منتخب تحریریں

جاوید ہاشمی اور ملتانی ناشتہ

Share

اب اسے حکومت کی حماقت سمجھیں یا جاوید ہاشمی کی خوش قسمتی کہ جاوید ہاشمی پر ایک عدد حکومت مخالف سرگرمیوں کا پرچہ ہو گیا ہے اور فی الحال یہ پرچہ یعنی ایف آئی آر سیل کر دی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر ایک محاورے کی مانند سانپ کے منہ میں چھپکلی والا معاملہ ہے کہ ”نہ نگلی جائے اور نہ اگلی جائے‘‘۔ میرا ذاتی خیال ہے جاوید ہاشمی چاہیں گے کہ انہیں گرفتار کر کے اندر کر دیا جائے۔ بھلا اس عمر میں فراغت کے شکار اور ہمہ وقت جیل جانے کے لیے تیار جاوید ہاشمی کو اس کے علاوہ اور کیا چاہیے؟ اب حکومت انہیں گرفتار کرتی ہے تو بھی ایک مصیبت کہ فالج کے شکار اکہتر سالہ بزرگ سیاستدان (جوان حوصلے کے باوجود اب یہ ایک حقیقت ہے کہ ہاشمی صاحب ہماری ملکی سیاست کے بزرگ قافلہ سالار ہیں) کی گرفتاری حکومت کے لیے پہلے بدنامی اور بعد ازاں ہزیمت اور پسپائی کا باعث بنے گی۔ دوسری طرف یہ گرفتاری ہاشمی صاحب کے لیے باد صبا ثابت ہو گی اور میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ملتان کی گرمی، فالج کے باعث کسی حد تک جسمانی معذوری اور کہنہ سالی کے باوجود جاوید ہاشمی اب بھی جیل کی سختیوں کو اپنے ”قائد‘‘ کی نسبت کہیں زیادہ ثابت قدمی، حوصلے اور جوانمردی سے برداشت کر سکتے ہیں۔ جاوید ہاشمی ان لوگوں میں سے ہیں جو ہتھکڑی کو اپنا زیور اور جیل کو دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ حادثاتی طور پر لیڈر بن جانے والے سیاستدانوں کی ایک بڑی کھیپ اس خوبی اور نعمت سے محروم ہے۔ جاتی امرا میں بیٹھ کر میاں نواز شریف بھی اپنے تئیں جاوید ہاشمی بن کر جیل جانے کے لیے رختِ سفر باندھتے ہیں لیکن اندر جانے کے بعد انہیں احساس ہوتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ وہ بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں بلکہ کمبخت جیلیں بھی ویسی کی ویسی ہی ہیں۔ لہٰذا ارادوں کی پختگی کو جیل کی سختی موم کر دیتی ہے اور اپنے میاں صاحب کبھی جیل سے جدے روانہ ہو جاتے ہیں اور کبھی لندن چلے جاتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے جاوید ہاشمی صاحب کا فون آیا۔ کئی ماہ کے بعد ہاشمی صاحب کا نام فون کی سکرین پر آیا تو میں نے فون اٹھاتے ہی مطالبہ داغ دیا کہ آپ ڈولی روٹی کے ساتھ ناشتہ کب کروا رہے ہیں؟ جاوید ہاشمی نے کہا کہ کل آ جائیں۔ میں نے کہا: میں اس ہفتے تو ملتان میں نہیں ہوں؛ البتہ اگلے ہفتے ناشتے کے لیے آ سکتا ہوں۔ پوچھا کہ ناشتہ ملتان میں کرنا ہے یا مخدوم رشید؟ میں نے کہا: ملتان کروں گا تاکہ گرما گرم چنوں کے ساتھ تازہ ڈولی روٹی سے لطف لیا جا سکے۔ ہاشمی صاحب نے پوچھا: کس دن؟ میں نے کہا: منگل کے روز آپ سے صبح ساڑھے آٹھ بجے ملاقات ہوگی۔ ڈولی روٹی نہ صرف یہ کہ ناشتے میں ہو بلکہ ساتھ باندھ کر لے جانے کے لیے بھی دستیاب ہونی چاہیے۔ پاک گیٹ والے ناصر سے کہیں کہ ہمیشہ کی طرح والی خشخاش لگی ہوئی خاص روٹی ہونی چاہیے۔
یہ ڈولی روٹی بھی عجیب چیز ہے کہ اگر کسی جگہ سے اب بھی پرانی ترکیب والی روٹی مل جائے تو غنیمت ہے اور اس کی لت پڑ جائے تو بڑا تنگ کرتی ہے۔ تنگ اس طرح کہ اب اتنی محنت کر کے محبت سے ڈولی روٹی تیار کرنے والی پرانی بڑی بوڑھیاں ہی نہیں رہیں۔ ڈولی روٹی پرانے ملتان کی روایتی سوغات تھی۔ کہیں صبح ناشتے میں ملتی تھی اور کہیں رات کو۔ اس کے ساتھ اصل جوڑ یعنی کمبی نیشن تو دال مونگ کا ہے، مگر مصیبت یہ آن پڑی ہے کہ اب شہر بھر میں روایتی دال مونگ (بغیر مرچ اور گھی کے نمک میں پکی ہوئی چنے کی دال اور ثابت مونگ) نہیں ملتی۔ دال ایسی شاندار گلی ہوئی کہ کھائیں تو نرم لیکن دیکھیں تو کھڑی کھڑی اور سالم۔ دولت گیٹ کے محلے کاشی گراں والی گلی کی نکڑ پر بیٹھے ہوئے کریم بخش کے بعد اب سارے شہر میں کوئی بھی ایسا پھٹہ ، ریہڑی یا دکان نہیں رہی جو ویسے لذیذ دال مونگ بنا سکے۔ چوک شہیداں ہمارے گھر کے پاس چاچا ملنگ کی دکان کی گلی کی دوسری طرف چاچا غلام رسول عرف گاماں سے علی الصبح دال مونگ لے کر آتے تھے۔ تب یہ ایک طے شدہ روایت تھی کہ ڈولی روٹی، بغیر گھی والے موٹے چنے اور دال مونگ گھر کی عورتیں پکاتی تھیں اور مرد بازار میں انہیں فروخت کرتے تھے۔ ہمارے محلے میں دو تین گھر ایسے تھے جہاں یہ چیزیں گھر کی عورتیں پکاتی تھیں اور یہ سارا سامان چاچا دُلا اپنے سر پر رکھ کر دکانوں تک پہنچاتا تھا؛ البتہ چاچا گاماں خود ہی گھر کے اندر سے باہر دروازے کے ساتھ پڑے ہوئے پھٹے پر رکھ کر اپنی دکان سجا لیتا تھا۔ اب آہستہ آہستہ سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ سوتری وٹ والوں کے طفیل سارے ملتان شہر کو روایتی چنے ابھی تک مل رہے ہیں لیکن دال مونگ اور ڈولی روٹی ملتی تو بہت سی جگہوں سے ہیں لیکن نہ وہ بڑی بوڑھی عورتیں رہیں اور نہ ہی ویسے دال مونگ اور ڈولی روٹی۔ ان چیزوں کا روایتی ذائقہ انہی ہاتھوں کے طفیل تھا۔ اب نہ وہ رہیں اور نہ ہی ان کے ہاتھوں کا ذائقہ۔
