انگریزوں کی طرف سے کیپٹن روڈرک برگز پہلے ایسے شخص تھے جنھوں نے جھانسی کی رانی لکشمی بائی کو اپنی آنکھوں سے جنگ کے میدان میں لڑتے ہوئے دیکھا تھا۔
انھوں نے گھوڑے کی لگام اپنے دانتوں سے دبا رکھی تھی اور دونوں ہاتھوں سے تلوار چلا رہی تھیں اور ایک ساتھ دونوں طرف وار کر رہی تھیں۔
ان سے پہلے ایک دوسرے انگریز جان لینگ کو رانی لکشمی بائی کو نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا تھا، لیکن میدان جنگ میں نہیں۔ انھوں نے انھیں ان کی حویلی میں دیکھا تھا۔
جب دامودر کے گود لیے جانے کو انگریزوں نے غیر قانونی قرار دیا تو رانی لکشمی بائی کو جھانسی کا اپنا محل چھوڑنا پڑا تھا۔
انھوں نے تین منزلہ معمولی عمارت ‘رانی محل’ میں پناہ لی تھی۔
رانی نے وکیل جان لینگ کی خدمات حاصل کی جنھوں نے حکومت برطانیہ کے خلاف حال میں ایک مقدمہ جیتا تھا۔
‘رانی محل’ میں لکشمی بائی
لینگ آسٹریلیا میں پیدا ہوئےجبکہ وہ میرٹھ سے ایک اخبار ‘موفوسلائٹ’ نکالا کرتے تھے۔
لینگ اچھی خاصی فارسی اور ہندوستانی بول لیتے تھے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی انتظامیہ انھیں پسند نہیں کرتی تھی کیونکہ وہ ہمیشہ ان گھیرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
جب لینگ پہلی بار جھانسی آئے تو رانی نے انھیں لانے کے لیے گھوڑے کے رتھ کے ساتھ اپنے دیوان اور اپنے ملازم خاص کو آگرہ بھیجا۔
ملازم کے ہاتھ میں برف سے بھری بالٹی تھی جس میں پانی، بیئر اور منتخب شراب کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔ راستے بھر ایک ملازم لینگ کو پنکھا جھلتا رہا۔
جھانسی پہنچنے پر لینگ کو پچاس گھڑسوار ایک پالکی میں بیٹھا کر ‘رانی محل’ لائے جس کے باغ میں رانی نے ایک سائبان لگوا رکھا تھا۔
رانی لکشمی بائی شامیانے کے ایک کونے میں پردے کے پیچھے بیٹھی تھیں۔ اسی لمحے رانی کے گود لیے ہوئے بیٹے دامودر نے پردہ ہٹایا اور لینگ کی نظر رانی پر پڑی۔
بعد میں رینر زیراسچ نے ‘دی رانی آف جھانسی، ریبل اگینسٹ ول’ نامی ایک کتاب لکھی۔
کتاب میں جان لانگ کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ‘رانی درمیانہ قد کی مضبوط خاتون تھیں۔ جوانی میں وہ بہت خوبصورت رہی ہوں گی لیکن اس وقت بھی ان کے چہرے کی رونق کم نہیں تھی۔ مجھے ایک چیز پسند نہیں آئی۔ ان کا چہرہ بہت زیادہ گول تھا۔ البتہ ان کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں اور ناک بھی بہت نازک تھی۔ ان کا رنگ بہت گورا نہیں تھا۔
’انھوں سونے کی کان کی بالیوں کے علاوہ کوئی زیور نہیں پہنا تھا۔ وہ سفید ململ کی ساڑھی میں ملبوس تھیں جس میں ان کے جسم کے خدو خال واضح نظر آتے تھے۔ ان کی شخصیت کو جو چیز خراب کر رہی تھی وہ ان کی آواز تھی۔’
رانی کے شہسوار
بہرحال کیپٹن روڈرک برگز نے فیصلہ کیا کہ وہ آگے بڑھ کر خود ہی رانی پر وار کرنے کی کوشش کریں گے۔
لیکن جب وہ ایسا کرنا چاہتے تو رانی کے گھڑسوار انھیں گھیر کر ان پر حملہ کر دیتے۔ ان کی کوشش یہی تھی کہ وہ ان کی توجہ دوسری جانب کر دیں۔
کچھ لوگوں کو زخمی اور قتل کرنے کے بعد روڈرک نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور رانی کی طرف بڑھنے لگے۔
اسی وقت روڈرک کے پیچھے سے اچانک جنرل روز کی انتہائی ماہر اونٹ یونٹ اس جانب آ نکلی۔ یہ ان کی ریزور یونٹ تھی۔
