Site icon DUNYA PAKISTAN

ٹیکنالوجی کمپنیوں پر ‘طاقت کے بے جا استعمال‘ پر الزامات کا سامنا

Share

دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہان کو امریکی کانگریس کے سامنے پیش ہو کر ان الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ یہ کمپنیاں اپنی طاقت کا استعمال اپنی حریف کمپنیوں کو کچلنے کے لیے کرتی ہیں۔

ایمزون کے جیف بیزوس کا کہنا تھا کہ دنیا کو بڑی بڑی کمپنیوں کی ضرورت ہے جبکہ ایپل، فیس بک اور گوگل کے سربراہان کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنیوں نے ’انوویشن‘ یعنی جدت کو متعارف کرایا ہے۔

یہ سربراہان ایک ایسے وقت پر کانگراس کے سامنے پیش ہوئے ہیں جب امریکہ قانون ساز اس حوالے سے سخت تر قوانین پر غور کر رہے ہیں اور مارکیٹ میں مسابقت کے حوالے تفتیش کی جا رہی ہیں۔

کمپنیوں کے ناقدین کا خیال ہے کہ کمپنیوں حصے کر دیے جانے چاہیے۔

ڈیموکریٹک جماعت کے اراکین نے مارکیٹ کامپیٹیشن کے معاملات اٹھائے جبکہ ریپبلکن پارٹی کے اراکین نے اس حوالے سے سوالات پوچھے کہ یہ کمپنیاں معلومات کیسے سنبھالتی ہیں اور کہیں وہ قدامت پسند خیالات کو بڑھا تو نہیں رہیں۔

کانگریس کے رکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے کانگریس کی اس حوالے سے کمیٹی کے رہنما ڈیوڈ سیسیلین کا کہنا تھا کہ ایک سال تک جاری رہنے والی تفتیش سے پتا چلا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارمز نے اپنی طاقت کا استعمال ایک تباہ کن انداز میں کیا تا کہ وہ مارکیٹ پر قبضہ کر سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات پر قائل ہو چکے ہیں کہ یہ کمپنیاں اجارہ داری نظام چلاتی ہیں اور ان کا خیال تھا کہ حکومت کو اس حوالے کچھ کرنا ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ ’کچھ کمپنیوں کے حصے کرنا ہوں گے اور تمام پر قوانین لاگو کرنا ہوں گے۔‘

فیس بک کے مارک زکربرگ، ایمازون کے جیف بیزوس، گوگل کے سندر پچائی اور ایپل کے ٹم کُک، سبھی کا اصرار تھا کہ انھوں نے کچھ بھی غیر قانونی نہیں کیا اور انھوں نے کمپنیوں کی امریکی ساخت اور اقدار کا حوالہ دیا۔

بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے حوالے سے خدشات کیا ہیں؟

کانگریس کے اراکین نے الزام لگایا ہے کہ گوگل نے اپنی حریف چھوٹی کمپنیوں کے بنائے ہوئے ایپس کو چوری کیا ہے تاکہ صارفین ان کی اپنی ویب سائٹ پر ہی رہیں۔

اس ک علاوہ ایمازون کا اپنی ویب سائٹ پر اشیا بیچنے والوں کے ساتھ برتاؤ، فیس بک کی جانب سے حریفوں کو خریدنا جیسے کہ انسٹاگرام اور ایپل کا ایپ سٹور وغیرہ سبھی زیرِ بحث آئے۔

ڈیوڈ سیسیلین کا کہنا تھا کہ ایمازون میں بنیادی طور پر ایک مفادات کا تناؤ ہے کیونکہ وہ کچھ اشیا کے تاجروں کو ہوسٹ کرتے ہیں اور خود بھی وہی اشیا فراہم کرتے ہیں۔ ایمازون کی اس پریکٹس کے حوالے سے یورپی یونین نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔

’ایمازون کا دوہرا کردار بنیادی طور پر مارکیٹ میں مقابلے کے خلاف ہے اور کانگریس کو اس حوالے سے کچھ کرنا ہوگا۔‘

