواجی زندگی کے مسائل کا تذکرہ بھی اپنی سٹوڈنٹس سے کرتے تھے۔
آمنہ نے بتایا کہ مذکورہ استاد کے اٹینڈنٹ نے بھی انھیں فون پر نازیبا پیغامات بھیجے اور انتظامیہ کو شکایت لگانے پر انھیں کہا گیا کہ ’آپ نے فیس بک پر اپنی تصویر کیوں لگائی ہوئی ہے؟ وہ اسی کو دیکھ کر آپ کو یہ پیغامات بھیج رہے ہیں۔‘
یہ بتانا ضروری ہے کہ مبینہ ہراسانی کے واقعات تب پیش آئے جب یہ طالبات لگ بھگ 15 یا 16 سال عمر کی تھیں۔ ان میں سے کئی نے اس وقت صرف چند قریبی دوستوں کو اس کے متعلق بتانا مناسب سمجھا۔
جن طالبات سے بی بی سی سے بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ دوستوں سے یہ فحش پیغامات شیئر کرنے کے بعد ہی پتا لگا کہ وہ استاد اسی نوعیت کے پیغامات اور لڑکیوں کو بھی بھیجتے تھے۔
خود پر لگے ہراسانی کے متعدد الزامات پر مذکورہ استاد نے کہا کہ یہ سب انھیں بدنام کرنے کی ایک ’سازش‘ ہے اور انھوں نے اس سب کو ایک ’پروپیگنڈا‘ قرار دیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ان طالبات کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ واقعات جس نجی تعلیمی ادارے میں پیش آئے ان کے سربراہ سے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔
یہ معاملہ بھی لاہور گرامر سکول میں سامنے آنے والی شکایات کی طرح قانونی اعتبار سے تو آگے نہ بڑھ سکا مگر ان شکایات نے معاشرے میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی، ہراسانی سے متعلق قانون کے نہ ہونے اور انتظامیہ کی اس معاملے میں عدم دلچسپی پر بےتحاشہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔
کون سے عوامل متاثرین کو سامنے آنے سے روکتے ہیں؟
ہاورڈ بزنس ریویو کی سنہ 2016 کی ایک تحقیق کے مطابق جنسی ہراسانی کے متاثرین ان معاملات کو انتقامی کارروائی کے خوف سے رپورٹ سے نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ کے مطابق معاشرے میں رائج پدرشاہی نظام بھی ان متاثرین کو سامنے آنے سے روکتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ جیسے بین الاقوامی اداروں نے بھی پاکستان میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی نشاندہی بارہا اپنی رپورٹس میں کی ہے۔
بی بی سی سے بات کرنے والی بیشتر لڑکیوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں ایسا کوئی شخص نہیں جس سے وہ اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتی اور ہراسانی کے بارے میں کھُل کر بات کر سکیں۔ جبکہ سبھی نے والدین کو بتانے کے سوال پر نفی میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’والدین نہیں سمجھیں گے۔‘
ماہرہ نے اپنے گھر والوں کو اس حوالے سے اس لیے نہیں بتایا کہ وہ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ ’ویسے تو میں نے کچھ نہیں کیا تھا لیکن وہ یہ ضرور پوچھتے کہ کیا تمہاری طرف سے تو کوئی سگنل نہیں دیا گیا تھا؟‘
ان طالبات کے مطابق والدین کے سامنے ہراسانی تو دور کی بات اپنی جسمانی صحت کے بارے میں بھی سوچ سمجھ کر بات کرنی پڑتی ہے۔ انھیں یہ خوف بھی تھا کہ ایسے واقعات کے بارے میں بتانے کے بعد والدین انھیں پڑھائی چھڑوا کر گھر ہی نہ بٹھا دیں گے۔
فیملی کاؤنسلر اور ماہرِ ذہنی امراض مریم سہیل تقریباً دس سال سے ریپ اور ہراسانی کے شکار افراد اور ان کے والدین کی تھیراپی کر رہی ہیں۔