پاک گیٹ کے ماموں چنے والوں کے ناصر کے ذریعے اچھی ڈولی روٹی مل جاتی ہے مگر ایسے کہ پیشگی کہہ کر بنوائیں۔ ایسا نہیں کہ پہلے کی طرح جب جی کیا اٹھے، بازار گئے اور ڈولی روٹی اٹھا کر لے آئے۔ کیا زمانہ تھا کہ ملتان کی یہ روایتی روٹی درجنوں جگہوں پر ملتی تھی۔ یہی حال دال مونگ کا تھا۔ ملتان میں روایتی چنوں اور دال مونگ کے علاوہ ناشتے کا کبھی کوئی تصور نہیں ہوتا تھا۔ اب سب کچھ بدل گیا ہے اور ناشتے کی وہ روایت بھی۔ کبھی سوچتا ہوں کہ کسی دن خود دال مونگ پکانے کی کوشش کروں۔ کریم بخش کی لذیذ دال مونگ کی تصویر میری یادوں میں ہے اور یہ تصویر نہ دھندلی ہے اور نہ ہی آؤٹ آف فوکس۔ مجھے گمان ہے کہ میں اگر یہ کوشش کروں تو کسی دن ویسی نہ سہی مگر اس کے قریب قریب والی دال مونگ یقینا پکالوں گا۔ صرف نمک میں پکی ہوئی یہ لذیذ شے بظاہر تو ایسی پیچیدہ یا مشکل نظر نہیں آتی مگر پھر سوچتا ہوں کہ اگر اسے پکانا اتنا ہی آسان اور سہل
ہوتا جتنا کہ میں گمان کرتا ہوں تو آخر اب پورے شہر میں یہ دونوں روایتی چیزیں اپنے اصلی اور پرانے ذائقے کے ساتھ کیوں میسر نہیں ہیں؟
ڈولی روٹی کا میرے کئی پرانے کالموں میں تذکرہ پڑھ کر کئی قارئین نے پہلے بھی پوچھا کہ یہ ڈولی روٹی ہوتی کیا ہے؟ اب بندہ کیا سمجھائے اور کیسے سمجھائے؟ کھانے کی چیزوں کی تفصیل ذائقے کے بغیر بے معنی ہے اور بھلا ذائقہ کیسے بیان کیا جا سکتا ہے؟ شکل و صورت تو سمجھائی جا سکتی ہے مگر اس کے بعد کی ساری تفصیل تو صرف کھا کر ہی سمجھ آ سکتی ہے۔ کتھئی رنگ کی ہلکی میٹھی پھولی ہوئی نرم سی آدھ پون انچ موٹی اور پانچ چھ انچ قطر کی تیل میں تلی ہوئی ڈولی روٹی جس کے ایک طرف خشخاش لگی ہوتی ہے ایک ایسی لت ہے کہ چار چھ ماہ بعد اکساتی ہے اور اکثر شاہ جی ایسے میں کام آتے ہیں۔ کئی اور لوگوں نے بھی اچھی ڈولی روٹی کی آفر کی ہے مگر اب ایسا بھی کیا کہ جس نے دعوت دی اور ہم نے قبول کر لی البتہ جاوید ہاشمی کی بات دوسری ہے کہ ان کے مرحوم بھائی مختار شاہ سے دوستی کے باعث ہمارے باہمی تعلق کی نوعیت ہی کچھ اور ہے۔
ڈولی روٹی کا ناشتہ اور جاوید ہاشمی کی گفتگو۔ یوں سمجھیں کہ دو آتشہ والا معاملہ ہے۔ حسب معمول میرے ساتھ امجد بخاری اور شوکت علی انجم تھے۔ جاوید ہاشمی حالانکہ بنیادی طور پر کنجوس آدمی ہیں؛ تاہم احتراماً میں انہیں کفایت شعار کہتا ہوں‘ لیکن ناشتے کا اہتمام خاصا پُر تکلف تھا؛ البتہ میں نے صرف ڈولی روٹی اور ملتانی چنوں پر ہاتھ صاف کیا۔ اس دوران ہاشمی صاحب کی گفتگو جاری رہی۔ آج کا کالم صرف ناشتے پر، گفتگو کا تذکرہ آئندہ۔