ڈیجیٹل پاکستان: تانیہ آئدروس کو لایا کس کام لیے گیا تھا اور اب وہ کیسے ہوگا؟
بدھ کے روز پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے ڈیجیٹل پاکستان تانیہ آئدروس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جس کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اُن کی دوہری شہریت کی وجہ سے ریاست پر جو تنقید ہو رہی ہے اس کی وجہ سے انھوں نے اپنا عہدہ چھوڑا ہے۔
تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مختلف ذرائع کا دعویٰ ہے کہ تانیہ آئدروس سے اس لیے استعفیٰ لیا گیا ہے کیونکہ جس کام کے لیے انھیں بلایا گیا تھا، وہ کام وہ صحیح انداز میں نہیں کر پا رہی تھیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ کیا تانیہ آئدروس اپنا کام درست انداز میں کر رہی تھیں یا نہیں، بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ انھیں بلایا کس کام کے لیے تھا اور یہ کہ کسی ملک کو ڈیجیٹل کیسے بنایا جاتا ہے؟
ڈیجیٹل معاشرہ کیا ہوتا ہے؟
گذشتہ سال دسمبر میں جب ڈیجیٹل پاکستان کو متعارف کروایا گیا تو ڈیجیٹل معاشرے کی بہت سی تعریفیں سامنے آئیں۔ کوئی یہ مثال دیتا تھا کہ آپ کی معیشت سے کیش کو ختم کرنا، کوئی کہتا تھا کہ حکومت کے تمام اداروں کا ایک الیکٹرانک پورٹل ہونا ضروری ہے، اور کوئی کہتا تھا کہ آپ کی سڑکوں پر خودکار گاڑیاں ہوں جس کا کنٹرول آپ کے فون میں ہو، وغیرہ وغیرہ۔
مگر ماہرین ان تمام چیزوں کو ایک ڈیجیٹل معاشری کی جزوی مثالیں سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف نئی نئی ایپس بنانے سے معاشرے ڈیجیٹل نہیں بن جاتے بلکہ آپ اپنے نظام میں کچھ ایسی تبدیلیاں لاتے ہیں جن کے نتیجے میں ٹیکنالوجی کی مدد سے نجی شعبے مندرجہ بالا اور مزید جدت لے آتا ہے۔
حال ہی میں ٹیکنالوجی کے شعبے سے منسلک ایک برطانوی تھنک ٹینک جی ایس ایم اے انٹیلیجنس کی رپورٹ میں چند ایسی باتوں کی نشاندہی کی گئی جو کہ کسی بھی ڈیجیٹل معاشرے کی بنیاد بنتے ہیں۔ ان میں سے چند اہم نکات یہ ہیں:
ڈیجیٹل شناخت اور شہریت: ڈیجیٹل شہریت کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور کسی بھی شہری کے درمیان جو بھی دو طرفہ لین دین یا بات چیت ہے وہ ڈیجیٹل انداز میں کی جائے۔
یعنی اپ کو ٹیکس بھرنا ہے، یا پاسپورٹ حاصل کرنا ہے، کوئی حکومت سرٹیفیکیٹ لینا ہے یا پھر کوئی پلاٹ اپنے نام کرنا ہے، یہ سب اور اس جیسے اور سارے کام ایک ڈیجیٹل طریقے سے ہو۔
آپ کو عدالت میں اگر کچھ جمع کروانا ہے تو ساتھ میں شناختی کارڈ کی کاپی نہ لگانی پڑے۔ متعلقہ ادارہ خود ہی نادرا کے ریکارڈ سے آپ کی معلومات حاصل کرے۔ یعنی ریاست اور آپ کے درمیان بات چیت شفاف اور ڈیجیٹل انداز میں ہو۔
ڈیجیٹل تجارت: آپ کے معاشرے میں جود کوئی لین دین، خرید و فروخت، وہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہو اور اس میں کوئی ہیرا پھیری کی گنجائش نہ ہو۔