وہ اس کا استعمال جوابی حملے کے لیے کرنے والے تھے۔ اس فوجی یونٹ کے اچانک جنگ میں اتر آنے سے برطانوی کیمپ میں جان آ گئی۔ رانی اسے فورا بھانپ گئيں۔
ان کے فوجی میدان جنگ سے بھاگے نہیں لیکن ان کی تعداد کم ہونے لگی۔
برطانوی فوجی
اس جنگ میں حصہ لینے والے جان ہنری سلویسٹر نے اپنی کتاب ‘ریکلیکشنز آف دی کیمپین ان مالوا اینڈ سینٹرل انڈیا’ میں لکھا: ‘اچانک رانی زور سے چلائی، ‘میرے پیچھے آؤ’ اور 15-20 گھڑسواروں کی ایک نفری ان کے پیچھے چل پڑی۔
وہ جنگ کے میدان سے اتنی تیزی سے نکلیں کہ انگریز فوجیوں کو اسے سمجھنے میں کچھ سیکنڈز کی دیر ہو گئی۔اچانک روڈرک نے اپنے ساتھیوں سے چلا کر کہا، ‘دیٹس دی رانی آف جھانسی، کیچ ہر۔’
رانی اور ان کے ساتھی ابھی ایک میل ہی پہنچے تھے کہ کیپٹن برگز کے فوجی ان کے سر پر آ پہنچے۔ یہ جگہ کوٹا کی سرائے تھی۔
لڑائی نئے سرے سے شروع ہوئی۔ رانی کے ایک فوجی کے مقابلے میں اوسطاً دو برطانوی فوجی لڑ رہے تھے۔ اچانک رانی کو اپنے بائیں سینے کی جانب درد محسوس ہوا جیسے کہ کسی سانپ نے کاٹ لیا ہو۔
ایک انگریز سپاہی جسے وہ دیکھ نہ سکیں تھیں اس نے ان کے سینے میں سنگینیں اتار دی تھی۔ وہ مڑیں اور حملہ آور پر اپنی تلوار سے ٹوٹ پڑیں۔
رائفل کی گولی
رانی کی چوٹ بہت گہری نہیں تھی لیکن خون تیزی سے نکل رہا تھا۔ اچانک گھوڑے پر دوڑتے ہوئے ان کے سامنے پانی کا چشمہ آگیا۔ انھوں نے سوچا کہ اگر وہ چھلانگ لگا کر آبشار کے پار ہو جائیں تو کوئی انھیں پکڑ نہیں سکے گا۔
انھوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی لیکن گھوڑاچھلانگ لگانے کے بجائے اتنی تیزی سے رکا کہ وہ اس کی گردن تک سرک کر پہنچ گئیں۔
انھوں نے دوبارہ مہمیز لگائی لیکن گھوڑے نے ایک انچ بھی آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت انھوں نے اپنی کمر میں درد محسوس کیا کسی نے بائیں جانب سے تیز وار کیا تھا۔
پھر ان کو رائفل کی ایک گولی لگی اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑی۔
انھوں نے اسی ہاتھ سے کمر سے نکلنے والے خون کو روکنے کی کوشش کی۔
رانی پر جان لیوا حملہ
اینٹونیا فریزر اپنی کتاب، ‘دی واريئر کوئن’ میں لکھتی ہیں: ‘اس وقت تک ایک انگریز رانی کے گھوڑے کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اس نے رانی پر وار کرنے کے لیے اپنی تلوار اوپر اٹھائی۔ رانی نے بھی اس کا وار روکنے کے لیے دائیں ہاتھ والی اپنی تلوار اوپر کی۔ اس انگریز کی تلوار ان کے سر پر اتنی قوت سے پڑی کہ ان کا سر پھٹ گیا اور وہ اس سے بہنے والے خون سے تقریبا اندھی ہو گئیں۔’
اسی حال میں رانی نے اپنی پوری قوت سے اس انگریز پر تلوار چلائی جو صرف اس کے کندھے کو ہی زخمی کر پائی۔ رانی گھوڑے سے نیچے گر پڑی۔
اس کے بعد ان کے فوجیوں میں سے ایک نے اپنے گھوڑے سے اتر کر انھیں گود میں لے لیا اور انھیں قریبی مندر میں لے گیا۔ رانی اس وقت تک زندہ تھیں۔
مندر کے پادری نے ان خشک ہونٹوں کو ایک بوتل میں رکھے گنگا جل (دریائے گنگا کے پانی) سے تر کیا۔ رانی بہت خراب حالت میں تھیں۔ آہستہ آہستہ وہ اپنے حواس کھو رہی تھیں۔
دوسری جانب مندر کے احاطے کے باہر فائرنگ مسلسل جاری تھی۔ آخری سپاہی کو مارنے کے بعد برطانوی فوجی نے سمجھا کہ انھوں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔
دامودر کے لیے۔۔۔
اس کے بعد روڈرک نے بلند آواز سے کہا: ‘وہ مندر کے اندر گئے ہیں، ان پر حملہ کرو، رانی اب بھی زندہ ہے۔’
دوسری طرف پجاریوں نے رانی کے لیے آخری لمحات دعائیں شروع کر دیں۔ رانی کی ایک آنکھ انگریز فوجی کی کٹار کے زخم سے بند تھی۔
انھوں نے بہ مشکل اپنی دوسری آنکھ کھولی۔ ان کی آنکھوں میں دھندلاپن تھا اور ان کے منہ سے وقفے وقفے سے لفظ نکل رہے تھے۔ ‘۔۔۔دامودر۔۔۔ میں اسے۔۔۔ تمہاری ۔۔۔ نگرانی میں چھوڑتی ہوں ۔۔۔ اس چھاؤنی لے جاؤ ۔۔۔ دوڑو اسے لے جاؤ۔’
بہ مشکل انھوں نے اپنی گردن سے موتیوں کا ہار نکالنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ بے ہوش ہوگئیں۔
مندر کے پجاری نے ان کی گردن سے موتیوں کا ہار نکالا اور محافظ کے ہاتھ میں دے کر کہا: ‘اسے دامودر کے لیے رکھیں۔۔۔’
رانی کا جسد خاکی
رانی کی سانس تیزی سے چلنے لگی، زخم سے نکلنے والا خون پھیپھڑوں میں جمع ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ وہ ڈوبنے لگیں۔ یکایک ان میں پھر سے جان آ گئی۔
انھوں نے کہا: ‘انگریزوں کو میرا جسم نہیں ملنا چاہیے۔’ یہ کہتے ہی ان کا سر ایک طرف جھک گیا۔ ان کی سانس ایک بار پھر تیز ہوئی اور پھر سب پرسکون۔
حھانسی کی رانی لکشمی بائی کی روح پرواز کر چکی تھی۔ رانی کے چند محافظوں نے فوراً لکڑیاں جمع کیں اور رانی کے جسم کو اس پر رکھ کر آگ لگا دی۔
ان کے گرد رائفل چلنے کی آواز بڑھتی جا رہی تھی۔ مندر کے باہر اب تک سینکڑوں برطانوی فوجی جمع ہو چکے تھے۔
مندر کے اندر سے انگریزوں پر صرف تین رائفلیں گولیاں برسا رہی تھیں۔ پہلے ایک رائفل خاموش ہوئی۔۔۔ پھر دوسری اور پھر تیسری بھی خاموش ہو گئی۔
جب انگریز مندر میں داخل ہوئے تو وہاں سے کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ سب کچھ پرسکون تھا۔ سب سے پہلے روڈرک برگز اندر داخل ہوئے۔
وہاں رانی کے کئی درجن سپاہیوں اور مندر کے پجاریوں کی خون میں سنی لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ کوئی بھی زندہ نہیں تھا۔ لیکن صرف ایک لاش کی تلاش جاری تھی۔
اسی وقت ان کی نظر ایک چتا یعنی لاش کو جلانے والی آگ پر پڑی جس کی لپٹ اب مدھم پڑ چکی تھی۔ انھوں نے اپنے بوٹ سے اسے بجھانے کی کوشش کی۔ پھر انھیں جلتے ہوئے انسانی جسم کے باقیات نظر آئے۔ رانی کی ہڈیاں تقریباً راکھ ہو چکی تھیں۔
اس جنگ میں شریک کیپٹن کلیمنٹ واکر ہنيج نے بعد میں رانی کے آخری لمحات کو بیان کرتے ہوئے لکھا: ‘مزاحمت ختم ہو چکی تھی۔ صرف چند فوجیوں سے گھری اور ہتھیاروں سے لیس ایک عورت اپنے فوجیوں میں جان پھونکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
’بار بار وہ اشاروں اور بلند آواز سے اپنے شکست سے دو چار سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی۔ لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہو رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم نے اس عورت پر بھی قابو حاصل کر لیا۔ ہمارے ایک فوجی کے خنجر کا تیز وار اس کے سر پر پڑا اور سب کچھ ختم ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ عورت اور کوئی نہیں خود جھانسی کی رانی لکشمی بائی تھی۔’
بشکریہ بی بی سی اُردو