پیر صاحب پگارا (مرحوم) متعدد حوالوں سے پاکستانی سیاست کا منفرد کردار تھے۔ ان میں ایک حوالہ صحافیوں کے ساتھ ان کے تعلقات و معاملات کا بھی تھا۔ وہ سال بھر میں بمشکل ایک آدھ بار کسی باضابطہ پریس کانفرنس کا اہتمام کرتے۔ یہی ایک موقع ہوتا جب کسی بھی اخبار کا رپورٹر پیر صاحب کی بارگاہ میں ”باریاب‘‘ ہو سکتا تھا‘ ورنہ کراچی‘ اسلام آباد اور لاہور میں بس دو چار اخبار نویسوں ہی کو شرف حاصل ہوتا کہ پیر صاحب سے فیض یاب ہو سکیں۔ لاہور میں مدتوں صرف چار اخبار نویس سید انور قدوائی (مرحوم)‘ سید فاروق شاہ (مرحوم)‘ چودھری خادم حسین اور پرویز بشیر اس اعزاز کے مستحق رہے۔ پھر اشرف ممتاز اور اس کالم نگار کو بھی اس حلقۂ ارادت میں جگہ مل گئی۔
پیر صاحب کہا کرتے تھے کہ کوئی صحافی یا صحافیوں کا کوئی گروپ ان کے ”پے رول‘‘ پر نہیں‘ جو بھی ہے‘ وہ بس ”ٹی رول‘‘ پر ہے۔ جن پر پیر صاحب کی نظر عنایت تھی‘ انہیں بھی عموماً چائے پر بھگتا دیتے؛ البتہ سال میں ایک‘ دو بار انہیں کھانا کھلانا نہ بھولتے‘ جو پرُ لطف اور پرُ تکلف ہوتا۔ جولائی 1994 کے اواخر میں پیر صاحب لاہور میں تھے۔ یاد دہانی کرائی گئی کہ سال گزرا جا رہا ہے اور آپ کی طرف سے سال کا پہلا کھانا بھی نہیں ہوا۔ پیر صاحب کو خود بھی احساس تھا؛ چنانچہ اگلی شب آٹھ بجے کا وقت طے پا گیا۔ پیر صاحب وقتِ مقررہ پر‘ دروازے پر مہمانوں کے خیر مقدم کے لیے موجود تھے۔ کچھ اور اخبار نویسوں کو بھی سُن گُن ہو گئی تھی‘ وہ بھی پہنچ گئے‘ لیکن پیر صاحب نے ان سے صاف معذرت کر لی کہ یہ صرف ان دوستوں کا Privilege تھا جنہیں انہوں نے کھانے پر بلایا تھا۔
بے نظیر صاحبہ کی دوسری حکومت ابھی دس ماہ بھی پورے نہ کر پائی تھی کہ قائد حزبِ اختلاف میاں نواز شریف نے تحریکِ نجات کا اعلان کر دیا۔ پیر صاحب کا کہنا تھا‘ میں خود حیران ہوں کہ اس گرمی میں وہ اس بھاگ دوڑ سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مقتدر حلقوں نے الیکشن (6 اکتوبر 1993ء) میں ان کے لیے جس رول کا فیصلہ کیا تھا‘ فی الحال اس میں کسی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا اور اگر اس تحریک کے نتیجے میں وہ نیا الیکشن حاصل بھی کر لیں تو ان کے ہاتھ کیا آئے گا؟ گزشتہ سال کو یاد کریں جب سپریم کورٹ نے ان کی حکومت بحال کر دی تھی (26 مئی 1993)۔ انہوں نے بحال شدہ اسمبلی سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کر لیا‘ بجٹ بھی منظور کرا لیا تھا‘ اس کے باوجود ان کی حکومت کیوں نہ چل سکی؟ اکتوبر 1993 کے الیکشن میں ان کے لیے اپوزیشن لیڈر کا رول متعین کیا گیا تھا۔ انہیں فی الحال اسی پر گزارہ کرنا پڑے گا۔ وہ اس ”ارینجمنٹ‘‘ کو تہہ و بالا کرنے کی کوشش کریں گے‘ تو اس وقت انہیں جو پوزیشن حاصل ہے‘ شاید اسے بھی کھو بیٹھیں۔
”تو کیا وہ انتخابات منصفانہ نہیں تھے؟‘‘… ”یہ دعویٰ تو معین قریشی (نگران وزیر اعظم) نے بھی نہیں کیا تھا۔ انہوں نے بھی ٹرانسپیرنٹ (شفاف) کی بات کی تھی یعنی ”سی تھرو‘‘ الیکشن اور یہ واقعی ”سی تھرو‘‘ تھے‘‘۔ انہی دنوں حیدر آباد میں نواز شریف بہت بڑا جلسہ کر کے آئے تھے‘ پوچھا گیا کہ سندھ میں ان کا کیا حال ہے؟ پیر صاحب کا جواب تھا: نواز شریف کراچی جاتے ہیں تو پرانے مسلم لیگیوں سے ملنے کی بجائے تاجر اور صنعت کار دوستوں میں گھرے رہتے ہیں۔ اندونِ سندھ بھی ان کے زیادہ تر رابطے پنجابیوں کے ساتھ ہیں۔ سندھیوں میں اگر کوئی مسلم لیگی ہے تو ہمارے ساتھ ہے۔
سندھ میں مہاجر‘ سندھی تقسیم کے حوالے سے بات ہوئی تو پیر صاحب نے کہا: سندھ میں تعصب کا جو پودا بھٹو صاحب نے لگایا تھا وہ ضیا الحق ‘ اختر عبدالرحمن اور حمید گل کی نگرانی میں پروان چڑھ چکا۔ اس دوران ایک نئی بات یہ ہوئی کہ جو مہاجر ایم کیو ایم کے ساتھ نہیں تھا‘ اس میں بھی سرکاری رویوں نے یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ اسے اگر عزت کے ساتھ زندہ رہنا ہے‘ تو مہاجر بننے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