آپ گھر کے صابن سے لے کر فیکٹری کی مشینیں تک اپنے کمپیوٹر پر بیٹھ کر آرڈر کریں اور یہ نظام اس قدر مستحکم ہو چکا ہو کہ آپ کو یہ پریشانی نہ ہو کہ آئے گا کیا۔
ڈیجیٹل انفراسٹرکچر: اب ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کا یہ مطلب صرف نہیں کہ آپ کے پاس انٹرنیٹ کا نظام بڑا تیز ہو۔ انٹتنیٹ کا مستحکم نظام تو ضروری ہے یہ مگر اس تک عام لوگوں کی سستے داموں رسائی ہو، اور آپ کے مختلف نظام ایک دوسرے سے معلومات لے دے سکیں۔ بینکس تاجروں سے، سکول لائبریریوں سے، ہر متعلقہ چیز ایک دوسرے سے منسلک ہو۔
ڈیجیٹل معاشرہ بناتے کیسے ہیں؟
علی حسنین رضوی گذشتہ 20 سال سے آئی ٹی کی صنعت سے منسلک ہیں اور متعدد ٹیکنالوجی کمپنیوں جیسے کہ انٹیل اور ایس اے پی کے لیے کام کر چکے ہیں۔ مگر 2014 سے وہ جرمن حکومت اور کار کمپنی اوڈی کے ساتھ مل کر ایک سمارٹ شہر بنا رہے ہیں۔
علی رضوی کہتے ہیں کہ ’ڈیجیٹائزیشن کی جانب جانا کسی بھی قوم کی تعمیر کے لیے ایک اہم قدم ہے کیونکہ اس سے آپ بہتر انداز میں پبلک سروسز فراہم کر سکتے ہیں اور کرپشن کو کم کر سکتے ہیں۔
’مگر اس نیک نیت آئیڈیا کے بعد آتا ہے اصل کام اور وہ ہے اس پر عملدرآمد کرنا۔ سب سے پہلے تو ایک چیز جان لیں، پبلک سیکٹر میں جدت لانے کی 70 سے 80 فیصد کوششیں ناکام ہوتی ہیں، 15 سے 25 فیصد اچھی ہوتی ہیں اور صرف 5 فیصد ہی ہیں جو شاندار ہوتی ہیں۔‘
تو ہم ایسا کیا کر سکتے ہیں کہ ہم اس پانچ فیصد میں ہوں اور ہم ڈیجیٹل پاکستان بنانے میں کامیاب ہو جائیں؟
علی رضوی کہتے ہیں ’پہلا قدم تو ہم نے ٹھیک اٹھایا ہے۔ دنیا میں بہت کم ممالک ہیں جہاں علیحدہ سے ڈیجیٹائزیشن کے لیے ادارہ ہو۔ ایسے ممالک کی مثالوں میں برطانیہ اور ڈینمارک شامل ہیں۔ مگر پھر آتا ہے ایک بنیادی فیصلہ اور وہ ہے ایک جدید ڈیجیٹل انفراسٹرکچر بنانا۔ اس میں گیگا بٹ فائر نیٹ ورک پچھانا سب سے اہم ہے جس کے ذریعے آپ پہلے پاکستان میں میں ایک داخلی ڈیجیٹل ایکسچینج قائم کر سکیں۔‘
علی رضوی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے آپ کو ماہرین درکار ہیں اور یہاں پر پاکستان کو پیسے بچانے سے زیادہ درست ماہرین کی ضرورت ہے۔ علی رضوی کے مطابق وہ پانچ فیصد کامیاب کوششیں اسی لیے تھیں کیونکہ انھوں نے پہلے دن سے ہی تجربہ کار ماہرین پر زیادہ خرچ کیا تاکہ بعد میں مسائل سے بچ سکیں۔
علی رضوی کہتے ہیں کہ دوسری اہم بات جو پاکستان کے تناظر میں ہے وہ ہہ ہے کہ پاکستان کو اس سفر کا راستہ دوبارہ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے اور ایسے کئی ممالک ہیں جنھوں نے یہی سفر طے کیا ہے۔ ‘مثال کے طور پر جرمنی میں انڈسٹری آرکیٹیکچر 4.0 متعارف کروایا جا چکا ہے۔ ہم اس کو لے کر اپنی ضروریات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔‘
‘تیسرا اور اہم ترین عنصر ہے لوگوں کا اس عمل میں شریک ہونا۔ بزنس میں کہا جاتا ہے کہ آپ پل تعمیر کریں، گزرنے والے خود آ جائیں گے۔