والدین کے بارے میں انھوں نے بتایا: ’یہ باتیں کچھ لوگوں کو کتابی لگتی ہیں۔ لیکن اگر آپ کے بچے کسی کے بارے میں بتاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں تو یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنے بچوں کو اعتماد میں لیں۔ دوسری جانب اگر وہ کھل کر اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی بات ماننا آپ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔‘
مریم سہیل نے کہا کہ بچوں کو اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی بیان کرنے نہیں آتی اس لیے وہ شرمندہ ہو کر اسے اپنی غلطی سمجھ لیتے ہیں اور کسی سے بھی بات نہیں کرتے۔ ان کے مطابق تھیراپی کے دوران اکثر بڑی عمر کے افراد بھی اسی کشمکش سے دو چار ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’بچوں کے معاملے میں والدین کا کام ہے کہ وہ بچوں کے اچانک سے خاموش رہنے کو یا ہر وقت کمرے میں یا گھر میں بند رہنے کا کتنی جلدی اور کیا مطلب نکالتے ہیں۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ اگر متاثرین کو سازگار ماحول نہ مل پائے تو انھیں کیا کرنا چاہیے، مریم سہیل کا کہنا تھا کہ ’اکثر، بلکہ زیادہ تر ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اپنے آس پاس ایک ایسا انسان ضرور ڈھونڈیں جس کو آپ اپنی تمام تر باتیں بلاجھجک بتا سکتے ہوں۔ یہ شخص کوئی دوست بھی ہو سکتا ہے یا رشتہ دار۔ سکول میں ہو سکتا ہے یا کالج یا آپ کے کام کی جگہ پر، جو آپ کو سمجھ سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے والدین میں ان معاملات پر خود بچوں سے بات کرنے کی سمجھ بوجھ کم ہوتی ہے، اسی لیے بچوں کو گھر سے باہر مدد تلاش کرنے پڑتی ہے۔
’یہ ایک سازش ہے‘
سوشل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹس جن میں طالبات نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ہراسانی کے واقعات کا ذکر کیا اس کے نیچے درج کردہ کمنٹس میں چند ایسے بھی تھے جس میں ان طالبات کو بُرا بھلا کہا جا رہا تھا اور کچھ افراد ان کے الزامات کو ’جھوٹ کا پلندا‘ بھی قرار دے رہے تھے۔
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا سے جب بی بی سی نے ان شکایات کے حوالے سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بظاہر ایک سازش ہے جو اداروں کو بدنام کرنے کے لیے یا می ٹو مہم جیسی بین الاقوامی مہم کے پس پردہ مقاصد پورا کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا سینکڑوں طالبات کا شکایات کے ساتھ سامنے آنا معاشرے میں اس مسئلے کی سنگینی کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتا ہے، وزیر تعلیم پنجاب مراد راس کا کہنا تھا کہ ’بالکل بھی نہیں، میری رائے میں یہ تعداد بہت بڑی ہے اور اس طرح کے بہت سے معاملات ہوں گے۔‘
کیا عدالتیں اور وکیل ایسے مقدمات کے لیے تیار ہیں؟
سازشی پہلو کے حوالے سے ایڈووکیٹ اسد جمال نے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے مقدمات کو لڑنے کے لیے وکیلوں اور مقدمہ چلانے والوں میں جو تعلیم و تربیت درکار ہوتی ہے، اس کی بے حد کمی ہے کیونکہ اس نوعیت کے الزامات کو غلط سمجھا جاتا ہے۔
انھوں نے اپنے پہلے مقدمے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بہت برس پہلے جب وہ پہلی مرتبہ ریپ کیس میں ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کے پاس مقدمے پر بات کرنے گئے تو اس وقت اُن کے ہاتھ میں اسی مقدمے کی ابتدائی ایف آئی آر کی ایک کاپی موجود تھی۔
