معاشرہ، اقوال اور تاریخ
زندگی کے تنوع کی دلچسپی اور تجسس کے لئے چھوٹی چھوٹی مثالوں سے آغاز کرتے ہیں، اختتام پر ہو سکتا ہے ہم کہہ سکیں ’’بنی نوع انسان، ایک طربیہ المیےایسے ہیں ‘‘ یعنی وہ مثالیں ہمیں فی الواقعی اس نتیجے پر پہنچا دیں، گو جو اس دنیا کا مالک ہے اس کا ڈیکلریشن تو یہ ہے ’’جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ‘‘ مگر ہم تو اس کےبندے ہیں اپنے چھوٹے سے ذہن میں جو سوچتے ہیں اس کے اظہارسے اس نے ہمیں قطعاً روکا نہیں بلکہ غوروفکر کی بے حد ترغیب دی ہے !
8جون 2015ء کے ایک قومی معاصر میں شائع شدہ رپورٹ کا کچھ حصہ پیش خدمت ہے ؟‘‘ملک میں چھ سو سے زائد (یہ چار سال قبل کے اعدادوشمار ہیں یاد رہے )رجسٹرڈ فارمو سائیکل کمپنیاں ہیں اور 55ہزار سے زائدادویات رجسٹرڈ ہیں یہ کمپنیاں سالانہ ڈھائی ارب ڈالر یعنی 250ارب روپے کا بزنس کرتی اور دو کروڑ ڈالر کی ایکس پورٹ بھی کرتی ہیں ایک ہی دوا مختلف ناموں سے سینکڑوں کمپنیاں بنا رہی ہیں جس کی وجہ سے ان کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ ادویات فروخت کرنے کے لئے بعض ڈاکٹروں کو قیمتی تحائف،پرکشش ترغیبات اور مراعات دیتی ہیں، چند سال پہلے تک کمپنیاں ڈاکٹرز کو لیٹر پیڈ، بال پوائنٹ پن اور بریف کیس کے تحفے دیتیں تو وہ بڑے مسرور ہوتے تھے مگر اب یہ معمولی چیزیں سمجھی جاتی ہیں۔اب سیل ٹارگٹ کی باقاعدہ ڈیل ہوتی ہے آپ اتنے لاکھ کی دوائیں فروخت کریں گے تو اتنا کمیشن دیں گے۔ کئی ڈاکٹر ایڈوانس نقد پیسے یا چیک لے لیتے ہیں اور مریضوں کو اندھا دھند دوائیں لکھ کر ٹارگٹ پورا کر دیتے ہیں۔ذرا سنئے، زائد دوائیں لکھ کر ہی کیا کماتے ہیں دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو فیملی سمیت سوئٹزر لینڈ، امریکہ اور یورپی ممالک کے تفریحی ٹورز کراتی ہیں،بیرونِ ملک کانفرنسوں کے اخراجات اٹھاتی ہیں، اسپتالوں کی تعمیر اور تزئین و آرائش کراتی ہیں اور سارا سامان فراہم کرتی ہیں، جتنا بڑا ٹارگٹ اتنی بڑی نئی نویلی گاڑی، فیملی فنکشنز اور بچوں کی شادیوں کے بل ادا کرتی ہیں، اسپانسر کھانوں کی بڑی مقدار گھر کے لئے پیک بھی کرائی جاتی ہے، مسیحائوں کی حرص وہوس کی حد یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ مریضوں میں دوائوں کا زہر اتار کر عمرہ و حج کی سعادت بھی حاصل کی جاتی ہے۔ بے تحاشا کلینکل ٹیسٹ، ایکسرے، الٹرا سائونڈ، سب میں مسیحائوں کا کمیشن ہوتا ہے اپنی فیس لے کر اور بے بنیاد ٹیسٹ کرواکے بھی دوا اسی دوا ساز کمپنی کی جس سے کمیشن طے ہے اب تو بعض ڈاکٹروں نے اسپتالوں کے اندر ہی میڈیکل اسٹور بنالئے ہیں۔ اب 2020ء شروع ہونے کو ہے، آپ کا کیا خیال ہے منظرنامہ بدل چکا ہو گا یا اس میں سیلابی اضافہ ہو رہا ہو گا؟
معلوم نہیں ایک دیواری قسم کا اعلان کتنا عرصہ پہلے معرض وجود میں آیا بہرحال اس کا ا سکرپٹ کہیں سے میرے ہاتھ بھی لگ گیا کوئی ’’مسعود پیرزادہ ‘‘ ہیں انہوں نے صحافی کی تعریف پیش کی ہے۔ملاحظہ فرمائیے۔
ص۔صداقت کا علمبردار، ح۔حوصلہ مند،ا۔انصاف کا پاسبان،ف۔فکرمند،ی:یادوں کا محور!