یہ کام ڈیجیٹائزیشن میں نہیں ہوسکتا۔ آپ نے لوگوں کو کوئی سہولت یا وجہ دینی ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کو اپنائیں۔ پاکستان میں اگر ڈیجیٹل پاکستان والوں نے اپنے کام کو کامیاب کرنا ہے تو انھیں سب سے پہلے ایسے بائلٹ کرنے چاہییئں جن کی عوام میں سب سے زیادہ مانگ ہے۔
مثلاً رییل ٹائم میں ٹرانسپورٹ کی معلومات، یا ٹیکس کا نظام، یا نوکری کی تلاش کا عمل۔ یہ وہ ساری چیزیں ہیں جہاں عوام کی ضروریات کو ٹیکنالوجی کی مدد سے بہتر انداز میں پورا کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اینڈیا کے کچھ علاقوں میں اگر آپ ٹکٹ ان لائن خریدیں تو آپ کو ٹکٹ کی قیمت اور انشورنس میں 10 فیصد چپوٹ ملتی ہے۔‘
’یعنی ڈیجیٹل معاشرہ بنانے کے لیے پاکستان کو تین کام کرنے ہوں گے، ماہرین لائیں جو آپ کے لیے دنیا کے تجربوں کو پرکھ کر پالسیس بنائیں، بہترین ڈیجیٹل انفراسٹکچر بنائیں، اور پھر لوگوں کو اس کے استعمال پر قائل کریں۔‘
پاکستان میں صورتحال کیا ہے؟
پاکستان میں گذشتہ سال کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت تقریبا ایک تہائی سے بھی کم آبادی کے پاس انٹرنیٹ تک رسائی ہے۔ 22 کروڑ میں سے تقریباً 7.1 کروڑ لوگوں کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت ہے جو کہ تقریباً 32 فیصد بنتا ہے۔
2019 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں موبائل نیٹ ورک پر 41 فیصد لوگ موجود ہیں جو کہ دیگر جنوبی ایسا کے ممالک کے مقابلے میں 11 فیصد کم ہے۔
اسی طرح پاکستان میں سمارٹ فونز کا استعمال بھی دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
اس سب میں ڈیجیٹل پاکستان کے ادارے کا کیا کردار بنے گا؟
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز اسوسی ایشن سے وابستہ بدر خوشنود کہتے ہیں ڈیجیٹل پاکستان کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ سٹریٹجک سطح پر بتائے کہ کرنا کیا ہے نہ کہ خود اس پلان کی عملدرادی میں حصہ ڈالے۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل پاکستان کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ وژن دیں اور پالیسی بنائیں۔ اس پالیسی کی منطور کابینہ نے کرنا ہے۔
ڈیجیٹل پاکستان کا کام ہے کہ تمام سرکاری تنظیموں کا لائحہِ عمل تیار کریں، مثال کے طور پر ای کامرس کو ہم نے آگے کیسے لے کر جانا ہے، یہ ڈیجیٹل پاکستان بتائے مگر کام یہ سٹیٹ بینک نے ہی کرنا ہے۔
کہنے کو نادرا کی ای سروسز ہیں مگر اگر آپ اس وقت جائیں جب ان کے دفاتر میں رش ہوتا ہے تو ان کی ویب سائٹ نہیں چلے گی کیونکہ انھوں نے یہ درست نہیں کیا کہ ہم نے لوڈ بیلنس کس طرح کرنا ہے۔
’دیکھیں ہم ایک زراعت پر مبنی معیشت ہیں۔ جو ہماری صنعتیں کامیاب رہی ہیں برآمدات کے حوالے سے وہ ٹیکسٹائل یا چمڑا رہا ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ڈیجیٹلائزیشن کیسے کی جانی ہے اور اس کے لیے ہمیں اپنی صورتحال کو دیکھتے ہوئے وژن چاہیے۔‘