’جب میں نے انھیں ایف آئی آر نمبر بتایا تو مجھے مقدمہ چلانے والے افسر نے کہا کہ یہ تو وہی گھریلو ملازمہ کا کیس ہے نا؟ آپ کو پتا نہیں یہ کس قماش کی ہوتی ہیں؟‘
اسد جمال کے مطابق ’احساس ہونا تو دور کی بات ہے۔ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ جنسی ہراس یا ریپ کے مقدمات لڑنے کے لیے پاکستان میں وکیل ذہنی طور پر تیار ہیں بھی یا نہیں؟‘
ایڈووکیٹ اسد جمال کہتے ہیں کہ زیادہ تر طالبات کوئی قانونی چارہ جوئی نہ کرنے یا اس بارے میں کم معلومات رکھنے کی صورت میں سوشل میڈیا کا سہارا لیتی ہیں۔ ’اس کے نتیجے میں ان طالبات پر ہتکِ عزت کا مقدمہ درج ہوجاتا ہے اور افسوس کے ساتھ ان مقدمات میں مبینہ زیادتی کرنے والوں کو زیادہ قانونی سہارا مل جاتا ہے۔‘
تعلیمی اداروں میں ہراسانی سے متعلق شکایات کا کوئی نظام موجود ہے؟
بظاہر تو تعلیمی اداروں میں شکایات درج کرنے کے لیے انتظامیہ موجود ہے مگر دیگر طالبات سے بات کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ بالخصوص ہراسانی کے حوالے سے ان اداروں میں کوئی خصوصی کمیٹی نہیں بنائی گئی۔
اس پر مزید بات کرتے ہوئے نمرا (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی شکایت نہیں لگائی کیونکہ مجھے پتا تھا کہ انتظامیہ نے الٹا مجھ پر ہی الزام لگانا ہے۔‘
کلاس میں کیے جانے والے فحش لطیفوں کے حوالے سے ندا (فرضی نام) نے دیگر اساتذہ کو بھی اس حوالے سے بتایا مگر انھوں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ ’وہ تو مذاق کرتے ہیں اور وہ تمہارے استاد ہیں تو اس بات کو جانے دو۔‘
ابتدا میں بیان کیے گئے مبینہ ہراسانی کے واقعے کے حوالے سے کچھ طالبات نے ادارے کی انتظامیہ کو مطلع بھی کیا تھا مگر ان کے بقول سکول انتظامیہ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
ماہرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب کالج کو ایک اعلی تعلیم یافتہ استاد مل جاتا ہے تو وہ اس قسم کی شکایات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘
جنسی ہراسانی کی شکایات سامنے آنے کے بعد لاہور گرامر سکول اور لاہور یونیورسٹی آف مینیجمینٹ سائنسز لاہور کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں نے اس نوعیت کی شکایات درج کرنے کا ایک باقاعدہ نظام وضح کیا ہے۔
قانونی ماہرین کا موقف ہے کہ مقدمہ کرنے کے بجائے سکول اور کالج کی سطح پر ایسی کمیٹیاں ہونی چاہییں جس کے ذریعے بچوں کی شنوائی ہو سکے اور مبینہ طور پر ہراسانی کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کی جا سکے۔
آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا کا کہنا تھا کہ ’یقینا بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے مگر مسئلہ قوانین کا نہیں بلکہ جو پہلے سے وضح کردہ قوائد و ضوابط ہیں ان پر عمل درآمد کرانا ضروری ہے۔‘
کیا پاکستان میں ہراسانی سے متعلق قوانین موجود ہیں؟
صوبہ پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس سے جب ہراسانی کی شکایات سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بڑا آسان ہے یہاں بیٹھ کر کہانی سنانا کہ ہم یہ کر رہے تھے وہ کر رہے تھے، دراصل کچھ نہیں ہو رہا تھا۔‘
صوبائی وزیر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ’اس معاملے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی اور اس متعلق قوانین بھی موجود نہیں۔‘
اگرچہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں، جیسے کہ 2010 کا وومن پروٹیکشن ایکٹ اور کام کی جگہ پر پیش آنے والی ہراسانی کی شکایت کے لیے ایک خصوصی محتسب کے دفتر کا قیام لیکن تعلیمی اداروں میں ہونے والی جنسی زیادتی یا ہراسانی کے سد باب کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔
البتہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن سے منسلک نگہت داد کہتی ہیں کہ مقدمہ یا شکایت لگانے سے پہلے اس بات کا تعین بھی کرنا ضروری ہوتا ہے کہ طالبہ کے ساتھ ہونے والا واقعہ ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے یا جنسی زیادتی کے۔
’اگر تو کوئی ٹیچر ایک کم عمر طالبہ سے ایسے پیغامات یا تصاویر شیئر کرے جو معیوب یا جنسی تعلق بنانے سے منسلک ہوں تو وہ جنسی زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔‘
دوسرا پہلو ریپ یا ہراسانی کے واقعے کے ثبوت اکٹھا کرنے سے منسلک ہے۔ اس بارے میں نگہت داد کا کہنا تھا کہ ’یہ ممکن بنانا مشکل ہو جاتا ہے مگر کسی بھی طرح کا میسج، تصاویر، آڈیو نوٹ جو آپ کے پاس موجود ہوں ان کو سنبھال کر رکھیں۔ یہ چیزیں بہت کام آتی ہیں۔‘
انھوں نے کہا: ’ایسے کسی بھی واقعے کے رونما ہوتے وقت ویڈیو یا تصویر نہیں بنائی جا سکتی۔ لیکن اس وقت ٹائم کیا تھا، آس پاس کون کھڑا تھا، یہ یاد رکھنا یا اس کا ریکارڈ آپ کی گواہی کو مضبوط بنا سکتا ہے۔‘
بعض اوقات متاثرین کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ ہراسانی کے واقعے کے اتنے عرصے بعد کیوں آواز اٹھا رہی ہیں۔
نگہت داد کا کہنا ہے کہ ہراسانی کے قانون میں کوئی حد نہیں ہے کہ آپ کب اپنی شکایت درج کریں۔ ’ہاں، یہ شرط ضرور ہے کہ کیا اس واقعے کے دوران آپ اس اکیڈمی یا سکول میں موجود تھیں یا نہیں۔ اس سے فرق پڑتا ہے۔ ہم اس وقت ہراسانی کے قانون میں بھی مزید ترامیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ متاثرین کو فائدہ پہنچ سکے۔‘
پنجاب حکومت کا مجوزہ قانونی مسودہ
پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس نے لاہور گرامر سکول اور دیگر اداروں میں سامنے آنے والی شکایات کے بعد مختلف نجی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیا اور سخت کارروائی کرنے کا عندیہ بھی۔
مراد راس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب یہ مسئلہ اٹھا تو ہم نے اس سے متعلق فوری اقدامات اٹھائے اور اب ہم اسی سے متعلق قانون سازی کرنے جا رہے ہیں۔‘
اس مسودے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ شخص جو تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی میں ملوث پایا جاتا ہے اور اس کے خلاف جرم ثابت ہو جاتا ہے تو اس شخص کے حوالے سے مندرجہ ذیل تجاویز دی گئی ہیں:
- دوبارہ تدریسی عمل کا حصہ بننے کی اجازت نہیں ہو گی
- 10 لاکھ تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے
- جیل بھی بھیجا جا سکتا ہے
مراد راس نے اپنی حکومتی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ان واقعات کی روک تھام کے لیے جب تک آپ سخت سزائیں نہیں دیں گے تب تک لوگ نہیں گھبرائیں گے۔‘
لیکن دوسری جانب ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن فریحہ عزیز کا کہنا تھا کہ میڈیا پر اٹھائے جانے والے کیسز کے بعد فوری رد عمل تو سامنے آ جاتا ہے مگر کسی بھی قسم کی قانون سازی ایسی صورت میں جلد بازی میں کی جاتی ہے۔
