نیب کے افسران میں صلاحیت نہیں ہے، سپریم کورٹ کا نیب پر برہمی کا اظہار
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) پر ایک بار پھر برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دییے کہ نیب کا دفتر خود کرپشن ریفرنسز کے فیصلے میں تاخیر کا ذمہ دار ہے کیونکہ اس کے افسران میں صلاحیت نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ نیب افسران مناسب انکوائری/تحقیقات کرنے کے لیے اتنی مہارت نہیں رکھتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ انکوائری/تحقیقات کی جانچ پڑتال کی بنیاد پر کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ریمارکس نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی جانب سے سپریم کورٹ کے روبرو احتساب عدالتوں میں کرپشن ریفرنسز کے فیصلے میں تاخیر سے متعلق متعدد وجوہات پیش کرنے کے باوجود دیے گئے۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں ، نیب کے چیئرمین نے اعتراف کیا تھا کہ ایک ہزار 226 زیر التواء ریفرنسز، احتساب عدالتوں کی موجودہ قوت اور ساتھ ہی کام کے بوجھ کی موجود گی کو مدنظر رکھتے ہوئے 30 دن کے اندر بدعنوانی کے کیسز کا فیصلہ کرنا اور اس کو حتمی شکل دینا ناممکن ہے۔
قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 کے سیکشن 16 کی روشنی میں احتساب عدالتوں کے سامنے مقدمات کی سماعت میں تاخیر سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے سامنے یہ رپورٹ پیش کی گئی تھی جس میں بدعنوانی کے کیسز ککا 30 دن میں فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ازخود نوٹس کی کاروائی کا آغاز اس وقت کیا گیا جب جسٹس مشیر عالم نے 8 جنوری کو چیف جسٹس سے خصوصی بینچ تشکیل دینے اور ٹرائل کورٹ کے سامنے ملزمان کے خلاف مقدمہ چلانے میں تاخیر پر ازخود کاروائی شروع کرنے کی درخواست کی تھی۔
8 جولائی کو سپریم کورٹ نے پراسیکیوٹر جنرل سید حیدر اصغر کو حکم دیا تھا کہ وہ نیب کے چیئرمین کے دستخط شدہ ایک رپورٹ پیش کرے جس میں اس رکاوٹ کو ختم کرنے کے طریقے تجویز کیے گئے ہوں۔
اب تین صفحات پر مشتمل حکم میں ، چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس مظہرعالم خان میاں خیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل سپریم کورٹ بینچ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہ نیب افسران ناقص تفتیش یا تحقیقات کرتے ہیں اور پھر یہ ریفرنس میں بدل جاتے ہیں، ایک ایسا ریفرنس جو بدلے میں احتساب عدالتوں میں نان اسٹارٹر بن جاتا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ مقدمات کے فیصلے میں تاخیر اس وجہ سے ہوئی ہے کہ ریفرنس کو حتمی شکل دینے سے قبل نیب کے پاس مناسب معاون مواد موجود نہیں ہوتا جو کیس کو کسی نتیجے پر پہنچانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‘ہمارے خیال میں، چیئرمین، جو ریفرنس کی منظوری کا اختیار رکھتا ہے، وہ پہلے اس ریفرنس کی جانچ پڑتال کرے اور اپنی رائے پیش کرے تاکہ ریفرنس آسانی سے ٹرائل کورٹ کے سامنے آجائے اور اس کے نتیجے میں جرم ثابت ہوجائے’۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے قانون میں یہ بتایا گیا ہے کہ 30 دن کے اندر ریفرنس کا فیصلہ کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘قانون سازوں نے یہ کسی مقصد سے بیان کیا ہے اور یہ قانون سازوں کی خواہش نہیں تھی کہ نیب کے کیسز پر احتساب عدالت کے لیے ٹرائل کرنا اور فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے’۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ نیب کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ جب ریفرنس احتساب عدالت کے سامنے دائر ہوتا ہے تو اس کا فیصلہ ایک ماہ کے اندر ہونا چاہیے جیسا کہ قانون میں کہا گیا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ اس طرح یہ مسئلہ نیب کے ساتھ ہی ہے، اس کے عہدیداروں اور پراسیکیوٹرز، جن کے پاس صلاحیت کا مسئلہ ہے اور معاملے کے اس پہلو پر چیئرمین کی توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ اگر چیئرمین سمجھتے ہیں کہ ان کی ٹیم اتنی موثر نہیں ہے تو وہ مسئلے کے حل کرنے اور اپنی ٹیم کو فوری طور پر تبدیل کرنے کے لیے اقدامات کریں۔
انہوں نے نیب کے چیئرمین کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر جواب جمع کرائیں۔
گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ایک سابق صدر امان اللہ کنرانی نے نشاندہی کی تھی کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 34 کے تحت ابھی بھی قواعد وضع نہیں کیے گئے۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس کے بجائے نیب کچھ ایس او پیز کی پیروی کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے مشاہدہ کیا کہ ‘ہم جانتے ہیں کہ ایس او پیز قواعد کا کوئی متبادل نہیں ہے اور نیب کی جانب سے قواعد وضع کرنے کی ضرورت ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت توقع کرتی ہے کہ چیئرمین این اے او کے سیکشن 34 کے مطابق تیزرفتاری سے قواعد وضع کریں گے اور اگلی تاریخ تک یہ عدالت میں پیش کردیے جائیں گے۔
کیس کی اگلی سماعت ایک ماہ بعد کی جائے گی۔
احتساب عدالتوں کی تعداد بڑھانے کے معاملے کا ذکر کرتے ہوئے سیکریٹری قانون نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ 120 احتساب عدالتوں کے قیام سے متعلق حتمی فیصلہ ایک ماہ کے اندر کیا جائے گا اور کابینہ سے منظوری کے بعد وزارت قانون عدالتی تقرری کرے گی اور عدالتوں میں افسران اور انفراسٹرکچر بنایا جائے گا جہاں نئے جج آرام سے مقدمات کی سماعت کرسکیں گے۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری کو حکم دیا کہ وہ خود ایک رپورٹ پیش کریں۔