تاہم کچھ ریپبلکن اراکین کا کہنا تھا کہ وہ ان کمپنیوں کے حصے کرنے پر راضی نہیں ہیں اور نہ ہی وہ امریکہ میں مارکیٹ کامپیٹیشن کے قوانین میں خاطر خواہ تبدیلی کے لیے راضی ہیں۔ کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ بڑی کمپنی ہونا کوئی خود بری بات نہیں ہے۔

ان کی توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ ان کمپنیوں میں سیاسی جانبداری کہیں قدامت پسند خیالات کو دبا تو نہیں رہی۔

کانگریس کے رکن جم جارڈن کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں قدامت پسندوں کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔

کمپنیوں کا کیا کہنا ہے؟

ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے والے ان کمپنیوں سربراہان نے اپنی کمپنیوں کا دفاع کیا اور کہا کہ ان کی کمپنیاں چھوٹے کاروباروں کی مدد کرتی ہیں اور انھیں مارکیٹ میں آنے والی نئی حریف کمنیوں سے خطرہ تھا۔

ایپل کے ٹم کک کا کہنا تھا کہ کاروبار کا ماحول اس قدر مقابلہ خیز ہے کہ جیسے ’سمارٹ فون مارکیٹ میں شیئر حاصل کرنے کے لیے کوئی گلی کی لڑائی جاری ہو۔‘

جیف بیزوس نے کہا کہ ان کی کمھنی میں مفادات کا تناؤ نہیں ہے تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کی کمپنی اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ اپنے پلیٹ فارم پر چھوٹے دکانداروں کی معلومات کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے۔

کمپنی پر الزام ہے کہ وہ یہ معلومات لے کر مقبول اشیا خود ہی متعارف کروا دیتی ہے۔

جیف بیزوس کا کہنا تھا کہ ایمازون کے قواعد اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ان کا عملہ کسی انفرادی کمپنی کا ڈیٹا دیکھیں تاہم انھوں نے کہا کہ ایسا ممکن ہے کہ سٹاف نے اس پالیسی کی خلاف ورزی کی ہو۔ انھوں نے کہا ہم اس کی تفتیش کر رہے ہیں۔

اپنی تقریر میں جیف بیزوس نے کہا کہ ایمازون کو وال مارٹ جیسی کمپنیوں سے خطرہ ہے اور کئی سالوں تک جب وہ مختلف کاروباروں میں کام شروع کرتے رہے انھیں کافی نقصان اٹھانا پڑا۔

’مجھے گیراج انٹرپنیوئرز بہت پسند ہیں۔۔۔ میں خود ایک ایسا ہی کاروباری تھا۔ مگر جیسے دنیا کو چھوٹی کمپنیوں کی ضرورت ہے اسی طرح دنیا کو بڑی کمپنیوں کی بھی ضرورت ہے۔ کچھ ایسے کام ہیں چھوٹی کمپنیاں نہیں کر سکتیں۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ کا کیا کہنا ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئئ سالوں سے ایمازون کے ناقد ہیں اور انھوں نے خود بھی اس کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ انھوں نے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ „اگر کانگریس بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو انصاف کہ کٹھرے میں نہیں لایے گی جو انھیں کئی سال پہلے کر لینا چاہیے تھا تو میں خود صدارتی حکم ناموں سے ایسا کر لوں گا۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس کانگریس میں اس پیش رفت کو غور سے فالو کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ „اس میں کویی شک نہیں کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں بےت برے کام کر رہی ہیں۔‘

اس حوالے سے ٹیکنالوجی تجزیہ کار ڈین آئیوز کا کہنا ہے کہ اگرچہ واشنگٹن میں ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف ایک „ھوفان‘ بن رہا ہے تاہم اس بات کا امکان کم ہے کہ کانگریس اس حوالے سے کچھ کرنے کے اتفاق پیدا کرسکے گی۔

ان کا خیال ہے کہ اس کمپنیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے قانون سازی ہی واحد راستہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ „قانون سازی کے بغیر کویی معنی خیز تبدیلی نہیں ائے گی تاہم مستقبل میں کمپنیوں کی خریداری پر گہری نظر رکھی جائے گی۔‘

Exit mobile version