”یہ جو سندھ میں راء کے ایجنٹوں کی بات کی جاتی ہے؟‘‘
”لیکن سکھوں کی فہرستیں کسی سندھی نے تو راجیو گاندھی کو فراہم نہیں کی تھیں۔ یہ کارنامہ انجام دینے والا پنجاب سے تعلق رکھتا تھا۔ اس سے بہت پہلے چھ نکات بھی پنجاب ہی میں تیار کر کے شیخ مجیب کے حوالے کئے گئے تھے۔ ادھر پنجاب میں معاملہ یہ ہے کہ یہاں چونکہ نسلی‘ لسانی یا کسی اور بنیاد پر تعصب کی لہر نہیں اٹھائی جا سکتی؛ چنانچہ یہاں فرقہ واریت کو ابھارا جاتا ہے‘ جو باقی تمام تعصبات سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس میں ایک فیکٹر یہ بھی ہے کہ بعض بیرونی طاقتیں اپنی جنگ پاکستان کی سر زمین پر لڑنا چاہتی ہیں جس کے لیے وہ اپنی پسندیدہ تنظیموں کو وسائل بھی مہیا کرتی ہیں۔
کرپشن کہانیوں کی بات چھڑی تو ایک دانشور کو دور کی سوجھی: اگر ملک میں پارلیمانی نظام کی بجائے صدارتی نظام نافذ کر دیا جائے تو ارکان اسمبلی کی بلیک میلنگ ختم ہونے سے کرپشن میں کمی نہیں آ جائے گی؟ پیر صاحب نے جواب دیا ”میں نہیں سمجھتا کہ اس سے کرپشن ختم ہو گی یا اس میں خاطر خواہ کمی آ جائے گی‘ کیونکہ اس نظام کو بھی تو یہی ”کرپٹ‘‘ لوگ چلائیں گے۔ اس کے لیے آسمان سے فرشتے تو نہیں آئیں گے۔ پھر یہ بھی دیکھیں کہ پاکستان ایک وفاق ہے اور وفاق کے استحکام کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وفاقی اکائیاں اس سسٹم میں مطمئن ہوں۔ پاکستان میں آپ جونہی صدارتی نظام کا نام لیتے ہیں‘ چھوٹے صوبے بدک جاتے ہیں کہ اس حوالے سے ماضی کے تجربات بہت تلخ ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک بار پھر بڑے صوبے کی آمریت مسلط ہو جائے گی‘‘۔
”لیکن اس کے لیے امریکی صدارتی نظام سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے جہاں صدارتی نظام بھی ہے‘ فیڈریشن بھی اور ریاستیں (وفاقی اکائیاں) بھی اپنے داخلی معاملات میں بہت حد تک با اختیار ہیں؟‘‘
پیر صاحب نے سگار کا کش لیا اور قدرے توقف کے بعد گویا ہوئے ”ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ چھوٹے صوبوں کو مطمئن کرنے کے لیے صوبائی گورنر براہِ راست منتخب کئے جائیں لیکن مجھے خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں بات خدانخواستہ کنفیڈریشن کی طرف چلی جائے گی۔ آپ کو یاد ہو گا‘ حنیف رامے صاحب چند سال قبل امریکہ سے یہی کنفیڈریشن کا نسخہ لے کر آئے تھے۔
اور پھر بات پیر صاحب کے ”کُھلّے ڈلّے‘‘ اندازِ سیاست کی طرف نکل گئی جس میں کوئی کمپلیکس نہیں تھا‘ ایک خاص نوع کی بے تکلفی تھی۔ پیر صاحب کسی تکلف کے بغیر گویا ہوئے: دیکھیں! سترہ سے پچیس سال کی عمر تک آدمی ذہنی بلوغت کی منازل طے کرتا ہے‘ میں عمر کے اس حصے میں انگلستان کے آزاد معاشرے میں تھا‘ جہاں بادشاہ کا مذاق اڑایا جا تا ہے‘ وہ تو اپنی مقدس ہستیوں کا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتے۔ کارٹونوں کو تنقید کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور تنقید کو انجوائے کیا جاتا ہے۔ ان کی پارلیمنٹ کی کارروائی سنیں تو مزہ آ جاتا ہے۔ بات کا جواب بات سے‘ فقرے بازی کا جواب فقرے بازی سے آتا ہے لیکن ان میں سوقیانہ پن نہیں ہوتا۔ انہیں گولی اور گالی کی زبان نہیں آتی۔ اس آزاد جمہوری ماحول میں میری تعلیم و تربیت ہوئی۔ کچھ اثرات خاندانی ماحول نے بھی مرتب کئے۔ میں نے کبھی کوئی مصنوعی لبادہ اوڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور سچ بات یہ ہے کہ میں چاہوں بھی تو ایسا کر نہیں سکتا۔ رات کے سوا دس بج رہے تھے‘ پیر صاحب نے گھڑی پر نظر ڈالی اور اٹھ کرکھڑے ہوئے۔ اس سالانہ نشست کے اختتام پر پیر صاحب اپنے مہمانوں کوالوداع کہنے باہر سڑک تک آئے۔