خاکسار سمیت ہم سب کا فرض ہے ہم اس تعریف کی روشنی میں اپنے خیالات و اعمال نامے کی کم از کم ایک جامع سی آئوٹ لائن ’’مسعود پیرزادہ‘‘ کی خدمت اقدس میں پیش کریں، انہیں اور ہم سب کو کافی افاقہ ہو گا کیا خیال ہے؟
حسن نثار کی محبت اور پیروی میں چند ’’نیلے، پیلے، کالے اور زردی اقوال‘‘ پیش کئے بغیر نہیں رہ سکتا، آپ کو بھی زبردستی پڑھوارہا ہوں زحمت فرمائیں۔
’’پنجاب پولیس کا ظلم وستم، قدرت کے مکافاتِ عمل کے ازلی و ابدی قانون کے اطلاق سے دور ہو سکتا ہے، نہ حکمراں نہ عدلیہ، نہ انسانی حقوق کی تنظیمیں، نہ علم، نہ یونیورسٹیاں، نہ تربیتی کورس، نہ معطلیاں اور برطرفیاں، سب بے بس و لاچار ہیں سوائے طاقتور وں کے طاقتور اور بادشاہوں کے بادشاہ کے! اس ظلم وستم کا انسداد کسی کے بس میں نہیں رہا نہ ہوگا نہ ہو سکتا ہے !‘‘
’’تعلق برابر کا ہوتا ہے، باقی جو کچھ دکھائی دے اسے گزارہ کہتے ہیں ‘‘
تاریخ اشک بار لطیفوں سے بھری ہوئی ہے مطالعہ کرتے کرتے ایک ٹوٹا ساتھ لگا ہے آپ بھی محروم نہ رہیں کہا جاتا ہے ’’مبالغہ آمیزی کا ادارہ (انسٹیٹیوشن) ہندوستان پر کئی صدیوں تک حکمرانی کرنے والے مغل شہنشاہوں کے دور میں پروان چڑھتا رہا۔ظہیر الدین بابر کے جانشینوں نے درباریوں کی سرپرستی کرکے اس کو فروغ دیا۔نصرالدین ہمایوں سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک تمام مغل تاج داروں نے اپنے دربار میں خوشامدی بھرتی کئے اور ان کی درجہ بندیاں کیں مثلا’’پنج ہزاری، ہفت ہزاری، ہشت ہزاری وغیرہ، مغلوں کے دور میں جو شخص حکمران وقت کی جتنی خوشامد کرتا اس کو اتنی ہی اشرفیاں ملتی تھیں۔
ہمارے ہاں ماشااللہ 15اگست 1967سے ہی یہ ’’پنج ہزاری، ہفت ہزاری اور ہشت ہزاری ‘‘ افراد اور گروہ تشریف لے آئے تھے اب تک پورےطمطراق سے موجود ہیں انہیں چھیڑنے کا مطلب خود کو خاک بسرکرنے کے علاوہ کچھ نہیں اس لئے استغفار در استغفار!