فریحہ عزیز کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگ قانونی عمل میں پڑنے سے گھبراتے ہیں اور یہ برحق بھی ہے کیونکہ یہ ایک بہت طویل مدتی عمل ہوتا ہے اور سب کے پاس نہ ہی وہ مالی وسائل ہوتے ہیں اور نہ ہی جذباتی طور پر وہ تیار ہوتے ہیں۔‘
سخت سزاؤں کے بارے میں فریحہ کا کہنا تھا کہ ’زینب کیس میں بھی سخت سزا تو دے دی گئی مگر اس کے بعد بھی کتنے واقعات سامنے آئے، حکومت اور معاشرہ صرف جذباتی بیانات پر مبنی عمل کی حمایت کرتے ہیں۔‘
ایڈووکیٹ ماہم علی کئی برسوں سے چند سماجی کارکنان کے ساتھ مل کر بچوں کے ساتھ ہونے والے ریپ کے نتیجے میں درج ہونے والے مقدمات پر کام کر رہی ہیں۔
جب حال ہی میں پنجاب میں طالبات نے اپنے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی میں پڑھانے والے پروفیسروں پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تو ماہم نے پنجاب حکومت سے خود بات کی۔
انھوں نے وزیرِ تعلیم کو کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ اس وقت سکولوں کی سطح پر کوئی طریقہ کار وضح نہیں ہے اس لیے وہ بغیر کسی تنخواہ کے ان کی مدد کر سکتی ہیں۔
لیکن ماہم نے بتایا کہ اسی دوران پنجاب کے وزیرِ تعلیم مراد راس ایک نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو پر آئے اور انھوں نے کہا کہ اگر گرلز سکولوں میں مرد ٹیچر نہ پڑھائیں تو جنسی ہراسانی اور زیادتی کے کیسز میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
ماہم نے کہا کہ ’یہ ایک بیوقوفانہ سوچ ہے اور اگر تو یہ پاکستان تحریکِ انصاف کی پارٹی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے تو میرے خیال میں سب سے پہلے اس پر بات کرنی چاہیے کیونکہ مرد ٹیچر کو ہٹانے سے آپ ریپ یا جنسی ہراسانی کے کیسز کم نہیں کر سکتے، وہ کسی نہ کسی طریقے سے ہوتی رہے گی۔‘
اس کے رد عمل میں مراد راس کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف ایک تجویز تھی، میں صرف ان سکولوں کی بات کر رہا تھا جہاں والدین بچوں کو اس مقصد سے بھیجتے ہیں کہ انھیں ایک مخصوص ماحول مل سکے۔‘
تو کیا کیا جائے؟
پاکستان میں ابھی تک ایسا کوئی مرکزی ڈیٹابیس موجود نہیں ہے جو جنسی جرائم میں ملوث شخص کی نشاندہی کر سکے اور ان پر مسلسل نظر رکھ سکے۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نامی بین الاقوامی خیراتی ادارے نے سنہ 2018 میں ان ممالک کی فہرست شائع کی تھی جو خواتین کے لیے خطرناک تصور کیے جاتے ہیں۔ پاکستان اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔
بنگلہ دیش میں سنہ 2009 میں ملک کی سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا کہ تمام تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کی شکایات درج کروانے کے لیے سیل قائم کیے جائیں جہاں طلبہ اپنی شکایات درج کروا سکیں لیکن بہت کم تعلیمی اداروں نے اس کو قائم کیا۔
سنہ 2019 میں نصرت جہاں رفیع نامی بنگلہ دیشی لڑکی کو تیل چھڑک کے زندہ جلا دینے کے واقعے کے بعد ہی اس عدالتی حکم پر عمل درآمد باقاعدہ طور پر شروع کروایا گیا تھا۔
نصرت جہاں نے اپنے مدرسے کے ہیڈ ماسٹر کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کی درخواست دی تھی۔
ان معاشروں میں جہاں پدرشاہی سوچ رچ بس گئی ہے وہاں ماہرین کے مطابق سوچ کی تبدیلی کسی بھی جلد بازی میں کی گئی قانون سازی سے قدرے بہتر ہے۔